فتنہ غامدیت اور فتنہ قادیانیت
محترم عبدالله معتصم، ملتان
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو عباسی دور حکومت میں جب فلسفہٴ یونان عربی زبان میں منتقل ہوا تو اس کے ردعمل میں مسلمان دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک بڑی اکثریت نے تو اسے قرآن وسنت سے متصادم پاکر اس کے تاروپود بکھیر دیے اور یکسر مسترد کر دیا۔ دوسرے گروہ نے اس کی معقولیت سے مرعوب ہوکر گھٹنے ٹیک دیے۔ پہلا گروہ اہل سنت والجماعت کے نام سے موسوم ہوا اور دوسرے نے فرقہ معتزلہ کے نام سے شہرت پائی۔ معتزلہ نے عقل کو اصل قرار دے کر شریعت کو اس کے تابع کیا۔ کیوں کہ یونانی فلسفہ کے اعتقادات وافکار، اسلامی عقائد وافکار سے یکسر مختلف تھے اور ان کو فروغ دینے کے لیے ایک بہت بڑی رکاوٹ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی ،جو قرآن کی حتمی تعبیر کی شکل میں مسلمانوں کے پاس محفوظ اور ان میں رائج تھی۔ چناں چہ انہوں نے انکار سنت کی راہ اپنائی۔ نتیجے کے طور پر یونانی فلسفے کی روشنی میں جدید اصولوں کی بنیاد پر معتزلہ کا ایک نیا اسلام وجود میں آیا۔ جس کا کوئی تصور صحابہ کرام اور ائمہ کرام کے دور میں موجود نہ تھا۔ خلافت عباسیہ کے دور میں حکومتی سرپرستی کی وجہ سے اس فرقہ کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ لیکن ائمہ کرام کی انتھک محنتوں اور بے مثال قربانیوں کی وجہ سے یہ فرقہ زیادہ عرصے تک چل نہ سکا۔ ایک تاریخی واقعے کی حیثیت سے کتابوں کے صفحات تک محدود رہ گیا۔
انیسویں صدی میں جب سائنس نے پاپائیت کے نرغے سے نکل کر عملی تفوّق پایا تو اس کے اثرات عالمگیر سطح پر مرتب ہوئے۔ سائنس کو کام یابی کی معراج سمجھا جانے لگا۔ پہلے کی طرح اس بار بھی مسلمانوں کی طرف سے دو طرح کا طرز عمل سامنے آیا۔ ایک طرف راسخ اور پختہ فکر علماء تھے، جنہوں نے واضح کیا کہ مذہب کی بنیاد وحی ہے۔ دنیا کی کوئی مسلمہ حقیقت وحی کے خلاف نہیں ہوسکتی۔ ان حضرات میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا سید حسین احمد مدنی کے اسمائے گرامی نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ اس کے مقابلے میں دوسرے گروہ نے اپنی مرعوبانہ ذہنیت کے مطابق سائنسی نظریات کو مسلمہ حقائق کا درجہ دے کر وحی کو ان کے مطابق ڈھالنے کی تدابیر شروع کر دیں۔ اس گروہ کے سرخیل سرسید احمد خان اور خوشہ چینوں میں حمید الدین فراہی اور امین حسن اصلاحی سرفہرست ہیں۔ ان حضرات نے عربی لغت کے بل بوتے پر قرآن کو سمجھنا شروع کر دیا۔ ائمہ مجتہدین کی وہ تفاسیر اور تاویلات، جو حدیث اور صاحب قرآن کے مزاج کو سامنے رکھ کر کی گئی تھیں ان کو ائمہ کے ذاتی خیالات واجتہادات کہہ کر نظرانداز کر دیا۔ اپنی ضرورت اور چاہت کے مطابق قرآن کی تفسیر اور شریعت کی وضاحت شروع کی۔
امین حسن اصلاحی اور حمیدالدین فراہی کا ایک خوشہ چیں ”محمد شفیق عرف کاکو شاہ ککے زئی“ تھا۔ جس کی گھٹی میں ہر دو حضرات نے انکار حدیث، تجدد پسندی، لغت پرستی اور شریعت کی من چاہی تعبیر کا سارا زہر انڈیلا تھا۔ اتنی لمبی تمہید ہم نے اسی شخصیت ”محمد شفیق عرف ککو شاہ ککے زئی“ کے تعارف کے لیے باندھی۔ یہ حضرت آج کل ”جاوید احمد غامدی“ کے نام سے مشہور ہیں۔ جن کا ٹی․وی چینلز اور سوشل میڈیا پر بڑا غلغلہ ہے۔ جن کی چرب زبانی، طلاقت لسانی اور الٹے سیدھے فلسفے سے متأثر ہوکر بہت سارے سادہ لوح مسلمان شریعت کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہوگئے۔ جو وضع قطع میں اسلامی شعائر سے عاری، نام نہاد روشن خیالی کے پرزور داعی، دینی اصولوں میں جدت وارتقا کے نام پہ من چاہی تحریف کے قائل وفاعل اور دینی احکام کی عملی تعبیر کو انتہا پسندی اور دقیانوسیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ محمد شفیق ”ککو شاہ ککے زئی“ سے جاوید احمد غامدی کیسے بنے؟ یہ ایک پر پیچ قضیہ ہے۔ ہم اس سے بحث نہیں کرنا چاہتے۔ سردست ہم غامدی صاحب کے عقائد ونظریات کا مختصر ساجائزہ لیتے ہیں۔ غامدیت اور قادیانیت کے درمیان غیرمعمولی مشابہت ومماثلت پر روشنی ڈالتے ہیں اور غامدی صاحب کی ہر مسئلہ میں الگ اور انوکھی رائے کن عزائم کی پیش خیمہ ہے، اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ غامدی صاحب نے اکثر مسائل میں وہ راہ اپنائی ہے جو اس کے پیش رو عقل پرستوں یا قادیانیوں نے اپنائی تھی۔ چند ایک مسائل کا ذکر کرتے ہیں، جن میں غامدی صاحب نے مرزائیوں کے ساتھ موافقت کی ہے۔ ہر مسئلہ میں جمہور امت کی رائے پیش کریں گے اور پھر غامدی صاحب اور قادیانیوں کا اس مسئلہ میں نقطہٴ نظر بیان کر کے قرآن وسنت کی روشنی میں اس کا جائزہ لیں گے۔
رفع ونزول عیسیٰ عليه السلام
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود بے بہبود کے ہاتھوں سے محفوظ، صحیح وسالم بچا کر الله تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھالیا ہے۔ اب تک زندہ ہیں۔ قیامت کے قریب آسمان سے ان کا نزول ہوگا اور دجال کو قتل کریں گے۔ دور نبوت سے لے کر چودھویں صدی ہجری تک سوائے چند معتزلہ اور فلاسفہ کے کسی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع ونزول کا انکار نہیں کیا۔ تیرھویں صدی میں کچھ ملحدانہ ذہن رکھنے والوں کی اکّا دکّا آوازیں سننے کو ملیں۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی اور نزول سے انکار کیا اور جن احادیث مبارکہ میں رفع ونزول کا تذکرہ تھا۔ ان کو بہ یک جنبش قلم اسرائیلیات اور ناقابل قبول قرار دے کر رد کر دیا۔ ان میں مصر کے شیخ محمد عبدہ، ان کے شاگرد علامہ رشید رضا، شیخ محمد شلتوت اور مسیلمہٴ ہند مرزاغلام احمد قادیانی اور اس کے متبعین نمایاں نظر آتے ہیں۔ مصر کے علماء حق نے ان عقل پرستوں اور فلسفے کے دلدادہ حضرات کی خوب خوب خبر لی۔ بڑی شدومد کے ساتھ ان کا رد کیا۔ مرزاغلام احمد قادیانی کا عقیدہ 1891ء تک یعنی تقریباً 52سال تک وہی تھا جو امت مسلمہ کا ہے۔ 1891ء کے بعد اس نے رفع ونزول عیسیٰ کا انکار کیا اور خود عیسیٰ بن چراغ بی بی بن بیٹھا۔ 1891ء سے پہلے کی تحریر ملاحظہ ہو: ”حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے اور ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا۔“ (براہین احمدیہ ص499، خزائن ج۱ ص593)
1891ء کے بعد مرزاقادیانی کا کیا عقیدہ تھا، ان کا جانشین مرزامحمود لکھتا ہے: ”حضرت اقدس (مرزاقادیانی) نے پہلے خود مسیح کے آسمان سے آنے کا عقیدہ ظاہر فرمایا اور بعد کی تحریروں میں لکھا کہ یہ شرک ہے۔“ (حقیقت النبوة:53)
