Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1436ھ

ہ رسالہ

7 - 15
جنت بلا مشقت حاصل نہیں ہوتی

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّہِ وَاللّہُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ، یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِیْ السِّلْمِ کَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ، فَإِن زَلَلْتُمْ مِّن بَعْدِ مَا جَاء تْکُمُ الْبَیِّنَاتُ فَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ، ہَلْ یَنظُرُونَ إِلاَّ أَن یَأْتِیَہُمُ اللّہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلآئِکَةُ وَقُضِیَ الأَمْرُ وَإِلَی اللّہِ تُرْجَعُ الأمُورُ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:210-207)
اور لوگوں میں ایک شخص وہ ہے کہ بیچتا ہے اپنی جان الله کی رضا جوئی میں او رالله نہایت مہربان ہے اپنے بندوں پر اے ایمان والو! داخل ہو جاؤ اسلام میں پورے اور مت چلوقدموں پر شیطان کے، بے شک وہ تمہارا صریح دشمن ہے پھر اگر تم بچلنے لگو بعد اس کے کہ پہنچ چکے تم کو صاف حکم تو جان رکھو، بے شک الله زبردست ہے، حکمت والاکیا وہ اسی کی راہ دیکھتے ہیں کہ آوے ان پر الله ابر کے سائبانوں میں اور فرشتے اور طے ہو جاوے قصہ، اور الله ہی کی طرف لوٹیں گے سب کام

ربط: ایمان کے مدّعی اہل نفاق کی صفات کے مقابلے میں اہل اخلاص کے اخلاق حسنہ کا تذکرہ ہے۔

تفسیر: الله کی راہ میں جان لٹانے والے
وَمِنَ النَّاسِ… اور لوگوں میں ایسا شخص بھی ہے جو رضائے الہٰی کی تلاش میں اپنی جان راہ خدا میں لٹانے کے لیے تیار رہتا ہے۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ حضرت صہیب رومی رضي الله عنه کی طرف اشارہ ہے، جب آپ ہجرت پر آمادہ ہوئے تو مشرکین نے راستہ روک لیا اور کہنے لگے جب تم ہمارے پاس آئے تھے تو تمہارے پاس کچھ نہیں تھا، اب ما ل لے کرکہاں جارہے ہو؟یہکیسے ہو سکتا ہے؟ حضرت صہیب رومی رضي الله عنه نے فرمایا اگر مال تمہارے حوالے کر دوں تو میرا راستہ چھوڑ دو گے ؟ قریش نے کہا، ہاں! چناں چہ آپ نے مال دے کر اپنی جان چھڑائی اور مدینہ منورہ تشریف لے آئے، جب یہ خبر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو ملی تو آپ نے فرمایا صہیب نے نفع حاصل کیا ، صہیب نے نفع حاصل کیا۔ (مستدرک للحاکم، 2/400) (یعنی مال قربان کرکے ایمان بچایا، یہ تجارت نفع مند ہے )

ربط آیات:گزشتہ آیات میں منافقین او رپھر مخلص مسلمانوں کا تذکرہ فرمانے کے بعداب سارے مسلمانوں کو عمومی خطاب کیا جارہا ہے۔ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔

تفسیر: اسلام میں پورا پورا داخل ہونے کا حکم
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِیْ السِّلْمِ کَآفَّةًاسلام ایک مکمل نظام حیات ہے ،وہ چند رسموں کا نام نہیں ،اس کا دائرہ عقائد، عبادات، معیشت، سیاست کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کیے ہوئے ہے ،ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم زبان سے تو کلمہ پڑھیں اسلام کا ، مگر عقائد وعبادات میں اپنی ”بدعتیں“ گھڑ لیں، نظام معیشت میں”سوشلزم“ کی پیروی کریں اور نظام سیاست میں مغرب سے درآمدہ ”جمہوریت“ کو سینے سے لگائیں، معاشرتی رسم ورواج اختیار کریں ہندؤوں اور مشرکوں کے، قانون فوج داری اختیار کریں ملحدین فرنگی کا ، کاروبار کے طور طریقے ہوں یہود ونصاری کے، یہ سب شیطانی قدم ہیں، جن سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔

فَإِن زَلَلْتُم… احکام شریعت کے اترنے کے بعد شیطانی جاہلی طریقوں کو اختیار کرنا الله تعالیٰ کے عذاب کو متوجہ کرنے کے مترادف ہے۔ شیطان خوش نما نعروں اور اصطلاحات کے ذریعے معروضی حقائق کی مجبوریاں بتلا کر پھسلانے کی مکمل کوشش کرے گا، اسلام کو جزوی طور پر ماننا اور بعض شعبہائے زندگی میں غیروں کے طریقوں کو اختیار کرنا، شیطان کی پیروی کرناہے، کیوں کہ شیطان نے بھی الله تعالیٰ کے تمام احکامات کا انکار نہیں کیا، صرف حضرت آدم عليه السلام کے سجدے سے انکار کیا تھا۔ ”الْبَیِّنٰتُ“ سے تمام احکام شریعت مراد ہیں ۔

ہَلْ یَنظُرُونَ إِلاَّ أَن یَأْتِیَہُمُ اللّہُ … الخ ”ھل“ یہاں استفہام کا نہیں، بلکہ قطعیت کے لیے ہے اور” قد“ قریب المعنی اور نہی کے معنی میں ہے۔ ( احکام القرآن للقرطبی، تحت آیة :210)

یہودیوں کو خطاب کیا جارہا ہے یہ رسالت محمدیہ پر ایمان لانے کے لیے کس کا انتظار کر رہے ہیں؟ کیا یہ چاہتے ہیں الله تعالیٰ بادلوں کے سائبانوں اور ملائکہ کی معیت میں نزول فرماکر فیصلہ فرمائیں؟ یہ تو قیامت ہی کے دن ہو گا۔

بعض مفسرین نے ملائکہ کی آمد اور ”قُضِیَ الأمر“کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے روز قیامت سے متعلق کیا ہے کہ واضح دلائل کے بعد بھی اب قبول حق کے لیے شاید روز قیامت کے منتظر ہیں ( اور بعض مفسرین نے ”أن یَّاتِیْھُمْ اللهُ“ میں لفظ”بأس“بمعنی عذاب مخدوف نکالا ہے ،یعنی کیا قبولِ حق کے لیے عذاب الہی کے منتظر ہیں؟(الجامع لاحکام القرآن، للقرطبی، تحت آیة رقم:210)

اہل اسلام کا متفقہ عقیدہ ہے کہ ذات باری تعالی کے لیے نہ محل ہے، نہ ظرف ،اس لیے اسلامی عقیدے کی روسے الله تعالیٰ کا ”آناجانا “،بادلوں کے سائبانوں میں ”ہونا“ متشابہات کی قبیل سے ہے ،اس پر ایمان لا کر اس کی حقیقت الله تعالیٰ کے سپرد کر دینی چاہیے۔(التفسیر الکبیر للرازی، تحت آیة رقم:210) چوں کہ یہود کے خیال کے مطابق الله تعالیٰ بادلوں کے سائبان میں اترتا ہے ،اس لیے الله تعالیٰ نے ان کی تردید انہیں کے خیالات کے مطابق فرمائی کہ کیاتم خود الله کی آمد اور اس کے عذاب کے منتظر ہو؟ چناں چہ علامہ رازی رحمہ الله تعالیٰ نے اس آیت کی تفسیر میں واضح لفظوں میں فرما دیا کہ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ یہود الله تعالیٰ کے لیے تشبیہ کے قائل تھے تو پھر کسی معنی مجازی یاکنایہ کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔(التفسیر الکبیر للرازی البقرہ: ذیل آیت:210) حقیقت بھی یہی ہے کہ یہود الله تعالیٰ کے لیے جسم کے قائل ہیں، بائبل عہد عتیق میں کئی مقامات پر الله تعالیٰ کو بادل پر سوار دکھایا گیا ہے۔ (دیکھیے زبور،104،3، بسعیاہ:19:1)

