Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم 1436ھ

ہ رسالہ

10 - 15
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
	
علمائے کرام کا وعظ وتبلیغ کی غرض سے ٹی وی پر آنا
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تصویر، شبیہ، عکس ، مورتی میں فرق اور ویڈیوز، تصویر اور ٹی وی کے متعلق کچھ مسائل کو شریعت کی روشنی میں معلوم کیا جائے، تاکہ الله رب العزت کا قانون اور راستہ واضح ہو جائے اور عوام میں طرح طرح کے اشکالات کو مدنظر رکھ کر اصل حقیقت لوگوں تک پہنچائی جائے، چوں کہ عمومی طور پر تصویر، ویڈیو وغیرہ کے متعلق علمائے کرام کے عمل اور نام سے دلیل دی جاتی ہے اور ان معاملات میں عوامی طور پر تو بالکل بھی احتیاط نہیں کی جاتی، بلکہ ہر اردو پڑھنے والا مفتی بننا چاہتا ہے اور دھڑا دھڑحلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کی سعی میں آخرت سے بے فکر ہے، اس لیے علمائے کرام کے نام سے ہی سوالات عرض کیے ہیں، گزارش ہے کہ ہر بات کا نمبر وار جواب تفصیلاً ارشاد فرما دیں، تاکہ ہم کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
1...جاندار کی مورتی، مجسمہ، شبیہ، عکس میں فرق واضح فرما دیں ؟ کیوں کہ عمومی طور پر انہی الفاظ کو آگے پیچھے فٹ کرکے اشکالات کیے جاتے ہیں۔
2...کیا شادی بیاہ، کرکٹ میچ، شادی ھال میں کھانے وغیرہ کی ویڈیوز بنانا او ربنوانا،چاہے وہ موبائل سے ہو یا ویڈیوکیمرے سے، جائز ہے؟ یا شرعی اصطلاح میں کیا ہے؟ اس کی علت اور حکم واضح فرما دیں۔
3...علمائے کرام کا تبلیغ دین، عقائد ومسائل، تصوف وسلوک کے لیے موبائل یا ویڈیو کیمروں سے ویڈیو بنوانا شریعت کی رو سے کیسا ہے؟ جب کہ ان ویڈیوز کو معاشرہ میں محرم غیر محرم کی تفریق کیے بغیر عموماً دیکھا جاتا ہے، کیا یہ ویڈیوز بنوانے والے مرد اور دیکھنے والی عورتیں بد نظری کرنے اور کروانے والی لعنت کے مستحق ہیں، اس زمرے میں نہیں آتا؟ او راگر کوئی یہ کہے کہ ہم تو کسی کو نہیں کہتے، عقیدت مند بنالیتے ہیں۔ یہ عُذر درست ہے کہ اُن کے عمل پر خاموشی اختیار کی جائے اور منع نہ کیا جائے ؟
4...کیا علمائے کرام کا ٹی وی پروگرامز میں شرکت کرنا یا وعظ وتبلیغ کے لیے ٹی وی پر آنا اور وعظ ونصیحت، عقائد ومسائل، تصوف وسلوک او راس کی اشاعت کے لیے ٹی وی کو ذریعہ کے طور پر استعمال کرنا جائز ہے کہ نہیں؟ حکم اور علت واضح فرما دیں؟ جب کہ یہاں ٹی وی پر تو بدنظری کا ذریعہ بہت بڑے پیمانے پر انسان بن جاتا ہے اور کتنے مردعورتوں پر اور کتنی عورتیں مردوں پر بدنظری کرتی ہیں اور جب کوئی عورت کسی عالم کی نصیحتیں سنرہی ہوتی ہے اور تصویر بھی دیکھ رہی ہوتی ہے تو عام مردوں کی نسبت اس کا اس بدنظری والے گناہ کی طرف احساس بھی نہیں ہوتا اور وہ نیکی سمجھ کر دیکھتی ہے، جب منع کیا جائے تو اُلٹا ملامت کرتی ہے۔
5...ٹی وی پر براہ راست نشر ہونے والے پروگرام اور پہلے سے محفوظ شدہ پروگرام کی ویڈیوز میں کیا فرق ہے؟ حکم اور علت واضح فرمادیں؟
6...ارتکابِ حرام کے سوا کوئی جائز صورت وتدبیر نہ ہو تو کیا کیا جائے؟