جاوید احمد غامدی بھی رفع ونزول عیسیٰ علیہ السلام کے عقیدے کے منکر ہیں اور اس میں تردد اور تأمل ظاہر کرتے ہیں۔ چناں چہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ”حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کے بارے میں نہ صرف یہ کہ قرآن بالکل خاموش ہے۔ بلکہ اس سے جو قرائن سامنے آتے ہیں۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کے بارے میں کچھ سوالات ضرور ذہن میں پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ قرآن نے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا سے اٹھائے جانے کا تذکرہ کیا ہے۔ وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متبعین کے یہود پر غلبے کی پیشین گوئی بھی کی ہے۔ یہ نہایت موزوں موقع تھا کہ آپ کی آمد ثانی کا تذکرہ کر دیاجاتا اور اس غلبے کی پیشین گوئی بھی کر دی جاتی، جس کا ذکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کے حوالے سے روایات میں ہوا ہے… ،پھر حدیث کی سب سے پہلے مرتب ہونے والی کتاب موطا امام مالک میں حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی سے متعلق کوئی روایت موجود نہیں۔ یہ چیز بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ایک روایت میں البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب بیان ہوا ہے، جس میں آپ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو بیت الله کا طواف کرتے ہوئے دیکھا۔ ہمیں یہ خیال ہوتا ہے کہ کہیں یہی مضمون بڑھتے بڑھتے حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی میں تو نہیں بدل گیا۔“(ماہنامہ اشراق جنوری 1996ء)
دوسری جگہ خامہ فرسائی کی ہے۔ ”سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ قرآن مجید سے میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہیں کہ ان کی روح قبض کی گئی اور اس کے فوراً بعد ان کا جسد مبارک اٹھا لیا گیا تھا، تاکہ یہود اس کی بے حرمتی نہ کریں۔“ (ماہنامہ اشراق، اپریل 1995ء)
اپنی کتاب ”میزان“ جو بقول ان کے ”ربع صدی کے مطالعہ وتحقیق کے بعد لکھی ہے۔“ میں نزول کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ ایک جلیل القدر پیغمبر کے زندہ آسمان سے نازل ہوجانے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ لیکن موقع بیان کے باوجود اس واقع کی طرف کوئی ادنیٰ اشارہ بھی قرآن کے بین الدفتین کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ علم وعقل اسی خاموشی پر مطمئن نہیں ہوسکتے۔ اسے باور کرنا آسان نہیں۔(میزان ص178)
غامدی صاحب کی اس عبارت سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ رفع ونزول عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآن خاموش ہے۔ دوسری یہ کہ جو چیز قرآن میں نہ ہو وہ بھلے حدیث اور اجماع سے ثابت ہو، لیکن قابل اعتبار نہیں۔ اس لیے کہ غامدی صاحب کے نزدیک حدیث دین کا حصہ نہیں۔ رفع ونزول مسیح علیہ السلام کے حوالے سے غامدی صاحب کا یہ کہنا قرآن میں مذکور نہیں، بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ کیوں کہ قرآن میں واضح طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کا تذکرہ موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَقَوْلِہِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُولَ اللّہِ وَمَا قَتَلُوہُ وَمَا صَلَبُوہُ وَلَکِن شُبِّہَ لَہُمْ وَإِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُواْ فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوہُ یَقِیْناً، بَل رَّفَعَہُ اللّہُ إِلَیْْہِ وَکَانَ اللّہُ عَزِیْزاً حَکِیْما﴾(نساء:157،158)