﴿سَلْ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ کَمْ آتَیْْنَاہُم مِّنْ آیَةٍ بَیِّنَةٍ وَمَن یُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّہِ مِن بَعْدِ مَا جَاء تْہُ فَإِنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ،زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُواْ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا وَیَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَالَّذِیْنَ اتَّقَواْ فَوْقَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَاللّہُ یَرْزُقُ مَن یَشَاء ُ بِغَیْْرِ حِسَابٍ﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:211-212)
پوچھ بنی اسرائیل سے! کس قدر عنایت کیں ہم نے ان کو نشانیاں کھلی ہوئی اور جو کوئی بدل ڈالے الله کی نعمت بعد اس کے کہ پہنچ چکی ہو وہ نعمت اس کو تو الله کا عذاب سخت ہے فریفتہ کیا ہے کافروں کو دنیا کی زندگی پر اور ہنستے ہیں ایمان والوں کو او رجو پرہیز گار ہیں وہ ان کافروں سے بالاتر ہوں گے قیامت کے دن او رالله روزی دیتا ہے جس کو چاہے بے شمار

ربط:گزشتہ آیات میں الله تعالیٰ نے حق کی مخالفت پر متنبہ فرمایا ہے ، حق جب پورے دلائل کے ساتھ روشن اور واضح ہو جائے توپھر اس کی مخالفت موجب سزا ہوتی ہے، جس کی ایک مثال یہاں بیان کی جارہی ہے۔

تفسیر: ناشکری کی سزا
الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو امامت کے منصب پر فائز فرمایا، پوری کائنات میں انہیں فضیلت بخشی، لیکن وہ ہمیشہ ناشکری کے بول بولتے رہے، فرعونی لشکر سے نجات ملی تو گوسالہ پرستی میں مبتلا ہو گئے ، ”منّ وسَلْوی“اترا توناک بھوں چڑھایااو رکھیتی باڑی کی مشقت میں گرفتار ہو گئے، تو رات ملی تو اس پر عدمِ اطمینان کا اظہار کیا، بالآخر کوہِ طور الٹنے کی دھمکی ملی، أنبیاء علیہم السلام کو جھٹلانے او رقتل تک کرنے لگے، ان ناشکریوں پر الله تعالیٰ نے انہیں سلطنت وحکومت اور اقتدار وغلبے کی نعمت سے محروم کر دیا، اب امامت کے منصب پر اہل ایمان فائز ہیں ، انہیں ہر لمحہ خدا کی روحانی اور مادی نعمتوں کا استحضار رہنا چاہیے، کیوں کہ جو قوم ہدایت پر ضلالت کو ترجیح دینے لگتی ہے ، ناشکری کو اپنا شعار بنالیتی ہے، وہ خدا کے عذاب سے نہیں بچ سکتی ،جس کی جھلک کبھی کبھی دنیا میں بھی دکھلادی جاتی ہے۔

وَاللّہُ یَرْزُقُ مَن یَّشَاء ُ بِغَیْْرِ حِسَابٍیہ جملہ کافروں کے باطل دعوے کا جواب ہے، جو اپنی مال داری اور خوش حالی کو حق کا معیار بنا کر تنگ دست مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں، جواب یہ دیا گیا کہ رزق کی فراوانی حق وباطل کے پہچاننے کا معیار نہیں ، دنیا میں رزق کے بڑھانے گھٹانے کے فیصلے تکوینی مصلحت کی بنا پر ہوتے ہیں، جس کے مطابق الله تعالیٰ جسے چاہتے ہیں نواز دیتے ہیں۔اگر صرف ایمان کی بنا پر اہل ایمان پر رزق کی فراوانی کر دی جائے تو شاید دنیا میں کوئی کافر نہ رہے۔

﴿کَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّہُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْنَ وَأَنزَلَ مَعَہُمُ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُواْ فِیْہِ وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ إِلاَّ الَّذِیْنَ أُوتُوہُ مِن بَعْدِ مَا جَاء تْہُمُ الْبَیِّنَاتُ بَغْیْاً بَیْْنَہُمْ فَہَدَی اللّہُ الَّذِیْنَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِہِ وَاللّہُ یَہْدِیْ مَن یَشَاء ُ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:213)
تھے سب لوگ ایک دین پر، پھر بھیجے الله تعالیٰ نے پیغمبر خوش خبری سنانے والے اور ڈرانے والے اوراتاری ان کے ساتھ کتاب سچی کہ فیصلہ کرے لوگوں میں جس بات میں وہ جھگڑا کریں اور نہیں جھگڑا ڈالا کتاب میں، مگر انہیں لوگوں نے جن کو کتاب ملی تھی اس کے بعد کہ ان کو پہنچ چکے صاف حکم آپس کی ضد سے، پھر اب ہدایت کی الله نے ایمان والوں کو اس سچی بات کی جس میں وہ جھگڑ رہے تھے اپنے حکم سے اور الله بتلاتا ہے جس کو چاہے سیدھا راستہ

ربط آیات:گزشتہ آیت میں دین حق سے اختلاف کرنے والوں کی نفس پرستی کا تذکرہ تھا، اس آیت میں ان کے تاریخی تسلسل کا ذکر ہے، دین حق سے اعراض کا یہ سلسلہ نیا نہیں، بلکہ ایک مدّت سے چلا آرہا ہے ، نفس پرست لوگ جب ذاتی مفاد کی قربانی نہیں دے سکتے تو انہیں اختلاف کی راہیں سوجھتی ہیں۔

تفسیر: شروع میں تمام انسان توحید کے قائل تھے
انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا خالص توحید سے کی ، حضرت آدم عليه السلام اورحضرت حوا علیہا السلام نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ عقیدہ توحید کی روشنی میں بسر کیا۔یہی عقیدہ ان کی اولاد میں بھی چلتا رہا، یہاں تک جہالت کے اندھیرے بڑھے اور شرکیہ توہّمات کی بنیادیں پڑیں اور عقیدہ توحید میں اختلاف کی ابتدا ہوئی، جسے ختم کرنے کے لیے الله تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام کو نبوّت کی روشنی دے کر مبعوث فرمایا، سچی کتابیں نازل فرمائیں، تاکہ حق وباطل کے مابین رونما ہونے والے اختلاف کا تصفیہ آسمانی کتاب کی روشنی میں ہو سکے، انبیا علیہم السلام کی کتابوں میں اصولی طور پر ایک ہی چیز کی دعوت دی گئی ہے ،وہ دعوت توحید ہے ،البتہ مختلف قوموں کے مزاج اور زمانے کی مصلحت کی بنا پر فروعی احکام بدلتے رہے ، یہاں تک کہ خاتم الانبیا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم قیامت تک کے لیے دین اسلام لے کر آئے ، اب عقائد میں، تصورات میں ، طریقہ زندگی میں، اقدار میں، قول فیصل بننے کا حق صرف اور صرف قرآن وسنت کو حاصل ہے، خواہشات نفس کے مریض کتاب وسنت کو معیار حق بنانے سے ہمیشہ کتراتے ہیں۔

﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَأْتِکُم مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِکُم مَّسَّتْہُمُ الْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُواْ حَتَّی یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ مَعَہُ مَتَی نَصْرُ اللّہِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللّہِ قَرِیْبٌ﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:214)
کیا تم کو خیال ہے کہ جنت میں چلے جاؤ گے، حالاں کہ تم پر نہیں گزرے حالات ان لوگوں جیسے جو ہو چکے تم سے پہلے؟ کہ پہنچی ان کو سختی اورتکلیف اور جھڑجھڑائے گئے، یہاں تک کہ کہنے لگا رسول اورجو اس کے ساتھ ایمان لائے کب آوے گی الله کی مدد،سن رکھو! الله کی مدد قریب ہے

ربط آیات:باطل معاشرے میں جب حق کی آواز اٹھتی ہے تو اسے دبانے کے لیے اہل باطل سرگرم ہو جاتے ہیں، ان آیات میں اہل ایمان کو تسلی دی جارہی ہے ، مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی جان جو کھوں میں ڈال کر بھی حق کی آواز بلند رکھے، مصائب ، تکالیف، قربانیاں اس راستے کا حصہ ہیں، آخرت کی راحت بھری زندگی کے لیے کچھ مشقتیں تو جھیلنی پڑتی ہیں۔

تفسیر:جنت بلامشقت حاصل نہیں ہوتی
جنت بغیر مشقت کے حاصل نہیں ہوسکتی، البتہ مشقت کے کئی درجات ہیں، ادنی درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر اطاعت خداوندی کو ترجیح دے کر اہل ایمان کے قافلے میں شریک ہو جائے، یہ مشقت ہر مومن کو حاصل ہے کیوں کہ ایمان اپنانے میں او راس پر ثابت قدم رہنے میں ہر مومن کو شیطانی مزاحمت او رمعاشرتی آزمائشوں کا سامنا رہتا ہے، زندگی کے نشیب وفراز میں اس سے بڑھ کر کئی مشقتیں جھیلنی پڑتی ہیں ،جس درجے کی مشقت ہو گی اسی درجے اور مرتبے کے مطابق جنت ملے گی، صحابہ کرام رضي الله عنهم عزیمت کے پیکر او ربلند درجوں کے طالب تھے، اس لیے مشقت جھیلنے کو ضروری قرار دیا گیا۔

مَتَی نَصْرُ الله ؟
پچھلی امتیں بھی ابتلاو آزمائش کے مراحل سے گزری ہیں، ان اوقات میں الله تعالیٰ اپنے بندوں کی ضرور نصرت فرماتے ہیں ، بعض اوقات انبیا علیہم السلام کو نصرت وغلبہ کے اوقات سے آگاہ نہیں کیا جاتا، اس لیے ابتلا میں انتظار نصرت کے لمحے طویل ہو جاتے تو وہ بارگاہ الہی میں عرض کرنے لگتے ”مَتیٰ نَصْرُ الله؟“ (کب آوے گی الله کی مدد؟) جس کا جواب آتا ”ألاَ إنَّ نَصْرَ الله قَرِیْبٌ“ ( سن رکھو! الله کی مدد قریب ہے) یہ گزارش شکوے کی صورت میں (نعوذ بالله) نہ تھی، بلکہ الحاح او رتضَرّع کی بنا پر ہوتی تھی۔

﴿یَسْأَلُونَکَ مَاذَا یُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَیْْرٍ فَلِلْوَالِدَیْْنِ وَالأَقْرَبِیْنَ وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَیْْرٍ فَإِنَّ اللّہَ بِہِ عَلِیْمٌ ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:215)
تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا چیز خرچ کریں؟ کہہ دو کہ جو کچھ تم خرچ کرو مال سو ماں باپ کے لیے اور قرابت والوں کے اور یتیموں کے او رمحتاجوں کے اورمسافروں کے اور جو کچھ کروگے تم بھلائی سووہ بے شک الله کو خوب معلوم ہے

تفسیر:الله کی راہ میں کیا خرچ کرنا چاہیے؟
ابتلا وآزمائش میں باہمی کفالت کا انتظام انفاق ہی کے ذریعے پورا ہو سکتا ہے ۔ صحابہ کرام رضي الله عنهم نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے زکوٰة کے علاوہ انفاق فی سبیل الله کی صورت دریافت فرمائی، جس کا جواب دیا گیا کہ فی سبیل الله کتنا خرچ کرنا چاہے ؟ اس کا دار ومدار تو ہر مسلمان کی اپنی ہمت پر ہے، تاہم خرچ کرنے کے کئی مواقع ہیں، اپنے اہل وعیال کی ضروریات پوری کرنے کے بعد انفاق کی ابتدا والدین اور قریبی رشتہ داروں سے کی جائے، اس سے خاندان میں اتحاد او رباہمی روابط میں استحکام پیدا ہوتا ہے ،ان کے علاوہ یتیموں، مساکین ، تنگ دست مسافروں کا تعاون کیا جائے ۔ یتیم کفالت کے ظاہری اسباب سے محروم ہوتا ہے، مسکین اپنی ہر حاجت کا اظہار نہیں کر سکتا، مسافر اجنبی شہر میں بے سہارا ہوتا ہے، ان کی ضروریات کا خیال رکھنے سے دل اور نفس پاک ہوتا ہے اور ایثار وقربانی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے ۔ انفاق فی سبیل الله کا مقصد رضائے الہٰی کا حصول ہونا چاہیے۔

﴿کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِتَالُ وَہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ وَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَعَسَی أَن تُحِبُّواْ شَیْْئاً وَہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ، یَسْأَلُونَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَصَدٌّ عَن سَبِیْلِ اللّہِ وَکُفْرٌ بِہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَہْلِہِ مِنْہُ أَکْبَرُ عِندَ اللّہِ وَالْفِتْنَةُ أَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَلاَ یَزَالُونَ یُقَاتِلُونَکُمْ حَتَّیَ یَرُدُّوکُمْ عَن دِیْنِکُمْ إِنِ اسْتَطَاعُواْ وَمَن یَرْتَدِدْ مِنکُمْ عَن دِیْنِہِ فَیَمُتْ وَہُوَ کَافِرٌ فَأُوْلَئِکَ حَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ فِیْ الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ وَأُوْلَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ، إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُواْ وَجَاہَدُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ أُوْلَئِکَ یَرْجُونَ رَحْمَتَ اللّہِ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ ﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:218-216)
فرض ہوئی تم پر لڑائی اور وہ بری لگتی ہے تم کو اور شاید تم کو بری لگے ایک چیز اوروہ بہتر ہو تمہارے حق میں اور شاید تم کو بھلی لگے ایک چیز اور وہ بری ہو تمہارے حق میں اور الله جانتا ہے او رتم نہیں جانتے تجھ سے پوچھتے ہیں مہینہ حرام کو کہ اس میں لڑنا کیسا ہے؟ کہہ دے لڑائی اس میں بڑا گناہ ہے اور روکنا الله کی راہ سے اوراس کو نہ ماننا اور مسجد الحرام سے روکنا او رنکال دینا اس کے لوگوں کو وہاں سے، اس سے بھی زیادہ گناہ ہے، الله کے نزدیک اور لوگوں کو دین سے بچلانا قتل سے بھی بڑھ کر ہے اور کفار تو ہمیشہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے، یہاں تک کہ تم کو پھیر دیں تمہارے دین سے اگر قابو پاویں اور جو کوئی پھرے تم میں سے اپنے دین سے پھر مر جاوے حالت کفر ہی میں ،تو ایسوں کے ضائع ہوئے عمل دنیا اور آخرت میں اور وہ لوگ رہنے والے ہیں دوزخ میں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے بے شک جو لوگ ایمان لائے او رجنہوں نے ہجرت کی اور لڑے الله کی راہ میں وہ امیدوار ہیں الله کی رحمت کے او رالله بخشنے والا مہربان ہے

تفسیر:قتال فی سبیل الله دینی ودنیاوی فوائد کا پیش خیمہ ہے
بعض اوقات کچھ چیزیں زمانہ حال میں بھاری اور شاق معلوم ہوتی ہیں، لیکن زمانہ مستقبل میں وہی چیزیں باعث خیر اور ذریعہ فوائد بن جاتی ہیں، مثلاً: کڑوی دوا پینا تکلیف دہ عمل ہے ، مگریہ تکلیف مستقبل میں صحت یابی کی امید پر قابل تحمل بن جاتی ہے، سفر کی مشقتیں ،عزیز وواقارب کا فراق اس لیے برداشت کر لیا جاتا ہے کہ سفر وسیلہ ظفر ہے ۔

یہی صورت قتال فی سبیل الله کی ہے، جس میں مصائب ہیں ، تکالیف ہیں ، مال خرچ ہو جاتا ہے، جان ہتھیلی پہ رہتی ہے، نفس انسانی کو یہ چیزیں طبعا گراں گزرتی ہیں، لیکن اسی کے دم سے توحید کا غلغلہ اٹھتا ہے، انسان بندوں کی غلامی سے نکل کر خالق کی غلامی میں آتے ہیں ، عزت، وقار، مالِ غنیمت، اقتدار نصیب ہوتا ہے ۔ اگر اہل ایمان مختلف حیلے بہانوں سے جہادی فریضے کی مشقت سے اپنی جان چھڑا لیں گے، تن آسانی وعیش پرستی کا لبادہ اوڑھ لیں گے ،تو اس کا وقتی فائدہ بس اس قدر ہو گا کہ جان ومال محفوظ ہو جائے گا ،لیکن جب کفار ہماری کمزوری بھانپ لیں گے تو ہمارے ملک پر حملہ آور ہوں گے یا مختلف مطالبات او رمعاہدے کراکرذلّت کی زندگی گزار نے پر مجبور کریں گے، جو ہر اعتبار سے گھاٹے کا سودا ہے، کفار کے شر سے محفوظ اورمامون رہنے کا ایک ہی راستہ ہے ۔ وہ ہے قتال فی سبیل الله۔﴿ والله یعلم وانتم لا تعلمون﴾ الله تعالیٰ کے ہر حکم کی مصلحت جاننا ضروری نہیں، بلکہ مصلحت جانے بغیر اس کی اطاعت ضروری ہے۔ (جاری)

Flag Counter