Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1436ھ

ہ رسالہ

14 - 15
فتنے کے اسباب

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک بیان کی تسہیل
تسہیل: محترم سید عروہ عرفان

خود غور کیجیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا لباس کیسا تھا؟! مگر عزت وشوکت کی یہ حالت تھی کہ جب آپ مدینہ منورہ سے بیت المقدس کو روانہ ہوئے تو راستے میں تمام سلاطین کانپتے کہ اب کس طرف کو اپنا لشکر لے کر جاتے ہیں۔ آخر یہ رعب اور شان کس چیز کی تھی؟ کیا لباس کا رعب تھا؟ ہرگز نہیں!

لباس کی تو یہ کیفیت تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے طواف میں حضرت عمر کو دیکھا کہ اُس وقت جو کرتا آپ کے بدن پر تھا، اس میں اکیس پیوند لگے ہوئے تھے۔

آج لوگ شکایت کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں غربت زیادہ ہے، اس لیے ذلیل ہورہے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں میں غربت کا ہونا درست بھی ہے اور غلط بھی۔ درست تو اس معنی میں کہ کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس دولت کم ہے اور غلط اس لیے کہ سلف کے اعتبار سے ان کے پاس دولت کم نہیں۔

جس وقت مسلمانوں نے ترقی کی ہے، اس وقت کے مسلمان آج کے مسلمانوں سے زیادہ غریب تھے۔ اگر غربت ہی ذلّت کا سبب ہے تو ان حضرات نے عین غربت کی حالت میں کیوں کر عزت و شوکت حاصل کرلی؟

خوب سمجھ لیجیے کہ عزت لباس یا دولت سے نہیں ہے۔ مسلمان کی عزت اسلام سے ہے۔ پہلے مسلمان پورے مسلمان ہوتے تھے، اس لیے معزز تھے۔ اور ہم، برائے نام مسلمان ہیں، اس لیے ذلیل ہیں۔ ورنہ آج کل کچھ پہلے سے زیادہ غربت نہیں۔

حضرات صحابہ کی یہ حالت تھی کہ حضرت عمر جب ملک شام پہنچے تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے خیمے میں اترے، کیوں کہ وہ اسلامی فوج کے افسر تھے۔ ان سے پوچھا کہ اے ابوعبیدہ، تمھارے پاس کھانے کو بھی کچھ ہے؟ انھوں نے روٹی کے سوکھے ٹکڑے اور سادہ پانی سامنے لاکر رکھ دیا۔ یہ حال دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور فرمایا: ”اے ابوعبیدہ، اب تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر فتوحات سے وسعت کردی ہے، پھر تم ملک شام میں ہو، اب اتنی تنگی کیوں کرتے ہو؟“

انھوں نے عرض کیا: ”اے امیر المومنین، دنیا تو محض زاد ہے۔ آخرت میں پہنچنے کے لیے تو یہ بھی کافی ہے تو زیادہ لے کر کیا کریں گے؟“

حضرت عمر سے عرض کیا گیا تھا کہ اب فتوحات میں وسعت ہوگئی ہے، آپ اتنی تنگی کیوں فرماتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہمارے بہت سے بھائی اسی فقر کی حالت میں شہید ہوگئے۔ انھوں نے خدا کے راستے میں عمل زیادہ کیا اور دنیا سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ ان کا سارا ثواب آخرت کے لیے ذخیرہ ہوگیا۔ اور ہم لوگوں نے فتوحات حاصل کرکے بہت کچھ مال و دولت حاصل کرلی۔ ہماری محنت کا کچھ پھل ہمیں یہاں مل گیا۔ اب مجھے اس مال و دولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ قیامت کے دن کہیں یہ نہ کہہ دیا جائے ﴿اذ ھبتم طیباتکم فی حیاتکم الدنیا واستمتعتم بھا فالیوم تجزون عذاب الھون بما کنتم تستکبرون﴾کہ تم نے دنیا کی زندگی میں مزے اڑالیے اور طیبات سے فائدہ حاصل کرلیا ہے، اب ہمارے ہاں تمھارے لیے کچھ نہیں۔ بس، تمھیں عذاب ذلّت کی سزا دی جائے گی، اس لیے کہ تم بڑا بننا چاہتے تھے۔

یہاں سے معلوم ہواکہ ہمارے سلف کا فقر اختیاری تھا، اضطراری نہ تھا۔ ان کے افلاس کا سبب یہ نہ تھا کہ انھیں کچھ ملتا ہی نہ تھا۔ حق تعالیٰ نے حضرات صحابہ کو بہت کچھ مال و دولت دیا تھا، مگر وہ اپنے پاس نہ رکھتے تھے، بلکہ غریبوں کو دے دیا کرتے تھے اور خود فقر کی حالت میں رہتے تھے۔

تو کیا اس فقر (غربت) سے ان کی عزت کم ہوگئی؟

خدا نے انھیں وہ عزت دی تھی کہ آج مسلمان اس کی تمنا کرتے ہیں۔ لہٰذا، غربت کو ذلت سمجھنا بڑی غلطی ہے۔ یہ تو بڑی عزت کی چیز ہے، اگر کمال کے ساتھ ہو۔

جب میں کانپور میں درس دیتا تھا، عین حالت درس میں ایک صاحب جامع مسجد آئے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ ایک لنگی اوپر، ایک لنگی نیچے؛ نہ اسباب کا غم، نہ چور کا کھٹکا۔ طلبہ نے پہلے تو انھیں معمولی آدمی سمجھا اور حقارت سے دیکھا۔ لیکن جب انھوں نے مسجد کی جائے نماز پر اعتراض کیا کہ یہ منقش کیوں ہے؟ نماز کی جگہ نقش و نگار نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے نماز میں کامل یکسوئی نہیں ہوتی، بار بار پھول پتوں پر نظر جاتی ہے؛ طلبہ نے اس مسئلے پر گفتگو کرنا شروع کی۔ تب جاکر معلوم ہواکہ وہ بہت بڑے عالم ہیں۔

اب ان کی سادہ وضع اور خستہ لباس کی بھی قدر ہوئی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اگر لباس معمولی ہو اور کمال زیادہوتو اس کی قدر بڑھ جاتی ہے۔ اور اگر کپڑے عمدہ ہیں اور لیاقت کچھ نہیں تو ”علی حزین“ کا سا قصہ ہوجائے گا۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ علی حزیں کے پاس ایک شخص نہایت شان وتکلف کا لباس پہنے ہوئے آیا۔ علی حزیں نے ادب سے پاؤں سمیٹ لیے اور نام پوچھا تو اس شخص نے اپنا نام بتایا، ”ایسف“ یعنی یوسف۔ علی حزیں نے یہ سن کر اپنے پاؤں دوبارہ پھیلادیے اور کہا، بابا! اگر تو ایسف ہے تو میں اپنے پاؤں کیوں سمیٹوں؟

میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو انگریزی بالکل نہیں جانتے اور وضع بالکل انگریزوں جیسی تھی۔ ایسے لوگ اکثر ذلیل ہوجاتے ہیں۔ جب کوئی شخص ان کو انگریزی داں سمجھ کر انگریزی کا خط یا تار اُن کے پاس لاتا ہے اور پڑھوانا چاہتا ہے تو اس وقت وہ بہت ہلکے ہوتے ہیں کہ اب کیسے پڑھیں؟ اور انکار کریں تو اپنی حماقت ظاہر ہوتی ہے اور جہالت کا اقرار ہوتا ہے۔ بعض دفعہ کوئی انگریز ان کو تعلیم یافتہ سمجھ کر انگریزی میں ان سے باتیں کرنے لگتا ہے تو یہ اپنی بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ ایک انگریز نے ایسے ہی ایک شخص کوبہت ٹھونکا ،جو انگریزوں کا حلیہ بنائے ہوئے تھا اور انگریزی بالکل نہ جانتا تھا۔ بات یہ ہے کہ ہر وضع کے لیے اسی طرح کی قابلیت بھی ضروری ہے۔
        ناز را روئے بسیاید ہمچو ورد
        چوں نہ داری گرد بدخوئی گرد
کہ ناز کے لیے گلاب جیسے چہرے کی ضرورت ہے۔ جب ایسا چہرہ نہیں رکھتے تو بدخوئی مت اختیار کرو!

