Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1436ھ

ہ رسالہ

5 - 15
صبر ہی ہمارا درماں ہے

محترم احتشام الحسن
	
اللہ رب العزت نے فطرتِ انسانی میں بہت سی چیزیں ودیعت کی ہیں ،جن کو انسان محسوس وغیر محسوس طور پر استعمال کرتا ہے اور انہیں کے ذریعہ پروان چڑھتا ہے اور اپنی منزل کی طرف گام زن رہتا ہے ۔انسان فطرةً یہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی سکون اور چین سے گزرے اور وہ ہمہ تن راحت و آرام میں رہے ،اس کے لیے وہ محنت کرتا ہے ،کوشش کرتا ہے ،مجاہدہ کرتا ہے اور ریاضت اور عبادت کرتا ہے ۔انسان ہر وقت اسی جستجو میں رہتا ہے کہ وہ دنیا میں بھی خوش وخرم رہے اور آخرت میں بھی خطرات سے پاک رہے ۔انسان اپنی دھن میں مگن رہتا ہے ،مگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے جو نافذ ہو کر رہتا ہے۔اللہ کا امر کبھی ٹلتا نہیں ہے ، نہ اس کی سنت کبھی بدلتی ہے ۔اسی وجہ سے مختلف اوقات میں انسان پر کوئی غم ،کوئی حادثہ ،کوئی پریشانی ،کوئی رنج،کوئی الم اور کوئی غیر ضروری ،غیر مناسب اور غیر متوقع امر پیش آجاتا ہے۔ یہ ناقابل برداشت واقعات کبھی رفع درجات ،کبھی بدیوں کو نیکوں میں بدلنے ،کبھی آزمائش اور کبھی عذاب کے لیے رونما ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے مومنوں ،مسلمانوں اور نیکوکاروں کو ایسے موقع کے لیے ایک عظیم تحفہ ”صبر“عطا کیا ہے ۔صبر کرنے سے دنیا میں راحت اور آخرت میں نعمت سے نوازا جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صبر کی تلقین کرتے ہوئے بے شمار انعامات کا وعدہ کیا ہے اور اس کا اجر بے حساب بتایا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والے کو کرم ،سلامتی اور رحمت کی خوش خبری دی ہے ،فرمایا یہی لوگ فضل والے اور ہدایت یافتہ ہیں اور ا ن کو بڑھا چڑھا کر بدلہ دیا جائے گا ۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

﴿وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْن،الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِیْبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعونَ، أُولَئِکَ عَلَیْْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُون﴾․(البقرہ:157-155)
ترجمہ:خوش خبری دے دو ان صبر کرنے والوں کو، جن کو مصیبت پہنچتی ہے تو وہ ”إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعونَ“کہتے ہیں ۔ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں“۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿مَن یَہْدِ اللّہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِیْ﴾․ (الأعراف:178)
ترجمہ:”ہدایت یافتہ وہی ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے گا“۔

یعنی ہدایت پر وہی ہوگا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا ارادہ کیا ہے، لہٰذا صبر کی تو فیق بھی اسی کو ملے گی جس کو اللہ تعالیٰ صبر دے گا۔

صبر اچھی چیز ،عمدہ عمل اور مضبوط رسی ہے، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جاتی ہے اور صبر اخلاص اور یقین کی علامت ہے ۔صبر ایک ایسی عبادت ہے جس کا انجام سعادت ہے اور اس کا اجر بے حساب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ أَجْرَہُم بِغَیْْرِ حِسَابٍ﴾․ (الزمر:15)
ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ صابرین کو بغیر حساب کے اجر دے گا“۔

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل پر انعام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:﴿وتمت کلمة ربک الحسنی علیٰ بنی اسرائیل بما صبروا﴾․ (الاعراف )
ترجمہ:”بنی اسرائیل کے صبر کرنے کی وجہ سے تمہارے رب نے اپنی اچھی بات کو پورا کردیا“۔

وہ اچھی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مقتدا اور پیش وابنا دیااور فرمایا:﴿وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ أَئِمَّةً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا﴾․ (السجدة:24)
ترجمہ:”اور ہم نے ان کے صبر کرنے کی وجہ سے ان کو مقتدیٰ بنادیا اور وہ ہمارے حکم سے لوگوں کی راہ نمائی کرتے تھے“۔

