سورہ فاتحہ ، ہدایت کی دعا
شیخ الحدیث حضرت مولاناسلیم اللہ خان مدظلہ
سورہٴ فاتحہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد ﴿إِیَّاکَ نَعْبُدُ وإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ کے دو جملے ارشاد فرمائے گئے ہیں، اس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ چوں کہ اللہ ہی رب العالمین ہیں، وہی رحمن ورحیم اور مالک یوم الدین ہیں، لہذا وہی عبادت کا استحقاق رکھتے ہیں اور ہم ان ہی کی عبادت کرتے ہیں اور چوں کہ وہی انسان کی مقصد براری کر سکتے ہیں اور حاجت روائی فرماسکتے ہیں، اس لیے ان ہی سے مدد مانگتے ہیں، یہ اللہ کا کتنا بڑااحسان اور عنایت ہے کہ اس نے خود ہی اپنے بندوں کو اس بات کی تلقین کی کہ تم صرف اللہ ہی کی عبادت کو اپنا مقصود بناؤ اور صرف اللہ ہی سے مشکل کشائی اور مقصد براری کی درخواست کرو اگر یہ امر انسان کی عقل پر چھوڑ دیا جاتا تو معلوم نہیں وہ کیا فیصلہ کرتا اور ان میں کتنا اختلاف ہوتا اور وہ گم راہیوں کے کس کس غار میں جاگرتا ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خود ہی بتادیا کہ وہی رَبِّ الْعَالَمِیْن ہے، وہی رَحْمن ورحِیْمہے اور مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہے، لہٰذا وہی مستحق ہے عبادت کااور وہی حق دار ہے جس سے درخواست کی جائے کہ وہ ہماری حاجت اور مشکل کشائی کرے۔
لیکن صورت حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتادینے کے بعد بھی انسانوں میں کتنے گروہ ایسے موجود ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی معرفت سے محروم ہیں، عظمت و کبریائی سے ناواقف ہیں، غیروں کے در پر جا کرجبیں سائی کرتے ہیں، ان سے مشکل کشائی کی اور حاجت روائی کی درخواست کرتے ہیں، حالاں کہ غیروں میں سے کوئی بھی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ نہیں،ان میں کوئی بھی خالق نہیں، وہ سب مخلوق ہیں، سب محتاج ہیں، وہ سب اللہ کی ملک میں داخل ہیں اور جب وہ ان الٰہی صفات کے حامل نہیں تو ظاہر ہے کہ پھر وہ کیسے مستحق ہوسکتے ہیں کہ ان کی عبادت کی جائے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دوسروں کی مشکل کشائی کریں؟یہ تو صرف اللہ کے اختیار میں ہے، جس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خود بتادیا ہے، اور انسانوں کی عقل پر نہیں چھوڑا ہے۔
انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کو بھیج کر خلق خدا کو یہ سبق یاد دلایا گیا ہے، لیکن کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو ادھر توجہ نہیں دیتے ، افسوس اس بات کا ہے کہ وہ لوگ جو لا الہ الا الله محمد رسول الله پڑھتے ہیں، انہوں نے خدا جانے کیا کیا تاویلیں کی ہیں اور باتیں بنائی ہیں،سیدھی سادھی بات کو پیچیدہ بنا کر قبرپرستی کا جواز فراہم کیا، بات بالکل موٹی سی ہے اور نہایت آسان ہے اور وہ یہ کہ فقط اللہ سبحانہ و تعالیٰ سجدے کا حق رکھتے ہیں۔ کسی کو حق نہیں کہ اس کے لیے سجدہ کیا جائے، صرف ایک اللہ ہی عبادت کا حق رکھتے ہیں، کوئی اس بات کا حق نہیں رکھتا کہ اس کی عبادت کی جائے، کیوں؟ اس لیے کہ کوئی خالق نہیں ہے، نہ کوئی رب ہے، نہ مالک ہے، نہ غنی ہے، سب مخلوق ہیں، کس کو انکار ہے کہ وہ مخلوق نہیں ہے؟ اپنے مخلوق ہونے سے کون انکار کرسکتا ہے؟!اللہ تعالیٰ کی طرف محتاج ہونے سے کون انکار کرسکتا ہے، اور اگر کوئی مسجد میں بیٹھ کر بھی یہ کہے کہ یہ مسجد نہیں ہے تو یہ معقول بات نہیں ہے ،اس لیے کہ وہ خود مسجد میں ہی بیٹھا ہوا ہے۔ وہاں نمازی بھی نماز کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں اور وہ پھر بھی ضد کر رہا ہے کہ یہ مسجد نہیں ہے تو اس طرح کی زبردستی کا کوئی علاج نہیں۔
اللہ کے سوا سب محتاج ہیں
یہ موٹی سے بات ہے کہ کون خالق ہے؟ اللہ۔ کون رب ہے؟الله، کون غنی ہے؟ اللہ ، دوسرے سارے اپنے وجود میں، اپنی تن درستی میں، اپنی ضروریات میں، الله کے محتاج ہیں اللہ کی مخلوق میں سب سے اشرف وافضل مخلوق سید الاولین والآخرین ، محمد رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم ہیں، آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم سے بڑی توکوئی مخلوق نہیں ہے ، کیا آپ کی زندگی چھپی ہوئی ہے ؟ نہیں بلکہ چَھپی ہوئی ہے ۔ آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی زندگی پوشیدہ نہیں۔ ظاہر ہے ،آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات سب الم نشرح ہیں، دنیا جانتی ہے کہ محمد رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم مکے میں پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑھے،جوان ہوئے، مکے میں ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کو نبوت عطا ہوئی۔نبوت ملنے کے بعد جب آپ نے توحید کی دعوت دی تو لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے دشمن ہوگئے، دعوت یہی تھی کہ الله خالق ومالک ہے، اللہ رب ہے، اللہ غنی ہے، یہی اعلان آپ کی مکے والوں سے دشمنی کا سبب بن گیا، دشمنوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو تکلیفیں پہنچائیں،اذیتیں دیں، یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنا پڑی، آپ صلی ا لله علیہ وسلم نے کیوں ہجرت کی اگر آپ محتاج نہیں تھے؟ اگر آپ صلی الله علیہ وسلم مالک کل تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ میں سب کچھ تھا او رآپ صلی الله علیہ وسلم اللہ کے حکم کے تابع نہیں تھے تو کیوں آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ تکلیفیں اٹھائیں؟ اور کیوں آپ صلی الله علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو چھوڑا؟ کیا مکہ مکرمہ کو چھوڑنے کا آپ صلی الله علیہ وسلم کو شوق تھا ؟ ہر گز نہیں۔ کیا مکہ مکرمہ سے زیادہ پسندیدہ اور زیادہ عمدہ بہترین جگہ مدینہ منورہ تھی؟ نہیں۔ مکہ میں اللہ کا گھر ہے، مکہ میں بیت الله ہے، مکہ کی سر زمین حرم پاک ہے، مکہ کی سرزمین آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا مولد اور منشا ہے۔ وہاں آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم پیدا ہوئے ہیں، مدینہ کو تو فضیلت آپ صلی الله علیہ وسلم کے جانے کے بعد ملی ہے، اس سے پہلے تو اس مقام کو کوئی فضیلت حاصل نہیں تھی، یہ ایک موٹی سی بات ہے ،جو ہر مسلمان، جس کوبھی تھوڑی شُد بُد ہے، جانتا ہے، اس نے سنا ہے کہ اللہ کے نبی جو سید الاولین والآخرین ہیں، وہ بھی اللہ کے محتاج ہیں اور اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہیں، خود اختیار نہیں رکھتے۔ قرآن مجید کی صاف صاف آیت ہے:﴿اِنَّکَ لاَ تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ الله َیَہْدِیْ مَنْ یَّشَاء ﴾․ (قصص:56)
آپ کے اختیار میں نہیں ہے کہ آپ( صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم) جس کو چاہیں ہدایت دے دیں، یہ تواللہ کے اختیار میں ہے۔
جگہ جگہ قرآن مجید نے کہا ۔ اعلان کرو ” اے محمد!( صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم )کہ مجھے نفع پہنچانے یا نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں“۔
یہ حقیقت صاف او ربالکل واضح ہے، لیکن اس کے باوجود کچھ ایسے لوگ جو کلمہ پڑھتے ہیں اور ہر نماز میں﴿اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیْمَ﴾ کی دعا بھی مانگتے ہیں۔ اے الله ! ہمیں صراط مستقیم پر چلائیے، پھر بھی شرک میں مبتلا ہیں، بدعات کے داعی ہیں اور پھر تاویلیں کرتے ہیں، سیدھی بات کو پیچیدہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، کون نہیں جانتا کہ محمد رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے امت کو دین کی تعلیم دی ہے؟ اس میں کہیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ کہا کہ میرے نام کی بھی نیاز دیا کرنا؟ میرے نام پر بھی نذرماننا ؟ نہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے نام پر نذر ماننے کی ہدایت دی، نہ اپنے نام کی نیاز دینے کی ہدایت کی۔ نہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی قبر کو یا اپنی ذات کو سجدہ کرنے کی اجازت دی، بلکہ سختی سے ان باتوں سے منع کیا، تو آپ کے لیے یا کسی ولی اور بزرگ کے لیے ان باتوں کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟
بچیوں کو آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک تعلیم
ایک مرتبہ خوشی کے موقعہ پر کچھ بچیاں وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جو شہدائے بدر کے لیے ان کے شہید ہونے کے بعد شعراء نے کہے تھے، ایک بچی نے کہا : ”وَ فِیْنَا نَبِیٌّ یَعْلَمُ مَا فِی غَدٍ“ ہمارے اندر ایسے نبی موجود ہیں جو مستقبل کی بات جانتے ہیں، آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:”دَعی ہذا، وقُولی بالذی کنتِ تقولِین․ “(بخاری:1)
یعنی اس کو چھوڑو اور جو تم اس سے پہلے اشعار پڑھ رہی تھیں وہی پڑھو، تو اس شعر سے ان کو منع کردیا ، حالاں کہ وہ چھوٹی بچیاں ہی تھیں، یہاں کئی باتیں آجاتی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ شادی کے اندر اگر کچھ تھوڑا بہت شغل ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ تو بھائی ! اگر تھوڑے بہت شغل کی بات ہے تو کوئی حرج نہیں، مگر یہاں تو کسی اداکارہ، فنکارہ کو بلائیں گے، نچائیں گے ، طبلہ بجوائیں گے تو اس کی کوئی اجازت نہیں ہے، بلا شبہ شادی خوشی کا موقع ہے، اس خوشی کے موقع پر اگر چھوٹی بچیاں، جن کو گانے کے فن میں کوئی مہارت حاصل نہیں ہے، وہ اگر کچھ اشعار پڑھ لیں تو کوئی حرج نہیں، ہمارے ہاں محلے کی اور دیگر رشتے دار خواتین جمع ہوتی ہیں اور پھر ڈھول، گانا بجانا سب کچھ ہوتا ہے، بلکہ میرے خیال میں یہ بھی گزری ہوئی بات ہے، اب تو آٹھ دس دن پہلے سے گانوں کی ریکارڈنگ شروع کردی جاتی ہے۔ یہ ریکارڈنگ صحیح نہیں ہے، اس کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ میں نے آپ سے عرض کیا کہ وہ چھوٹی چھوٹی بچیاں تھیں ،جو نہ گانا جانتی تھیں اور نہ ناچنا جانتی تھیں، البتہ خوشی کا موقع تھا تو اس واسطے وہ کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں، لیکن یہ تو معصوم چھوٹی بچیاں تھیں،اس لیے حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو منع نہیں فرمایا، لیکن ایک با ت اچھی طرح جان لیجیے کہ ایسے بھی کئی مواقع موجود ہیں کہ جہاں آپ نے نکیر کی ہے،اس لیے محتاط علماء اور محققین کی رائے یہ ہے کہ شادی میں گانا وغیرہ بالکل ٹھیک نہیں ہے، مگر بہر حال علماء کی ایک جماعت ہے، جو یہ کہتی ہے کہ خوشی اور مسرت کے موقع پر کچھ چھوٹی بچیاں اس طرح اشعار پڑھ لیا کریں تو کچھ حرج نہیں، اسی طرح آپ نے دیکھا ہوگا ، میلاد کی محفل بھی لاؤڈ اسپیکر پر ہوتی ہے اور وہ خواتین خانہ جو میلاد پڑھتی ہیں وہ بھی اپنی آواز کونشر کرتی ہیں، حالاں کہ عورت کی آواز عورت ہے، عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے اور اس کا لاؤڈ اسپیکر پر نشر کرنا ناجائز ہے، خواہ وہ میلاد پڑھ رہی ہو یا قرآن مجید ۔
