ماہِ رمضان اور سخاوت
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
اہل عرب کی جو بنیادی صفات زمانہٴ جاہلیت کی مذکور ہیں وہ یہ کہ ان میں شجاعت بہت زیادہ تھی، اور سخاوت بھی ان کا طرہٴ امتیاز تھا، جاہلی دور میں ہزار ہا خرابیوں کے باوجود یہ بنیادی خوبیاں اسلام سے قبل بھی ان میں ودیعت تھیں، اسلام نے ان صفات کو مزید نکھار ا، ان کے لئے مرنا کوئی دشوار ومشکل نہ تھا؛ لیکن اسلام نے انہیں اسلام کے لئے مرنا سکھایا، اسی طرح مال خرچ کرنا مہمانوں کی ضیافت جو سخاوت ہی کا اثر ہے ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا، ابو ذر غفاری اسلام قبول کر نے کے لئے مکہ مکرمہ آئے ہوئے ہیں؛ مگر تین دن تک حضرت علی نے ان سے بغیر کسی گفت گو کے ضیافت فرمائی، نیز اہل عرب میں زمانہٴ جاہلیت میں بھی سخاوت بہت ہی زیادہ رائج تھی، جس کا عربی اشعار سے بھی بخوبی اندازہ ہوتاہے، نیز حضرت خدیجہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی جو صفات بیان کیں ہیں ان میں یہ بات بھی ذکر کی ہے کہ ”انک تقری الضیف“کہ آپ صلی الله علیہ وسلم مہمانوں کی ضیافت فرماتے ہیں، مہمان نوازی در حقیقت سخاوت ہی کا اثر ہے۔
رمضان المبارک میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے معمولات میں یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم تیز وتند ہوا کی طرح سخاوت ، فرمایا کرتے تھے۔(بخاری1/3)
تیز وتند آندھی سے اس لئے تشبیہ دی گئی کیوں کہ اس آندھی کا نفع وفائدہ ہر ایک کو پہنچتا ہے اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی سخاوت اور رحمت کا اثر سب کو پہنچتا ہے، اس حدیث سے امام نووی نے کچھ فوائد ذکر فرمائے ہیں: ہر وقت انسان سخاوت کرے، رمضان میں خیر کی راہوں میں خرچ کرنے میں اضافہ ہونا چاہئے، نیک لوگوں کے ا جتماع پر خرچ کرے، نیکوکاروں کی زیارت کے موقع پر خرچ کرے۔(فتح الباری 1/31)
ایک اور حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا معمول کچھ یوں ذکر کیا گیا کہ جب رمضان آجاتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم ہر قیدی کو چھوڑ دیتے اور ہر مانگنے والے کو عطا کردیتے۔ (طبقات الکبری1/99)
ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کسی سائل کو کبھی ”لا“ نہیں کہایعنی انکار نہیں فرمایا، اس کے سوال کو ٹالا نہیں، کبھی کسی بھی مانگنے والے کو واپس نہیں لوٹایا۔ (فتح الباری1/31)
حافظ ابن حجر عسقلانی (متوفی 852) فرماتے ہیں: ر مضان میں چوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم قرآن کریم کا زیادہ دور فرماتے تھے، اور قرآن کریم کے ورد سے دل میں استغناء کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور یہی استغناء کی کیفیت انسان کو سخاوت کی راہ پر ڈالدیتی ہے، نیز رمضان میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دیگر دنوں کے مقابلہ میں زیادہ نعمتوں سے نوازتے ہیں اسی سنت الہیہ کو اپناتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم بھی رمضان میں اپنی امت پر زیادہ خرچ کرتے تھے۔(فتح الباری1/31)
اسی کا اثر تھا کہ صحابہ کرام اور بزرگانِ دین بالخصوص رمضان المبارک میں سخاوت میں اضافہ کو ترجیح دیا کرتے تھے، ابن عمر رمضان میں افطار یتیموں ، مسکینوں کے ساتھ فرماتے تھے،بیت المال ان کے لئے کثیر مقدار میں نفقہ جاری کرتا تھا پھر بھی کچھ جمع کرکے نہ رکھتے تھے، ایوب بن وائل کہتے ہیں: ایک دن ابن عمر کے پاس چار ہزار درہم اور ایک چادر آئی، دوسرے دن ایوب نے ابن عمر کو دیکھا کہ وہ بازار میں جانور کے لئے ادھار گھاس خرید رہے ہیں، جب ایوب بن وائل نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ابن عمر نے وہ رقم ایک فقیر کو ہدیہ دے دی۔ (المعجم الوسیط)
امام شافعی فرماتے ہیں: میں لوگوں کے لئے رمضان میں سخاوت کو زیادہ پسند کرتا ہوں، اس میں لوگوں کا فائدہ زیادہ ہے کیوں کہ لوگ عبادتوں میں روزوں میں مشغول ہوتے ہیں(طبقات الشافعیہ) حماد بن ابی سلیمان رمضان کے مہینے میں پانچ سو افراد کو افطار کرواتے، انہیں عید میں ہر ایک کو سو درہم عطا کرتے، محمد بن احمد اصحاب علم وفضل میں ان کا شمار ہے، اہل علم فقراء پر ان کا احسان مشہور تھا، یہ رمضان میں فقراء کے لئے افطار کا سامان مہیا فرماتے۔(طبقات الشافعیہ1/182)
امام زہری فرماتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ تو تلاوت قرآن اور لوگوں کو کھانا کھلانے کا ہے۔
رمضان میں سخاوت کا فائدہ
1...یہ بابر کت مہینہ ہے عامل کے اجر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
2...روزہ داروں اور شب بیداروں کی امداد کرنے سے ان کی عبادتوں کے مثل اجر کے ہم بھی مستحق ہوں گے، کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی روزہ دار کو افطار کروایا اس کو بھی روزہ دارکے اجر میں کمی کئے بغیر ویسے ہی اجر ملے گا۔
3...رمضان خو دایسا مہینہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اس مہینہ میں اپنے بندوں پر سخاوت کرتا ہے، رحمت کے ذریعہ ،مغفرت کے ذریعہ ، آگ سے آزادی کے ذریعہ بالخصوص شب قدر میں بندے بھی بندوں پر سخاوت میں مشغول رہیں۔
4...روزہ اور صدقہ کا اجتماع ہوجائے گا یہ دونوں جنت کو واجب کرنے والے ہیں، ایک حدیث میں آتاہے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایسے بالا خانے ہیں کہ اس کے ظاہری حصے سے اندرونی نظارہ ہوگا اور باطن سے ظاہری نظارہ ہوگا، صحابہ کرام نے سوال کیا وہ کس کے لئے ہوگا یارسول اللہ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے گفت گو عمدہ کی اور کھانا کھلایا، اور روزہ پر مداومت کی، اور را ت میں نماز ادا کی جب کہ لوگ آرام کررہے ہوں، بعض اسلاف کا کہنا ہے کہ نماز انسان کو آدھے راستے تک پہنچادیتی ہے اور روزہ بادشاہ کے دربار تک، اور صدقہ ہاتھ پکڑ کر بادشاہ کے دربار میں داخل کردیتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ راوی ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے سوال کیا کس نے صبح روزے کی حالت میں کی؟ ابو بکر نے فرمایا: میں نے، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے سوال کیا کون جنازے کے ساتھ گیا تھا ؟ابو بکر نے فرمایا: میں ، پھر سوال ہوا کہ کس نے صدقہ کیا؟ ا س پر ابو بکر نے جواب دیا : میں نے، پھر سوال کیا؟ کس نے مریض کی عیادت کی؟ آپ نے جواب دیا: میں نے،یہ سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ چیزیں جس میں بھی جمع ہوجائیں وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔
5...نیز صدقہ روزے کے خلل کمی نقصان کو پورا کردیتا ہے، اسی لئے جن افراد سے روزہ نہیں ہوسکتا انہیں فدیہ دینے کا حکم دیا گیا؛ لہٰذا روزے کی کمی کی تکمیل کے لئے صدقہٴ فطر کو واجب قرارد یاگیا،الغرض رمضان المبارک کا معظم مہینہ مالداروں سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ ماہِ رمضان میں اپنے مالوں سے غرباء کا حق نکالیں اور انہیں پہنچانے کا اہتمام کریں، اور اپنے دلوں سے بے نیازی واستغناء پیدا کرتے ہوئے مال کو راہِ خدا میں لٹادیں، اس لئے کہ مال، تو سال بھر آتا جاتا رہے گا لیکن رمضان کا مبارک مہینہ زندگی میں بار بار نصیب نہیں ہوتا، کم از کم اپنا معمول یہ بنائیں کہ ہم اپنے مال سے فرض زکوٰة کے علاوہ اتناحصہ غرباء پر خرچ کریں گے، اور اس پر عمل بھی کریں ان شاء اللہ بہت زیادہ نفع ہوگا، اس لئے کہ راہِ خدا میں دینا در حقیقت اپنے ہی گھر کو بھر لینا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ ہمیں سخی بناوے، اور ماہِ رمضان سے کما حقہ استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین!