Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1435ھ

ہ رسالہ

7 - 17
حضرت ابراہیمؑ پر آزمائشیں

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿وَإِذِ ابْتَلَی إِبْرَاہِیْمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِیْ الظَّالِمِیْن﴾․(آیت:123)
آزمائش کبھی اس مقصد سے ہوتی ہے کہ کسی کی صلاحیت ولیاقت کو جانچا جائے چوں کہ علم الہٰی کائنات کے ہر ہر ذرہ کو محیط ہے لہٰذا الله جل شانہ سے بعید ہے کہ اس غرض سے آزمائے کیوں کہ الله تعالیٰ ہر شے کا مکمل ادراک رکھتے ہیں او رکبھی آزمائش اس غرض سے ہوتی ہے کہ کسی کی استقامت وفرماں برداری دوسروں پر واضح کر دی جائے تاکہ کسی کے دل میں ترجیح بلا مرجح اور بڑے عہدے پر بلا قابلیت تنصیب کا خیال پیدا نہ ہو، یا مجرم اپنے جرم کو واضح طور پر محسوس کرلے اور دوسرے بھی اس کے جرم کو خوب سمجھ لیں تاکہ اس کی سزا کوظلم شمار نہ کریں۔ وہ چند باتیں کیا تھی جس کے ذریعے الله تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آزمایا اس کی تعیین میں اہل علم کا اختلاف ہے اور کوئی نص موجود نہیں، بعض نے وہ آزمائش مراد لی ہے جو آپ کو عراق وشام میں پیش آئی مثلاً والدین سے اختلاف، قوم سے اختلاف، بادشاہ وقت سے اختلاف، ان کی طرف سے اذیت دینے کی کوششیں بالآخر شام کی طرف ہجرت، پھر حضرت ھاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو مکہ کی بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ جانا، حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا، آپ ان تمام آزمائشوں پر پورے اترے او ربعض نے اس سے احکام وشرائع مراد لیے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر، البقرہ تحت آیة رقم:124)

الغرض حضرت ابراہیم علیہ السلام ان تمام آزمائشوں میں کامیاب رہے جیسا کہ آیت” وابراھیم الذی وفی“ (اور وہ ابراہیم کہ جنہوں نے احکام کی پوری بجا آوری کی) میں ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مکمل کامیابی کے صلہ میں الله جل شانہ نے آپ علیہ السلام کو امامت ونبوّت سے نوازا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب امامت کی بشارت سنی تو آپ نے اپنی اولاد کے لے بھی اسی امامت کی دعا فرمائی کہ” اے رب میری اولاد میں سے بھی بعض کو یہ منصب عطا فرما تب بارگاہ ایزدی سے جواب صادر ہوا کہ میرا عہد امامت یعنی نبوّت ظالمین کے لیے نہیں پس جو لوگ تیری اولاد میں سے ظالم یعنی کافر نہ ہوں ان میں سے بعض کو منصبِ امامت عطا کروں گا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تعارف اور آزمائشیں
حضرت ابراہیم علیہ السلام سام بن نوح علیہ السلام کے دسویں فرزند آزر سے ہیں، حضرت نوح علیہ السلام کے بعد سلسلہ نبوت کے بانی ہیں۔ تورات اور مؤرخین کی روایتوں میں آپ کے والد کا نام تارخ تھا، لیکن قرآن کریم نے والد کا نام آزر بتایا ہے، بعض لوگوں نے تاریخ اور قرآن کریم کے بیان میں تطبیق دینے کے لیے یہ کہہ دیا ہے کہ آپ کے والد بچپن میں انتقال کر گئے تھے، آپ کے چچا نے آپ کی کفالت کی اور وہ معبد کا بڑا پجاری اور محافظ تھا قدیم کالدی زبان میں ایسے شخص کو ” ادار“ کہتے ہیں جو عربی میں ”آزر“ کی شکل اختیار کر گیا، اس پر نقد کرتے ہوئے محمد علی صدیقی کاندھلوی معالم القرآن میں لکھتے ہیں:

”یہ محض تکلف بارد ہے کہ باپ کو مارا جائے، اگر قرآن او رتاریخ کو آپ جمع ہی کرنا چاہتے ہیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ”ادار“ کالدی زبان میں بڑے پجاری کو کہتے ہیں عربی میں آکر آزر ہو گیا…(ابراہیم علیہ السلام کے والد کا) یہ نام نہ تھا بلکہ لقب تھا، لقب نے چونکہ نام کی جگہ لے لی اس لیے قرآن نے اسی نام سے پکارا، تو جمع کی صورت ہے وگرنہ اگر جمع ممکن نہ ہو تو ہم قرآن کے مقابلے میں تورات اور تاریخ دونوں کو چھوڑ دیں گے، وہ ہمارے خیال میں حجت ہی نہیں ہیں، قرآن کی حیثیت ان سب سے بالا ہے۔“ (معالم القرآن، الانعام تحت آیة رقم:74)

لفظ ابراہیم کے سریانی زبان میں مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں لیکن عربی میں اس کے معنیٴ ”ابٌ رحیمٌ“ ( مشفق باپ) بیان کیے گئے ہیں کیوں کہ آپ بچوں سے شفقت میں معروف تھے۔ تفسیر قرطبی، البقرة، الأیة:124)الله تعالیٰ نے آپ کو بچپن ہی سے رشد وہدایت سے نوازا تھا چناں چہ ارشاد ربانی ہے﴿وَلَقَدْ آتَیْْنَا إِبْرَاہِیْمَ رُشْدَہُ مِن قَبْلُ﴾الخ (الانبیاء:۵۱) ترجمہ: اور آگے دی تھی ہم نے ابراہیم کو اس کی نیک راہ۔

لیکن آپ کی پوری قوم حتی کہ آپ کے والد تک بت پرستی میں ملوث تھے، لیکن آپ بت پرستی سے بیزاراور دوسروں کو بھی علی الاعلان اس گندگی سے باز رہنے کی تلقین کرتے رہتے تھے، چوں کہ بادشاد وقت بھی قوم کے ساتھ تھا پس رفتہ رفتہ آپ کا گھرانہ قوم او ربادشاہ سب کے سب آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے لیکن پیغمبر اولو العزم ابراہیم علیہ السلام کے پایہٴ استقلال میں ذرہ برابر بھی لغزش نہیں آئی بلکہ شرک وکفر سے بیزاری میں مزید سختی آگئی۔

آخر ایک دن اپنی قوم کے بت کد ے میں جاکر تمام بت توڑ ڈالے جس پر تمام دشمن غیظ وغضب کی آگ میں بھڑک اٹھے اور فیصلہ کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جائے۔

چناں چہ آگ بھڑکا کر ابراہیم علیہ السلام کو مینبخیق کے ذریعے آگ میں پھینکا گیا سیدنا خلیل الله علیہ السلام رضائے الہٰی کی حصول کے لیے اس وقت بھی قوم سے صلح کرنے کو تیار نہ ہوئے قوم سے مدد مانگنا تو درکنار جب آپ کو آگ میں پھینکا جارہا تھا اس وقت جبریل امین حاضر ہوئے ان سے بھی امداد کی طلب گوارہ نہ فرمائی بلکہ بے دھڑک فرما دیا کہ مجھے تمہاری امداد کی ضرورت نہیں۔ ( تفسیر ابن جریر طبری، سورة الأنبیاء، الأیة:68)

فرمان خداوندی جاری ہوا:﴿قُلْنَا یَا نَارُ کُونِیْ بَرْداً وَسَلَاماً عَلَی إِبْرَاہِیْمَ﴾․ ترجمہ: اے آگ ٹھنڈک ہو جا اور آرام ابراہیم پر)

حکم خدا وندی سے وہ آگ ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈی ہو گئی اور آپ اس آزمائش میں کامیاب ہوئے۔

پھر حکم ہوا کہ اپنے کنبہ کے مؤمن افراد یعنی بیوی سارہ علیہا السلام اور بھیجتے لوط علیہ السلام کو ہمراہ لے کر بابل سے ہجرت کر جائیں۔

آپ جستجو ئے رضائے الہٰی میں پکار اٹھے ” اِنّی مُھَاجِرٌ الیٰ ربی“ (میں رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں)

چناں چہ اپنے وطن سے کوچ کرتے ہوئے پہلے مصر اور پھر شام میں جا آباد ہوئے اور راہ میں بحرمیت کے کنارے پر آباد ایک قوم کے ہاں الله تعالیٰ کی طرف سے حضرت لوط علیہ السلام کو نبوّت سے سرفراز فرماکر وہیں قیام کا حکم ہوا۔

تعمیل حکم خدا وندی میں جب وطن اور قوم کو چھور کر مصر میں پہنچے تو وہاں ایک اور آزمائش کا سامنا تھا، شاہ مصر نے حضرت سارہ علیہا السلام کے ساتھ بُرائی کا ارادہ کیا تو خداوند کریم نے انہیں ثابت قدم رکھا اور شاہ مصر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا، اس سے متأثر ہو کر شاہ مصر نے انہیں ایک باندی ھدیةً دی پھر بعد میں حضرت سارہ نے اسے آزاد کر یااور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے نکاح فرما لیا ان کا نام ” ھاجرة“ تھا شام میں قیام کے دوران حضرت ھاجرہ علیہا السلام سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔

ابھی حضرت اسماعیل علیہ السلام شیر خوارہی تھے کہ حکم ہوا حضرت ہاجرة اور اسماعیل علیہما السلام کو مکہ کی ویران وبے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ آئیں ،حکم ربانی پر دل وجان سے عمل کرکے اس آزمائش پر بھی پورے اترے اور انہیں خدا کے سہارے وہاں اکیلا چھوڑ آئے۔

مذکورہ آزمائش میں کامیابی کے بعد ابھی حضرت اسماعیل علیہ السلام صغر سنی کو پہنچے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اپنے اس بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دو، محبت فطری اور شفقت پدری تعمیل حکم میں حائل نہ ہو سکی، چاہتے تو اس حکم کو خواب کہہ کر بھی ٹال سکتے تھے لیکن بارگاہ الہٰی میں آپ کی امامت منظور ہو چکی تھی، اس لیے آپ کی کمال وفاداری دنیا کو باور کرانا ضروری تھی پس فرماں بردار بیٹے سے اپنا خواب بیان کر دیا۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی آخر خلیل الله کے فرزند تھے وہ بھی وادی محبت کے پیچ وخم سے خواب واقف تھے، عشق الہٰی کی بے قرار لہروں سے ان کا دل بھی موجزن تھا، لہٰذا دنیا کی پروا کی نہ جان کی فکر، بلا توقف کہہ دیا ” یأبت افعل ماتؤمر“․( اے میرے ابّا جان جس چیز کا آپ کو حکم دیا گیا ہے وہ کر گذر ئیے)

چناں چہ تعمیل خداوندی میں مشفق باپ نے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری رکھ دی تو رب العالمین نے اس آزمائش میں آپ کی کامیابی کا اعلان فرما دیا کہ:﴿وَنَادَیْْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمُ ،قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا﴾․ (سورة الصّٰفٰت:103)(اور ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم تونے اپنا خواب سچا کر دکھایا)

اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے فدیہ میں جنت سے ایک دنبہ لایا گیا جسے خلیل اللہ نے ذبح فرمایا۔اولوالعزم پیغمبر کی استقامت بارگاہ ایزدی میں اس قدر مقبول ومحبوب ہوئی کہ رب العالمین نے تاقیامت آنے والے مسلمانوں کے لیے اس قربانی کو ایک شعار بنا دیا۔

ان تمام آزمائشوں کے ساتھ ساتھ الله عزوجل کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مختلف احکام شرع اور خصائل فطرت ( یعنی دس خصائل فطرت مونچھیں کاٹنا، کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، مسواک کرنا، مانگ نکالنا، ناخن کاٹنا، بغل کے بال اکھیڑنا، زیر ناف بال صاف کرنا، ختنہ کرنا اور پانی سے استنجاء کرنا، کا مکلف بھی بنایا گیا جن پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکمل عمل کر کے دکھایا۔ ( تفسیر البغوی، البقرة، ایضاً) ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خصوصیت ہے کہ الله نے انہیں کلمات سے آزمایا اور انہوں نے پورا کر دکھایا، الله نے انہیں اسلام کے ذریعے آزمایا وہ اس آزمائش میں پورے اترے۔ ( تفسیر قرطبی، البقرة:124)

اس کامیابی کے نتیجے میں ارشاد ہوا کہ:” إنّی جَاعِلُکَ لِلنّاسِ اِمَاماً“ ( بے شک میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں)، چنانچہ آج یہود ونصاری اور امت مسلمہ سب آپ کی جلالت قدر پر متفق ہیں، ہر گروہ اپنی نسبت آپ کی طرف کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے۔

آپ نے اس موقع پر اپنی اولاد کی فطری محبت کی بناء پر یہی مرتبہ اپنی اولاد کے لیے بھی مانگا کہ یارب میری اولاد میں سے بھی بعض کو یہ منصب عطا فرما۔ یعنی منصب پیشوائی، منصب رسالت۔

جواب صادر ہوا کہ تمہاری ذریت میں سے جو لوگ ظالم یعنی کافر ہوں گے ان کے لیے میرا وعدہٴ امامت نہیں یہاں”الظلمین“ سے کفار مراد ہیں ۔ (روح المعانی، البقرہ تحت آیة رقم:124)

آپ کی یہ دعا شرف قبولیت سے ہم کنار ہوئی ہزاروں انبیاء آپ کی ذریّت سے مبعوث ہوئے، حتی کہ سلسلہ نبوّت آپ ہی کی ذریت میں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پر اختتام پذیر ہوا۔ نیز فقہائے امت نے مذکورہ آیت سے یہ استنباط کیا ہے کہ فاسق کی امامت کبری کا انعقاد جائز نہیں، خلیفہ کو عادل صالح صاحب ِقوت ہو نا چاہیے، فاسق وفاجر اس کا اہل نہیں ( الجامع لاحکام القرآن: البقرة تحت آیة رقم:124)

کافروزندیق کی امامت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔علامہ جصاص رحمہ الله نے اپنی تفسیر احکام القرآن میں اس آیت کی تفسیر میں امامت فاسقہ کے غیر نافذ اور ناجائز ہونے پر نیز اس کے خلاف مزاحمت کے متعلقات پر تفصیلی بحث کی ہے۔

تمام انبیاء معصوم ہیں
آیت میں منصب نبوّت کے لیے ظالم نہ ہونے کی قید لگانا حضرات انبیاء علیہم السلام کے معصوم ہونے پر واضح دلالت کرتا ہے، پس جو حضرات منصبِ نبوّت کے لیے منتخب کیے گئے وہ یقینا ہر گناہ سے معصوم تھے، کیوں کہ گناہ، حکم کی خلاف ورزی کا نام ہے اور ظلم کی یہی حقیقت ہے، پس تمام انبیاء ظلم یعنی گناہوں سے بری ہیں۔ ( روح المعانی، البقرة:124)

روافض (شیعوں)کا غلط استدلال
شیعہ فرقہ خواہ اس کا تعلق اثنا عشریہ جسے امامیہ کہا جاتا ہے سے ہو، یا اسماعلیہ سے، ان کا یہ عقیدہ ہے کہ جس طرح الله کی جانب سے انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث کیا جاتا تھا اسی طرح آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے بعد اماموں کو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیاتا ہے۔ شیعہ عقیدے میں ائمہ بھی نبی کی طرح ہر غلطی سے پاک اور معصوم ہوتے ہیں، ان پر وحی نازل ہوتی ہے، ان کی اطاعت ہر بات میں نبی کی طرح فرض ہے ، وہ نبی کی طرح احکام شریعت نافذ کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ قرآن کریم کے جس حکم کو چاہیں منسوخ یا معطل بھی کرسکتے ہیں۔ ( بحوالہ اختلاف امت اور صراط مستقیم، ص:30)

امامت سے متعلق شیعہ حضرات کے دلائل اور ان کا جائزہ
شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ قرآن وسنت ہدایت کے لیے کافی نہیں ہیں اس لیے کہ بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو قرآن وسنت کے مطالب معلوم کرنے کے لیے کسی بیان کرنے والے کے محتاج ہوں گے اور وہ غیر معصوم ہو گا تو لامحالہ ان غیر معصوم کی اتباع کرنی پڑے گی اور وہی سب خرابیاں لازم آئیں گی جو غیر معصوم کے اتباع میں ہوتی ہیں۔

لیکن اگر بغور ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ معصوم کی موجودگی میں بھی غیر معصوم کی اتباع سے مفر نہیں کیوں کہ امام معصوم صرف ایک مقام میں ہوں گے ، دریں صورت اسی مقام میں ہر شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ اپنے تمام مسائل میں امام معصوم سے رجوع کرے، لامحالہ ان لوگوں کو کسی غیر معصوم سے معصوم کے احکام معلوم کرنے پڑیں گے خواہ وہ نائب ہی کیوں نہ ہو پس امام معصوم کی موجودگی میں بھی غیر معصوم کی اتباع سے چھٹکارا تو حاصل نہ ہوا۔ثابت ہوا کہ دور امامت میں بھی غیر معصوم کی اتباع برابر جاری تھی اس حقیقت نے شیعوں کی خانہ ساز امامت کو خاک میں ملاکر رکھ دیا ہے۔

مزید براں شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر زمانہ میں ایک معصوم امام کا ہونا ضروری ہے تاکہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کرسکیں، مگر امام حسن عسکری کے بعد جن کی وفات760ھ میں ہوئی آج تک گیارہ سو اڑسٹھ”1168“ سال ہوئے کوئی امام معصوم موجود نہیں ہے اور شیعہ بھی غیر معصوم کا اتباع کر رہے ہیں اور روایات ہی پر ان کا بھی عمل ہے۔جب ائمہ معصومین سے مروی روایات ہی پر عمل ٹھہرا تو امام المعصومین محمد صلی الله علیہ وسلم کا کیا قصور ہے آپ صلی الله علیہ وسلم ہی سے مروی روایات پر عمل کرلیا جائے۔

اس پر شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ امام معصوم موجود ہیں، مگر وہ نظروں سے پوشیدہ ایک غار میں تشریف رکھتے ہیں۔لیکن جب انہیں کوئی نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی ہدایت حاصل کر سکتا ہے تو ان کا وجود وعدم برابر ہے اورپھر اگرایسا موجود ہونا کافی ہے تو ہمارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم بھی اپنی قبر اقدس وانور میں موجود ہیں اورایسی زندگی کے ساتھ کہ اس عالم کی کروڑوں زندگیاں اس پر قربان ہیں۔ درحقیقت شیعوں کا نظریہ امامت، ختم نبوت پر ڈاکہ اور سیاسی ڈھونگ ہے جس پر کوئی عقلی نقلی دلیل نہیں ہے۔ (جاری)

Flag Counter