Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1436ھ

ہ رسالہ

8 - 15
اطاعت و اتباع نبوی صلى الله عليه وسلم

مولانا خالد سیف الله رحمانی
	
اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے جہاں اپنی کتاب نازل فرمائی ،وہیں اس کی تشریح و توضیح بھی فرمائی اور اس کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لیے اپنے پیغمبروں اور رسولوں کو بھیجا،انبیاء کی حیثیت مرضیاتِ خداوندی کے ترجمان کی ہے اور ان کا حق ہے کہ ان کی اطاعت وفرماں برداری اور اتباع و پیروی کی جائے ،رسول کی نسبت سے امت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے،رسول بھیجے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ ان کی اطاعت کی جائے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن مجید نے صاف طور پر کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اہل ایمان کے لیے سراپا نمونہ ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ہے۔ (الاحزاب:21)، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی اللہ کو محبوب رکھنے کا معیار اور خود اللہ کے محبوب بننے کا ذریعہ ووسیلہ بھی ہے۔(آلِ عمران:31)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و پیروی کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اگر آج حضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی ہماری اتباع سے چارہ نہ ہوتا”لو أن موسیٰ کان حیا ما وسعہ اِلا أن یتبعنی․“(مسند احمد :3/387)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و نافرمانی ہی جنت میں داخل ہونے اور اس سے محروم ہونے کی بنیاد ہے ،چناں چہ حضرت ابو ہریرہ  سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میری پوری امت جنت میں داخل ہوگی، سوائے انکار کرنے والوں کے ،لوگوں نے عرض کیا کہ انکار کرنے والے کون ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”من أطاعنی دخل الجنة، ومن عصانی فقد ابیٰ“جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو ا اور جس نے نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔“(بخاری مع الفتح،حدیث نمبر :7280)؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی خود اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک خواب ذکر کرتے ہوئے اس کی تعبیر بیان فرمائی اور ا س تعبیر میں واضح طور پر بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اللہ کی اطاعت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔” من أطاع محمداً فقد أطاع الله، ومن عصیٰ محمداً فقد عصیٰ الله“․(بخاری مع الفتح ،حدیث نمبر :7281)

اتباع نبوی کا ایک پہلو فکری اعتبار سے ”حدیث“ کو حجت و دلیل تسلیم کرنا ہے ،قرآن کو ہدایت کے لیے کافی سمجھنا اور اتباع قرآن کے نام پر حدیث کا انکار کرجانا نہایت ہی سنگین قسم کی گم راہی ہے، حضرت ابو رافع  سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایسا نہ ہو کہ میں تم میں سے کسی کو اپنی مسہری پر ٹیک لیا ہوا پاؤں کہ جب اس کے پاس میرا کوئی حکم یا میری کوئی ممانعت آئے تو کہے کہ مجھے یہ نہیں معلوم ، ہم تو اس کی پیروی کرتے ہیں، جو کتاب الله میں ہے،”ماوجدناہ فی کتاب الله اتبعناہ“ (أبوداود،حدیث نمبر:4065)اسی طرح حدیث کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے لیے انسان اپنی عقل کو تاہ کو پیمانہ بنائے ،بلکہ جب بھی کوئی بات حدیث کے ذریعہ پہنچے اسے سرمہٴ چشم بنائے،اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے سیدنا حضرت علی  نے فرمایا کہ دین کی بنیاد رائے پر ہوتی تو موزے کے نیچے کے حصہ کا مسح قابل ترجیح ہوتا بمقابلہ اوپر کے حصہ کے ؛لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے (أبوداود،حدیث نمبر162)،کیوں کہ انسان کا علم اور اس کی عقل کو تاہ ہے اور رسول کے علم کا ماخذ اور سر چشمہ علم الہٰی ہے،جس میں نقص اور کوتاہی کا کوئی امکان نہیں!

