Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1435ھ

ہ رسالہ

10 - 17
رؤیت ہلال کا تعارف نئے پڑھنے والوں کیلئے

پروفیسر محمد حمزہ نعیم
	
        سکون محال ہے قدرت کے کارخانے میں
        ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
کارخانہ کائنات کی ہرا کائی حرکت میں ہے اور حرکت ہی زندگی ہے، الله خالق کائنات نے اجرام سماوی بشمول چاند اور زمین کو بھی حرکت میں رکھا ہے اور یہ حرکت دائیں سے بائیں طواف بیت الله کے رخ پر ہمہ وقت جاری ہے۔ طے شدہ نظم کے ساتھ چل رہی ہے ۔ ایک لمحہ اس کے خلاف ہو جائے تو قیامت آجائے اور قیامت بظاہر ایسے ہی تو آئے گی کہ انسان کے غلط اعمال کی وجہ سے نظم کائنات میں خرابی آجائے گی او رایک بگاڑ ایک ٹکراؤ پیدا ہو جائے گا پھر سب کچھ فنا ہو جائے گا۔ فی الحال سب کچھ جاری وساری، رواں دواں ہے، ”کل فی فلک یسبحون“․ (القرآن)

زمین سورج کے گرد اور چاند زمین کے گردگھوم رہا ہے، پھر ہر ایک کی اپنی محوری گروش بھی ہے اور سورج بھی اپنے افراد خاندان کے ہمراہ اپنے مستقر کی طرف جارہا ہے اگرچہ اس کی رفتار اتنی کم ہے کہ عقل مندوں نے اسے ساکن کہہ دیا تھا( sun is Stationany )حالاں کہ مالک کہتا ہے: ﴿والشمس تجری لمستقر لہا﴾ تو کسی کے کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، سورج کا یہ چھوٹا سا گھرانہ بروج والے فلک کو درجہ بدرجہ طے کرتا ہے ۔ اہل حساب نے دائرہ فلک کو 360 درجوں اور ہر ایک برج کو 30 درجوں میں تقسیم کیا ہے۔ جاری سفر یعنی گروش کے دوران سورج چاند بلکہ تمام سیارگان کی نشستیں بدلتی رہتی ہیں۔

نیومون کیا ہے؟
دائرہ فلک کے ایک ہی برج کے ایک ہی درجہ پر جب سورج اور چاند موجود ہوں، پھر اپنی تیز رفتاری کے سبب اس درجے سے ایک ہی لمحہ بعد چاند آگے بڑھ جائے تو اس کو نیو مون یانئے چاند کی پیدائش کہتے ہیں ۔ چاند کو نیا انداز اور انسان کے لیے اس کی نئی مونہہ دکھائی کے آغاز کو نیو مون کہہ دیا گیا،ورنہ حقیقت میں تو یہ پرانا چاند ہی ہے نیا نہیں بس اس کا روپ نیا ہے۔ چاند بھی اجرام سماوی میں سے ایک ہے جو تخلیق کائنات اور وجود کائنات کا اہم حصہ ہے ۔ بات چاند کے وجود کی نہیں اس کے شہود کی ہو رہی ہے ۔ اور شہود کے لیے سورج کی کرنوں کا چاند پر پڑ کر حضرت انسان تک یعنی اس کی آنکھوں تک منعکس ہونا ضروری ہے۔

ہلال کیا ہے؟
ہلال خوب صورت لڑکے(الغلام الجمیل) کو بھی کہتے ہیں مگر یہ اس کا ثانوی معنی ہے۔ عربی لغات میں یہی لکھا ہے اور بچہ وقت پیدائش جب ایک آواز دے کر چیخ مارتا ہے تو اسے کہتے ہیں ”ہل الطفل ھَلالا“ ( نو مولود بچے نے چیخ ماری) گویا نئے چاند کا ظہور اور اظہار ہی ہلال ہے۔ بطن مادر میں بچے کا وجود جائے انکار نہیں مگر بچے کا تعارف ابھی نہیں ہوا۔ اس کے وجود کااظہار وامتیاز ابھی نہیں ہوا۔ اس کا نام ابھی رکھا نہیں گیا اگرچہ اہل خانہ کو بطن مادر میں بچے کے وجود کا انکار نہیں۔ بالکل اسی طرح چاند کے وجود کا انکار کوئی عقل مند نہیں کر رہا۔ البتہ اس کا نام ابھی ہلال نہیں ۔ ہلال اس وقت کہا جائے گا جب وہ ظاہر ہو کر انسانی آنکھ کو اپنا مشاہدہ کرا دے گا۔ محبوب کائنات صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر انسانی آنکھ او رہلال کے مابین بادل، گردوغبار وغیرہ حائل ہو جائیں یعنی اس کا مشاہدہ نہ ہو سکے تو اسے ہلال مت شمار کرو، وہ تیسواں دن شمار ہو گا، واضح بات ہے نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے چاند کے وجود کی نہیں شہود کی بات فرما کر فیصلہ کر دیا کہ گنتی نیو مون سے نہیں ہلال نو سے ہو گی، ورنہ وجودی علمی چاند کے سامنے تو بادل وغیرہ حائل نہیں ہوتے۔ ارشاد رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے الفاظ میں ”فان غم علیکم“ بادل وغیرہ تو شہودی چاند ہی کے مشاہدہ کے خلاف ظاہری آنکھ کے سامنے حائل ہو سکتے ہیں ۔ لہٰذا طے ہو گیا کہ شارع علیہ السلام کی مراد ومقصود مطلع فلک پر آخر ماہ میں سامنے نظر آنے والا شہودی نیا چاند ہے، جو ہلال کہلاتا ہے۔