چوں کہ قرآن کریم یہود ونصاریٰ میں حکم اور قول فیصل ہوکر نازل ہوا ہے۔ لہٰذا اس آیت میں یہود ونصاریٰ کے باہمی اختلاف میں فیصلہ فرماتا ہے۔ یہود کا قول ہے: ﴿انا قتلنا المسیح﴾کہ ہم نے مسیح علیہ السلام کو قتل کیا اور نصاریٰ کہتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں۔ لیکن رفع میں دو فریق تھے۔ ایک فریق کہتا تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام سولی پر قتل کیے گئے اور تمام امت کی جانب سے کفارہ ہوگئے۔ پھر تین دن بعد زندہ کر کے آسمانوں پر اٹھا لیے گئے۔ قیامت میں نازل ہوں گے۔ دوسرا فریق کہتا تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کے ہاتھوں سے محفوظ، صحیح وسالم بچا کر آسمانوں پر زندہ اٹھا لیا گیا اور دوسرا شخص ان کی جگہ مصلوب ہوا۔ پھر قیامت میں نازل ہوں گے۔ الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح (ابن تیمیہ)
الله تعالیٰ یہود اور نصاریٰ میں فیصلہ فرماتا ہے: ﴿وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ الله﴾ یعنی قائلین قتل غلطی پر ہیں۔ ان کو کچھ علم نہیں۔ محض تخمینہ اور اٹکل کرتے ہیں۔ الله تعالیٰ نے ان کو جسم سمیت زندہ آسمان پر اٹھا لیا ہے۔ یہود اور نصاریٰ کے جس فریق کا قول قتل کا تھا۔ دونوں کو بالکل غلط فرماکر اس کی نفی کر دی۔ آیت کریمہ میں لفظ ”بل“ آیا ہے ،جو ابطال ماقبل کے لیے آتا ہے۔ یعنی یہ بتانے کے لیے کہ میرا مابعد ، ما قبل سے مختلف ہے۔ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کے رفع کے تو قائل تھے۔ رفع جسمانی کے منکر تھے۔ رفع روحانی کے عقیدہ کو الله تعالیٰ نے ﴿ما قتلوہ وما صلبوہ﴾کہہ کر رد فرمایا۔ یعنی ان کی روح جسم سے نکلی نہیں تو آسمان کی طرف جائے گی کیسے؟ ﴿بل رفعہ الله﴾ سے واقعہ کی تحقیق اور منشائے غلطی کا بیان ہے۔ یعنی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے غائب ہو جانے سے غلطی میں پڑ گئے۔ الله تعالیٰ نے پہلے ان کے قتل کی نفی کی۔ ”بل“ ابطالیہ کا قبل اورمابعد متغائر ہوتے ہیں۔ قتل جسمانی اور رفع روحانی باہم جمع ہوسکتے ہیں۔ یہ متغائر نہیں۔ تغائر اسی صورت میں ہوگا کہ قتل جسمانی کی نفی اور رفع جسمانی کا اثبات ہو۔ اس لیے بل کے بعد ان کا رفع جسمانی بیان کیا۔ اس آیت سے رفع ونزول مسیح تقریباً سات طرق سے ثابت ہوتا ہے۔ اختصار کے پیش نظر اس پر اکتفا کرتے ہیں۔ احتساب قادیانیت ج۱۷ میں تفصیل اور وضاحت موجود ہے۔ من شاء فلیراجع اس کے علاوہ (نساء․59، زخرف:61، مائدہ:11، اٰل عمران:45، اٰل عمران:55، مائدہ:116،117) سے بھی یہی مضمون ثابت ہوتا ہے۔ صحیح احادیث، جو کہ ایک درجن صحابہ کرام سے مروی ہیں اورجن کو تلقی بالقبول کی وجہ سے تواتر کا درجہ حاصل ہے، بھی رفع ونزول کے مسئلے کو مبرہن کرتی ہیں۔ صرف ایک حدیث ملاحظہ ہو۔
”عن ابی ہریرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والذی نفسی بیدہ، لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلاً، فیکسر الصلیب، ویقتل الخنزیر، ویضع الجزیہ، ویفیض المال، حتیٰ لا یقبلہ احد، حتیٰ تکون السجدة الواحدہ خیراً من الدنیا وما فیہا“․
”حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! عنقریب عیسیٰ ابن مریم تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کے طور پر نازل ہوں گے۔ وہ صلیب توڑ دیں گے۔ خنزیر کو مار ڈالیں گے۔ جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ مال کی اتنی ریل پیل ہوگی کہ اسے لینے والا کوئی نہ ہوگا۔ ایک سجدہ دنیا اور اس کی ہر چیز سے بہتر ہوگا۔“ ( صحیح بخاری رقم:3448، صحیح مسلم رقم:389، ترمذی رقم:2233)