اتباع نبوی کا ایک پہلو یہ ہے کہ زندگی کے تمام مسائل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور و طریق کے مطابق عمل کیا جائے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُصولی طور پر بھی اس کی ترغیب دی کہ میرے طریقہ کو اختیار کرو”علیکم بسنتی“(أبو داود،حدیث نمبر:4067)،اور مختلف مسائل کے بارے میں بھی اس کی تلقین فرمائی،چناں چہ ارشاد فرمایا کہ جیسے تم مجھے نماز پڑھتے دیکھو اسی طرح نماز پڑھو”صلواکما رأیتمونی أصلی“(بخاری مع الفتح،حدیث نمبر :6008)،یا جیسے حج کے بارے میں فرمایا کہ شاید پھر اس کے بعد میں حج نہ کر سکوں،اس لیے مجھ سے طریقہٴ حج سیکھ لو”لتاخذو وامناسککم“ (مسلم، حدیث نمبر :1297)،ائمہ مجتہدین اور فقہاء ومحدثین نے جو محنتیں کی ہیں ،ان کا ماحصل یہی ہے کہ انہوں نے اپنی جستجو وتحقیق کے مطابق سنتِ نبوی کو دریافت کرنے اور حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے اور جو اختلاف رائے واقع ہوا ہے وہ سنت کے مقابلہ میں اپنی رائے کی اتباع نہیں ہے،بلکہ بعض افعال میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سے زیادہ طریقے منقول ہیں،فقہاء نے اپنے ذوق اور تحقیق کے مطابق ان میں سے کسی ایک طریقہ کو اختیار کیا ہے ،اس لیے یہ اختلاف بھی اتباعِ سنت کے دائرہ میں ہی ہے، نہ کہ اس سے باہر۔

اتباع سنت کا کا دوسر ا پہلو یہ ہے کہ کہ معاملات و اخلاق اور زندگی کے دوسرے مسائل میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو اختیار کیا جائے،صحابہ کے جذبہٴ اتباع کا حال یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر کوئی فعل طبعی طور پر ثابت ہوتا تو اس کی بھی اتباع کرنے کی کوشش کرتے،حضرت علی  نے سواری پر سوار ہونے کے بعد سواری کی دعا پڑھی اور دعا پوری ہونے کے بعد ہنسنے لگے،دریافت کیا گیا کہ آپ کے ہنسنے کا باعث کیا ہوا؟حضرت علی  کے جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہنسے تھے۔(ترمذی،حدیث نمبر:3146)، حضرت عبداللہ بن عمر سے بخاری میں طویل روایت منقول ہے،اس کا حاصل یہ ہے کہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے ان تمام مقامات پر اُتر اُتر کر نماز ادا کرتے تھے،جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دورانِ سفر نماز ادا فرمائی تھی۔

گو سنت نبوی کی مخالفت مقصود نہ ہوتی،لیکن بظاہر احترام سنت کے خلاف کوئی عمل محسوس ہوتا تو یہ بات بھی صحابہ کرام کو برداشت نہ ہوتی ،عبد اللہ بن عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ اگر تمہاری عورتیں مسجد جانا چاہیں تو تم انہیں نہ روکو،ان کے صاحب زادے بلال  کہنے لگے کہ لیکن ہم تو انہیں روکیں گے ،بلال کا مقصد حدیث نبوی کی مخالفت نہیں تھی؛بلکہ مقصود یہ تھا کہ اخلاقی حالات میں جو تبدیلی پیدا ہوئی ہے ،اس کے پیش نظر میں مسجد جانے سے منع کروں گا،لیکن حضرت عبد اللہ بن عمر سخت ناراض ہوئے اور راوی کہتے ہیں کہ اس بات پر انہیں اتنا برا بھلا کہاکہ کہ اتنا برا بھلا کہتے ہوئے انہیں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ (مسلم،حدیث نمبر :1259)،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو بہت پسند تھا،امام ابو یوسف نے اپنے صاحب زادے سے نقل کیا،انہوں نے کہا کہ مجھے کدو زیادہ پسند نہیں ہے،حالاں کہ اس کا تعلق طبعی پسند و ناپسند سے ہے ،لیکن پھر بھی امام ابو یوسف کو یہ بات پسند نہ آئی اور ان سے گفتگو کرنا چھوڑ دیا۔

