Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1435ھ

ہ رسالہ

5 - 17
جوانی، عظیم نعمت خداوندی

محترم غفران ساجد قاسمی،ریاض
	
انسان زندگی کے تین مراحل سے گزرتا ہے، بچپن، جوانی اور بڑھاپا، بچپن کے دن یقینا بڑے سہانے اور حسین ہوتے ہیں، جس میں انسان ہر طرح کی ذمہ داریوں سے آزاد بس کھلنڈرانہ سی زندگی گزارتا ہے، ہر بچہ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کبھی جوان نہ ہو بس پوری زندگی بچپن کے مزے لیتا رہے، کیوں کہ بچپن ہی وہ حسین پل ہے جب وہ گھر او رخاندان کے ہر فرد کی توجہات کا مرکز بنا رہتا ہے۔ گھر اور خاندان میں جو جس قدر چھوٹا ہوتا ہے اس کے لاڈوپیار اور ناز ونخرے بھی اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں ، لیکن یہ ناز ونخرے اور لاڈ وپیار وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ کم ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ بچپن اور بوڑھاپا تقریباً برابر کازمانہ ہے، کیوں کہ بچپن میں ماں باپ بہن بھائی اور دیگر قریبی رشتہ دار اس کا خیال رکھتے ہیں تو ٹھیک اسی طرح بوڑھاپے میں اس کی اولاد اور اس کے قریبی رشتہ دار اس کے ضعف اور بزرگی کی وجہ سے اس کا خیال رکھتے ہیں ۔ اس توجہ اور خیال میں فرق ضرور ہے لیکن ایک بات قدر مشترک ہے کہ جس طرح ایک بچہ اپنے بچپن میں اپنے ماں باپ او ربہن بھائی کے پیار اور توجہات کا طالب ہوتا ہے بالکل اسی طرح ایک بوڑھا انسان بھی اپنے بوڑھاپے میں جب اس کے قویٰ کمزور ہو جاتے ہیں وہ اپنے دوستوں میں اٹھنے بیٹھنے کے لائق نہیں رہتا ہے تو وہ گھر میں اپنی اولاد اور اپنے خاص قریبی رشتہ د اروں کی توجہات کا طلب گار ہوتا ہے ۔ اسے بہت زیادہ آرام وآسائش اور زر وزمین کی ہوس نہیں ہوتی ہے البتہ اسے ہوس ہوتی ہے تو صرف اور صرف یہ کہ اس کی اولاد جسے اس نے بڑے ناز ونعم میں پال پوس کر بڑا کیا ہے اور بچپن میں اس کی تمام آسائش وسہولیات کا خیال رکھا ہے آج اس کی اولاد اس کے بوڑھاپے میں اتنا نہیں تو کم از کم دن بھر میں دو چار گھڑی اس کے پاس بیٹھ جائے، اس سے پیار کی دو چار باتیں کر لے یہی اس کے سکون قلب کے لیے کافی ہے۔

انسانی زندگی کے ان تین مراحل بچپن، جوانی اور بوڑھاپے میں درحقیقت ”جوانی“ کا مرحلہ سب سے اہم اور ذمہ داریوں سے پر ہے۔ جوانی ایک ایسا مرحلہ ہے جس میں اسے بیک وقت دو مرحلوں کی دیکھ ریکھ اور ذمہ داریوں کو سنبھالنا پڑتا ہے۔ اگر وہ باپ ہے تو جہاں اسے اپنی اولاد کی پرورش وپرداخت اور اس کی بہتر تعلیم وتربیت کی ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے وہیں اسے ایک فرماں بردار بیٹے کی طرح اپنے والدین کی راحت وآرام کا بھی بھرپور خیال رکھنا پڑتا ہے۔ گویا کہ جوانی ایک ایسا مرحلہ جوان دونوں مرحلوں کی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی انجام دینے کا مشکل ترین مرحلہ ہے۔ جو جوان اپنی جوانی میں ان تمام ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی انجام دیتا ہے او اپنا بوڑھاپا بھی بڑے آرام وسکون کے ساتھ گزارتا ہے کیوں کہ جوانی کے ایام میں لگایا ہوا درخت کا پھل ہی وہ اپنے بوڑھاپے کے زمانے میں کھاتا ہے۔ درحقیقت جوانی الله تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے جس کا شکر تمام جوانوں پر واجب ہے۔ اسلام نے ایام جوانی کی عبادت کو خوب پسند کیا ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو اسلام نے زیادہ تر جوانوں کو ہی مخاطب کیا ہے، بچوں اور بوڑھوں کو براہ راست مخاطب نہیں بنایا گیا ہے کیوں کہ بچے تو مکلف ہی نہیں ہیں او ربوڑھے اپنے آخری ایام میں صرف اکرام واعزاز کے مستحق ہوتے ہیں جو انہیں جوان ہی دے سکتے ہیں۔ جوانوں کے سلسلہ میں بہت ساری احادیث مروی ہیں جن میں ان کے نیک عمل اور اس پر مرتب ہونے والے اجر وثواب کی بشارت ہے۔