اس مسئلہ پر خلفائے اربعہ اور صحابہ کرام کا اجماع ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے ہیں۔ پھر دوبارہ تشریف لاکر دجال کو قتل کریں گے۔ اس میں کسی صحابی نے اختلاف نہیں کیا۔(مشکوٰة ص479، باب قصہ ابن صیاد، شرح السنہ ج7 ص454)
غامدی صاحب موجودہ تورات، زبور اور چاروں انجیلوں کو بالکل برحق قابل اعتبار اور قابل حجت واستدلال سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ سب خدا کی کتابیں (Word of Allah) ہیں۔ (میزان:151)
حالاں کہ اہل اسلام کا عقیدہ ان کے بارے میں یہ ہے کہ سابقہ تمام الہامی کتابیں اپنے اپنے زمانے میں خاص قوموں کے لیے ہدایت تھیں۔ پھر یہ محفوظ نہیں رہیں۔ نزول قرآن سے قبل ہی دنیا سے ناپید ہوچکی تھیں۔ اب روئے زمین پر صرف اور صرف قرآن مجید ہی الله کا کلام ہے جو محفوظ بھی ہے اور پوری انسانیت کے لیے ہدایت وراہ نما بھی ۔اب جب کہ غامدی صاحب انجیل کو الله کا کلام، قابل حجت مانتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ پھر رفع ونزول مسیح کا عقیدہ بھی مانیں اس لیے کہ انجیل سے بھی یہی عقیدہ ثابت ہوتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
”اور یہ کہہ کر ان کے دیکھتے ہوئے اوپر اٹھا یا گیا اور بدلی نے اسے(حضرت عیسیٰ کو) ان کی نظروں سے چھپا لیا اور وہ اس کو آسمان پر جاتے ہوئے تاکتے ہی تھے کہ دیکھو، دو مرد سفید پوشاک ان کے پاس آکھڑے ہوئے اور بولے اے جلیلی مردو! تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو؟ یہی یسوع تمہارے پاس سے آسمان پر اٹھایا گیا ہے۔ جس طرح تم نے اسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے اسی طرح واپس آئے گا۔“(انجیل اعمال باب:1، آیات:9تا12)
انجیل یوحنا میں ہے: ”تم سن چکے ہو کہ میں نے تم کو کہا کہ میں (آسمان کی طرف) جاتا ہوں اور تمہارے پاس پھر آتا ہوں۔“ (انجیل یوحنا باب:14، آیت:128)
ظہور مہدی علیہ الرضوان
جمہور مسلمانان عالم کا ازروئے احادیث متواترہ یہ عقیدہ ہے کہ قرب قیامت کے زمانے میں حضرت مہدی علیہ الرضوان تشریف لائیں گے۔ وہ خانوادہ سادات کے چشم وچراغ ہوں گے۔ نام محمد، والد کا نام عبدالله ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زیرامارت دجال کے خلاف جہاد کریں گے۔ مرزائیوں اور جاوید غامدی صاحب کا عقیدہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام نہیں آئیں گے۔ مرزائی تو کہتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی خود مسیح بھی تھا اور مہدی بھی۔ یعنی ان کے نزدیک مہدی مرزاقادیانی کی شکل میں آچکا ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب کہتے ہیں: ”مہدی محض ایک افسانہ ہے، جو مسلمانوں کے مابین رائج کر دیا گیا اور اب امت مسلمہ اس انتظار میں بیٹھی ہے کہ کوئی مہدی آئے اور ایک مرتبہ پھر ان کی خلافت دنیا میں قائم کر دے گا۔ قرآن مجیدمیں نزول مہدی کے بارے میں اشارةً بھی کوئی ذکر نہیں۔ اسی طرح صحیح حدیثیں بھی اس تذکرے سے یک سرخالی ہیں۔ البتہ بعض دوسرے درجے کی ایسی روایات ملتی ہیں جن میں قیامت کے قریب اس طرح کی ایک شخصیت کے پیدا ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن ان میں ایسی باتیں کہی گئی ہیں جو نہ علمی لحاظ سے درست ہوسکتی ہیں نہ عقلی لحاظ سے۔ میرا رجحان اس معاملے میں یہ ہے کہ یہ روایتیں درحقیقت اگر کچھ تھیں بھی تو سیدنا عمر بن العزیز کے بارے میں تھیں۔ ان کے زمانے کے لوگوں نے اس کا مصداق پالیا اور وہ تاریخ میں اپنا کام مکمل کر کے دنیا سے رخصت ہوگئے۔“ (ماہنامہ اشراق اکتوبر 2009ء)