جب مشرکین مکہ نے تکالیف اور اذیتوں کی انتہا کردی تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تلقین کی اور بتا دیا کہ صبر بلند ہمت لوگوں کا کام ہے:﴿َلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَذًی کَثِیْراً وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُور﴾․ (آل عمرآن:186)
ترجمہ :”یقینا اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے آپ کوبہت زیادہ تکلیف پہنچے گی،پس اگر آپ نے صبر کیا اور تقوی اختیار کیا تو یہ بلند ہمتی والے کاموں سے ہے“۔

ایک اور جگہ فرمایا: ﴿فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُل﴾․(احقاف :35)
ترجمہ:پس اولو العزم رسولوں کی طرح صبر کرو“۔

اللہ تعالیٰ نے صابر ین کی ہمت بڑھاتے ہوئے ان کی معیت کا اعلان کیا اور فرماتے ہیں: ﴿وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْن﴾․ (انفال:46)

صبر حقیقت میں تمام خصوصیات کی لگام اور تمام فضائل کا مرجع ہے۔اسی کے ذریعہ بندہ دنیا و آخرت میں بلند مرتبہ اور عالی مقام پاسکتا ہے۔اسی کے نام سے موسوم کر کے جنت میں جنتیوں کو پکارا جائے گا اور کہا جائے گا کہ :”تمہارے صبر کرنے کی وجہ سے تم پر سلام ہو اور تمہارا ٹھکانا کیا ہی اچھا ہے“۔اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام پر وحی کر کے فرمایا:”اے داؤد!جس نے صبر کیا وہ ہم تک پہنچ گیا“۔حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں:”ہر چیز کا کوئی نہ کوئی پھل اور نتیجہ ضرور ہوتا ہے اور صبر کا پھل اور نتیجہ کام یابی ہے“۔سخت سے سخت مصیبت اور تکلیف میں صبر اور نرمی کرنا سعادت اور اچھے اخلاق کی علامت اور نشانی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے عجیب و غریب انداز میں آزمایا اور آپ علیہ السلام نے صبر کا مظاہرہ کیا۔ چناں چہ اللہ نے ان کو ستاروں کے ذریعہ آزمایا۔ انہوں نے صبر کیا،چاند کے ذریعہ آزمایا، انہوں نے صبر کیا،سورج کے ذریعہ آزمایا، انہوں نے صبر کیا اور بیٹے کو ذبح کروا کر آزمایا، انہوں نے پھر بھی صبر کیا۔

اللہ تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ صبر کی فضیلت بیان فرمائی کہ: ﴿اسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْن﴾ (البقرہ:153)
ترجمہ”صبر اور نما ز کے ذریعہ مدد طلب کرو ،بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم مدد چاہتے ہو تو صبر کرو اور نماز پڑھو اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ہے۔اس آیت سے نماز کی فضیلت کو کم کرنا مقصود نہیں ہے، بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ نماز کی فضیلت تو اپنی جگہ تسلیم شدہ ہے ، تاہم صبر کی فضیلت بھی کوئی کم نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ خود صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جس کو اللہ کی معیت مل گئی تو اس کو نجات اور کام یابی کے لیے اور کس پر وانہ کی ضرورت ہے ؟

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ انصار کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ :”میرے پاس کوئی مال و دولت نہیں ہے ،نہ ہی میں نے تم سے کچھ چھپا کر رکھا ہے ۔جو عفت طلب کرنا چاہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے عفت طلب کرے ،جو مدد طلب کرنا چاہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرے اور جو شخص صبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو صبر کی توفیق عطا فرماتا ہے اور کسی کو بھی صبر کے علاوہ کوئی خیر کی چیز نہیں دی گئی“۔ (رواہ مسلم کتاب الجنائز ،رقم الحدیث:2424، ص423،ط:دارالسلام )

حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ کچھ مال تقسیم کیا ۔اس پر ایک شخص نے کہا کہ اس تقسیم سے اللہ تعالیٰ کی رضا کا ارادہ نہیں کیا گیا ۔میں نے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ پر یہ بات ناگوار گزری ،آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کا رنگ تبدیل ہوگیا اور غصہ کا اظہار کیا ۔ یہاں تک کہ میں نے سوچا کہ مجھے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بتانی چاہیے تھی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”موسیٰ علیہ السلام کو تو مجھ سے زیادہ اذیت دی گئی “ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کیا۔

