Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1435ھ

ہ رسالہ

15 - 17
موسیقی گناہ عظیم

محترم یرید احمد نعمانی
	
اللہ رَبّ العالمین نے انسان کو چند روزہ زندگی ایک خاص مقصد کے تحت عطافرمائی ہے۔ جو فرد بشر اس مقصد کی حقیقت کو پالیتاہے ،وہ حیات مستعار کے پل پل کو غنیمت جانتاہے۔ وہ اس بات کا استحضار رکھتاہے کہ میں اس دنیا ئے دوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہیں بھیجا گیا۔یہاں کی ہر لذت وراحت بہت جلد ختم ہوجانے والی ہے۔ یہاں کی کوئی مصیبت وپریشانی دائمی نہیں۔ یہاں خوشی کی طرح غم بھی عارضی ہے۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ قرآن کریم جابجا توحید،رسالت اور آخرت کے ثبوت پر اسی لیے دلائل پیش کرتاہے کہ غفلت میں ڈوبا انسان جاگ جائے ۔اسے احساس ہو کہ مقصد اورضرورت میں فرق ہے۔ اسے اس بات سے آگاہی ہوجائے کہ حقیقت اور سراب بالکل الگ الگ شئی ہیں۔

خالق حقیقی نے اپنے کلام میں یہ بات پوری وضاحت وصراحت کے ساتھ بتادی ہے کہ ”وطن اقامت“ میں انسانوں کی محنتوں اور تمام تر کاوشوں کا نتیجہ دو صورتوں میں نکلتاہے۔ اول:دنیا کے لیے کی جانے والی محنت وسعی۔دوم: آخرت کے لیے ذخیرہ وتیاری۔سورت بنی اسرائیل میں ارشاد ربانی ہے:”جو شخص دنیا کے فوری فائدے ہی چاہتاہے تو ہم جس کے لیے چاہتے ہیں ،جتنا چاہتے ہیں، اسے یہیں پر جلدی دے دیتے ہیں۔ پھر اس کے لیے ہم نے جہنم رکھ چھوڑی ہے، جس میں وہ ذلیل وخوار ہوکر داخل ہوگا۔ اور جو شخص آخرت (کا فائدہ) چاہے،جبکہ وہ مومن بھی ہو ، توایسے لوگوں کی کوشش کی پوری قدر کی جائے گی۔“(آسان ترجمہ قرآن :2/861)

جس طرح اطاعت خداوندی سے بندہ کونین میں سرفراز ہوتاہے، دنیا میں قلب کا سکون وچین نصیب ہوتاہے ،لوگوں میں عزت ووجاہت ملتی ہے، دلوں میں اس کی محبت وعظمت کا سکہ من جانب اللہ بٹھا دیا جاتا ہے۔  بالکل اسی طرح معصیت خالق عز وجل سے یہ مشت خاک بے حیثیت ہوکر رہ جاتی ہے۔ پھر ابن آدم جس قدر نافرمانی اور سرکشی میں آگے بڑھتاہے،لعنت خداوندی میں مبتلا ہوتارہتاہے۔ نیک لوگوں سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ نیکیوں پر چلنا مشکل تر ہی نہیں مشکل ترین معلوم ہوتاہے۔ دل پر قساوت وشقاوت کی مہر لگ جاتی ہے۔ روحانیت وایمانیت کا جنازہ نکل جاتاہے۔نتیجتاً سامنے کی حقیقت نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ یوں فکر آخرت ایسے انسان کا مطمح نظر نہیں رہتی، بلکہ دنیاوی عیش وعشرت کی چندروزہ بہاریں اس کا اصل مقصود و مطلوب بن جاتی ہیں۔ وہ یہاں کی چمک دمک کو لافانی سمجھ بیٹھتاہے۔ گناہ کو گناہ سمجھنے کا خیال محو ہوجاتاہے۔ شیطان کی طرف سے جو طلسماتی خواب اسے دکھائے گئے ہوتے ہیں، وہ انہیں حقیقت وبداہت گمان کرلیتاہے۔ذرا ذیل کی خبر پر عبرت وفکر کی نگاہ ڈالیں۔اسے معمول سے ہٹ کر دوسرے زاویے سے پڑھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوگا #
        جہاں میں ہر سو ہیں عبرت کے نمونے
        مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ وبو نے

خبر کے مطابق :”پاکستان کے معروف موسیقار نیاز احمد کا کہناہے کہ وطن عزیز میں فن کاروں کی کوئی حیثیت نہیں ۔میں غربت ومفلسی سے تنگ آکر حکومت پاکستان کی جانب سے دیاگیا”پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ“فروخت کرنا چاہتاہوں۔مجھے پرائڈ آف پرفارمنس تو مل گیا، روز گار نہیں مل سکا۔ حکومت پاکستان اگر مجھے بہتر روزگار فراہم کردیتی تو میرے لیے اس کی اہمیت ہوتی۔ میں لوہے اور پیتل کے ٹکڑوں سے پیٹ نہیں بھر سکتا۔آج میں زندہ ہوں تو کوئی پوچھنے والا نہیں کل جب نہیں ہوں گا تو میرے اوپر تعزیتی ریفرنس رکھ کر میرے نام کے قصیدے پڑھے جائیں گے۔“(روزنامہ ایکسپریس، 23نومبر2012)

افسوس صد افسوس موسیقی جیسا گناہ عظیم آج ہماری معاشرت وثقافت کا لازمی حصہ بن چکاہے۔ ٹی وی، ریڈیو، انٹرنیٹ، موبائل فون اور نہ جانے کیا کیاجدیداشیاء ہیں ، جن میں یہ گناہ جز لاینفک بن چکاہے۔ شادی کی تقریبات ہوں یا غمی کی ،ہر جگہ سازوسرود کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کے بغیر محفل بے جان اور پھیکی سمجھی جاتی ہے۔

حالاں کہ حدیث مبارکہ میں صاف الفاظ میں امت کو بتلادیاگیا ہے :”گانا بجانا دلوں میں نفاق( عملی واعتقادی) کو ایسے ہی پیدا کرتاہے ،جیسے پانی کھیتی کو اگاتاہے۔“(موقوفاً،ابوداؤد۔مکتبة الشاملة)ایک دوسری حدیث مبارکہ میں نطق نبوت سے نکلنے والے الفاظ یہ ہیں :”الجرس من مزامیر الشیطان“ یعنی گھنٹیاں شیطان کی بانسری ہیں۔(مسند احمد، مسلم)

اول الذکر حدیث مبارکہ کے الفاظ پر غور کیجیے۔ اس کے آئینے میں اپنے ماحول اورمعاشرہ کا سرسری جائزہ لیجیے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ من حیث القوم ہم عملی نفاق کا شکار ہوچکے ہیں؟ ہم دکھلاوے اور بناوٹ کے پتلے بنے پھر رہے ہیں؟ کیا ہم ظاہر داری برت کر آپس میں ایک دوسرے کے لیے عداوت وبغض کے جذبات نہیں رکھتے؟آخر یہ سب کیوں ہے؟ جواب ظاہر وباہرہے۔ جب ہم نے اپنے پیارے حبیب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کو پس پشت ڈال دیا تو امروز گھر گھر فساد بپاہے۔ خاندان کے خاندان دشمنی اور کینہ پروری کی آگ میں جل رہے ہیں۔

اگر واقعتا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری دنیا سنور جائے۔ہم در در کی محتاجی سے محفوظ ہوجائیں۔ ہمارے درمیان الفت وبھائی چارگی کے احساسات جنم لیں۔ ہمارا سماج ایک مثال ونمونہ بن جائے۔ مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بدامنی، ناانصافی اورسماج دشمن عناصر سے ہمیں چھٹکارا مل جائے۔ ذہنی کوفت اورقلبی اضطراب سے نجات ہمارا مقدر بنے تو اس کے لیے موسیقی،رقص وسرود کی محفلوں اور گانے سننے سنانے سے سچی توبہ کرنا ہوگی۔ آلات موسیقی کو گھروں سے باہر نکالناہوگا۔ نسل نو کے ہاتھوں میں گٹار اورستار دینے کے بجائے قلم وکتاب تھماناہوگا۔ انہیں دین کے احکام کا پابند بنانا ہوگا۔ جو شخص اس راز کو سمجھ جائے، بلاشبہ وہی دنیا وعقبیٰ میں کامران وسرفراز ٹہرے گا۔اسے ہی دل کا سچا چین نصیب ہوگا۔

بقول اقبال ؂
        چھوڑ یورپ کے لیے رقصِ بدن کے خم وپیچ
        روح کے رقص میں ہے ضرب کلیم اللّہی!
        صلہ اُس رقص کا ہے تشنگی کام ودہن
        صلہ اِ س رقص کا درویشی وشاہنشاہی!

Flag Counter