Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1436ھ

ہ رسالہ

11 - 15
مروجہ شادیوں میں غیر اسلامی طریقے

مولانا محمد احسان، گنگوہ
	
شادی بیاہ تقریباً سبھی کے یہاں ہوتے ہیں،اکثر لوگ بحمد اللہ لڑکے لڑکی والے ہیں،نکاح کی تقریبات کے موقع پر رسم و رواج کی پابندیاں کرنے کی وجہ سے جو پریشانیاں ایک شخص کو لاحق ہوتی ہیں وہ دوسرے شخص کو بھی لاحق ہوتی ہیں ،لہٰذا کیوں نہ مل کر اس کا بہترین اور آسان حل تلاش کیا جائے؟

عصر حاضر کے بے ضرورت لوازمات اختیار کرنے کی وجہ سے تقریباً ہر شخص ایک اضطراب و پریشانی میں مبتلا ہے ،مگر ہر شخص ان تکلیفوں کو خوشی سے برداشت کیے جارہا ہے ،وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی عزت عزیز ہے ،خواہ غریب آدمی ہو یا امیر ،آدمی چھوٹا ہو یا بڑا،ذمہ دار ہو یا غیر ذمہ دار، ہر ایک اپنی پوزیشن بنانے یا باقی رکھنے کے لیے ان تمام غیر ضروری رسوم کو اختیار کرتا ہے،جو شادیوں کا ایک جز بن چکی ہیں ،معاشرہ میں سمجھدار لوگوں کی کمی نہیں، بحمد اللہ علماء،صلحاء ،اتقیاء،حکماء ،دانش وران قوم موجود ہیں، مگر سبھی اپنی حیثیت برقرار رکھنے کی مجبوری سمجھ کر رسم و رواج کے سامنے سپر ڈال دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے اس سلسلہ میں ہماری کوئی راہ نمائی نہیں کی ،یا پھر تعلیمات، ہدایات موجود ہوں تو ہم ان کو اختیار کرنے سے عاجز ہیں ،اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ رسوم و رواج کی قباحت ،شناعت کو عمومی سطح پر اجاگر کیا جائے ،تمام لوگوں کو غیر اسلامی طریقوں کے نقصانات کو خواب اچھی طرح دل و دماغ میں بٹھایا جائے،حضرت اقد س تھانوی نے اس سلسلہ میں بڑی زبردست کوشش کی تھی، بیانات بھی کیے اور کتابیں بھی شائع کیں،اصلاح الرسوم،بہشی زیور،اغلاط العوام وغیرہ کتابیں اسی کی شاہ کارہیں ،فی الحال جو برائیاں پیش نظر ہیں ان میں شادی کے موقع پر سنت و شریعت کو چھوڑ دینا ہے جس کی وجہ سے ہم غضب الٰہی کے مستحق ہورہے ہیں ،ممنوعات شرعیہ،رسوم ورواج کا ارتکاب کیا جارہا ہے ،اسلا می طریقے مٹ رہے ہیں ، فضول خرچی ،بے پردگی،غیروں کی مشابہت ،اختلاط مع النساء ،ویڈیو گرافی،رقص و موسیقی ،نمود و نمائش ،شہرت طلبی جیسے مفاسد نے اپنا دائرہ بہت وسیع کر لیا ہے، اکثر مسلم گھرانوں پر ان برائیوں کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں ،لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ذمہ داران قوم، خصوصاً علماء ،اس سلسلہ میں قوم کو متوجہ کریں ،برادری اور کمیٹیاں بنا کر سدھار کی کوشش کریں ،ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ خداوند قدوس اسلام کی ناقدری کی وجہ سے ہمیں محروم کر کے دوسروں کو نواز نہ دے اور پھر وہ ہم جیسے ناقدرے نہ ہوں۔