غامدی صاحب، خدا جانے کیسے اتنی بڑی بات کہہ گئے کہ صحیح احادیث امام مہدی کے تذکرے سے یکسر خالی ہیں؟! اس لیے کہ امام مہدی علیہ الرضوان کا آنا تو متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ صرف دو حدیثیں ملاحظہ ہوں: عن ام سلمہ قالت: سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یقول: المہدی من عترتی من ولد فاطمة․ (ابوداوٴد ج2 ص131، ابن ماجہ ص300، باب خروج المہدی)
ترجمہ:”حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ مہدی میرے خاندان سے ہوگا یعنی اولاد فاطمہ سے۔“
عن علی قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: سیخرج من صلبہ رجل یسمّی باسم نبیکم، یشبہ فی الخلق ولا یشبہ فی الخلق، ثم ذکر یملأ الارض عدلاً․ (ابوداوٴد ج2 ص131، کتاب المہدی، مشکوٰة باب اشراط الساعة)
ترجمہ:حضرت علی نے فرمایا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ” آپ کی صلب سے ایک شخص نکلے گا جو آپصلی اللہ علیہ وسلم ہی کے نام سے موسوم ہوگا اور اخلاق میں آپ کے مشابہ ہوگا۔ مگر خلقت میں نہیں ہوگا۔ وہ زمین کو عدل سے بھر دے گا۔“
امام مہدی علیہ الرضوان کے متعلق وارد احادیث کے بارے میں امام شوکانی فرماتے ہیں: ”فتقرر ان الاحادیث الواردة فی المہدی المنتظر متواترة“ (کتاب الازعة ص77)
غامدی صاحب نے یہ جو گل افشانی کی ہے کہ میرا رجحان یہ ہے امام مہدی علیہ الرضوان کی روایات حضرت عمر بن العزیز کے بارے میں ہیں۔ بالکل غیرمعقول بات ہے۔ اس لیے کہ حدیث میں صراحت ہے کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان حضور صلى الله عليه وسلم کے خاندان میں سے ہوں گے اور حضرت عمر بن العزیز تو خاندان بنی امیہ میں سے تھے۔ وہ ان احادیث کا مصداق کیسے ہوسکتے ہیں؟
مسیح دجال
اہل اسلام کا نظریہ ہے کہ دجال معہود ایک کانا شخص یہودی النسل ہوگا اور یہودی اس کی اتباع کریں گے۔ آخر زمانے میں بڑا فتنہ برپا کرے گا۔ خدائی کا دعویٰ کرے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتر کر اسے قتل کریں گے اور یاجوج ماجوج دو مخصوص قومیں ہیں۔ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بددعا سے سب یک لخت مر جائیں گے۔ تمام جہاں میں تعفن اور ان کی لاشوں کی بدبو پھیل جائے گی۔ (الیٰ آخر الحدیث مسلم ج2 ص402)
جاوید غامدی اور مرزاقادیانی کا عقیدہ دجال اور یاجوج ماجوج کے بارے میں قریب قریب ایک جیسا ہے۔ مرزاقادیانی کہتا تھا۔ ”دجال عیسائی پادریوں کا گروہ ہے۔“(ازالہ اوہام ص296، خزائن ج3 ص366)
”اور یاجوج ماجوج انگریز اور روس ہیں۔“ (ازالہ اوہام ص502، خزائن ج3 ص369)
”یاجوج ماجوج مغربی اقوام (نصاریٰ) ہیں۔“(حقیقت الوحی ص64، خزائن ج22 ص498)
غامدی دجال اور یاجوج ماجوج کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”نبیصلی اللہ علیہ وسلمنے قیامت کے قریب یاجوج ماجوج ہی کے خروج کو دجال کے خروج سے تعبیر کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یاجوج وماموج کی اولاد یہ مغربی اقوام، عظیم فریب پر مبنی، فکر وفلسفہ کے علم بردار ہیں اور اسی سبب سے نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دجال (عظیم فریب کار قرار دیا) قرار دیا۔“ (بحوالہ غامدیت کیا ہے؟)