جواب… زمانہ ماضی میں جان دار کی ”شبیہ“ کی چار قسمیں تھیں۔
1.مورتی ومجسمہ 2. تصویر3. عکس 4. ظل اور سایہ

اب اس زمانہ میں شبیہ کی ایک اور قسم جو اسکرین پر ظاہر ہوتی ہے، وجود میں آئی ہے او رممکن ہے کہ مستقبل میں ”شبیہ“ کی کچھ او راقسام بھی وجود میں آئیں، جو اجسام لطیفہ جیسے ہوا وغیرہ پر ظاہر ہوں۔

لہٰذا اگر غور کیا جائے کہ ”شبیہ محرّم“ کی حرمت کی علت کیا ہے ؟ تو بلاشبہ رہتی دنیا تک ”شبیہ“ کی جتنی قسمیں پیدا ہوتی رہیں گی، سب کا حکم معلوم ہو جائے گا۔

جاندار کی ”شبیہ“ سے متعلق احادیثِ مبارکہ او ران کی شروح کے مطالعہ اور ان پر غور وفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علّتِ حرمت”مضاہاة لخلق الله“ ( الله پاک کی صِفتِ تخلیق کی مشابہت اور نقّالی) ہے، چوں کہ ”عکس اور ظل“ میں انسان کی صنعت واختیار کو کچھ بھی دخل نہیں، کوئی شخص جب بھی پانی یا کسی چمک دار شے کے مقابل جاتا ہے، تو خود بخود اس کا عکس بن جاتا ہے، اس لیے یہ ” شبیہ محرم“ سے خارج ہیں اور مجسمہ اور تصویر دونوں امورِ اختیار یہ میں سے ہیں، ان میں انسان کی صنعت کا دخل ہے، اس لیے یہ شبیہ محرم میں داخل ہیں، پس جاندار کی شبیہ محرم کی کامل علت وہ مضاہاة ہے، جس میں انسان کی صنعت واختیار کا دخل ہو، لہٰذا جہاں یہ علت ہو گی وہاں حرمت کا حکم ہو گا، ورنہ نہیں۔

حضراتِ فقہائے کرام نے مجسمہ، تصویر اور عکس وظل کی تعریفوں میں انسان کی صنعت واختیار کے ہونے اور نہ ہونے کے فرق کا لحاظ رکھا ہے۔

1..علامہ قرطبی۔ رحمہ الله۔ تفسیر قرطبی میں ”مجسمہ“ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”والتمثال اسم للشیء المصنوع مشبھا بخلق من خلق الله تعالی․“

اس میں مصنوع کی صراحت ہے اور یہ وہ مصنوع ہے جو انسان کی صنعت واختیار کے بعد وجود میں آتا ہے۔

2..علامہ کرمانی۔ رحمہ الله۔ ”مصور“ کی تعریف میں فرماتے ہیں:
”المصوِّر ھو الذي یصور أشکال الحیوان․“

”یصور“ میں انسان کی صنعت واختیار کی صراحت ہے۔

3..”عکس“ کی تعریف میں علامہ شامی رحمہ الله لکھتے ہیں:
”ویعبرون عنہ بالانطباع، وھو أن المقابل للصقیل تنطبع صورتہ ومثالہ فیہ، لا عینہ، ویدل علیہ تعبیر قاضیخان بقولہ: لأنہ لم یر فرجھا، وإنما رای عکس فرجھا، فافھم․( الشامیة:117/4، ط: رشیدیہ)

اس میں لفظِ ”الانطباع“ اور ”تنطبع“ دونوں بتارہے ہیں کہ عکس میں انسان کی صنعت اور اختیار کا کوئی دخل نہیں۔