ایک دفعہ ایک عورت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا ۔وہ عورت قبر پر رو رہی تھی ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ”اللہ سے ڈرو اور صبر کرو“۔اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ آپ کو ہر طرح کی مصیبت نہیں پہنچی ہے ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے تو اس عورت کو بتایا گیا کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔وہ عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عذر پیش کیا کہ مجھ آپ کے بارے میں معلوم نہیں تھا اور کہنے لگی کہ میں صبر کروں گی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انما الصبر عند الصدمة الأولیٰ․“(رواہ مسلم :ص732، کتاب الجنائز)
ترجمہ: یعنی صبر پہلے صدمہ پر ہی ہوتا ہے“۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایمان کیا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”الصبر والسماحة“یعنی :صبر اور نرمی کرنا ۔ (ادب الدنیا والدین : ص294)،حضرت علی  فرماتے ہیں :”صبر ایک سواری ہے، جو کبھی جھکتی نہیں اور قناعت ایک تلوار ہے، جو کبھی ٹو ٹتی نہیں “،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:”صبر مصیبت کو چھپا تا اور اور سختیوں میں مدد دیتا ہے“۔ (ادب الدنیا ء الدین :ص 294)ایک اور جگہ فرمایا” صبر ایک روشنی ہے اور اس کے ذریعہ کام یابی متوقع ہے ۔“(ادب الدنیا الدین ص294)۔حضرت اکثم بن صفی فرماتے ہیں :”جس نے صبر کیا وہ کام یاب ہوگیا“۔ابن عباس  کا قول ہے کہ سب سے افضل عبادت سختی اور تنگی میں صبر کرنا ہے ۔

حضرت علی بن ابو طالب  فرماتے ہیں کہ :ایمان میں صبر کا مقام اسی طرح ہے جس طرح بدن میں سر کا مقام ہے “۔حضرت جنید بغدادی  سے پوچھا گیا کہ صبر کسے کہتے ہیں ؟جواب دیاکہ :بغیر کسی ناگواری کے ایک کڑوا گھونٹ پی جانا۔کہا جا تا ہے کہ ایک دفعہ حبیب بن ابو الحبیب نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کی :﴿إنا وجدناہ صابراً نعم العبد إنہ وأب﴾(صٓ:30) ”ہم نے (ایوب )کو صابر پایا ،وہ اچھا بندہ ہے اور رجوع کرنے والا ہے“۔کہنے لگے :کیوں نہیں !!پھر فرمایا:واہ، تعجب ہے! کیا ہی دیا گیا اور کیا ہی تعریف کی گئی ہے “۔ حضرت عمر بن عبدا لعزیز  نے قاسم بن محمد  سے کہا کہ ”مجھے کوئی وصیت کریں“۔انہوں نے کہا :”تم پر لازم ہے کہ تم صبر کے مقام پر صبر کرو“۔حضرت عمر فرماتے ہیں ۔ ”اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہو کر رہے گا ،اگر تم نے صبر کیا تو تم ثواب کے مستحق ہوگے، اگر تم نے بے صبری سے کام لیا تو اللہ کا فیصلہ توہو کر رہے گا، مگر تم گناہ کے مستحق ہو گے “۔جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کی بات سنی تو انہوں نے صبر کیا ۔اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے سچے صبر اور مدد طلب کرنے پر ان کو اس کا بدلہ دیا کہ ایک خوش خبری دینے والا قمیض لے کر آیا اور ان کے چہرہ پر ڈال دی تو ان کی بینائی لوٹ آئی اور اللہ تعالیٰ نے اتحاد اتفاق کے ساتھ ان کے بیٹوں کو جمع کردیا۔

حضرت ایوب علیہ السلام کو صبر کا بدلہ یہ دیا گیا کہ ان کی تکالیف دور کردی گئیں اور ان کو پہلے کی مثل اولاد بھی لوٹا دی گئی، بلکہ اس کے ساتھ رحمت اور فضل بھی عطا کیا گیا۔

”جب ایوب علیہ السلام نے اللہ کو پکارا کہ اے اللہ !مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو بہت رحم کرنے والا ہے، میری دعا قبول فرما ،پس ہم نے تکلیف دور کردی اور اس کو اولاد لوٹا دی اور اس کے ساتھ ساتھ رحمت بھی عطا فرمائی،یاد کرو میرے بندہ کو یہ ان کو دنیا میں دیا گیا ہے اورآخرت میں ان کے لیے بڑے درجات ہیں“۔