جب رشتہ طے کریں تو کیا چیز دیکھنی چاہیے ؟
عن ابی ھریرة قال: قال رسول لله صلی اللہ علیہ وسلم: تنکح المرأة لاربع: لمالھا ولحسبھا ولجمالھا ولدینھا، فاظفر بذات الدین، تربت یداک․ متفق علیہ(مشکوة شریف، ص237/ج2)
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ  حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا عورت سے نکاح چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے:
اس کی مالی حیثیت کو دیکھ کر، اس کے خاندان کی بلند ی اور اعزاز کی وجہ سے، اس کے حسن و جمال اور خوب صورتی کو دیکھ کر، اس کی دین داری ، اخلاق حمیدہ کو دیکھ کر ۔

تم دین داری،اخلاق کی عمدگی کو ترجیح دو،تمہاری زندگی خوش حالی کے ساتھ گذرے گی۔

لہٰذا آج کل لوگ مال داری کو دیکھتے ہیں، کچھ لوگ اونچے خاندان میں شادی کرنا باعث عزت سمجھتے ہیں ،اکثر نوجوانی، خوب صورتی پر مرتے ہیں ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم دین داری کو اختیار کرو، اگر اپنی زندگی میں دائمی چین، سکون ،راحت و اطمینان ،عزت، برکت چاہتے ہو تو سیرت کو دیکھو، مال و جمال ،خاندان کو نہ دیکھو۔
        حسن صورت چند روزہ حسن سیرت مستقل
        اس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں اُس سے خوش ہوتا ہے دل

پیغام دینے کا اسلامی طریقہ
عن جابر قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اذا خطب احدکم المرأة فان استطاع ان ینظر الی مایدعوہ الی نکاحھا فلیفعل․ رواہ ابوداؤد․
ترجمہ: حضرت جابر  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح دے تو اگر نکاح کے لیے مطلوبہ لڑکی کو دیکھ سکتا ہو تو ضرور ایسا کرے۔

مسئلہ:چناں نہ مرد کے لیے مخطوبہ (جس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے اس)کا چہرہ ہتھیلی دیکھنا جائز ہے ،یہ دونوں ستر میں نہیں ہیں۔(شرح مسلم/ص 456/ج1)

مذکورہ بالا حدیث میں یہ قید لگائی گئی ہے کہ اگر مطلوبہ لڑکی کو دیکھنا ممکن ہو تو ایسا کر لینے میں کوئی حرج نہیں ،اس سے پتہ چلا کہ اگر کسی خاندان، گھرانے میں اس کو عیب سمجھا جاتا ہو یا دیکھنے دکھانے سے دوسرے نقصانات پیدا ہوتے ہو تو پھر دوسرے قابل اعتبار طریقوں کو اختیار کرنا چاہیے،مثلاً لڑکے کی والدہ بہنیں وغیرہ جا کر دیکھ کر آئیں اور لڑکے کو پوری صورتِ حال سے آگاہ کردیں،اس سلسلہ میں موجودہ دور میں جو قباحتیں اور برائیاں شروع ہوئی ہیں وہ قابل ترک ہیں ،مثلاً لڑکی دیکھنے کے لیے درجنوں آدمی مرد و عورت گاڑیاں بھر کر جاتی ہیں، پہلے سے بذریعہ فون اطلاع کردی جاتی ہے، زبردست ان لوگوں کے لیے خاطر داری ،مہمان نوازی کا انتظام کیا جاتا ہے، لڑکی پسند آئے یا نہ آئے لڑکی والوں کا خوامخواہ بے حد خرچ ہوتا ہے ،لہذا شرعی طریقہ یہ ہے کہ ایک مرد و عورتیں جائیں ،اپنے جانے کی زیادہ شہرت نہ کریں،جن کے یہاں پہنچیں وہ بھی زیادہ شہرت نہ کریں کہ محلّہ کی لڑکیا ں عورتیں جمع ہوجائیں ،اگر لڑکی پسند نہ آئی تو خوامخواہ کی فضیحت ہوتی ہے اور لڑکی کی دل آزاری علیحدہ رہی ،لہٰذا اس سے پرہیز لازمی طور پر کیا جائے ،نیز یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اگر کسی دوسرے نے رشتہ ڈال رکھا ہے تو وہاں رشتہ چلانا منع ہے ،حدیث پاک میں ہے ”لایخطب الرجل علیٰ خطبة اخیہ․“(رواہ مشکوة)

شادی سے ایک یا دو دن پہلے بٹنے کی رسم ادا کی جاتی ہے ،اس میں چند خرابیاں ہونے کی وجہ سے شریعت منع کرتی ہے ،رزق کی بے حرمتی ہے ۔

لڑکا کنبہ قبیلے کی عورتوں کے سامنے برہنہ ہوکر بیٹھتا ہے ،اپنے اور غیروں سب کے سامنے ستر کھولنا شرعاً حرام ہے غیر محرم لڑکیاں عورتیں ہاتھ لگاتی ہیں ، یہ بھی ناجائز ہےبعض لڑکے بھی آجاتے ہیں، وہ لڑکے بجائے بٹنا ملنے کے لڑکیوں کے ملنا شروع کردیتے ہیں، یہ اختلاط مع النساء بھی ناجائز ہے، بعض مرتبہ دیکھا گیا کہ نالی ے چوڑا نکال کر لگا دیتے ہیں، یہ بدتمیزی ہے۔

منگنی سگائی
جب لڑکا لڑکی والوں کو اور لڑکی لڑکے والوں کو پسند آگئی، اب ہونا تو یہ چاہیے کہ بس نکاح کی تاریخ متعین ہوجائے ،ہمارے معاشرہ میں غریب ہو یا امیر، سب میں ایک رواج چل پڑا ہے کہ پہلے منگنی ہوتی ہے، جس کو حضرت تھانوی  نے قیامت صغری سے تعبیر کیا ہے ،اس وقت بھی ایک مرتبہ پھر رشتہ دار جمع ہوتے ہیں ، مہمان نوازی و دعوتوں کا اہتمام ہوتا ہے اور بے شمار اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں ،محلہ والوں کو جمع کیا جاتا ہے، لڑکے والے بھی کاریں بھر کر جاتے ہیں اور مختلف قسم کے پھل کے جوڑے، دیگر اشیاء اور لڑکے کو پیسے جن کی مقدار مختلف ہوتی ہے1100/5000 /10000یہاں تک کہ بعض جگہ پر جانے والے تمام لوگوں کو جوڑے دیے جاتے ہیں، یہ خواہ مخواہ کے خرچے ہیں ،شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں ،فضول خرچی کے دائرہ میں آکر ناجائز ہوجاتے ہیں ،لہذا اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ طرفین سے پسندیدگی ہوگئی تو کسی تحریر کے ذریعہ یامعتمد حضرات کے ذریعہ نکاح کی تاریخ پہنچادی جائے ،پھر رشہ طے ہونے اور شادی کے درمیان زیادہ وقت نہ لگایا جائے، دیکھنے میں آیا ہے کہ جب زیادہ وقت درمیان میں گذرتا ہے تو شکوے شکایتیں پیدا ہو کر رشتہ کی بات ختم ہوجاتی ہے اور جو اخراجات کیے ہیں وہ سب بے کار چلے جاتے ہیں ۔