ایک حدیث میں الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ایسے جوان کے بارے میں جس نے اپنی جوانی کے ایام کو الله کی عبادت او راس کی اطاعت میں گزارا ہو، فرمایا کہ قیامت کے دن جب ہر شخص پر نفسی نفسی کا عالم طاری ہو گا، کسی کو قیامت کے روز کی تمازت سے بچنے کے لیے سایہ مہیا نہیں ہو گا اس دن جن چند لوگوں کو الله تعالیٰ کا خاص سایہ حاصل ہو گا ان میں ایسا جوان بھی شامل ہو گا جس نے اپنی پوری زندگی کو الله کی اطاعت وفرماں برداری اور اس کی عبادت میں گزارا ہو۔ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: ”سبعة یظلھم الله فی ظلہ یوم لاظل الاظلہ امام عادل، وشاب نشا فی عبادة الله، ورجل قلبہ معلق بالمساجد، ورجلان تحابافی الله اجتمعا علیہ وتفرقا علیہ، ورجل دعتہ امرأة ذات منصب وجمال فقال انی اخاف الله، ورجل تصدق بصدقة فاخفاھا حتی لا تعلم شمالہ ماتنفق بیمینہ، ورجل ذکر الله خالیا ففاضت عیناہ․ ( متفق علیہ)

ترجمہ: قیامت کے دن سات طرح کے انسان کو الله کا سایہ حاصل ہو گا جس دن سوائے الله کے سایہ کے کسی اور طرح کا کوئی سایہ نہ ہو گا، ان میں سے امام عادل ، ایسا نوجوان جس نے اپنی جوانی الله کی عبادت میں گزاری، ایسا شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں معلق رہتا ہو ، دو ایسے انسان جو آپس میں ایک دوسرے سے محبت اور نفرت صرف الله کے لیے کرتے ہیں او رایسا شخص جسے کسی خوب صورت او رباحیثیت عورت نے گناہ کی دعوت دی اور اس نے کہا ہو کہ میں الله سے ڈرتا ہوں، اور ایسا شخص جو اتنی راز داری سے صدقہ کرتا ہو کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوسکے کہ دائیں ہاتھ سے کچھ دیا ہے او رایسا شخص کہ جب بھی الله کا ذکر کرے تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔

اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جوانی کے دنوں میں کی گئی عبادت الله تبارک وتعالیٰ کو کتنی پسند ہے۔ بچپن میں تو انسان مکلف نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی گناہ کے اسباب وعوامل ہوتے ہیں ، بڑھاپے میں انسان کے قویٰ کمزو ہو جاتے ہیں او روہ بہت سارے گناہوں پر قادر نہیں ہوتے ایسے میں گناہ نہ کرنا او رمسجد میں بیٹھ کر الله الله کرنا کوئی بہت بڑا کمال نہیں ہے، بلکہ کمال تویہ ہے کہ انسان جوان ہو، تندرست وتوانا ہو اور گناہ کے اسباب وعوامل بھی موجود ہوں پھر اس کے باوجود بھی وہ گناہ سے محفوظ رہے، اس لیے نہیں کہ اس کے اندر گناہ کرنے کی طاقت نہیں تھی یا گناہ پر قادر نہیں تھا بلکہ وہ گناہوں سے اس لیے محفوظ رہا کہ اسے صرف اور صرف الله کا خوف تھا، سارے اسبا ب وعوامل موجود ہونے کے باوجود وہ گناہوں کی جانب راغب نہیں ہوا او راپنی جوانی کے ایام کو صرف اور صرف الله کی اطاعت وفرماں برداری اور اسی کی عبادت میں گزارا ایسا جوان قیامت کے دن الله کے عرش کے سایہ میں ہو گا۔

شیخ سعدی رحمة الله علیہ کا بہت مشہور قول ہے: درجوانی توبہ کردن شیوہٴ پیغمبری۔

یقینا جوانی میں پرہیز گاری اور تقویٰ کی زندگی گزارنا پیغمبروں کا طریقہ ہے او ربہت بڑا کمال ہے، یہی وجہ ہے کہ شیخ سعدی علیہ الرحمہ جیسے مفکر نے جوانی کے دنوں میں توبہ کرنے کو پیغمبروں کا شیوہ اور طریقہ بتایا ہے۔ جوانی ایک ایسا مرحلہ ہوتا ہے جہاں انسان کے بھٹکنے او رگناہوں کی طرف مائل ہونے کے ہزار راستے ہوتے ہیں، جن میں آج کا تباہ شدہ ماحول اور غلط قسم کے دوستوں کی صحبت کا بھی بہت اہم کردار ہے، لیکن اگر کوئی جوان گناہ کے تمام اسباب وعوامل کے باوجود تقویٰ کی صفت سے متصف ہو جاتا ہے تو یقینا وہ پیغمبروں کے طریقہ پر چلنے والا بن جاتا ہے اور ایسے ہی نوجوان کے بارے میں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے بشارت دی ہے کہ وہ قیامت کے دن الله کے عرش کے سایہ میں ہو گا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کا معاشرہ اخلاقی اعتبار سے بالکل تباہ وبرباد ہو چکا ہے، گلی کوچے میں گناہ کے اسباب مہیا ہیں، اتنا ہی نہیں معاشرہ میں اس قدر انارکی پھیل چکی ہے کہ وہ تمام برائیاں جو محلوں او رگاؤں سے دور شہروں میں ہوا کرتی تھی اب وہ کھلے عام گاؤں اور محلوں میں ہونے لگی ہیں جس کے اثرات سے مسلم گھرانے بھی محفوظ نہیں ہیں، ایسے میں ایک جوان اپنی زندگی کس طرح گزارے؟ وہ کسے اپنا آئیڈیل اور ہیرو تسلیم کرے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ دین سے دوری اور دینی تعلیم سے ناواقفیت کی بنا پر ہمارے مسلم نوجوان نے بھی اپنا آئیڈیل فلموں میں ناچنے او رگانے والوں کو بنا لیا ہے جسے عرف عام میں ہیرو کہا جاتا ہے، ہاں وہ ہیرو ضرور ہیں لیکن مسلم نوجوان کے نہیں بلکہ ناچنے او رگانے والے سماج کے ہیرو ہو سکتے ہیں جنہیں مسلم نوجوانوں کو کبھی بھی اپنا آئیڈیل یا ہیرو نہیں بنانا چاہیے بلکہ مسلم نوجوان کے ہیرو اور آئیڈیل بننے کی صلاحیت صرف اور صرف ایک ہستی میں ہے اور وہ ہے آقائے نامدار نبی آخر الزماں محمد رسول صلی الله علیہ وسلم۔ جس طرح آپ کا بچپن معصومیت سے پر ہے اسی طرح آپ کی جوانی بھی بے داغ اور صاف شفاف ہے، آپ کی جوانی میں تقویٰ پرہیز گاری اور صدق وصفا کا یہ حال تھا کہ مشرکین مکہ او رکفار مکہ نے آپ کو جوانی میں ہی صادق اور امین جیسا لقب عطا کیا اور چہ جائے کہ بحیثیت نبی وہ آپ کی شکل تک دیکھنا گوارہ نہیں کرتے تھے لیکن جب صداقت اور امانت اور متقی نوجوان کا تذکرہ ہوتا تو ہر ایک کافر اور مشرک کی زبان پر ایک ہی نام ہوتا ” محمد“ (صلی الله علیہ وسلم)۔

جہاں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ پوری انسانیت کے لیے اسوہ حسنہ ہے وہیں جوانوں کے لیے بھی اپنے ایام جوانی گزارنے کا بہترین نقش ملتا ہے۔ جوانی جو کہ الله تعالیٰ کی جانب سے عطا کی گئی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے ، چاہیے کہ اس عظیم نعمت کی قدر کریں اور اس کو اسی طرح گزاریں جس طرح کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے گزری ہے یا انہوں نے گزارنے کی تلقین فرمائی ہے تبھی جوان اس درجہ کو پہنچ پائیں گے جس کی بشارت مخبر صادق صلی الله علیہ وسلم نے دی ہے یعنی قیامت کے دن الله کے عرش کے سایہ کی حصول یابی۔

اسی طرح الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ایسے جوانوں کو برائی او رگناہ سے دور رہنے کا بڑا اچھا نسخہ تجویز کیا ہے جو اپنی مالی تنگی کی وجہ سے شادی جیسی سنت کو ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ شادی کر لے، کیوں کہ شادی کے ذریعہ نگاہیں نیچی رہتی ہیں اور شرم گاہوں کی حفاظت ہوتی ہے اور جو استطاعت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھے یہ اس کی حفاظت کے لیے بہتر ہے۔” یا معشر الشباب من استطاع منکم الباء ة فلیتزوج فانہ اغض للبصر واحصن للفرج، ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء․ “ ( متفق علیہ)

جس جوانی کے بارے میں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے اتنی عمدہ بشارت سنائی ہے آخر وہ محفوظ جوانی کس طرح حاصل ہو سکتی ہے، اس کی عمدہ مثال خود ہمیں الله کے رسول محمد صلی الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ میں ملتی ہے، آئیے ذرا الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے ایام جوانی پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں اور اس کی روشنی میں اپنی جوانی گزارنے کی کوشش کریں۔

الله تعالیٰ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو جامع الکمالات بنایا تھا، ان کمالات میں سے ایک بڑا کمال یہ تھا کہ جوانی میں ہی آپ نے اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کا ایسی زبانوں سے اعتراف کروالیا جنہوں نے آپ کو نبی کی حیثیت سے تو قبول نہیں کیا لیکن نبوت کے علاوہ اگر کسی انسانی خوبی وکمال کا تذکرہ ہوتا تو سب کی زبان سے ایک ہی نام نکلتا اور وہ نام نامی اسم گرامی محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کا ہوتا۔ نبوت سے قبل آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی قوم کے درمیان عمر عزیز کے چالیس سال گزارے اور چالیس سال کا طویل عرصہ کسی بھی جوان کی زندگی کو سمجھنے کے لیے بہت ہوتا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے اس چالیس سالہ دور کا ہر رخ اور ہر تصویر آپ کی قوم کی نظروں کے سامنے بالکل صاف وشفاف تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ چالیس سالہ زندگی، سچائی، دیانت اور خدمت خلق جیسے اعلیٰ اوصاف سے بھرپور ہے جس کی بنیاد پر دشمنوں نے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کو صادق اورامین کے لقب سے پکارا، جب آپ کو نبوت ملی تو آپ نے اپنی سچائی کے ثبوت میں اپنی اسی چالیس سالہ زندگی کو پیش فرمایا، آپ کی جان کے دشمن آپ کے دین او ردعوت کے دشمن کو بھی اس بات کی جرأت نہ ہو سکی کہ آپ کی سابقہ زندگی پر انگلی اٹھاسکے۔ محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ جوانی کی حالت میں پاکیزہ زندگی گزارنا ہے، ایسی صاف ستھری او راخلاق سے آراستہ زندگی جس کے دوست ودشمن سب ہی معترف ہیں۔ دشمنوں کو نبوت پر انگلی اٹھانے کی ہمت تو ہوئی لیکن مجال ہے کہ کسی نے کردار پر انگلی اٹھانے کی ادنیٰ سی جرأت بھی کی ہو، ابوجہل جیسا کٹر دشمن بھی آپ کی زبان سے نکلے ہوئے ہر ایک لفظ کو سچ اور حق مانتا تھا، یہ آپ کی پاک وصاف جوانی کی وجہ سے ہی تھا۔ آپ کے چچا ابو طالب کے الفاظ ہیں کہ میں نے اپنے بھیجتے کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں سنا اور کبھی گلیوں میں لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا۔ سبحان الله

آج ہمارے معاشرہ کا عالم یہ ہے کہ نوجوانوں کے زیادہ تر عیوب ان کے رشتہ داروں کو معلوم ہوتے ہیں، بڑے بزرگ ان کے عیوب پر مطلع ہونے کی وجہ سے انہیں کسی قسم کی معاشرتی ذمہ داری سونپنے سے ہچکچاتے ہیں اور ہر وقت ان کی بے ہودہ حرکتوں کی وجہ سے خاندان کی بدنامی کا خوف ان کو ستائے رہتا ہے جب کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بے داغ جوانی کی گواہی خود ان کے خاندان کے بزرگ ابو طالب دے رہے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے بیٹے علی رضی الله عنہ کو ان کی سرپرستی میں دے دیا تھا۔

الله کے رسول محمد صلی الله علیہ وسلم نے اپنی جوانی کے دنوں میں معاشرتی طور پر بڑی ذمہ داریاں انجام دیں، جن میں سے حجر اسود کی تنصیب کا اہم واقعہ بھی ہے۔ ایک بار مکہ میں بارش کی وجہ سے سیلاب آگیا او رکعبہ کا کچھ حصہ گر گیا، مختلف قبیلوں نے مل کر دوبارہ تعمیر کیا، جب حجر اسود لگانے کا وقت آیا تو ہر کسی کی خواہش تھی کہ اس اہم کام کو وہ خود اپنے ہاتھوں سے انجام دے، یہ ایک ایسا معاملہ تھا جس میں فساد کا خطرہ تھا، طے ہوا کہ جو سب سے پہلے کل صبح بیت الله میں داخل ہو گا وہی حجر اسود کو نصب کرنے کا حقدار ہو گا۔ سب نے بیت الله میں پہلے پہنچنے کی کوشش کی، لیکن الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم پہلے ہی سے موجو دتھے، آپ نے ایسی تدبیر نکالی کہ سب عش عش کر اٹھے اور آپ کی اس حسن تدبیر کو خوب پسند کیا، آپ نے ایک چادر منگائی اور اس چادر میں حجر اسود کو رکھا، اور پھر ہر قبیلہ کے سردار سے کہا کہ وہ چادر کے سرے کو پکڑ کر اٹھائے اس طرح جب حجر اسود کے مقام پر پہنچے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کر دیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی حسن تدبیر کے ذریعہ ایک بڑے فساد سے اہل مکہ کو بچا لیا۔

جوانی میں آپ صلی الله علیہ وسلم محبت ورحمت کی اپنی مثال آپ تھے، کسی کی تکلیف دیکھ کر فوراً مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے، ایک بڑھیا کو دیکھا، بوجھ اٹھائے جارہی تھی، کمر بوجھ تلے جھکی جارہی تھی، پتھر دل لوگ ہنس رہے تھے، آپ نے آگے بڑھ کر بڑھیا کا بوجھ اپنے کندھے پر رکھا اور لوگوں سے کہا ایک کمزور بڑھیا کا مذاق اڑانا جوانی کا شیوہ نہیں ، بلکہ مردانگی او رجوانی یہ ہے کہ اس کا بوجھ ہلکا کرو اور اس کی مدد کرو۔ حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ الله کے رسول محمد صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس جوان نے کسی بوڑھے شخص کی اس کے بڑھاپے کی وجہ سے تعظیم وتکریم کی تو الله تعالیٰ اس کے بڑھاپے کے وقت ایسے شخص کو مقرر کرے گا جو اس کی تعظیم کرے گا۔ (رواہ الترمذی)

ایام جوانی میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے وقت کا کافی حصہ بوڑھوں، بیماروں او رمعذور لوگوں کی دیکھ بھال میں صرف فرماتے تھے۔ ان کے چھوٹے بڑے کام کرتے، ایک دن ایک قریشی سردار نے کہا کتنی شرم کی بات ہے کہ تم اپنے خاندان کو بٹہ لگاتے ہو ، تم اونچے گھرانے کے چشم وچراغ ہو اور اس طرح غریبوں کے کام کرتے ہو۔ نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: بے شک میرے پر دادا ہاشم قریش کے سردار تھے مگر وہ بھی سب کی خدمت کیا کرتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کو یتیموں سے بڑی محبت تھی، ایک بچے کو کمزور وبے لباس دیکھا، اس سے وجہ پوچھی وہ رو پڑا او ربھوک کی شکایت کی، آپ صلی الله علیہ وسلم کی آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے، آپ لڑکے کو گھر لے گئے کھانا کھلایا اور کپڑے پہنائے۔

جوانی میں معاشرتی او رخاندانی ذمہ داریاں پیش آئیں تو تجارت کو ذریعہ معاش بنایا، تجارت کی کام یابی کا علم مکہ کی مال دار خاتون بی بی خدیجہ کو ہوا تو اپنے کارندوں کے ذریعہ شام کے سفر تجارت پر بھیجا او راپنے معتبر غلام میسرہ کو بھی ساتھ کر دیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسی دیانت داری او رمحنت سے کام کیا کہ حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کو توقع سے زیادہ منافع ہوا۔ میسرہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی نیکی، آپ کی خوبیاں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی دیانت کے بارے میں حضرت خدیجہ کو بتایا تو انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے شادی کا پیغام بھیجا۔ اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر35 سال تھی اور حضرت خدیجہ کی عمر40 سال تھی۔ حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کی صورت میں ایک نیک اور خدمت گزار بیوی ملی، ان کے ہمراہ بڑی پرسکون اور خوش گوار زندگی گزاری ان سے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہوئیں، بیٹے چھوٹی عمر میں ہی وفات پاگئے، باقی چاروں بیٹیوں کی شادیاں ہوئیں۔ کام یاب جوانی کی زندگی میں ایک کام یاب انسان، ایک کام یاب باپ، خاوند اور پھر کام یاب تاجر کی زندگی گزاری، یہاں تک کہ چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی یقینا جوانی الله تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے، جسے گزارنے کا صحیح طریقہ ہمیں نبی صلی الله علیہ وسلم کی اتباع میں ہی ملتا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی جوانی کی زندگی میں آج کے جوان کو جو نقوش ملتے ہیں ان میں بنیادی او ربہت گہرا نقش تو یہ ہے کہ آج کا جوان اپنی جوانی میں سچائی، دیانت داری اور شرافت کا پیکر بن جائے اور اس کی خوبیوں کے معترف سب سے پہلے اس کے گھر والے ہوں جن کے درمیان وہ اپنا دن ورات گزارتا ہے پھر اس کے رشتہ دار اس کی خوبیوں کے معترف ہوں اور آج کے نوجوان پر جب معاشی ذمہ داریاں آجائیں تو یہ کام یابی سے ان ذمہ داریوں کو نبھائے اور یہی خوبیاں اس قدر کمال کی ہوں کہ وہی اس کی شادی کا سبب بن جائیں اور اس کے بعد خاوند اور پھر باپ بننے کے بعد اپنی پوری زندگی میں ہر مرحلہ کے اندر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے راہ نمائی حاصل کرتا رہے۔ کیوں کہ حیات طیبہ صرف جوانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان کے لیے اسوہ حسنہ ہے، قیمتی سرمایہٴ حیات ہے۔ حیات طیبہ کے نقش میں ہی زندگی گزارنا ہم مسلمانوں کا فریضہ ہے اسی میں کام یابی وکام رانی ہے۔ وبالله التوفیق وھو المستعان․

Flag Counter