مختصر تفصیل اور تعیین علت کی وضاحت کے بعد اب اسکرین پر نمودار ہونے والے منظر کی حقیقت اور حکم دونوں ظاہر ہوں گے کہ یہ ”شبیہ محرم“ یعنی تصویر میں د اخل ہے اور حرام ہے، کیوں کہ علتِ حرمت، یعنی مضاہاة لخلق الله مع صنعت واختیار، تصویر کی طرح اس میں بھی پوری کی پوری پائی جاتی ہے۔

2...شادی بیاہ، کرکٹ میچ، فٹبال میچ یا دیگر تقریبات وغیرہ میں ویڈیو بنانا اور بنوانا مطلقاً ( چاہے موبائل کے ذریعے سے ہو یا ویڈیو کیمرہ وغیرہ کے ذریعے ہو) حرام وناجائز ہے، کیوں کہ مذکورہ تفصیل کے مطابق یہ تصویر ہی میں د اخل ہیں، اس لیے ویڈیو وغیرہ بنانے سے اجتناب کیا جائے۔

3...،4.. جہاں دینِ اسلام نے ہمیں تبلیغ کا حکم دیا ہے وہاں تبلیغ کے باوقار آداب اور طریقے بھی بتلائے ہیں، اگر ان جائز ذرائع اور آداب کا لحاظ کرتے ہوئے ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کام یاب ہوتے ہیں، تو یہی مقصود ِ اصلی ہے اور اگر بالفرض جائز ذرائع کو اپنانے سے ہمیں مکمل کام یابی نہیں ملتی، تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع استعمال کرکے ہم لوگوں کو دین کی دعوت دیں، حق کی تبلیغ واشاعت صرف حق طریقوں سے ہی کی جاسکتی ہے۔

دنیا میں جس بُرائی کا رواج بڑھ جاتا ہے اسے نہ صرف جائز اور حلال کرنے کی سعی کی جاتی ہے، بلکہ اسے اسلام کی تبلیغ وترقی کے لیے ضروری قرار دیا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ اگر کسی علاقے کے لوگوں کا سرکارِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی شبیہ دیکھ کر مسلمان ہونا ممکن ہو ، تو کیا مسلمان ( العیاذ بالله) آپ صلی الله علیہ وسلم کی فرضی تصویر شائع کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے ؟ او راس فعلِ شنیع کو جائز قرار دیا جائے گا؟ قطعاً نہیں۔

لہٰذا ٹی وی، موبائل یا ویڈیو کیمروں کے ذریعے دین کی تبلیغ واشاعت جائز نہیں اور اسکرین پر نمودار ہونے والے مرد حضرات کو خواتین کے لیے دیکھنا بد نظری ہی کے زمرے میں داخل ہے ، لہٰذا اس لعنت سے بچنا چاہیے۔

5...ٹی وی پر نظر آنے والے نقوش حرام تصویر کے حکم میں داخل ہیں، چاہے براہِ راست نشر ہونے والے ہوں یا پہلے سے محفوظ شدہ ہوں، بے شمار احادیث مطلقاً تصویر کی حرمت پر دال ہیں، ان میں نہ تو ناپائیدارو غیر مستقر کا ذکر ہے اور نہ ہی پائیدار ومستقر کا، نیز احادیث میں جاندار کی تصویر بنانے کی حرمت کی ایک علت صفتِ خالقیت میں اس کی نقالی کرنا ہے اور یہ ظاہری نقالی او رمشابہت ہر دو صورتوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے، اس لیے براہِ راست نشر ہونے والے اور پہلے سے محفوظ شدہ تصویروں میں کوئی فرق نہیں، دونوں حرام ہیں۔

6...عوام کو جائز طریقوں سے باخبر رکھنا ممکن ہے، اس کے لیے ارتکاب حرام جائز نہیں، نیز حلال ملازمت کے لیے بھی بے شمار پیشے موجود ہیں، ان کو اختیار کیا جائے ، حرام سے بچنا چاہیے۔