غامدی صاحب اور قادیانی نے دجال کے شخص معین ہونے کا انکار کیا۔ حالاں کہ صحاح ستہ کی احادیث میں دجال کو شخص معین بتایا گیا ہے اور باقاعدہ اس کا حلیہ، جسامت اور قد کاٹھ کی صراحت کی گئی ہے۔
٭...”عن عبادة بن الصامت انہ حد ثہم ان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قال: انی قد حدّثتکم عن الدجال حتّٰی خشیت ان لا تعقلوا ان مسیح الدجال رجل قصیرہ افحج،جعد اعور ممسوح العین لیس بناتئة ولا حجراء، فان لبس علیکم فاعلموا ان ربکم لیس بأعور (ابوداوٴد ج2 ص134، باب خروج الدجال)
ترجمہ:”حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تحقیق میں نے تم کو دجال کے متعلق بہت کچھ بیان کیا۔ یہاں تک کہ میں ڈرا کہ تم سمجھ نہ سکو گے۔ تحقیق مسیح دجال ایک پستہ قد آدمی ہوگا جو ٹانگیں پھیلا کر چلے گا۔ گھنگھریالے بال، کانا، ہموار آنکھ والا کہ زیادہ باہر نکلی ہوگی اور نہ پچکی ہوئی ہوگی۔ اگر تم کو اشتباہ ہو تو جان لو (کہ دجال کانا ہے اور) تمہارا رب کانا نہیں ہے۔“
٭...حضرت عبدالله بن عمر سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ آپ نے حمد وثنا بیان کی، جیسا کہ بیان کرنے کا حق ہے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا تذکرہ کیا اور فرمایا: ”انی انذر کموہ وما من نبی الا وقد انذر قومہ لقد انذر نوح قومہ، ولکن سأقول لکم فیہ قولاً لم یقل نبی لقومہ، اتعلمون انہ اعور، وان الله لیس بأعور․“(بخاری، کتاب الجہاد)
ترجمہ:”کہ میں تمہیں اس (دجال) سے ڈراتا ہوں۔ کوئی نبی ایسا نہیں گذرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا نہ ہو۔ یقینا حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا تھا۔ لیکن میں تمہیں دجال کے بارے میں ایک ایسی بات بتا رہا ہوں جو کہ کسی نبی نے اس سے پہلے اپنی قوم کو نہیں بتائی۔ تم جان لو کہ دجال کانا ہے اور (معاذ الله) الله سبحانہ وتعالیٰ کانا نہیں ہے۔“
صرف صحاح ستہ میں بہت ساری احادیث ہیں جو دجال کے شخص معین ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اختصار کے پیش نظر صرف یہ دو ذکر کیں۔ مسلمانوں کے علاوہ عیسائی دنیا بھی جس دجال کو اپنی کتابوں کے حوالے سے جانتی ہے وہ ایک معین شخص ہے، نہ کہ یاجوج ماجوج اور امریکہ۔ غامدی صاحب کو صاحب قرآن کی دجال کے حوالے سے یہ احادیث ماننی چاہیے۔ قادیانیوں کی طرح معقولیت کے ڈھکوسلوں اور ظاہر پرستی کی بھول بھلیوں میں پڑنے کے بجائے امت مسلمہ کے اجتماعی موقف کو تسلیم کر لیں۔
جہاد فی سبیل الله
امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کہ جہاد کا مسئلہ جو قرآن، احادیث اور آثار میں بیان ہوا ہے، بالکل برحق ہے۔ اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ قیامت تک فرض رہے گا، علی وجود الشرائط۔ جہاد کے متعلق غامدی کانظریہ اور مرزاغلام احمد قادیانی کا نظریہ سرتاسر مماثل ہے۔ دونوں جہاد کا انکار کرتے ہیں۔ جاوید غامدی لکھتے ہیں: ”انہیں (نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو) قتال کا جو حکم دیاگیا اس کا تعلق شریعت سے نہیں، بلکہ الله تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے۔“ (میزان ص264)
