Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1435ھ

ہ رسالہ

13 - 17
دوسروں کو تکلیف دینے کی قباحت

ابوعکاشہ مفتی ثناء اللہ ڈیروی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

انسان معاشرے کے اندر رہ کر زندگی گزارتا ہے، اس کے شب وروز لوگوں کے ساتھ گزرتے ہیں اور اس کا واسطہ اپنے گھر کے لوگوں سے بھی ہوتا ہے اور باہر کے کئی لوگوں سے بھی مختلف انداز میں واسطہ ہوتا ہے۔

اب انسان معاشرے کے اندر رہتے ہوئے کس طرح زندگی گزارے؟ اس کا لوگوں کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ ہو ؟ ! اس بارے میں شریعت مطہرہ میں راہ نما اصول موجود ہیں کہ اگر انسان ان کو مدنظر رکھ کر اپنی طرز زندگی کو ان کے مطابق ڈھال لے، تو یہ معاشرہ امن وسلامتی کا گہوارہ بن جائے۔

مسلمان کا مرتبہ
اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین ہو کہ الله تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان کا بہت بڑا مرتبہ اور مقام ہے، آج اگر ہمیں کسی کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ فلاں آدمی وزیر اعظم یا کسی بھیعہدہ او رمنصب رکھنے والے آدمی کا دوست اور قریبی ہے، تو ہمارا اس کے ساتھ کیا برتاؤ اور سلوک ہوتا ہے؟ ایسے آدمی کو تکلیف واذیت دینا تو کجا اس کی خوشی کے حصول کے لیے اس کے ہر جائز اور ناجائز امر کو خندہ پیشانی سے گوارہ کر لیتے ہیں۔

ترمذی شریف کی روایت میں حضرت ابن عمر رضی الله عنہما کے بارے میں آیا ہے:”ونظر ابن عمر رضي الله عنہما یوماً إلی البیت ، أو إلی الکعبة فقال: ما أعظمک وأعظم حرمتک، والمؤمن أعظم حرمة عندالله منک․“ (سنن الترمذي، أبواب البر والصلة، باب ماجاء فی تعظیم المؤمن، رقم الحدیث:2030)

یعنی حضرت ابن عمر رضی الله عنہما نے ایک دن کعبہ شریف کی طرف دیکھا اور فرمایا: تیرا مرتبہ کس قدر بڑا ہے اور تیرا احترام کس قدر زیادہ ہے، مگر الله تعالیٰ کے نزدیک مؤمن کا احترام تجھ سے بھی بڑھا ہوا ہے۔

اسی طرح ایک روایت میں ہے: ”الخلق عیال الله فأحب الناس إلی الله تعالیٰ من أحسن إلی عیالہ․“ (کنزل العمال، کتاب الزکاة، الباب الثاني، رقم الحدیث:164/6,16167، دارالکتب)

مخلوق الله تعالیٰ کی عیال ہے پس لوگوں میں الله تعالیٰ کو سب سے پسندیدہ وہ شخص ہے ، جو اس کے عیال کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔

انسان کو تکلیف دینا حرام ہے
اسی وجہ سے شریعت نے دوسرے انسان کو اذیت اور تکلیف دینے کو ممنوع قرار دیا ہے۔چناں چہ آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:”المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ․“ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الإیمان، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ، رقم الحدیث:10)

مسلمان وہ ہے، جس کی زبان او رہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور حدیث میں ”المسلمون“ کا ذکر ہے، یہ اس لیے ہے کہ چوں کہ مسلمان کا واسطہ زیادہ تر مسلمانوں ہی سے ہوتا ہے، شب وروز اس کا اختلاط اور ملنا جلنا مسلمانوں کے ساتھ رہتا ہے، اس بناء پر ”المسلمون“ کی قید ذکر کی گئی، وگرنہ ذمی کافر کو بھی تکلیف دینا جائز نہیں۔(فتح الباری، کتاب الإیمان، باب المسلم من سلم…53/1)

عبادت پر ترک اذیت مقدم
بلکہ شریعت نے تو ایسے موقع پر اور ایسے طریقے سے الله تعالیٰ کی نفل عبادت کو بھی ممنوع قرار دیا ہے، جہاں پر او رجس طریقے سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہو ، مثلاً قرآن کی تلاوت کرنا عبادت اور بہت بڑے ثواب کا کام ہے، لیکن اگر کوئی شخص ایسی جگہ پر جہاں سب لوگ سور ہے ہوں، بلند آواز سے تلاوت کرتا ہے، تو شریعت کی طرف سے اس طرح تلاوت کرنے کی اجازت نہیں ، بلکہ اگر کوئی شخص اس طرح کرے تو یہ شخص گناہ گار ہو گا۔

چناں چہ حاشیہ ابن عابدین میں ہے:”رجل یکتب الفقہ وبجنبہ رجل یقرء القرآن فلا یمکنہ استماع القرآن فالإثم علی القاري، وعلی ھذا لوقرء علی السطح والناس نیام یأثم، أي لأنہ یکون سببا عراضھم عن استماعہ أولأنہ یؤذیھم بإیقاظھم․“ (حاشیہ ابن عابدین، کتاب الصلوٰة، 403/1، رشیدیہ)

اسی طرح حجر اسود کو بوسہ دینا سنت ہے، لیکن اگر لوگوں کا ہجوم ہے، اور حجر أسود تک جانے میں لوگوں کو تکلیف ہو گی، یعنی دھکے وغیرہ لگیں گے، تو ایسی صورت میں یہ شخص ”حجرأسود“ تک جانے کی کوشش نہ کرے، اس لیے کہ حجرأسود کو بوسہ دینا سنت ہے، اور لوگوں کو تکلیف نہ دینا واجب ہے۔ (الدرمع الرد، کتاب الحج،180/2 رشیدیہ)

تنبیہ… اس سے یہ بات بھی اچھی طرح معلوم ہو گئی، کہ آج کل جو دینی طبقے اور بزرگوں سے محبت کرنے والوں کا طرز عمل ہے، کہ اگر کسی بزرگ کی کہیں تشریف آوری ہوتی ہے ، تو ان سے مصافحہ اوران کے قریب جانے میں دھکم،پیل کا جو سماں ہوتا ہے، حالاں کہ انہی بزرگ کی طرف سے بار بار مصافحہ نہ کرنے کی بھی درخواست ہوتی ہے، یہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ لیکن اس کے باوجود اپنی جاہلانہ سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کچھ پرواہ نہیں ہوتی، کہ میرے اس عمل سے کتنے لوگ رنجیدہ خاطر ہوئے، کتنے لوگوں کو میں نے تکلیف پہنچائی ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جن بزرگ سے عقیدت کے اظہار کے لیے میں نے اتنے لوگوں کو روندا، کیا ان کو میرے اس طرح کے اظہار عقیدت سے خوشی ہوئی؟!

اسی طرح لاؤڈ اسپیکر کا بے محابہ استعمال جس نے آس پاس کے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، کیا ہمارا یہ طرز عمل جائز ہے؟! او راس طرح ہم لوگوں کو دین کی طرف راغب کر رہے ہیں، یا دین سے متنفر کر رہے ہیں؟!

شریعت کا حکم شریعت کے طریقے کے مطابق بجالانا چاہیے
اسی طرح انسان اپنے رشتہ داروں اور جان پہچان والوں کی خوشی، غمی میں شریک ہوتا ہے، تو یہ شریعت کا حکم ہے ، لیکن ہمارا کسی کے ہاں جانا اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ برتاؤ ایسے طریقے پر ہو، کہ جس سے نہ الله تعالیٰ ناراض ہوں، اور نہ جن سے ہم ملنے گئے ہیں ،ان کی تکلیف کا سبب ہو۔

اس کی آسان مثال اس طرح ہے کہ جیسے شریعت میں ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب وہ بیمار ہو جائے، تو اس کی عیادت کرے۔ ( مجمع الزوائد، کتاب البروالصلة،185/8، دارالفکر)

او راحادیث میں اس کی بہت فضیلت بھی آئی ہے۔
چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”إذا عاد المسلم أخاہ أو زارہ قال الله تعالیٰ طبت وطاب ممشاک وتبوأت من الجنة منزلا․“ (مشکوٰة، کتاب الآداب، باب الحب فی الله ومن الله، الفصل الثانی، رقم الحدیث :5015)

یعنی جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے یا اس کی ملاقات کی خاطر اس کے ہا ں جاتا ہے، تو الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیری زندگی خوشی ہوئی، تیرا چلنا مبارک رہا، اور تجھ کو جنت میں ایک بڑی اور عالی مرتبہ جگہ حاصل ہوئی۔

لیکن یہ عیادت کرنا باعث ثواب اس وقت ہو گا، جب اس میں شریعت کے اصولوں کی پاسداری ہو گی، مثلاً مریض کے پاس جاکر زیادہ دیر تک نہ ٹھہرے، وغیرہ اور مقصد مریض کو تکلیف سے بچانا ہے، اگر کسی کو معلوم ہو ، کہ میرا ان کے پاس زیادہ دیر تک رہنا، مریض کی چاہت ہے تو اس صورت میں تو زیادہ دیر ٹھہرنا صحیح ہے، وگرنہ فقہاء نے ایسے انداز میں عیادت کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے، جس سے مریض کو تکلیف ہو ۔ (حاشیہ ابن عابدین، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی البیع، 275/5)

واقعہ… حضرت عبدالله بن مبارک رحمہ الله کاواقعہ ہے، کہ جب آپ مرض وفات میں تھے، لوگ آپ کی عیادت کرنے کے لیے آنے لگے، آپ بستر پر لیٹے ہوئے تھے، ایک صاحب عیادت کے لیے آکر بیٹھ گئے، اور ایسے جم کر بیٹھ گئے کہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے، اور بہت سے لوگ عیادت کے لیے آتے رہے، اور مختصر ملاقات کرکے جاتے رہے، مگر وہ صاحب بیٹھے رہے، نہ اٹھے، اب حضرت عبدالله بن مبارک رحمہ الله اس انتظار میں تھے، کہ یہ صاحب چلے جائیں، تو میں خلوت میں بے تکلفی سے اپنی ضروریات کے کچھ کام کروں، مگر خود سے اس کو چلے جانے کے لیے بھی کہنا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔

جب کافی دیر گزر گئی، اور وہ الله کا بندہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، تو حضرت عبدالله مبارک رحمہ الله نے ان صاحب سے فرمایا: کہ یہ بیماری کی تکلیف تو اپنی جگہ پر ہے ہی ، لیکن عیادت کرنے والوں نے علیحدہ پریشان کر رکھا ہے، کہ عیادت کے لیے آتے ہیں اور پریشان کرتے ہیں ۔

آپ کا مقصد یہ تھا، کہ شاید یہ میر ی بات سمجھ کر چلا جائے، مگر وہ الله کا بندہ پھر بھی نہیں سمجھا، او رحضرت عبدالله بن مبارک رحمہ الله سے کہا، کہ حضرت اگر آپ اجازت دیں تو کمرے کا دروازہ بند کر دوں؟ تاکہ کوئی دوسرا شخص عیادت کے لیے نہ آئے، حضرت عبدالله بن مبارک رحمہ الله نے جو اب دیا ،کہ ہاں بھائی! بند کردو، مگر اندر سے بند کرنے کے بجائے باہر سے جاکر بند کردو۔

دوسروں کو تکلیف دینے پر وعید
انسان جیسے اس بات کی فکر کرتا ہے، کہ میری نماز صحیح ہو، میرا روزہ صحیح ہو وغیرہ ،او راس کے علاوہ اور عبادات میں بہت ذوق وشوق سے لگا ہوا ہوتا ہے، تو یہ الله تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے معاملات پر بھی غور کرے، کہ میرا معاملہ اپنے گھر والوں، پڑوسیوں اور اس کے علاوہ اور لوگوں کے ساتھ کیسا ہے؟ اگرچہ اس چیز کا تصور ہمارے ذہنوں سے بالکل نکل چکا ہے، کہ یہ چیزیں بھی دین کا حصہ ہیں، حالاں کہ یہ چیزیں کتنی اہمیت کی حامل ہیں، اس کا اندازہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی اس حدیث سے بخوبی ہو جاتا ہے:”عن أبي ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رجل یا رسول الله! إن فلانة فذکر من کثرة صلاتھا وصدقتھا وصیامھا غیر أنھا تؤذي جیرانھا بلسانھا قال: ھی فی النار، قال: یا رسول الله! فان فلانہ فذکر من قلة صیامھا وصلاتھا وأنھا تصدق بالأثوار من الأقط ولا تؤدی بلسانھا جیرانھا، قال: ھي فی الجنة․“ (مجمع الزوائد، کتاب البر والصلة، باب فی أذي الجار، 169/8، دارالفکر)

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں : کہ ایک دن مجلس نبوی میں کسی شخص نے ایک عورت او راس کی کثرت نماز، صدقات اور روزوں کا ذکر کیا، یعنی بہت نمازیں پڑھتی ہے، اور کثرت سے صدقات کرتی ہے، اور بہت روزے رکھتی ہے لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: کہ وہ عورت دوزخ میں جائے گی۔

اس آدمی نے کہا یا رسول الله! فلاں عورت او راسکے قلت صیام اور صلوٰة کا ذکر کیا، یعنی نماز کم پڑھتی ہے اور روزے کم رکھتی ہے، اور اس کا صدقہ خیرات پنیر کے چند ٹکڑوں سے آگے نہیں بڑھتا، لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعہ سے اپنے ہمسائیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتی ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ وہ عورت جنت میں جائے گی۔

غریب کون ہے؟!
دنیا میں ہر انسان کی کوشش ہوتی ہے، کہ اس کے سرمایے میں اضافہ ہو، اگر اضافہ نہ ہو ، تو کم از کم نقصان نہ ہو، اور اگر خدانخواستہ اس کی پوری زندگی کی جمع پونجی چور، ڈاکو اٹھا کر لے جائیں، تو اس کی حسرت وافسوس کا کیا عالَم ہو گا؟

اسی طرح اگر انسان کے پاس اور عبادات کا تو ذخیرہ موجود ہے، لیکن معاملات صحیح نہیں تھے، تو عبادات کا یہ ذخیرہ اور لوگ لے جائیں گے ،اور یہ خالی ہاتھ رہ جائے گا۔ اور دنیا کے نقصان کی تلافی تو ممکن ہے، لیکن آخرت کا نقصان ایسا نقصان ہے، کہ جس کی تلافی کی کوئی صورت نہ ہو گی ۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی الله عنہم سے پوچھا:”أتدرون ما المفلس؟ قالوا: المفلس فینا من لا درھم لہ ولا متاع، فقال: إن المفلس من امتي من یأتي یوم القیٰمة بصلاة وصیام وزکوٰة ویاتي قدشتم ھذا، وقذف ھذا، وأکل مال ھذا، وسفک دم ھذا وضرب ھذا، فیعطي ھذا من حسناتہ وھذا من حسناتہ، فإن فنیت حسناتہ قبل أن یقضیٰ ماعلیہ أخذ من خطایا ھم فطرحت علیہ ثم طرح فی النار․“ (الجامع الصحیح للمسلم ، کتاب البر والصلة، باب تحریم الظلم،320/2، قدیمی)

بتلاؤ مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا، یا رسول الله! ہم لوگ تو اس شخص کو مفلس سمجھتے ہیں، جس کے پاس مال، پیسہ نہ ہو، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

حقیقی مفلس وہ نہیں ، بلکہ حقیقی مفلس، غریب وہ ہے، جو الله تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن جب حاضر ہو گا، تو اس طرح حاضر ہو گا، کہ اس کے اعمالنامے میں بہت سارے روزے ہوں گے، بہت سی نمازیں اور صدقات، خیرات ہوں گے، لیکن ایسے شخص نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا، کسی کو مارا ہو گا۔

چناں چہ اب اصحاب حقوق اپنے حق کا مطالبہ کریں گے، تو الله تعالیٰ اس حق کے بدلے اس شخص کی نیکیاں ان کو دیں گے ، پس اگر اس شخص کی نیکیاں ختم ہوگئیں، اور دنیا کے اندر جن کا حق کھایا تھا، یا ان پر زیادتی کی تھی، وہ ابھی تک باقی ہیں، تو اب الله تعالیٰ حکم فرمائیں گے کہ صاحب حق کے اعمال میں جو گناہ ہیں، وہ اس شخص کے نامہ اعمال میں ڈال دیے جائیں، چناں چہ اصحاب حقوق کے گناہ اس شخص پر ڈال دیے جائیں گے، اور یہ شخص جو نیکیوں کا انبارلے کر آیا تھا، خالی ہاتھ رہ جائے گا، اور دوسروں کے گناہ اپنے اوپر لیے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کی فضیلت
ایک مسلمان کا حق دبانا، یا اس کو کسی قسم کی تکلیف دینے کے بجائے، اس کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کا پہلو اختیار کرنا چاہیے، جو کہ ایک بہت بڑے ثواب اور فضیلت کا کا م ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت ہے : ”عن ابي ھریرة رضي الله عنہ عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال من نفس عن مسلم کربة من کرب الدنیا نفس الله عنہ کربة من کرب یوم القیٰمة، ومن یسر علی معسر في الدنیا یسرالله علیہ في الدنیا والآخرة، ومن ستر علی مسلم في الدنیا ستر الله علیہ في الدنیا والآخرة، والله فی عون العبد ماکان العبد في عون أخیہ․“(سنن الترمذي، ابواب البر والصلة، باب ماجاء فی الستر علی المسلمین، رقم الحدیث:1927)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جس نے کسی مسلمان کی دنیا کی بے چینیوں میں کوئی بے چینی دور کی، تو الله تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی بے چینیوں میں سے کوئی بڑی بے چینی دور فرمائیں گے۔ اور جو شخص دنیا میں کسی تنگ دست پر آسانی کرے گا، الله تعالیٰ اس پر دنیا وآخرت میں آسانی فرمائیں گے۔

اور جو دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، الله تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے، اور الله تعالیٰ بندے کی مدد میں ہوتے ہیں، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”من قضی لأحد من أمتی حاجة یرید أن یسرہ بھا فقد سرني ومن سّرنی فقد سرالله ومن سرالله أدخلہ الله الجنة․“ (مشکوٰة المصابیح، کتاب الآداب، باب الشفقة والرحمة علی الخلق، الفصل الثالث، رقم الحدیث:4996)

جو آدمی میری امّت میں سے کسی شخص کی کسی دینی اور دنیا وی حاجت وضرورت کو پورا کرے، اور اس سے اس کا مقصد اس کو خوش کرنا ہو ، تو اس نے مجھے خوش کیا، اور جس نے مجھے خوش کیا، اس نے الله تعالیٰ کو خوش کیا۔

اور جس نے الله تعالیٰ کو خوش کیا، الله تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے گا۔

چھ امور جنت کے ضامن ہیں
”عن عبادة بن الصامت أن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: اضمنوالي ستا من أنفسکم أضمن لکم الجنة:

اصدقوا إذا حدثتم وأوفوا إذا وعدتم وأدّوا إذا ائتمنتم واحفظوا فروجکم وغضّوا أبصارکم وکفوا أیدیکم․“ ( مشکوٰة المصابیح، کتاب الآداب، باب حفظ اللسان، الفصل الثالث، رقم الحدیث:4870)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تم لوگ اپنے بارے میں مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو، یعنی چھ باتوں پر عمل کرنے کا عہد کر لو، تو میں تمہارے جنت میں جانے کا ضامن بنتا ہوں۔
1..جب بھی بولو سچ بولو۔ 2..  وعدہ کرو تو پورا کرو۔ 3..  تمہارے پا س امانت رکھی جائے، تو امانت کو ادا کرو۔  4.. اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرو، یعنی حرام کاری سے بچو۔ 5.. اپنی نگاہ کو محفوظ رکھو، یعنی اس چیز کی طرف نظر اٹھانے سے پرہیز کرو جس کو دیکھنا جائز نہیں۔6..  اپنے ہاتھوں پر قابو رکھو، یعنی اپنے ہاتھوں کو ناحق مارنے، کسی کو تکلیف دینے ،یا حرام چیزوں کے پکڑنے سے باز رکھو۔

لوگوں کو تکلیف سے بچانے کا اجر
انسان خود دوسروں کو تکلیف نہ پہنچائے، بلکہ جہاں تک اس سے ہو سکے، او ر اس کی طاقت ہو، دوسروں کو تکلیف سے بچانے کی کوشش کرے، یہ اتنا قابل قدر جذبہ ہے کہ الله تعالیٰ کے نزدیک، اس سے الله تعالیٰ کی طرف سے مغفرت کے فیصلے ہو جاتے ہیں، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :” بینما رجل یمشي في الطریق إذ وجد غض شوک فأخرہ فشکر الله لہ فغفرلہ․“(سنن الترمذی، أبواب البر والصلة، باب ماجاء فی اماطة الأذی عن الطریق، رقم الحدیث:1955)

ایک شخص راستہ پر چلا جارہا تھا، اچانک اس نے ایک کانٹے دار ٹہنی راستہ میں پائی، پس اس نے اس کو ہٹا دیا، پس الله تعالیٰ نے اس کا شکریہ ادا کیا، یعنی اس عمل کا اچھا بدلہ دیا، اور وہ بدلہ یہ کہ الله تعالیٰ نے اس کی مغفرت فرما دی۔

بہترین اور بد ترین لوگ کون ہیں؟
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت ہے، کہ ایک دن آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیٹھے ہوئے صحابہ رضی الله عنہم کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا: کیا میں تمہیں یہ بتاؤں کہ تم میں نیک ترین کون شخص ہے ؟ اور تمہارے بہترین آدمیوں کو تمہارے بدترین آدمیوں سے جدا کرکے دکھا دوں، حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں، کہ یہ سن کر لوگ خاموش رہے، جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے مذکورہ ارشاد تین مرتبہ فرمایا: تو ایک صحابی نے عرض کیا، ہاں یا رسول الله ! ہمیں بتا دیجیے اور ہمارے نیک آدمیوں کو ہمارے بد آدمیوں سے ممتاز فرما دیجیے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے، جس سے لوگ بھلائی کی توقع کریں، اور اس کے شر سے مامون ومحفوظ ہوں، او رتم میں سے بد ترین وہ ہے، جس سے لوگ بھلائی کی توقع نہ کریں اور اس کے شر سے مامون ومحفوظ نہ ہوں۔(مشکوٰة المصابیح ، کتاب الآداب، باب الشفقة والرحمة علی الخلق، رقم الحدیث:4993)

اسی طرح حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی روایت ہے ، کہ ایک آدمی نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت چاہی، حضرت عائشہ رضی الله عنہا اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس تھیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”بئس ابن العشیرة یا بئس اخوالعفیرة“ یعنی قبیلے کا برا آدمی ہے، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو اندر آنے کی اجازت دی، جب وہ آئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے نرمی اور پیار سے باتیں کیں، پھر جب وہ چلے گئے، تو حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے اس کی وجہ پوچھی، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ لوگوں میں بدترین وہ ہے، جس کو لوگ چھوڑ دیں، اس کی بد گوئی سے بچنے کے لیے ۔ (سنن الترمذی، أبواب البر والصلة، ماجاء فی المدراة، رقم الحدیث:1993)

جو چیز اپنے لیے پسند کرے وہی دوسروں کے لیے پسند کرے
انسان اگر اس بات کا تہیہ کرے ، کہ میری ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے، تو ہر معاملے میں جس کا تعلق دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو، اس میں اس بات کا خیال رکھے، کہ میں جو یہ معاملہ اس کے ساتھ کر رہاہوں، اگر یہی معاملہ یہ شخص میرے ساتھ کرتا، تو اس وقت میری کیفیت کیا ہوتی، جس چیز اورمعاملے کو اپنے لیے پسند کرے، اس چیز اور معاملے کو دوسروں کے لیے پسند کرے اور جس چیز کو اپنے لیے ناپسندیدہ سمجھتا ہے، تو وہ معاملہ دوسروں کے ساتھ بھی نہ کرے۔

چناں چہ ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لا یؤمن أحدکم حتی یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ․“(الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الإیمان، باب من الإیمان أن یحب لأخیہ مایحب لنفسہ ، رقم الحدیث:13)

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا ، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے اس چیز کو پسند نہ کرے، جس کو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔

اور مطلب یہ کہ کوئی نیکی یا مباح کام یا معاملہ ہو، لیکن اگرکوئی فاسق اپنے لیے کوئی گناہ، رشوت اور حرام وغیرہ پسند کرتا ہے، اس کے لیے یہ نہیں، کہ وہ یہ گناہ دوسروں کے لیے پسند کرے، بلکہ نیکی کے کام، یا مباح امور میں سے جو اپنے لیے پسند کرے وہ دوسروں کے لیے پسند کرے۔ (شرح النووي، کتاب الایمان،50/1، قدیمی) (جاری)

Flag Counter