انسانیت کی بات تو یہ ہے کہ اگر آدمی انگریزی پڑھ کر بھی اپنے ہی حلیے پر قائم رہے تو واللہ، ایسے شخص کی عزت زیادہ ہوتی ہے۔ مگر آج کے مسلمانوں کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ سب کے سب فیشن کے پیچھے پڑگئے ہیں اور اسی کو عزت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ اس سے خاک عزت نہیں ہوتی۔ یہ لوگ خود ان کی نگاہوں میں بھی ذلیل ہوجاتے ہیں جن کا حلیہ یہ لوگ اختیارکرتے ہیں۔

اگر مان بھی لیا جائے کہ اس سے عزت ہوتی ہے تو یہ برائے نام ہوگی۔ اصل عزت تو اسلام میں کمال سے ہے۔ مسلمانوں کو اسلام میں کمال حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ خراب اور خستہ کپڑے چیتھڑے لگا کر پہن لو۔ نہیں۔ صحیح سالم کپڑے پہنو۔ مگر، کیا یہ ضروری ہے کہ وہ قیمتی بھی ہو اور فیشن کے مطابق بھی ہو․․․ یہ سب تکلفات ہیں۔ دیکھیے، حضرت عمر کو جب صحابہ نے یہ رائے دی تھی کہ عمدہ کپڑے پہن لیجیے ،تاکہ ظاہری شان و شوکت بھی ہوجائے تو انھوں نے صاف انکار کردیا تھا اور فرمایا کہ ہمارے لیے اسلامی عزت کافی ہے اور کسی کی ضرورت نہیں ہے۔

ہوسکتاہے آپ کہیں کہ یہ تو حضراتِ صحابہ کرام تھے اور اُن جیسا کون ہوسکتا ہے؟ تو میں آپ کو اس زمانے کی مثال دے دیتا ہوں۔

حال ہی کا ذکر ہے کہ حضرت مولانا شاہ فضل الرحمان صاحب گنج مراد آبادی زندہ تھے۔ انھیں جن لوگوں نے دیکھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ مولانا کی وضع کس حد تک سادہ تھی ،مگر اس سادگی ہی میں ان کی وہ عزت تھی کہ بڑے بڑے نواب اور رؤسا، وزرا مولانا سے ملنے آتے تھے۔ اور مولانا جس کو جو جی میں آیا، کہہ ڈالتے تھے۔ مگر ان کی باتوں سے کوئی برا نہ مانتا تھا، بلکہ ان کی وہ غصے کی باتیں بھی بھلی معلوم ہوتی تھیں۔ اس کی وجہ وہی سادگی تھی۔ ان کی طبیعت بالکل سادہ بچوں کی سی تھی، اس لیے کسی کو کوئی بات ان کی ناگوار نہ ہوتی تھی ،جیسے بچوں کی حرکات بری نہیں لگتیں، کیوں کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں وہ سادگی سے کرتے ہیں، اس میں بناوٹ نہیں ہوتی۔

تھانہ بھون میں ایک شخص گالیاں بہت دیا کرتے تھے۔ ایک تقریب کے موقعے پر انھوں نے برادری کو جمع کرنا چاہا تو لوگوں نے جانے سے انکار کردیا کہ یہ ہمیں گالیاں دیتا ہے، ہم اس کے ہاں نہ جائیں گے۔ جب اسے معلوم ہواکہ برادری والے اس وجہ سے نہیں آتے تو اس نے معذرت کی کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا، اب تو خطا معاف کرو۔ لوگوں نے کہا کہ شاہ ولایت صاحب کے مزار پر چل کر عہد کرو، وہ راضی ہوگئے اور عہد کو چلے۔ وہاں جا کر کہتے ہیں کہ شاہ ولایت صاحب، یہ برادری کے ایسے ویسے لوگ (گالی دے کر) مجھ سے عہد کراتے ہیں کہ کسی کو گالی مت دینا۔ میں آپ کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ اب سے ان میں سے کسی ایسے ویسے کو (گالی دے کر) گالی نہ دوں گا۔ سب لوگ ہنس پڑے کہ ظالم سے عہد کرتے ہوئے تو گالیاں چھوٹی نہیں، آئندہ کیا چھوڑے گا؟ یہ بے چارہ معذور ہے۔ آخر برادری کے آدمی اس کے ہاں آہی گئے۔ پھر اس کی گالی کا کسی نے برا نہ مانا، کیوں کہ سب سمجھ گئے کہ یہ سادگی میں گالی دیتا ہے، قصداً بناوٹ کرکے نہیں دیتا۔

اس سے میرا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں اس فعل کا اچھا ہونا ثابت کروں، بلکہ میں اس سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتا ہوں کہ سادگی میں جو خطا ہوجائے وہ خطا بری نہیں لگتی۔ اور ویسے بھی کبھی برے فعل سے بھی اچھا نتیجہ نکال لیا جاتا ہے۔ جیسے، حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ نے ایک چور کو پھانسی پر لٹکا ہوا دیکھا تو پوچھا کہ اسے پھانسی کیوں دی گئی؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ بڑا پکا چور تھا۔ ایک بار گرفتار ہوا تو اس کا دایاں ہاتھ کاٹا گیا، پھر بایاں پیر کاٹا گیا، پھر بھی چوری سے باز نہ آیا تو خلیفہ نے پھانسی کا حکم دیا۔ حضرت جنید نے یہ سن کر اس چور کے پیر چوم لیے۔ لوگوں نے یہ دیکھ کر عرض کیا، حضرت، آپ چور کے پیر چومتے ہیں؟ فرمایا، میں نے چوری کی وجہ سے اس کے پیر نہیں چومے ہیں، بلکہ اس کے استقلال، اس کی مستقل مزاجی کے قدم چومے ہیں کہ یہ اپنے محبوب پر، اگرچہ وہ کتنا ہی برا تھا، مگر ایسی مستقل مزاجی کے ساتھ جما رہا کہ اسی میں جان دے دی۔ افسوس، ہم اپنے محبوب محمود کے ساتھ بھی یہ معاملہ نہیں کرتے۔

جیسے حضرت جنید نے برے فعل سے اچھا نتیجہ نکال لیا، اسی طرح میں کہتا ہوں کہ اگرچہ گالیاں دینا برا کام تھا، مگر سادگی کے ساتھ تھا۔ یہ اس شخص میں خوبی تھی، جس کا اثریہ ہوا کہ لوگ اس کی باتوں کا برا نہ مانتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سادگی عجیب چیز ہے، جو تلخ کو شیریں کردیتی ہے۔ یہی بات مولانا شاہ فضل الرحمان صاحب میں تھی کہ ان کا غصہ اور تیزی سادگی کے ساتھ تھی، اس لیے کسی کو برا نہیں لگتا تھا۔ بعض دفعہ وہ بڑے بڑے عہدے داروں کو ایسی تیز تیز باتیں فرمادیا کرتے تھے کہ ہم ویسی باتیں کہیں تو ایک دن میں بدنام ہوجائیں۔

ایک مرتبہ حیدرآباد کے ایک وزیر مولانا کے ہاں حاضر ہوئے تو آپ فرماتے ہیں: ارے نکالو! صاحب زادے نے عرض کیا کہ یہ حیدرآباد کے وزیر ہیں تو فرمایا، ارے تو میں کیا کروں، میں کیا ان سے تنخواہ لیتا ہوں؟ کچھ دیر بعد فرمایا، اچھا رات کے دو بجے تک رہنے کی اجازت ہے، اس کے بعد چلے جائیں۔ وزیر نے اسی کو غنیمت سمجھا اور اس کی بھی تہذیب دیکھیے کہ رات دو بجے فوراً چلا گیا۔ خدام نے کہا بھی کہ صبح کو چلے جائیے گا، ابھی تو مولانا سورہے ہیں، انھیں کیا خبر ہوگی؟ اس نے کہا، نہیں یہ بے ادبی ہے، بزرگوں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں کرنا چاہیے۔ اب حضرت کی اجازت نہیں ہے، میں نہیں ٹھہروں گا۔ مولانا بڑے سے بڑے کو ایسے تیز جملے کہہ دیتے تھے اور کسی کو کچھ برا نہ لگتا تھا۔

ایک دفعہ لیفٹیننٹ گورنر نے آپ کی زیارت کو آنا چاہا اور اپنے سیکریڑی کے ذریعے باقاعدہ اجازت حاصل کی۔ مولانا نے انھیں اجازت دے دی اور لوگوں سے فرمایا کہ وہ ہمیں کیا جانیں؟ لوگوں نے عرض کی، حضرت! آپ کو تو سارا زمانہ جانتا ہے۔ پھر فرمایا، وہ بیٹھیں گے کہاں؟ ہمارے پاس تو سونے کی کرسی بھی نہیں ہے۔ خدام نے عرض کیا کہ وہ لکڑی کی کرسی پر بیٹھ جائیں گے۔ فرمایا، اچھا۔ پھر فرمایا کہ کیا ہم لیفٹیننٹ گورنر کو دروازے تک لینے جائیں؟ عرض کیا گیا کہ اگر مزاج چاہے تو مضائقہ بھی نہیں ہے۔

یہ باتیں گورنر کے آنے سے پہلے کی تھیں، مگر کچھ دیر بعد مولانا بھول بھال گئے اور جب وہ تاریخ آئی کہ جس دن گورنر کو آنا تھا، حضرت نے کچھ سامان کیا اور نہ استقبال کیا۔ بلکہ اپنی جگہ سے اٹھے تک نہیں۔ جیسے بیٹھے تھے، ویسے ہی بیٹھے رہے۔ لیفٹیننٹ گورنر تو بیٹھ گئے اور باقی اُن کے ساتھ جو انگریز تھے، وہ کھڑے رہے۔ ایک میم بھی کھڑی رہ گئی۔ مولانا نے ایک الٹے گھڑے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اس پر بیٹھ جاؤ۔ وہ اس پر بیٹھ گئی۔ پھر لیفٹیننٹ گورنر نے عرض کیا کہ حضرت! ہمیں کچھ وصیت فرمادیجیے۔ فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکومت دی ہے۔ دیکھو، ظلم نہ کرنا، ورنہ تم سے حکومت چھن جائے گی۔ پھر اس نے کہا کہ حضرت! ہمیں کچھ تبرک عطا فرمایا جائے۔ آپ نے فرمایا، مجھ غریب کے پاس تمھیں دینے کو کیا رکھا ہے؟ پھر خادم سے پکار کر عرض فرمایا، ارے! مٹھائی کی ہنڈیا میں کچھ چورا پڑا ہو تو ان کو دے دے۔ یہ مانگ رہے ہیں۔ چناں چہ وہ چورا تھوڑا تھوڑا سب کو بانٹا گیا۔ سب نے یہ چورا ادب سے لیا۔

میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ گورنر کو آپ کے پاس آنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا مولانا حاکم تھے یا نواب یا رئیس تھے؟ کچھ بھی نہیں۔ پھر آخر یہ دل کشی کس چیز کی تھی کہ مسلم اور غیر مسلم ان کے دروازے پر آتے تھے؟! صاحبو، یہ سادگی کی دل کشی تھی، تکلف اور تصنع سے یہ بات پیدا نہیں ہوا کرتی۔