مزید لکھتے ہیں: ”یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق (کفار) کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے انہیں محکوم اور زیردست بنا کر رکھنے کا حق اب ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے۔“ (میزان ص270)
لوگوں کی تکفیر اور ان کے خلاف محض ان کے کفر کی وجہ سے جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین کو قتل کرنے یا ان پر جزیہ عائد کر کے انہیں محکوم اور زیردست بنا کر رکھنے کا حق بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ (ماہنامہ اشراق اگست 2009ء)
غامدی صاحب کی تحریر یہ ظاہر کرتی ہے کہ جہاد دور نبوت میں ہوا ہے۔ اس کے بعد اگر مسلمانوں نے کچھ لوگوں کو غلطی سے کافر سمجھ کر ان کے خلاف جہاد وقتال کیا۔ یا ان سے مال غنیمت حاصل کیا۔ یا ان سے جزیہ وصول کیا۔ تو ان کے یہ سارے کام غیرشرعی، غیر اخلاقی اور خلاف قرآن ہیں۔ اس لیے کہ دور نبوت کے بعد جہاد کی حقیقت نہ رہی۔ یہ محض جھگڑا اور تخریب کاری ہے۔ جہاد کے متعلق یہی نظریہ جاوید غامدی کے پیش رو مرزاقادیانی کا بھی تھا۔ اس نے کہا تھا #
اب چھوڑ دو اے دوستو! جہاد کا خیال
دین کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص26، خزائن ج17 ص76)
نیز لکھتا ہے: ”یہ بات تو اچھی ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ کی مدد کی جائے اور جہاد کے خراب مسئلہ کے خیال کو دلوں سے مٹایا جائے۔“ (اعجاز احمدی ص34، خزائن ج19 ص144)
مرزاقادیانی نے انگریز سرکار کی خوش نودی کی خاطر جہاد کو حرام قرار دیاتھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آج غامدی صاحب امریکہ، یورپی یونین، اسرائیل اور بھارت کی رضا اور تعاون حاصل کرنے کے لیے جہاد وقتال کے فریضے کا انکار کر رہے ہیں اور اسے حرام اور خلاف شرع قرار دے رہے ہیں۔
دیکھیے! کس قدر مشابہت اور مماثلت ہے۔ مرزاقادیانی اور جاوید غامدی کے درمیان کہ دونوں ہی بیک زبان جہاد کو حرام کہہ رہے ہیں۔ جہاد کی فرضیت اور وجود یوم قیامت تک جاری رہنے کی قرآن کریم کی دو آیتیں اور ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔
﴿کتب علیکم القتال﴾ (بقرة:216)”اے مسلمانو! تم پر قتال (جہاد) فرض کیاگیا ہے۔“
﴿قاتلوا الذین لایوٴمنون بالله ولا بالیوم الاٰخر…﴾ (توبہ:29) (اے مسلمانو!) تم لڑو ان اہل کتاب سے جو نہ الله پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ آخرت کے دن پراور ان چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے۔ جنہیں الله اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور نہ سچے دین کو مانتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مغلوب ہوکر خود اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور چھوٹے (ذلیل) بن کر رہیں۔“
عن ابی ہریرة قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: من مات ولم یغز ولم یحدث بہ نفسہ مات علیٰ شعبة من نفاق․ (صحیح مسلم) ”جو بندہ اس حال میں مر جائے کہ اس نے جہاد نہیں کیا اور جہاد کا خیال بھی اس کے خاطر میں نہیں آیا تو وہ منافق کی موت مرا۔“ قادیانی فتنہ انگریزوں کے اشارے پر برپا کیا گیا تھا، تاکہ مسلمانوں کے دل سے جذبہ جہاد کو ختم کیا جا سکے۔ قادیانی نے انگریزوں کی نمک خواری کا پورا پورا حق ادا کیا اور جہاد کو حرام قرار دے دیا۔ آج کل جاوید غامدی صاحب وہی کام کر رہے ہیں۔ اپنے آقاوٴں کی غم خواری اور نمک حلالی کر رہے ہیں۔ (جاری)