”بسم الله“ کی جگہ786 لکھنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خطوط اور مراسلات کا سرنامہ” بسم الله الرحمن الرحیم“ ہوا کرتا تھا۔ یہاں تک کے کفار ومشرکین کو بھی جو خطوط ارسال فرماتے تو ان کی ابتدابھی اسی آیت کریمہ سے فرماتے۔ اس طرح تمام تحریرات اور مراسلات میں اس آیت کریمہ سے ابتدا کرنا سنت اور مسلمانوں کا شعار بن گیا۔ لیکن اس کو چھوڑ کر اب کچھ لوگ”786“ کا عدد یا ”باسمہ تعالیٰ“ لکھتے ہیں، حالاں کہ یہ دونوں ہی مفہوم کے اعتبار سے بالکل غیر واضح اور مبہم ہیں، کیوں کہ786 کا عدد تو بہت سے کفریہ اور شرکیہ کلمات کے حروف کا مجموعہ بھی ہو سکتا ہے۔ اور ”باسمہ تعالیٰ“ کو اس کی ضمیر کا مرجع محذوف ہونے کی وجہ سے کوئی بھی اپنے اعتقاد کے مطابق جس کو اعلیٰ سمجھتا ہے اُس کے لیے استعمال کر سکتا ہے، یہاں تک کہ ایک بُت پرست بھی اپنے بتوں کو اعلیٰ سمجھتے ہوئے سرنامہ میں یہی کلمہ لکھ سکتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ1..”786“ اور باسمہ تعالی لکھنے کا رواج کب سے اور کس وجہ شروع ہوا؟
2..رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ کو قصداً چھوڑ کر مذکورہ بالا عدد یا کلمہ لکھنا شرعاً کیسا ہے؟ کیا یہ بدعت ہے؟
3..اگر بجائے باسمہ تعالیٰ کے بسم الله تعالیٰ لکھا جائے تو کیا اس کے جواز کی گنجائش ہو گی؟

اس مسئلہ کی پوری وضاحت فرماکر ممنوں ومشکور فرمائیں۔

جواب… پہلے تمہیدی طور پر چند باتوں کا جاننا ضروری ہے، اسلام ایک آسان اور سہل شریعت لے کر آیا ہے، اس میں محنت کم اور مزدوری زیادہ، عمل مختصر اور ثواب عظیم ہے، دنیوی مشاغل میں رہتے ہوئے بھی ایک آدمی ذاکر شاغل ہو جائے، رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی قولی اور عملی تعلیمات نے انسان کی ہر نقل وحرکت اور ہر وقت اور ہر مقام کے لیے ذکر الله اور دعاؤں کے ایسے مختصر جملے سکھا دیے ہیں کہ ان کے پڑھنے میں نہ کسی دنیوی کام میں خلل آتا ہے اور نہ پڑھنے والے کو کوئی مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ دین اسلام کی ان تعلیمات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر کام کو ”بسم الله“ سے شروع کرو، چناں چہ”درمنثور میں بحوالہ دارقطنی حضرت ابن عمر رضی الله عنہماسے نقل کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبریل امین جب کبھی میرے پاس وحی لے کر آئے تو پہلے”بسم الله الرحمن الرحیم“ پڑھتے تھے، گویا” بسم الله“ ایک کیمیا ہے ،جو خاک کو سونا بنا دیتی ہے، اس لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”کل أمر ذی بال لم یبدأ ببسم الله فھوأقطع“غرض اس پوری تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جو فضیلت اور ثواب پوری ” بسم الله الرحمن الرحیم“ پر حاصل ہوتا ہے وہ کسی اور طریقہ پر حاصل نہیں ہو گا، اب جوابات ملاحظہ ہوں۔

1..”786“ یا ” باسمہ تعالیٰ“ لکھنے کا رواج کب سے شروع ہوا، تحقیق کرنے کے بعد بھی ہمیں اس کا جواب نہیں ملا، جہاں تک وجہ کا ذکر ہے تو الله تعالیٰ کے مبارک ناموں کی بے حرمتی سے بچنے کے لیے یہ طریقے اختیار کیے گئے۔
2..قصداً آپ صلی الله علیہ وسلم کے مبارک طریقے کو نہیں چھوڑنا چاہیے، البتہ جہاں بے ادبی کا احتمال غالب ہو تو وہاں ”786“ یا باسمہ تعالی لکھنے کی گنجائش ہے۔
3..”باسمہ تعالیٰ“ اور ”باسم الله تعالیٰ“ دونوں کا ایک درجہ ہے، البتہ بات وہی ہے جو پہلے ذکر کی گئی۔

میاں بیوی پر ایک دوسرے کے حقوق
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بار ے میں کہ بیوی کے حقوق اور ذمہ داریوں اور شوہر کے حقوق اور ذمہ داریوں پر قرآن وسنت کی روشنی میں میرے سوالوں کا جواب دیں، میں آپ کی شکر گزار رہوں گی۔

1..کیا اس لڑکی (یعنی بیوی) کو(شوہر کے) ماں باپ بہن بھائی کی خدمت کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟ کیا یہ اس کی (بیوی) ذمہ داری ہے؟
2..کیا وہ ایک نوکرانی کی حیثیت سے اس گھر میں زندگی گزارے اور اگر کوئی بات اس کی ماں بہن کو پسند نہیں آئے، تو وہ ناراض ہو جائیں اور شوہر بیوی کو حکم دے کہ پاؤں پکڑ کر معافی مانگو، ورنہ وہ اسے طلاق دے دے گا۔
3..کیا بیوی شوہر کے بچوں کو دودھ پلانے او ران کی پرورش کرنے کی ذمہ دار ہے یا یہ اس کے شوہر کی ذمہ داری ہے؟ ماں کی خدمت اگر وہ خود نہیں کرسکتے تو ان کے لیے نوکرانی رکھنا شوہر کی ذمہ داری ہے یا بیوی نوکرانی بن کر ان کی خدمت کرے؟
4..شوہر ماں اور بہنوں کے سکھائے پر چلتا ہے اور بیوی پر سختی کرتا ہے ۔اس صورت حال میں بیوی شوہر سے الگ گھر لے کررہنے کا مطالبہ کر سکتی ہے ؟تاکہ دونوں کی زندگی سکون سے گزرے۔

جواب… واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ کی نظر میں نکاح کے ذریعے میاں بیوی کے درمیان قائم شدہ تعلقات کو بہت اہمیت حاصل ہے اور شریعت میں اس ازدواجی تعلق کو قائم رکھنے کے لیے جامع او رمکمل نظام موجود ہے ،میاں بیوی دونوں کے ایک دوسرے پر بہت سارے حقوق ہیں، ان کی پاس داری دونوں پر ضروری ہے، ورنہ اس کے بارے میں ان سے پوچھ ہو گی، اب سوالات کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
1..بیوی کا اپنی خوشی سے شوہر کے والدین کی خدمت کرنا بہت اچھی اور موجب سعادت بات ہے، نیز بیوی کااخلاقی فرض ہے کہ اپنے والدین کی طرح شوہر کے والدین کی بھی عزت واحترام کرے، لیکن یہ اخلاقی فرض ہے قانون نہیں، لہٰذا شوہر بیوی کو اپنے والدین یا بہن بھائیوں کی خدمت پر مجبور نہیں کرسکتا۔
2..بیوی شوہر کے گھر میں نوکرانی کی حیثیت سے زندگی نہیں گزارے گی، بلکہ ساس سسر کو چاہیے کہ وہ بہو کو اپنی بیٹی سے بھی بڑھ کر عزت دیں اور یہ لڑکی اپنے والدین کی طرح ان کی خدمت کرے اور خوش اخلاقی سے پیش آئے تو نہ لڑائی جھگڑے کی صورت بنے گی، نہ طلاق کی نوبت آئے گی، بلکہ گھر جنت نظیر بن جائے گا۔
3..بچے صرف شوہر کے نہیں، بلکہ بیوی کے بھی بچے ہیں، دیانةً دودھ پلانا ماں کے ذمہ واجب ہے ، بغیر شدید عذر کے انکار کرنا جائز نہیں۔
4..ماں باپ یا بہن بھائی کے کہنے پر بیوی پر سختی کرنا درست نہیں، بلکہ ظلم ہے، شرعاً شوہر اپنی وسعت کے بقدر بیوی کے رہن سہن کے لیے الگ کمرہ کا انتظام کرے۔