صحابہ کرام  کے عمل کرنے کے لیے یہ بات کافی ہوتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا ہو،حضرت عبداللہ بن عمر  سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں سونے کی انگوٹھی بنائی،لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنائی،پھر جب آپ نے اس کے حرام ہونے کا اعلان فرمایا اور اپنی انگوٹھی پھینک دی تو تمام صحابہ کرام  نے اپنی انگوٹھیاں پھینک دی۔ (بخاری مع الفتح،حدیث نمبر 7298)،اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام  کو احساس تھا کہ یہ صورت اہل مکہ کے حق میں ہورہی ہے اور مسلمانوں کو گر کر صلح کرنی پڑرہی ہے،اس لیے صحابہ  احرام کھولنے اور سر منڈانے کو تیار نہیں تھے،ام الموٴمنین حضرت ام سلمہ کے مشورے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیمہ سے باہر نکلے،قربانی فرمائی اور بال منڈایا،یہ دیکھتے ہی صحابہ کرام  نے بھی اپنے بال منڈا لیے۔(بخاری مع الفتح ،حدیث نمبر :2731)

صحابہ  کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کا اس قدر لحاظ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معمولی سی ناگواری ان کو متنبہ کرنے کے لیے کافی ہوتی تھی،حضرت عبداللہ وبن عمر بن العاص کے جسم پر کسم کے رنگ کی ایک چادر تھی،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کسی قدر ناگواری کا اظہار فرمایا، گھر واپس آئے تو چولہا سلگا ہوا تھا، چناں چہ اسی چولہے میں چادر ڈال دی، دوسرے روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عورتوں کو دے دیا ہوتا ،کیوں کہ ان کے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (ابوداؤد:کتاب اللباس ،حدیث نمبر :4068)، ایک انصاری کے مکان کے پاس سے گذر ہوا ،جنہوں نے اونچا گنبد نما حجرہ بنا رکھا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ مکان کس کا ہے؟لوگوں نے ان انصاری صحابی  کا ذکر کیا ،پھر جب وہ صحابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ نے یک گونہ بے رخی برتی ،دوسرے صحابہ سے وجہ دریافت کی،معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گنبد نما تعمیر کی وجہ سے گرانی برتی ہوئی ہے ،وہ گھر گئے،اس عمارت کو ڈھا کر زمین کے برابر کردیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر بھی نہیں کیا،اتفاق سے چند دنوں بعد پھر وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وہ گنبد والی تعمیر نہیں دیکھی تو وجہ دریافت کی، صحابہ  نے صورتِ حال عرض کردی،آپ نے ارشاد فرمایا کہ ضرورت و مجبوری کی تعمیر کے علاوہ ہر تعمیر آدمی کے لیے وبال ہے۔ (ابن ماجہ:ابو اب الزھد،باب فی البناء والخراب،حدیث نمبر:4161)

اس طرح کی کتنی مثالیں صحابہ  کی زندگی میں موجود ہیں ،لیکن آج مسلمانوں کی صورتِ حال کیا ہے؟زندگی کے ہر شعبہ میں سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن ہمارے ہاتھ سے چھوٹا ہوا ہے ،ہماری زبان حب نبی کے دعوی سے سرشار ہے ؛مگر ہماری عملی زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع سے خالی ہے ،ہماری عبادتیں بے روح ہیں،ہماری اخلاقی پستی غیر مسلم معاشرہ کو بھی شرمندہ کرتی ہے،معاملات میں ہم اس قدر کھوئے اور حلال و حرام کی سرحدوں سے بے پروا ہیں ،دوسری قومیں ہم سے معاملات کرنے میں تأمل کرتی ہیں ،غرض ہمارا دین کتابوں میں ہے، نہ کہ ہماری زندگی میں، قول و فعل کا یہی تضاد دوسری قوموں کے دامن اسلام میں آنے سے رکاوٹ بنا ہوا ہے،اس لیے اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہی ہے کہ ہم عملی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کا راستہ اختیار کریں اور دوسری قوموں کی اتباع اور ان کی نقل سے اپنے آپ کو بچائیں!!

Flag Counter