بس، یہ آزادی تھی جو اُن حضرات میں تھی۔ یہ آزادی نہیں کہ ایسا لباس پہنیں کہ کرسی کے بغیر بیٹھ ہی نہ سکیں۔ یہ تو پوری قید ہے۔ بعض وضع ایسی ہیں کہ وہ مکمل ہی ہو تو بھلی معلوم دیتی ہیں، ادھوری ہوں تو بری لگتی ہیں۔ مثلاً کوٹ پتلون کے ساتھ دہلی کا جوتا برا معلوم ہوتا ہے، نیز دوپلی ٹوپی بھی اس پر بھدی لگتی ہے۔ اب کوٹ پتلون ہو تو اس کے ساتھ جوتا اور ٹوپی بھی اس کے مناسب ہونا چاہیے۔ تو بتلائیے، یہ قید ہوئی یا آزادی؟

اور لباس ہی کیا، میں تو ہر تکلف کو قید سمجھتا ہوں۔ آزادی یہ ہے کہ انسان ایک شریعت کی قید کے سوا کسی قید کا پابند نہ ہو۔ یہ قید تو ضروری ہے۔ اس کا باقی رہنا تو مطلوب ہے، مگر میں اطمینان دلاتا ہوں کہ یہ قید گراں نہیں ہے۔ واللہ، اس میں وہ لذت ہے کہ جو اس کا پابند ہے، وہ کبھی اس سے خلاصی نہیں چاہتا، کیوں کہ․․․
        اسیرت نخواہد رہائی زبند
        شکارت بخوید خلاص از کمند
یعنی تیرا قیدی قید سے رہائی نہیں چاہتا، تیرا شکار کمند سے آزادی نہیں ڈھونڈتا۔ یہ تو زلف یار کی قید ہے کہ اس قید سے کون رہائی چاہتا ہے!! ہاں، جو اس قید کا پابند ہے وہ باقی تمام قیود سے آزاد ہوجاتا ہے۔ وہ ہر حال میں خوش رہتا ہے، خواہ لباس میں پیوند لگے ہوں یا جوتا ٹوٹا ہوا ہو، کیوں کہ وہ ان سب کو محبوب کی طرف سے سمجھتا ہے۔ لہٰذا، آپ اس قید زلف سے نہ گھبرائیں، کیوں کہ واللہ ،یہی عزت کا ذریعہ ہے، باقی سب قیدیں توڑنے کے قابل ہیں۔ اس قید سے آدمی خدا کا غلام بنتا ہے اور باقی قیود سے نفس و شیطان کا غلام سب کا غلام ہے۔ وہ ہر جگہ ذلیل ہی ہوتا ہے۔