مؤذن صاحب کا سہ روزہ کے لیے جانا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ہمارے محلے کی مسجد کے مؤذن صاحب جو مسجد کی اذان واقامت وغیرہ کے علاوہ تقریباً ستر بچوں کو قاعدہ وناظرہ کی تعلیم بھی دیتے ہیں یعنی پڑھائی کا کام بھی کرتے ہیں، جب قاری صاحب یعنی موذن صاحب سہ روزے کے لیے چلے جاتے ہیں تو مذکورہ بچوں کی پڑھائی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ مؤذن صاحب کے لیے تبلیغ میں جانا افضل ہے یا بچوں کو پڑھانا افضل ہے؟ برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں ۔جزاکم الله احسن الجزا ء․

جواب… مؤذن صاحب کا مسجد کی انتظامیہ سے چھٹی لے کر سہ روزہ کے لیے تبلیغی جماعت کے ساتھ جانے میں حرج نہیں، لیکن مؤذن اور انتظامیہ کو چاہیے کہ ان ایام میں کسی او رکو اذان دینے اور بچوں کو پڑھانے کے لیے مقرر کر لیں، البتہ مؤذن صاحب کا انتظامیہ سے چھٹی لیے بغیر سہ روزہ میں جانا درست نہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ بچوں کو پڑھانااور تبلیغ کے لیے نکلنا دونوں ثواب کے کام ہیں اور دونوں میں افضل اور غیر افضل ہونے کے اعتبار سے تقابل بھی نہیں، اس لیے اگر مؤذن صاحب چھٹی لے کر جائیں تو انتظامیہ یا خود مؤذن صاحب بطور متبادل کسی قاری صاحب کا انتظام کریں، تاکہ بچوں کی پڑھائی کا ناغہ نہ ہو اور مؤذن صاحب کو بھی چاہیے کہ سہ روزہ وغیرہ کے لیے کم سے کم جائیں ،تاکہ کسی کو اشکال نہ ہو اور بچوں کی پڑھائی متاثر نہ ہو۔

قضا نمازوں کا فدیہ مسجد پر لگانا
ہمارے بڑے بھائی کا انتقال ہو گیا ہے، وفات سے تقریباً25 دن کی نماز شدید بیماری کی وجہ سے نہیں پڑھ سکے، یعنی ان کی25 دن کی نمازیں فوت ہو چکی ہیں، ان25 دن کی نمازوں کا فدیہ اس طرح ادا کیا گیا کہ تقریباً بارہ ہزار روپیہ12000 ایک زیر تعمیر مسجد میں تعمیری کام کے لیے دے دیا گیا، معلوم یہ کرنا ہے کہ یہ فدیہ کسی مسکین کودینا ضروری تھا یا مسجد کو؟اور کیامسجد میں لگانے کی صورت میں فدیہ ادا ہو گیا یا مرحوم کے ذمہ واجب رہے گا؟

جواب…نمازوں کا فدیہ کسی فقیر مسکین کو دینا ضروری ہے ، مسجد میں فدیہ کی رقم لگانے سے فدیہ ادا نہ ہو گا ،یہ بھی واضح رہے کہ اگر مرحوم نے نمازوں کے فدیہ کی وصیت کی تھی تو ترکہ کے ایک تہائی مال میں سے فدیہ ادا کرنا ضروری ہے اور اگر مرنے والے نے وصیت نہیں کی تو تمام ورثاء کی رضا مندی سے یا کسی بھی وارث کی طرف سے فدیہ ادا کرنے سے ادا ہو جائے گا اور یہ میت کے ساتھ بہت بڑا احسان ہو گا۔

جھوٹی گواہی دینے کے بعد توبہ کا طریقہ
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے پڑوس میں ایک خاتون عرصہ دراز سے رہائش پذیر تھیں، کچھ عرصہ قبل ان کاانتقال ہو گیا، ان کا ایک رشتہ دار لڑکا، جو کہ اس خاتون کے ساتھ رہائش پذیر تھا، اس نے مجھ سے ایک بیان حلفی پر گواہی دلوائی اورد ستخط کروائے کہ وہ لڑکا اس خاتون مرحومہ کا سگا بھانجا ہے اور میں نے اس بیان حلفی پر دستخط کر دیے۔ اس کے بعد میں نے تحقیق کی تو مجھے معلوم ہوا کہ جو بیان حلفی پر میں نے دستخط کیے ہیں وہ جھوٹ ہے، وہ لڑکا اس خاتون مرحومہ کا سگا بھانجانہیں ہے۔

مجھے اندھیرے میں رکھ کر مجھ سے جھوٹ بول کر یہ گواہی دلوائی گئی ہے ،اس وقت میں نے توبہ واستغفارکی، میں اپنے آپ سے بہت شرمندہ ہوں اور خود کو گناہ گار سمجھ کر پریشان ہوں۔

آپ جناب سے درخواست ہے قرآن وسنت کی روشنی میں میری رہ نمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں؟

وضاحت… اس خاتون کا بینک میں اکاؤنٹ تھا، جس میں کافی رقم تھی، خاتون کے انتقال کے ایک سال بعد بینک سے ایک لیٹر آیا، جس میں یہ بتایا گیا کہ اس خاتون کا کوئی وارث ہے تو یہ رقم وصول کر لے، ورنہ یہ رقم بینک ہی کی ہو جائے گی، وہ لڑکا جو کافی عرصہ سے خاتون کے ساتھ رہائش پذیر تھا اس نے آکر مجھے بتایا کہ بینک سے یہ رقم وصول کرنی ہے ،میں اس خاتون کا سگا بھانجا ہوں، میں نے اس پر اعتماد کرکے حلفیہ گواہی دی اور دستخط کر دیا، بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ لڑکا اس خاتون کا سگا بھانجا نہیں ہے، بلکہ ماموں زاد کا بیٹا ہے اور اس خاتون کا کوئی اور رشتہ دار نہ یہاں ہے اور نہ اس کے بارے میں مجھے علم ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس جھوٹی گواہی کی و جہ سے مجھ پر کوئی خیرات وغیرہ لازم آتی ہے؟ یا او رکوئی صورت ہو تو وضاحت فرمائیں۔

جواب…صورت مسئولہ میں آپ نے اس لڑکے کو تحقیق کے بغیر خاتون کا سگا بھانجا کہہ کر جھوٹی گواہی دی اور اس پر دستخط کرکے گناہ کا ارتکاب کیا ہے ، اگر واقعةً اس خاتون کا قریبی وارث (مثلاً: اولاد، والدین، بہن بھائی، بھتیجا، چچا، چچازاد وغیرہ) موجود نہ ہو، تو پھر بالآخر یہ رقم اس لڑکے ہی کو ملنی تھی، لیکن آپ سگا بھانجے ہونے کی جھوٹی گواہی دے کر گناہ کے مرتکب ہوگئے ہیں، اس لیے آپ پر صرف توبہ واستغفار لازم ہے، لیکن اگر اس خاتون کے قریبی وارث زندہ ہیں، تو آپ کی جھوٹی گواہی کی وجہ سے وہ اس رقم سے محروم ہو گئے ہیں، لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ ان کے قریبی ورثاء کو اس رقم کے بارے میں مطلع کریں ، اگر اس خاتون کے قریبی ورثاء کے بارے میں آپ کو علم ہی نہیں اور نہ آسانی سے ہو سکتا ہے تو پھر آپ توبہ واستغفار کرتے رہیں، الله تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ اس فعل پر آپ سے مؤاخذہ نہیں فرمائیں گے۔

Flag Counter