نوتہ دینا
بہن اپنے بھائیوں کے پاس نوتنے کے لیے جاتی ہے، شادی میں شرکت کے لیے دعوت دیتی ہے اور زیادہ سے زیادہ سامان کا مطالبہ کرتی ہے، خواہ بھائی غربت ،پریشانی کی حالت میں ہوں ،چاہے سودی قرضہ لینا پڑے، لیکن بہن کا مطالبہ پورا کرنا ضروری سمجھتے ہیں،سمجھ لینا چاہیے کہ اس طرح زور ڈال کر مطالبہ کرنا شریعت میں منع ہے ،حدیث پاک میں ہے ”لا یحل مال امرء مسلم الا بطیب نفسہ“کسی مسلمان کا مال بغیر خوش دلی کے جائز نہیں ہے ،لیکن آج کل لڑکیوں کو میراث نہیں دی جاتی، یہ بھی بہت بڑا گناہ ہے، اس سلسلہ میں بھی بہت غور و فکر کرنا چاہیے اور لڑکیوں کو میراث میں سے ان کا حق دینا چاہیے ،غالباً لڑکیاں اس لیے مختلف طریقوں سے مطالبہ کرتی ہیں جب ان کا حق واجب طریقہ سے ادا نہیں کیا جاتا ،لیکن یہ طریقہ شرعاً مذموم ہے۔

کارڈ چھپوانا
آج کل شادی بیاہ کی اطلاعات دینے کے لیے نہایت دیدہ زیب قیمتی کارڈ چھپوانے کا رواج عام بن گیا ہے، خوامخواہ اطلاعات میں ہزاروں روپیہ فضول خرچ کیا جاتا ہے ،عام سادہ کارڈوں سے کام چل سکتا ہے تو ریا، نمودو نمائش کرنا عبث ہے اور قابل ترک ہے۔

لڑکی کو مایوں بٹھانا
گھر میں برادری اور کنبہ کی عورتیں جمع ہو کر لڑکی کو علیحدہ مکان میں بٹھا دیتی ہیں، جس کو مائیوں بٹھلانا کہتے ہیں، اس میں چند خرابیاں ہیں یہ لازمی طور پر بٹھلانا خلاف شرع ہےلڑکی کے بیمار ہونے کا اندیشہ ہے، گرمی، سردی اندھیرا کچھ ہو،اگر لڑکی بیمار ہوگئی تو ساری شادی دھری رہ جائے گیایک مسلمان لڑکی کو تکلیف دینا،اس کی آزادی کو سلب کرنا اور ایذائے مسلم حرام ہے،اس کا گناہ بٹھلانے والوں کو ہوگا،اس دوران بٹنا ملا جاتا ہے، جو خلاف شرع ہے۔

جوڑا کھولا جانا
شادی سے تقریباً ایک ماہ قبل لڑکی والوں کی طرف سے ایک آدمی لال خط لے کر تاریخ پر مطلع کرنے کے لیے جاتا ہے، اس کی آمد پر بھی اعزا، اقرباء، محلہ پڑوس والے جمع کیے جاتے ہیں ،اس وقت بھی حسب موقع کھانا یا ناشتہ اور مٹھائی کا انتظام ہوتا ہے ،جو ڑا لانے والے کو انعام دیا جاتا ہے ،امام صاحب یا کوئی معزز آدمی اس لال خط کو پڑھتے ہیں ،اس لال خط میں 100/روپے وغیرہ بھی رکھے جاتے ہیں، جو پڑھنے والے کو دیے جاتے ہیں ،پھر جوڑا ایک طشت میں رکھ کر لوگوں کے ہاتھوں میں گھمایا جاتا ہے، یہ جوڑا کھولے جانے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے ،مندرجہ ذیل چند خرابیوں کی وجہ سے ناجائز ہے۔

شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہےبلاوجہ فضول خرچی کی جاتی ہے امام صاحب کو اگر خط کے پیسے بھیجنے یاد نہ رہے تو اعتراض کیا جاتا ہے جوڑے میں کوئی کمی نکل آئے تو غیبتیں ،برائیاں شروع ہوجاتی ہیں جوڑا لانے والے کی حسب حیثیت اعزاز و اکرام ،خاطر تواضع نہ کی گئی یا اس کو حسب منشا انعام سے نہ نوازا گیا تو شکوؤں شکایتوں کا باب کھل جاتا ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر یہ رسم بھی ناجائز ہے۔

Flag Counter