ہماری زندگی ایسی سادہ ہونی چاہے جیسی سلف کی زندگی تھی۔ چناں چہ حضرت عمر سے جب لباس تبدیل کرنے کے لیے عرض کیا گیا تو اول آپ نے اپنے مزاج کے مطابق انکار کیا او رفرمایا کہ ہمیں اللہ نے اسلام میں عزت دی ہے، بس ہمارے لیے یہی عزت کافی ہے، لباس کی عزت ہمیں نہیں چاہیے۔ بعض صحابہ نے عرض کیا کہ مسلمانوں کی دل جوئی کے لیے ہی لباس بدل لیجیے۔ یہ بھی اسلام کا عجیب معاملہ ہے کہ اگر کوئی بات اپنی وضع اور مذاق کے خلاف ہو اور شریعت سے ممنوع نہ ہو تو احباب کے اصرار پر دل جوئی کے لیے کرلینا چاہیے۔ دل جوئی شرعاً مطلوب ہے، بشرطیکہ حد جواز تک ہو۔ افسوس، ہم میں آج یہ بات نہیں رہی، حالاں کہ یہ خاص مسلمانوں کا وصف ہے اور زیادہ تر اشاعت اسلام اسی سے ہوئی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام بہ زور شمشیر پھیلا ہے۔ مولانا قاسم صاحب رحمہ اللہ اس اعتراض کا جواب یہ دیا کرتے تھے کہ شمشیر کے لیے شمشیر زن بھی تو چاہئیں۔ وہ شمشیر زن کہاں سے جمع ہوگئے تھے؟ انھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہی نے جمع کیا تھا۔ ثابت یہ ہواکہ اشاعت اسلام دراصل، اخلاقِ اسلامیہ سے ہوئی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت و رحمت کا یہ عالم تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ سے طائف تشریف لے گئے ہیں تو وہاں کے رؤسا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت جواب دے دیا اور قبول اسلام سے انکار کردیا۔ اسی پر نہیں رکے، بلکہ بستی کے بدمعاشوں کو بھڑکادیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈھیلے اور پتھر پھینکیں۔ اس وقت غیرت خداوندی کو جوش ہوا اور بہ حکم الٰہی حضرت جبریل علیہ السلام پہاڑوں کے فرشتوں کو ساتھ لے کر آئے اور عرض کیا کہ حق تعالیٰ نے سلا م کے بعد فرمایا ہے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کا برتاؤ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ دیکھا ہے اور ملک الجبال کو حکم دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو اس سے فرمائیں، اس کی تعمیل کرے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تویہ اسی وقت طائف کے دونوں پہاڑوں کو ملادے، جس سے یہاں کی ساری آبادی پس کر رہ جائے۔ مگر اللہ رے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت․․․․ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوڑدو مجھے اور میری قوم کو۔ میں ان کی تباہی نہیں چاہتا۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ ان کی آنکھیں کھل جائیں اور اگر یہ اسلام نہ لائیں تو مجھے امید ہے کہ شاید ان کی اولاد میں سے کوئی شخص اللہ کی توحید کا اقرار کرلے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جوئی کی یہ حالت تھی کہ جب بنو ثقیف کے کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مسجد نبوی میں اتارا کہ قریب رہیں گے تو ان کی خاطر مدارات اچھی طرح ہوسکے گی۔ پھر یہ بھی دل جوئی کی کہ بعض نے اسلام لانے کیلئے یہ شرط پیش کی تھی کہ ہم زکوٰة نہ دیں گے۔ بعض نے کہا کہ ہم جہاد نہ کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اچھا بہتر ہے تم زکوٰةنہ دینا، نہ جہاد کرنا۔ صحابہ کو اس شرط پر حیرت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب یہ اسلام لے آئیں گے تو سب کچھ کریں گے۔ کیوں کہ جب اسلام دل میں آجاتا ہے تو یہ حالت ہوجاتی ہے:
        آنکس کہ ترا شناخت جاں راچہ کند
        فرزند و عیال و خانماں راچہ کند
یعنی جس شخص نے تجھے پہچان لیا وہ جان کر کیا کرے گا؛ اہل و عیال مال و اسباب لے کر کیا کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ یہ سب شرطیں اسلام لانے سے پہلے ہی ہیں۔ اسلام کے بعد یہ خود ہی سب کچھ کریں گے۔ چناں چہ یہی ہوا کہ اسلام کے بعد ان لوگوں نے جہاد بھی کیا اور زکوٰة بھی دی۔

اس دل جوئی ہی سے لوگ کھنچے چلے آتے تھے۔ اس لیے ہمارے اکثر بزرگوں نے نرمی اور دل جوئی سے بہت کام لیا ہے۔ مجھے حضرت حاتم اصم کی حکایت یاد آئی کہ ایک شخص نے مجمع میں ان کے سامنے ہدیہ پیش کیا۔ اول تو انھوں نے قبول کرنے سے انکار کیا۔ اس نے اصرار کیا تو آپ نے لے لیا۔ لوگوں نے بعد میں پوچھا کہ حضرت، اگر آپ کو لینا ہی تھا تو پہلے کیوں انکار کیا؟ اور جو نہ لینا تھا تو بعد میں کیوں لے لیا؟ آپ نے فرمایا کہ اصل میں تو میں لینا نہ چاہتا تھا اس لیے انکار کردیا مگر پھر میں نے دیکھا کہ اس وقت مجمع میں ہدیہ رد کردینے سے اس شخص کی ذلت ہوگی اور میری عزت، اور لے لینے سے میری ذلت ہوگی کہ انکار کے بعد لے لیا اور اس کی عزت ہوگی تو میں نے اپنے بھائی کی عزت کو اپنی عزت پر ترجیح دی۔

