Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1435ھ

ہ رسالہ

6 - 17
آداب تعلیم

مفتی عبدالرحیم
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

شریعت مطہرہ نے جس طرح زندگی کے دیگر تمام شعبوں سے متعلق احکام او ران کے آداب بتلائے ہیں، اسی طرح تعلیم وتعلم کے شعبے کے بھی تفصیلی احکام وآداب واضح کر دیے ہیں، ان آداب کا جاننا اور ان پر عمل پیرا ہونا معلمین اور متعلمین دونوں کے لیے از حد ضروری ہے، ان کے بغیر تعلیم وتعلم کا حقیقی فائدہ اور بیش بہا ثمرات کا حصول ناممکن ہے۔

آداب تعلیم وتعلم سے متعلق دسیوں ضخیم ومختصر کتابیں تصنیف کی گئی ہیں، ذیل میں ہم دورِ حاضر کے حالات کے موافق تعلیم کے چند آداب ذکر کرتے ہیں، جن کا اکثرحصہ حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی کی کتاب آداب المتعلمین اور طاش کبری زادہ کی کتاب مفتاح السعادة ومصباح السیادة سے لیا گیا ہے۔

ذیل میں ہم معلمین سے متعلق قرآن وسنت سے مأخوذ آداب ذکر کرتے ہیں، جن پر حضرات صحابہ، تابعین اور اکابر امت نے عمل کرکے ان کے برکات وثمرات حاصل کیے ہیں، مذکورہ آداب مدرسین کے لیے انتہائی مفید اور حرزِ جان بنا لینے کے قابل ہیں۔

پہلا ادب، شاگردوں پر شفقت او رنرمی
استاذ کو چاہیے کہ شاگردوں پر شفقت کرے اور ان کو اپنے حقیقی بچوں کی طرح جانے، جیسا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:”انما انا لکم مثل الوالد لولدہ“ کہ میں تمہارے لیے ایسا ہوں جیسا کہ باپ اپنے بچے کے لیے ہوتا ہے۔

ابوہارون عبدی اور شہر بن حوشب کہتے ہیں: جب ہم ( طلب علم میں) حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو فرماتے: خوش آمدید، رسول الله کی وصیت کیے جانے والو!خوش آمدید، سنو! رسول الله صلی الله علیہ ودسلم نے فرمایا ہے : عنقریب زمین تمہارے لیے مسخر کر دی جائے گی او رتمہارے پاس کم عمر آئیں گے، جو علم کے بھوکے پیاسے ہوں گے، تفقہ فی الدین کے خواہش مند ہوں گے او رتم سے سیکھنا چاہیں گے، پس جب وہ آئیں تو انہیں تعلیم دینا، مہربانی سے پیش آنا، ان کی آؤ بھگت کرنا اورحدیث بتانا (جامع بیان العلم)

غصہ اور طیش میں آکر کبھی بچوں کو سزا نہ دے، کیوں کہ حکیم غصہ میں بھرا ہوا ، مریض کے مرض کو ختم نہیں کرسکتا ، غصہ میں دل قابو میں نہیں رہتا، جب استاد کا اپنا دل ہی اس کے قابو میں نہیں تو وہ شاگرد کو کیسے صحیح تربیت دے سکتا ہے؟ اس میں تو اور خرابی کا اندیشہ ہے۔

تجربہ سے ثابت ہے کہ سخت کلمات کی بہ نسبت نرم کلمات زیادہ مؤثر ہوتے ہیں، یہ حماقت ہے کہ جس برتن میں آدمی کچھ ڈالنا چاہے اس میں سوراخ کردے، جب استاد شاگرد کے دل کو اپنی سختی اور مارپیٹ سے چھلنی کردے گا تو اس میں خیر کی بات کس طرح ڈال سکے گا؟

خوف دلانے اور دباؤ ڈالنے سے ہو سکتا ہے کہ وقتی طورپر کام چل جائے، مگر یہ کام یابی عارضی ہوتی ہے، جو استاد اخلاقی برائیوں کو حسن خلق کے ذریعے رفع کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا، وہ استاد کہلانے کا مستحق نہیں، اصل بات یہ ہے کہ عام طور پر اساتذہ کو اپنی بدخلقیوں کی طرف بالکل توجہ نہیں ہوتی اور نہ اپنی اصلاح کی فکر ہوتی ہے، بزعمخو داپنے کو کامل سمجھ لیتے ہیں اور ناقص جب اپنے کو کامل سمجھ لے تو اس سے جو بھی فتنہ اٹھ کھڑا ہو ، وہ کم ہے۔

یادر کھیے! چھوٹے بچوں کے دلوں میں رعب او رخوف کا سمانا ایسا ہی برا ہے جیسا کہ نرم وناز ک پودوں پر بادِ صرصر کا تیز تند جھونکایا پھولوں پر گرم لُو کا چلنا۔

امام غزالی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ استاد کو بردبار اور حلیم الطبع ہونا چاہیے ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ الله نے فرمایا جب تک تیرا غصہ باقی ہے، اپنے آپ کو اہل علم میں شمار نہ کر۔

قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم کو بھی غصہ کے نقصانات بیان فرمائے ہیں چناں چہ ارشاد ہے ﴿ ولو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک﴾․

تعلیم المتعلم میں لکھا ہے کہ استادِ مشفق کالڑکا بھی عالم ہوتا ہے، کیوں کہ استاد کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے شاگرد عالم بن جائیں، اس آرزو کی برکت اور اس کی شفقت کی وجہ سے الله تعالیٰ اس کے لڑکے کو بھی علم کی دولت عطا فرماتے ہیں۔

برہان الأئمہ تمام طلبہ کو پڑھانے سے فارغ ہونے کے بعد دوپہر کے وقت اپنے دونوں لڑکوں کو پڑھاتے تھے، لڑکوں نے کہا: اس وقت پڑھنے میں طبیعت نہیں لگتی، فرمایا: جو طلبہ دوردراز سے مجھ سے پڑھنے آتے ہیں ان کا حق پہلے پڑھنے کا ہے، چنا ں چہ ان لڑکوں نے بھی اس پر مزید کوئی اصرار نہیں کیا، اس کی برکت سے اپنے زمانے کے بڑے عالم ہوئے اور اپنے ہم عصروں پر فوقیت لے گئے۔

امام ابویوسف کا قول ہے کہ اپنے شاگردوں کے ساتھ ایسے خلوص او رمحبت سے پیش آؤ کہ دوسرا دیکھے تو انہیں تمہاری اولاد سمجھے۔

امام ربانی کے حالات میں لکھا ہے کہ ایک طالب علم فرش پر بیٹھا قرآن مجید پڑھ رہا تھا، حضرت نے خیال کیا تو اپنے نیچے فرش زیادہ پایا، فوراً اٹھے اور اپنے نیچے سے زائد فرش نکال کر اس طالب علم کے نیچے بچھا دیا۔

استاد الکل حضرت مولانا مملوک علی صاحب  کا حال یہ تھا کہ جب کوئی طالب علم بیمار ہو جاتا تو اس کی قیام گاہ پر جاکر عیادت کرتے اور اس کی ہر طرح کی دل جوئی فرماتے ،حالاں کہ اس زمانے میں داراالطلبہ کا انتظام نہیں تھا۔ طلبہ مختلف مساجد اور مکانوں میں رہتے تھے۔

حضرت مولانا سید ظہورالاسلام صاحب رحمہ الله بانی مدرسہ اسلامیہ فتح پور کا واقعہ ہے کہ ان کے زمانے میں ایک بنگالی طالب علم سخت بیمار ہو گیا اور حالت اخیر معلوم ہونے لگی، مولانا جب ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو اس طالب علم کی آنکھوں میں آنسو آگئے، حضرت مولانا نے اسے تسلی دی اور فرمایا گھبراؤ نہیں، تم ان شاء الله ٹھیک ہو جاؤگے۔ اس کے بعد مسجد میں جاکر دیر تک دعا مانگتے رہے او رفرمایا: اے الله! اگر جان لینا ہی طے ہو تو ظہور الاسلام کا بیٹا عطیة الله حاضر ہے، یہ طالب علم پردیسی ہے، میری امانت میں ہے ،اس کو صحت عطا فرما، تھوڑی دیر میں گھر سے اطلاع آئی کہ عطیة الله کی حالت غیر ہے، جلد تشریف لائیے، حضرت مولانا پہنچے تو انتقال ہو چکا تھا، حضرت کا یہی اکلوتا اور ہونہار لڑکا تھا، الله پاک باپ بیٹے دونوں کی قبروں کو نور سے بھر دے۔
        بنا کردند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن
        خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

حضرت حکیم الامت نو رالله مرقدہ نے تو سبق یاد نہ ہونے پر بھی استاد کے مارنے کو منع فرمایا ہے، چناں چہ خانقاہ میں سخت تاکید تھی کہ کوئی استاد طالب علم کو نہ مارے، بلکہ اس کی اطلاع تعلیم کے ذمہ دار کو دی جائے، وہ مناسب سزا تجویز کرے گا، استاد کی طرف سے طالب علم کے دل میں اگر تکدّر ہو گیا تو وہ اس سے فیض حاصل نہیں کرسکتا، نیز بسا اوقات جو کچھ یاد ہوتا ہے، مارنے کے خوف کی وجہ سے بھول جاتا ہے، بعض اساتذہ تو چہرے پر مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے، حالاں کہ حدیث پاک میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔ اگر طالب علم کوئی کوتاہی کرتا ہے تو پہلے اس کو شفقت اور نرمی سے سمجھائے، اس کا اثر نہ ہو توتنبیہ کرے، اس کا بھی اثر نہ ہو تو مدرسے کے ذمے دار کو اس کے حالات سے مطلع کرے، اگر بار بار سمجھانے اور تنبیہ کے بعد بھی اس کی حالت درست نہ ہو تو اس کے سرپرست کو مطلع کر دیا جائے کہ یہاں اس کا رہنامفید نہیں، دوسری جگہ بھیج دیا جائے، ممکن ہے وہاں کچھ حاصل کر لے، مگر یہ کوئی عقل مندی نہیں کہ دوسرے کی اصلاح میں اپنے کو بھی فاسد کردے۔

قطب العالم حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہ الله کے حالات میں ہے کہ ایک مرتبہ صحن میں درس دے رہے تھے، بارش ہونے لگی ، طلبہ اپنی اپنی کتابیں لے کر اندر چلے گئے حضرت نے ان سب طلبہ کے جوتے اٹھائے اور حفاظت کی جگہ رکھ دیے۔

اگر ہمارے اسلاف اس طرح شفقت ، تحمل اور نرمی سے کام نہ لیتے تو علم دین ہم تک ہر گز نہیں پہنچ سکتا تھا، اصل بات یہ ہے کہ ان کے اندر علم دین کی اشاعت کا جذبہ تھا ،اس لیے سب کچھ برداشت کرتے تھے۔

الله تعالیٰ ہمیں بھی اسلاف کی اتباع کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین !

Flag Counter