بے صبری صبر سے مشکل ہے، اس لیے کہ بے صبری میں تھکن بھی ہے اور گناہ بھی ہوتا ہے اور صبر میں راحت و آرام ہے اور ثواب بھی۔ صبر کے مقام پر صبر ہی بہتر چیز ہے ،کیوں کہ بے صبر ی سے مصیبت اور بڑھ جاتی ہے۔ جو صبر کرتا ہے نجات پالیتا ہے ،جو صبر نہیں کرتا وہ خلاصی کا راستہ نہیں پاتا۔ بعض مشائخ فرماتے ہیں صبر میں رحمت کا جلد طلب کرنا ،خوشی کا انتظار کرنا ،اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھنا اور بغیر حساب کے اجر حاصل کرنا ہے ،جب کہ بے صبری اور جزع فزع میں غم کو لانا ،بدن کو ہلاک کرنا،ناکامی اور نامرادی کو جلد طلب کرنا،اللہ تعالیٰ پر برا گمان کرنا ،گناہوں کو اٹھانا اور عاقبت کا انتظار کرنا ہے ،کیا ہی اچھا ہے کہ عقل والے اس سے اجتناب کرتے ہیں “۔

حضرت عمر بن عبد العزیز فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ کسی بندہ پر کوئی انعام کرتا ہے تو اس کو چھین لیتا ہے اور اس کے بدلہ میں صبر عطا کرتا ہے ۔لیکن جب اللہ صبر کرنے کا بدلہ دیتے ہیں تو وہ اس نعمت سے افضل ہوتا ہے جو اس سے چھین لی جاتی ہے اور پھر یہ آیت پڑھی:”اللہ تعالیٰ صابرین کو بغیر حساب کے اجر دیتا ہے “۔جوصبر کرتا ہے وہ خواہش اور آرزوں کو پالیتاہے اور جو شکر کرتاہے وہ نعمتوں کو خاص کردیتا ہے ۔کسی شاعر نے کہا ہے:
        الصبر مفتاح کل خیر
        وکل شربہ یلین
        اصبر وان طالت اللیالی
        فربما سوعد الحزین
        وربما نیل باصطبار
        من قبل ھیھات لایکون
ترجمہ:صبر ہر خیر کی چابی ہے اور ہر شر اس سے نرم ہوجاتا ہے ۔صبر کرو اگر چہ راتیں لمبی ہو جائیں ۔اکثر اوقات غمگین کی مدد بھی کی جاتی ہے اور اکثر اوقات صبر کرنے کے ذریعہ سے اس دوری سے بھی پہلے پالیا جاتا ہے ۔

صبر کا تصور آتے ہی غم ،پریشانی اور حزن کا تصور آجاتا ہے ۔صبر کے نام کے ساتھ ہی کسی حادثہ ،ناقابل برداشت واقعہ اور اذیت کی صورت سامنے آجاتی ہے ۔ مگر ہمارے سکون ،راحت ،چین اور آرام میں صبر کی ضرورت پڑتی ہے، کیوں کہ ہم اپنی زندگی کے مالک ہو کر بھی مالک نہیں ،ہم مختار ہو کر بھی مختار نہیں، ہم قدرت رکھتے ہوئے بھی قادر نہیں ۔ہم اور ہماری زندگی ایک اور ذات کے ارادے کے تابع ہیں اور وہ ذات مطلق ہے ۔ اس کا امر غالب ہے ۔وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ،ہمارے ساتھ ،ہماری زندگی کے ساتھ ہمارے ظاہر کے ساتھ،ہمارے باطن کے ساتھ،ہماری تنہائی کے ساتھ، ہمارے گردوپیش کے ساتھ، ہمارے والدین کے ساتھ ہماری اولاد کے ساتھ ،ہمارے ہر ہر خیا ل کے ساتھ ۔اور وہ ذات چاہے تو ہمارے مرتبے کو عذاب بنادے ،چاہے تو ہماری غریبی اور غریب الوطنی کو سرفرازیاں عطا کردے ۔وہ ذات یتیموں کو پیغمبر بنادے ،چاہے تو مسکینوں کو مملکت عطا فرمادے ۔اس ذات کا امر اور عمل اٹل ہے ۔اس کے فیصلے آخری ہیں ۔اس کے حکم کے تابع ہیں ۔انسان کی خوشیاں، انسان کے غم ،انسان کی زندگی ،انسان کی موت ،انسان کی محبت ،انسان کا خوف، انسان کے جذبات و احسا سات ۔وہی ذات ہے ،جو انسان کو بار بار حکم فرماتی ہے کہ صبر کرو ،یعنی اپنی زندگی میں میرے حکم سے پیدا ہونے والے حال کو سمجھنے سے پہلے تسلیم کر لو ۔جو سمجھ میں نہ آسکے ،اس پر صبر کرو اور جو سمجھ میں آئے ،اس پر مزید غور کرو ۔صبر کی منزل ایک مشکل منزل ہے۔فقر میں ایک بلند مقام ہے صبر کا “۔ (دل ،دریا،سمند ر از واصف علی واصف ص 346)