بہرحال میرا مقصد یہ ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات میں جس بات کی قطعا گنجائش نہیں ہے اس کے لیے گنجائشیں نکالنا غلط ہے۔ لوگ باتیں بناتے ہیں اور سیدھے مسئلے کو پیچیدہ کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ جب کہ دین کی تعلیم بالکل واضح اور صاف ہے:﴿ اَلیَْوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الاِسْلاَمَ دِیْناً﴾․(سورة مائدہ پارہ:6)
ترجمہ: آج میں پورا کرچکا تمہارے لیے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنااور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کودین۔
یہ قرآن مجید کا واضح اعلان ہے اور تاویلات کرنے والے بہت زمانے سے تاویلیں کرتے چلے آرہے ہیں ، موشگافیاں کر کے غلط باتوں کی گنجائش نکال رہے ہیں، مگر الحمد لله دین کا چہرہ اپنی جگہ پر اسی طرح تاباں درخشاں اور روشن ہے جس طرح سے حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے عطا کیا تھا ۔
یہاں ہدایت کی دعا کی گئی ہے، ارے بھائی ! جب نماز پڑھا کرو تو ﴿اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیْمَ﴾ میں جو اللہ کا فرمان ہے دل سوزی کے ساتھ سوچ لیا کرو کہ اے اللہ ! سچ مچ سیدھے راستے پر مجھے چلادے ، اے الله ! میں محتاج ہوں ! آپ ہدایت دینے والے ہیں، اے اللہ ! ہدایت کے بغیر میرا کام نہیں بنے گا ، مجھے ہدایت فرمائیے اور صراط مستقیم پر چلائیے۔
﴿صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمتَ عَلَیْہِمْ﴾ ان لوگوں کے راستے پر جن پر آپ نے انعام کیا ہے اور﴿غَیْرِ المَغضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّیْن﴾ ان لوگوں کے راستے پر نہیں جن سے آپ ناراض ہوئے یا جو گم راہ ہیں، یہ نیت کیا کیجیے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم یونہی پڑھتے ہیں، اللہ اکبر کہتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس کا مفہوم کیا ہے؟ ﴿اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیْمَ﴾ پڑھتے ہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ آپ کے سامنے بار بار اس کا تکرار اسی لیے ہورہا ہے کہ سورہ ٴ فاتحہ کا مضمون ذہن میں بیٹھ جائے اور جب ہم نماز پڑھیں تو نماز پڑھتے ہوئے وہ مفہوم اور وہ مضمون ہمارے ذہن میں ہو، ہم اللہ کی تعریف کریں تو سمجھ کر کریں۔ ﴿الْحَمْدُ للّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن﴾ اور ﴿الرَّحْمنِ الرَّحِیْمِ﴾ جب ہم کہہ رہے ہیں تو ہم اللہ کی تعریف کر رہے ہیں، مستحق تعریف کے وہی ہیں اور دوسرے سب ان کے محتاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بعض انسانوں کوصفات دی ہیں ،ان صفات کے موجود ہونے پر ہم بے شک کسی انسان کی تعریف کر سکتے ہیں،لیکن اصل استحقاق تعریف کا اللہ ہی کا ہے، جس نے وہ صفات عطا کیں۔ وہ قیامت کے دن کے مالک ہیں۔
﴿مَالِکِ یَومِ الدیْن ، اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن﴾ اے پروردگار ! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ فقط تجھ سے مشکل کشائی کی درخواست کرتے ہیں اور مدد مانگتے ہیں۔ ﴿اِہْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ﴾ آپ ہمیں صراط مستقیم پر چلایئے۔ ﴿صِرَاطَ الذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ﴾ان لوگوں کا راستہ صراط مستقیم ہے جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے۔ ﴿غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالّیْنَ﴾ جن لوگوں پر آپ کا غضب اترا ہے اور جو لوگ بھٹک گئے ہیں ان کا راستہ صراط مستقیم نہیں ہے، اس کے بعد آپ آخر میں آمین کہتے ہیں۔ آمین اسی لیے کہتے ہیں کہ ا ے پروردگار ! یہ دعا جو ہم نے کی ہے اس کو تو قبول فرما۔ آمین کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ! ہماری اس درخواست کو تو قبول فرما۔
و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین !