”مشکاة شریف“ کے شارح اول علامہ طیبی
مفتی عبدالغنی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف، جامعہ فاروقیہ کراچی
”شرح طیبی“ کے مطبوعہ نسخوں کا تعارف
شرح طیبی اس وقت کئی کتب خانوں سے شائع ہو چکی ہے اور اس وقت ہمارے علم میں اس کے تین مطبوعہ نسخے ہیں، لہذا ذیل میں ان کا مختصر تعارف ذکر کیا جاتا ہے:
پہلا مطبوعہ نسخہ
سب سے پہلے اس کی اشاعت کا اہتمام ”ادارة القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی “نے کیا اوراس کے بانی حضرت مولانا نور احمد کو اس کی اشاعت کے لیے مخطوطات جمع کرنے کا بہت زیادہ اہتمام تھا اور وہ ابھی اس کے دو مخطوطے ہی حاصل کرپائے تھے کہ اس دار فانی سے دار البقاکی طرف رخصت ہو گئے ، ان کے بعد ان کے صاحب زادے مولانا نعیم اشرف صاحب حفظہ اللہ نے اس اہتمام کو نہیں چھوڑا اور وہ مزید چار مخطوطے حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے، گویا اس طرح چھ مخطوطات کو پیش نظر رکھ کر اس طباعت کا اہتمام کیا گیا ہے ۔
ان میں سے ایک مخطوطہ ”پیر جھنڈو “ سندھ کے کتب خانے کا ہے، جوپیر محب اللہ شاہ راشدی سے لیا گیا اور ا س کے ابتدائی اوراق نہ ہونے کی وجہ سے تاریخ نسخ اور ناسخ کا علم نہ ہو سکا۔ دوسرا مخطوطہ حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی سے حاصل کیا گیا، جو در اصل ان کے والد حضرت مولانا محمد اسماعیل کاندھلوی کا تھا اور انہوں نے خود یہ نسخہ محرم الحرام 1346ھ میں شیخ سلیمان بن علی عبدالحافظ کے مخطوطے محررہ1126ھ سے نقل کر کے لکھا ہے۔ ایک مخطوطہ بہاول پور سے حاصل کیا گیا، جو محمد بن احمد بن فقیہ محمد کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور اس کی تاریخ نسخ 843ھ ہے، یہ مخطوطہ سب سے قدیم اور موٴلف کے نسخے سے نقل کیا گیا ہے ۔ ایک اور مخطوطہ خانقاہ سراجیہ کندیاں کے کتب خانے سے وصول کیا گیا ، اس کے ناسخ کا نام ملا رحمت اللہ بن حبیب اللہ ہے اور تاریخ نسخ 1160ھ درج ہے۔ 5،6۔ جب کہ دو مخطوطے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی لائبریری سے حاصل کیے گئے ، جن میں سے ایک نسخہ عبداللہ بن مسعود کارزونی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور اس کی تاریخ نسخ رمضان 888ھ ہے، دوسرا نسخہ سلیمان بن علی عبدالحافظ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور اس کی تاریخ کتابت 1126ھ ہے، یہ وہی نسخہ ہے جس سے مولانا محمد ادریس کاندھلوی کے والد حضرت مولانا محمد اسماعیل کاندھلوی نے اپنا نسخہ نقل کیا ہے۔ ان میں سے بعض نسخے کامل اور بعض ناقص ہیں ۔شرح طیبی کا یہ مطبوعہ نسخہ بارہ جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کی آخری جلد میں فہارس ،” اَجوبة الحافظ ابن حجرالعسقلانی عن احادیث المصابیح“ اور” الاکمال فی أسماء الرجال“ کو شائع کیا گیا ہے۔ ”ادارة القرآن کراچی “نے سب سے پہلے اس کو 1413ہجری میں شائع کر کے اس قیمتی سوغات کو منظر عام پر لا کر اہل علم پر عظیم احسان کیا ہے۔
دوسرا مطبوعہ نسخہ
شرح طیبی کی ایک اور اشاعت مکتبہ نزار مصطفی الباز ، مکة المکرمہ ، الریاض سے دکتور عبد الحمیدھنداوی کی تحقیق کے ساتھ 1417 ھ بمطابق 1997 ء میں ہوئی ہے اور اس میں” ادارة القرآن “کے مذکورہ مطبوعہ نسخے اور” دار الکتب المصریہ“ کے مخطوطے کو پیش نظر رکھا گیا ہے ، اگر کوئی عبارت ساقط یا کوئی غلطی تھی تو اس کا ازالہ کیا گیا،آیات و احادیث کی تخریج اور تعلیقات کا اضافہ کیا گیا۔ یہ نسخہ تیرہ جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کی جلد اول میں علامہ طیبی ، علامہ تبریزی ،امام بغوی اور ان کی کتابوں کے تعارف کے علاوہ علامہ طیبی کی تالیف ” لطائف البیان فی علمی المعانی والبیان“ اور” الاکمال فی اسماء الرجال“ ،” اَجوبة الحافظ ابن حجر عن احادیث المصابیح“ اور علم حدیث و مصطلح الحدیث پر مشتمل شارح کا مقدمہ شامل کیا گیا ہے ۔اس نسخے کی آخری جلد فہارس پر مشتمل ہے۔
تیسرا مطبوعہ نسخہ
اسی طرح یہ کتاب دار الکتب العلمیہ بیروت سے ابو عبد اللہ علی محمد السمک کی تحقیق کے ساتھ 1418 ھ میں شائع ہوئی ہے اور اس میں بھی ”ادارة القرآن “ کے مطبوعہ نسخے کے ساتھ” دار الکتب المصریہ“ کے مخطوطے کا موازنہ کیا گیا ہے اور دونوں میں جو فروق تھے ان کی وضاحت کی گئی ہے۔ آخری دونوں نسخوں کے محققین پہلے کام شروع کر چکے تھے اور بعد میں ان کو پاکستانی مطبوعہ نسخے کی اطلاع پہنچی۔ یہ نسخہ بھی بارہ جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کی بارہویں جلد میں صرف فہارس شائع کی گئی ہیں ۔
آخر الذکر دونوں نسخوں کے محققین بظاہر سلفی معلوم ہوتے ہیں اور ان میں سے اول الذکر نے مقدمہ میں بھی فقہاء پر تنقید کی ہے اور موٴلف کتاب کو بھی کسی مذہب کی تقلید نہ کرنے والا لکھ دیا ہے، حالاں کہ وہ شافعی المذہب تھے، جب کہ آخر الذکر نے مثلاً تصوف اور صفات سے متعلق بعض مسائل میں باقاعدہ حواشی میں شارح کی تردید کی ہے اور ان مسائل میں علامہ طیبی کے موقف کو اہل سنت کے مسلک کے خلاف قرار دیا ہے۔
”شرح طیبی“کے بعض مخطوطے
شرح طیبی کے کچھ مخطوطات کا ذکر تو مطبوعہ نسخوں کے ضمن میں آ گیا ہے اس کے مزید کچھ مخطوطات جو ہمارے علم میں آئے ہیں ان کا بھی یہاں ذکر کر دیا جاتا ہے۔
اس کا ایک بہترین مخطوطہ گڑھی افغانان متصل حسن ابدال کی خانقاہ فاضلیہ میں موجود ہے۔(تذکرة المفسرین، از مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی، ص:205)
ایک مخطوطہ جامعہ ام القری کے کتب خانے میں ہے، جو اول کتاب سے لے کر ”کتاب المناسک، باب حرم المدینہ حرمہا اللہ“ تک ہے۔یہ خط نسخ کے ساتھ لکھا ہوا ہے اور اس کے ابتدائی اوراق کے ساقط ہونے کی وجہ سے اس کی تاریخ نسخ معلوم نہیں ہے ۔
جامعہ ام القری کے کتب خانے میں ایک اور مخطوطہ بھی ہے جو ”کتاب الجنائز، باب ما یقال عند من حضرہ الموت“ سے شروع ہو تا ہے اور ”باب الوصایا“ پر ختم ہوتا ہے۔یہ مخطوطہ احمد بن محمد شاہ بن بلبان بن الحسن کاتب شیرازی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔
اسی طرح جامعہ ام القری میں ایک اورتیسرا مخطوطہ بھی ہے، جو ”کتاب الامارہ“ سے آخر کتاب تک ہے اورعبد الرحمن بن مرحوم طیب بن مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔
ایک اور مخطوطہ مکتبہ ملک عبد العزیز مدینہ منورہ میں موجود ہے، اس کے کاتب حسن بن حاجی ہیں اور یہ نسخہ ابتداءِ کتاب سے لے کر ”باب ما لا یجوز من العمل فی الصلاةو ما یباح منہ“ تک ہے۔
ایک مخطوطہ مظاہر العلوم سہارن پور ہندوستان کے کتب خانے میں ہے، جو ابتداءِ کتاب سے”باب الاستحاضہ“ تک ہے۔
ایک مخطوطہ عراق کے شہر بغداد میں ہے اور یہ ابتداءِ کتاب سے شروع ہو کر ”باب العقیقہ“ پر ختم ہوتا ہے۔ اس کی نقل جامعہ ام القری میں موجود ہے ۔
(یہ اورمطبوعہ نسخوں کے بعض مخطوطات کی تفصیل کے لیے دیکھیے، الفنون البیانیہ فی کتاب ”الکاشف عن حقائق السنن“للامام الطیبی، ازمحمد رفعت احمد زنجیر،ص:ح۔د، غیر مطبوع)
علامہ طیبی کی دیگر تصنیفات
شرح طیبی کے علاوہ علامہ طیبیکی دیگر کئی مایہ ناز تصانیف بھی ہیں اور شرح طیبی کی طرح وہ بھی ان کے تبحر علمی اور جلالت شان پر دلالت کرتی ہیں، چناں چہ ذیل میں ان کا مختصر تعارف ذکر کر دیا جاتا ہے۔
فتوح الغیب في الکشف عن قناع الریب: یہ تفسیر کشاف کی شرح اور حاشیہ ہے۔ علامہ طیبی نے جب یہ حاشیہ لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ کو خواب میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف اس طرح حاصل ہواکہ آپ نے علامہ طیبیکو دودھ کا بھرا ہوا پیالہ عنایت فرمایا، جسے علامہ طیبی نے نوش فرمالیا۔( بغیة الوعاة: 1/523، البدر الطالع: 1/229)، علامہ طیبینے اس میں الفاظ و بلاغت میں تو علامہ زمخشری کا طرز اختیار کیا ہے، لیکن مذہب اہل سنت کے مخالف ان کے اعتزالی عقائد کا بہترین جواب دیا ہے اور اہل علم نے ان کی اس کاوش کو سراہا ہے ۔چناں چہ مشہور موٴرخ اور فلسفی علامہ ابن خلدون اس حاشیہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
”ولقد وصل إلینا في ہذہ العصور تالیف لبعض العراقیین، وہو شرف الدین الطیبيُّ، من أہل توریز من عراق عجم، شرح فیہ کتاب الزمخشريِّ ہذا، وتتبّع ألفاظہ، وتعرض لمذاہبہ في الاعتزال بأدلة تزیفہا․ ویبین أن البلاغة إنما تقع في الآیة علی ما یراہ أہل السنة، لا علی ما یراہ المعتزلة؛ فأحسن في ذالک ما شاء، مع امتاعہ في سائر فنون البلاغة․ وفوق کلِّ ذي علم علیم․“ (مقدمة ابن خلدون، ص: 471، د ار الکتب العلمیة)
یعنی”اس زمانے میں ہم تک ایک عراقی عالم کی تالیف پہنچی ہے، جو عراق عجم سے تعلق رکھنے والے شرف الدین طیبی ہیں، جس میں انہوں نے زمخشری کی اس کتاب (تفسیر کشاف) کی شرح کی ہے، اس کے الفاظ کا تتبع کیا اس کے اعتزالی نظریات کاایسے دلائل کے ساتھ رد کیا جو ان کے نظریات کو باطل کر دیتے ہیں اور شارح یہ ثابت کرتے ہیں کہ آیت میں صحیح بلاغت اہل سنت کے اختیار کردہ طریقہٴ تعبیر سے ادا ہوتی ہے، نہ کہ معتزلہ کے طریقہٴ تعبیر سے۔اور اس سلسلے میں اس نے بہت عمدہ کلام کیا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ تمام فنون بلاغت سے استفادہ کیا ہے۔“
اس کے کئی مخطوطے ”دار لکتب المصریہ“ میں موجود ہیں جن میں سے ایک نسخہ نو جلدوں میں ہے اور مکمل ہے۔ جب کہ باقی نسخے ناقص ہیں۔ (دیکھیے، التبیان فی البیان، مقدمة المحقق، ص:9، غیر مطبوع)، اسی طرح اس کا ایک مخطوطہ ” المکتبة الازہریہ“ میں ہے(الاعلام: 2/256)، مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی نے ”تذکرة المفسرین“ (ص:204، 205) میں لکھا ہے کہ اس کا ایک قلمی نسخہ محررہ 767ہجری خدا بخش لائبریری پٹنہ میں موجود ہے اور تفسیر کشاف کا یہ حاشیہ آٹھ جلدوں میں طبع بھی ہو چکا ہے۔
التبیان فی البیان:یہ کتاب علم بلاغت کے فنون ثلاثہ معانی، بیان اور بدیع کے سلسلے میں مرتب کی گئی ہے۔ علامہ طیبی کے شاگرد علی بن عیسی نے ”حدائق البیان“ کے نام سے اس کی شرح لکھی ہے اور اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ علامہ طیبی سے انہوں نے یہ کتاب اور ان کی دیگر کتابیں پڑھیں تو اسی دوران ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ مصنف کے افادات کی روشنی میں اس کتاب کے مشکل امور کے حل کے لیے اس پر حواشی تحریر کرے، وہ یہ کام نہ کر سکے اور اس پر ایک زمانہ گزر گیا،یہاں تک کہ ان کے استاد علامہ طیبینے ان کو وہی بات کہی جس کا ان کو خیال آیا تھا، انہوں نے اپنے استاد کے حکم پر عمل کیا اور وہ آخر شوال 706ہجری میں اس کی تالیف سے فارغ ہوئے۔(کشف الظنون:2/341)، علامہ طیبی کی اس کتاب پر عبد الستار حسین زموط نے جامعہ ازہر کے کلیة اللغة العربیہ سے 1977ء میں پی، ایچ، ڈی کی ہے۔ یہ کتاب ہادی عطیہ مطر الہلالی کی تحقیق و تقدیم کے ساتھ عالم الکتب، مکتبة النہضہ العربیہ سے 1397ھ بمطابق 1987ء میں شائع ہوئی ہے۔نیز یہ کتاب بعد ازاں دکتور عبدالحمید ہنداوی کی تحقیق کے ساتھ مکتبہ تجاریہ،مکة المکرمہ سے بھی شائع کی گئی ہے۔
لطائف التبیان فی المعانی والبیان:یہ کتاب بھی بلاغت کے فنون ثلاثہ سے متعلق ہے، لیکن یہ سابقہ کتاب کے علاوہ ہے اوران دونوں کتابوں کے مقدمے اور موضوع سے بھی یہی واضح ہوتا ہے،بظاہریہ لگتاہے کہ یہ کتاب مباحث بلاغت میں علامہ سکاکی کی ”مفتاح العلوم “اور امام رازی کی” نہایة الایجاز“ کی تلخیص ہے، البتہ اس میں حسن ترتیب، اختصار اور سہل وآسان طرز ادا کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب بھی دکتور عبدالحمید ہنداوی کی تحقیق کے ساتھ مکتبہ تجاریہ، مکة المکرمہ سے شائع ہو چکی ہے اور شرح طیبی کے مکتبہ نزار مصطفی الباز والے نسخے کی پہلی جلد میں بھی شامل ہے۔
شرح اسماء اللہ الحسنی: اسماعیل پاشا بغدادی نے ”ہدیة العارفین“(5/285) میں اس کو ذکر کیا ہے اور اس کا نسخہ دارالکتب المصریہ میں موجود ہے۔
الخلاصة فی اصول الحدیث:یہ کتاب مقدمہ، چار ابواب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے اور یہ ابن الصلاح کی ”علوم الحدیث “،علامہ نووی اور قاضی ابن جماعہ کی” مختصر“ کی تلخیص ہے اور اس میں” جامع الاصول“ وغیرہ سے مزید اضافے بھی کیے گئے ہیں۔ علامہ طیبی نے شرح” مشکاة“ کی ابتدا میں ”مصطلح الحدیث“ کے بیان میں ایک تفصیلی مقدمہ لکھا ہے، زیر نظر کتاب اور اس مقدمے کو دیکھنے سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ مقدمہ ”الخلاصہ فی علم اصول الحدیث“ کی تلخیص ہے۔ یہ کتاب 1391ھ بمطابق 1971ء استاد صبحی سامرائی کی تحقیق کے ساتھ مطبعة الارشاد بغداد سے طبع ہو چکی ہے۔
شرح التائیة الکبری (756 اشعار): اس شرح کو بروکلمان نے علامہ طیبی کی طرف منسوب کیا ہے۔ ( دیکھیے، شرح الطیبی، مقدمة المحقق:1/27، مکتبہ نزار مصطفی الباز)
شرح التبیان۔علامہ سبکی، حافظ ابن حجر اوردیگر کئی حضرات نے اس کا تذکرہ کیا ہے۔ (دیکھیے،الدرر الکامنہ:2/9،شذرات الذہب:6/37، مفتاح السعادة:2/90، بغیة الوعاة:1/522، عروس الافراح للسبکی : 1/31) ،لیکن عبد الستار حسین مبروک زموط نے کہا ہے کہ اس شرح کے کسی نسخے پر میں مطلع نہیں ہو سکا،سوائے ایک نسخے کے جو ”جامعة الدول العربیہ“ کے” معہد المخطوطات“ میں موجود ہے اور اس کے ناسخ نے اس کی نسبت علامہ طیبی کی طرف کر دی ہے کہ یہ ان کی کتاب ”التبیان“ کی شرح ہے۔ لیکن جب میں نے ان کے شاگرد علی بن عیسی کی شرح ”حدائق البیان“ سے اس کا تقابل وموازنہ کیا تو ان دونوں کو بعینہ ایک ہی چیز پایا، اس لیے اس کی نسبت علامہ طیبی کی طرف درست معلوم نہیں ہوتی، اس میں چوں کہ علامہ طیبیکی دوسری کتابوں کے حوالے دیے گئے ہیں شاید اس سے ناسخ یہ سمجھا کہ یہ علامہ طیبی کی تالیف ہے اور اس کی نسبت ان کی طرف کر دی ہے۔ میرے خیال میں چونکہ علامہ طیبی کو اپنے شاگرد کی شرح ”حدائق البیان“ سے گہرا ربط وتعلق تھا (جیسا کہ پیچھے گزرا ہے کہ انہوں نے یہ شرح ان کے حکم سے لکھی ہے) اس لیے اس کی نسبت ان کی طرف کر دی جاتی ہے۔ (دیکھیے، کتاب التبیان فی البیان للطیبی، مقدمة المحقق:، ص9، غیر مطبوع)
کتاب التفسیر: اس کتاب کا تذکرہ بھی حافظ ابن حجر اوردیگر کئی حضرات نے کیا ہے۔(دیکھیے،الدرر الکامنہ:2/9،شذرات الذہب:6/37 ، مفتاح السعادة:2/90، بغیة الوعاة:1/522)
مقدمات فی علم الحساب: عمررضا کحالہ نے ”معجم الموٴلفین“ (4/53) اور استاذ قدری طوقان نے” تراث العرب العلمی“ (ص:434) میں اس کو ذکر کیا ہے۔
اسماء رجال المشکاة:بعض حضرات نے اگرچہ اس کتاب کی نسبت علامہ طیبی کی طرف کی ہے، لیکن یہ علامہ طیبی کے شاگرد صاحب مشکاة علامہ ولی الدین تبریزی کی تالیف ہے، جس کی ترتیب وتالیف میں علامہ طیبی کی صرف معاونت ومشاورت رہی ہے، جیسا کہ صاحب مشکاة نے اس کے آخر میں اس وضاحت کی ہے۔
اس مضمون کی ترتیب کے دوران جن مطبوعہ کتابوں ، طباعتی مکتبوں اور مخطوطات کا ذکر کیا گیا ہے وہ ہماری معلومات کی حد تک ہے، ممکن ہے کہ ان کتابوں کے دیگر مخطوطات موجود ہوں اور ان میں سے بعض کتابیں دیگر مکتبوں سے بھی طبع ہو چکی ہوں گی۔ ہمیں جتنی معلومات میسر ہو سکتی تھیں ہم نے اپنی مقدور بھر کوشش کے ساتھ علامہ طیبی اور ان کے علمی کارناموں خصوصاً ”مشکاة شریف“ کی شرح ”الکاشف عن حقائق السنن“ المعروف” شرح طیبی“کا تعارف کرا دیا ہے۔ اللہ تعالی ان حضرات کی مساعی جمیلہ کو قبول ومنظور فرمائے اور ہمیں ان سے مستفید ہونے، ان کے نقش قدم پر چلنے اور دین اسلام پر صحیح صحیح عمل پیرا ہونے کی توفیق سے نوازے۔ آمین!