ہماری یہ حالت یہ ہے کہ دل جوئی کریں گے تو ایسی کہ حرص میں مبتلا ہوجائیں گے کہ بس جو آیا، لے لیا چاہے حرام ہو یا حلال۔ واپس کرنا جانتے ہی نہیں یا استغنا برتتے ہیں تو کبر تک پہنچ جاتا ہے۔ استغنا میں چونکہ اپنی عزت ہوتی ہے اور ایک قسم کا لطف حاصل ہوتا ہے، اس لیے اس میں حد سے تجاوز کرجاتے ہیں کہ پھر کسی کا دل توڑنے کی بھی پروا نہیں کرتے۔ ہماری کوئی چیز اعتدال میں نہیں۔

حضرت حاجی صاحب (امداد اللہ مہاجر مکی) جب ہجرت کے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو اول اول ایک رباط میں قیام فرمایا۔ ایک دن کوئی شخص رباط میں رہنے والوں کو ایک ایک دوانی (سکہ) تقسیم کرتا پھر رہا تھا۔ جب وہ حضرت کے حجرے پر پہنچا تو یہاں شاہانہ دربار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت کو لطیف طبیعت عطا فرمائی تھی، سب سامان صاف ستھرا رہتا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر رکا اور حضرت کو دونی نہ دی تو حضرت خود فرماتے ہیں کہ بھائی، تم نے ہمارا حصہ نہ دیا؟ وہ کہنے لگا، حضرت آپ کی خدمت میں ایسی حقیر چیز پیش کرنا خلافِ ادب ہے۔ حاجی صاحب نے فرمایا، سبحان اللہ، ہر شخص یہی سمجھتا تو پھر یہ سامان کہاں سے ہوتا؟ کیا تم مجھے فقیر نہیں سمجھتے؟ میں تو فقیر ہی ہوں اور فقیر سمجھ کر لوگ کچھ دے دلا جاتے ہیں اسی سے یہ سامان اکٹھا ہوگیا ہے ،جو تم دیکھ رہے ہو۔ لاؤ، میرا حصہ لاؤ۔ یہ سن کر وہ شخص باغ باغ ہوگیا کہ اللہ اکبر، میرے ایسے نصیب کہاں کہ حضرت خود مانگیں اور پھر خوشی خوشی ایک دونی پیش کردی۔

یہ اُن کی شانِ تواضع تھی کہ ایک دونی کے لیے بھی اپنی احتیاج ظاہر فرمائی۔ اور شانِ استغنا یہ تھی کہ ایک دفعہ حضرت پر کئی دن کا فاقہ تھا۔ ایک میمن نے صورت سے پہچان لیا کہ حضرت فاقے سے ہیں۔ وہ حضرت کی لنگی مانگ کر لے گیا اور اس میں دو سو ریال باندھ کر لایا۔ اس وقت حضرت نماز یا ذکر میں مشغول تھے۔ وہ یہ ریال پاس رکھ کر چلاگیا۔ اب استغنا کی یہ کیفیت دیکھیے کہ حضرت نے جب لنگی اٹھائی تو اس کا وہم بھی نہ ہوا کہ یہ ریال اس نے مجھے دیے ہیں بلکہ یہ سمجھے کہ امانت رکھ گیا ہے۔ چناں چہ انھیں اٹھا کر احتیاط سے امانت کی جگہ رکھ دیا۔ دوسرے وقت پھر فاقے سے رہے۔ اس میمن نے جب دوسرے وقت بھی اسی حال میں دیکھا تو آکر عرض کیا کہ آپ نے وہ ریال خرچ کیوں نہیں کیے؟ آپ نے فرمایا کہ بھائی امانت کو کیسے خرچ کرلوں؟ میمن نے کہا، حضرت وہ امانت نہیں تھی بلکہ میں تو ہدیہ دے گیا تھا۔ فرمایا، ہدیہ اس طرح دیا کرتے ہیں کہ پاس رکھ کر چلے گئے، کچھ کہا نہ سنا؟ اس نے غلطی کی معافی چاہی، تب آپ نے وہ خرچ کیا۔ (جاری)

Flag Counter