صبر بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ،ان میں سے ایک یعنی ہوائے نفس کے مقابلہ میں اللہ کے حکم پر مستقل اور ثابت قدم رہنا ہے۔ انسان جب ہوش سنبھالتا ہے تو اس پر دو مخالف لشکر مسلط اور حملہ آور ہوتے ہیں ۔ہر لشکر اس کوشش میں ہوتا ہے کہ انسان پر اس کا رنگ غالب آجائے۔ ایک لشکر خدائی ہوتا ہے،اس کے شاہ سوار فرشتے اور عقل و شریعت ہیں ،ان کی کوشش اور جدوجہد یہ ہو تی ہے کہ انسان ہدایت پر رہے ،دین اسلام اور شریعت محمد یہ پر ثابت قدم رہے۔دوسرا لشکر شیطان اور اس کے متبعین کا ہے، جن کی محنت کا دائرہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خواہشات کا پجاری اور مادہ پرست بن جائے اور ہدایت خداوندی اس سے کوسوں دور بھاگے ۔اس موقع پر آکر انسان کو غور و فکر اور بصیرت سے کام لینا پڑے گا ۔انسان میں چوں کہ متضاد صفتیں موجود ہیں، یعنی خواہشات نفسانیہ بھی ہیں اور بھلا برا سمجھنے کا شعور بھی اور عقل و فطرت سلیمہ بھی موجود ہے پس ایک کو مغلوب اور دوسرے کو غالب کرنا ہی صبر ہے، دل نہ چاہتے ہوئے بھی صبر کادامن پکڑ کر نیک اعمال کر لے اور معصیت کے کاموں سے دور رہے ۔

آج معاشرے پر ہر طرف کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے ،ہر طرف فتنہ فساد برپا ہے ،کوئی علاقہ ،کوئی شہر ،کوئی بستی ،کوئی کوچہ،کوئی قبیلہ ،کوئی خاندان، کوئی گھراور نہ ہی کوئی جماعت ایسی ہے جس میں لڑائی جھگڑا نہ ہوا۔حتی کہ ماں باپ،بیٹا بیٹی،بھائی بہن، بیوی اور شوہر،استاد اور شاگرد ،مالک اور نوکر ،سینئر اور جونیئر ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں ۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑی بڑی لڑائیاں بن جاتی ہیں ،ذرا سی بات پر پوری زندگی کے لیے بغض و عداوت اور غیض غضب سے سینے بھرجاتے ہیں ۔بات اتنی ہوتی نہیں او رمعاملات بگاڑ بگاڑ کر کہاں سے کہاں پہنچا دیے جاتے ہیں، کسی نے کچھ کہہ دیا۔ بس آستین چڑھالیے… چہرہ غصہ سے لال پیلا ہو گیا… جو منھ میں آرہا ہے بول رہا ہے… طلاق ، طلاق، طلاق… نکل جاؤ میرے گھرسے… واپس مڑ کر بھی نہیں دیکھنا… اس کو میرے جنازہ میں شریک نہیں ہونے دینا…

غرض کیا کیا جملہ نقل کروں، ایک بول پر ساری زندگی کا رشتہ ختم اور ساری زندگی کے لیے ناطہ توڑ دیا جاتا ہے ،افسوس صد افسوس، خونی رشتوں کوبھی نہیں دیکھا جاتا، ان سب باتوں کی اصل وجہ حد سے بڑھ کر کسی پر اعتماد کرنا ہے اور اس سے ایسی ایسی توقعات رکھنا کہ اس کو انسانوں کی فہرست سے نکال کر فرشتوں کی قطار میں داخل کر دینا ہے، جب وہ توقعات پر نہیں اترتا اور اعتماد کوٹھیس پہنچا دیتا ہے تو ہم آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں لڑائی جھگڑوں سے دور رہنے کے لیے صبر کا دامن تھامنا چاہیے اور جلد بازی اور بے صبری سے کام نہیں لینا چاہیے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہمہ وقت صبر کی سواری پر سوار رہیں، مصائب، تکالیف، پریشانیاں اور غم آتے رہیں گے مگر ہر موقع پر ہمارا درماں صبر ہی ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں ہر حال میں صبر کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین!!

Flag Counter