سورج گرہن اور نیو مون
جیسا کہ ذکر ہوا دائرہ فلک میں ایک ہی نقطے پر سورج اور چاند ایک ہی سیدھ میں آجائیں تو زمین بھی خاص انداز میں اسی درجے پر ہو تو انسانی آنکھ تک سورج کی کرنیں براہ راست نہیں پہنچ پاتیں، درمیان میں چاند کی ٹکیہ رکاوٹ بن جاتی ہے ۔ اسی رکاوٹ کی وجہ سے سورج گہناجاتا ہے او راسے سورج گرہن کہتے ہیں تاہم یہاں بھی ایک ہی لمحے بعد چاند آگے بڑھتا ہے تو اسے نیو مون کہتے ہیں ۔ اگرچہ ابھی گھنٹہ آدھا گھنٹہ یا زیادہ سورج گرہن موجود رہتا ہے او رتمام اہل علم وحکمت اس بات پر متفق ہیں کہ ایسے وقت میں دنیا بھر میں ننگی آنکھ سے چاند کا نظر آنا ناممکنات میں سے ہے، نیو مون کو تاریک چاند بھی کہا جاتا ہے (Black Moon)

ہلال کب نظر آنا ممکن ہے؟
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ایک ہی نقطہ فلک پر سورج اور چاند اکٹھے ہوئے پھر ایک درجے کو طے کرنے کے لیے سورج کو ایک دن اور چاند کو صرف دواڑھائی گھنٹے وقت در کار ہوتا ہے ۔ اس تیز رفتاری کی وجہ سے چانداگلے درجے کی طرف بڑھ جاتا ہے اور سورج تو روشنی کا خزانہ ہے ۔ ایک خاص وقت تک اس کی تیز ترین شعائیں چاند کو اپنی زد میں لیے رکھتی ہیں گویا ماں نے بچے کو گود میں چھپایا ہوا ہے۔ جیسے ہی چاند شعاعوں کی زد سے نکلتا ہے وہ بہ شکل ہلال افق مغرب پر انسانی آنکھ کو دعوت نظارہ دینے لگتا ہے ۔ عام طور پر نیو مون کی پیدائش سے 30 گھنٹے بعد ہلال نظر آجایا کرتا ہے۔ مگر موافق فلکی کیفیات میں 20 گھنٹے بعد بھی اس کا نظر آنا ممکن ہو جاتا ہے۔

ہلال کی جسامت یعنی چھوٹا بڑا ہونا
نیو مون شام کو مثلاً بعد مغرب پیدا ہوا تو اگلے دن شام کو اس کی عمر تقریباً24 گھنٹے ہو گی ، اگر دوپہر 12 بجے نیو مون پیدا ہوا تو شام کو اس کی عمر 6 یا 7 گھنٹے ہو گی اور اگلی شام 30 گھنٹے یا زائد ہو گی ، دیگر کوائف پورے نہ ہونے پر اگر اس شام بھی چاند نظر نہ آیا تو آئندہ شام 24 گھنٹے او رجمع کر لیں یعنی اس کی عمر 54 گھنٹے یا اس سے بھی زائد ہو سکتی ہے ۔ دوسری بات چاند کی بلندی 5 درجے ضروری ہے، اگر اس درجے پر چاند نظر نہ آیا تو اگلے دن چاند کی بلندی کافی زیادہ ہو جائے گی وہ اونچا نظر آئے گا، پھر پہلے دن اگر عمر کم ہوئی اور چاند کا ارتفاع بھی کم ہو ا تو چاند غروب آفتاب کے بعد جہاں اس کا 50 منٹ کھڑے رہنا کافی تھا اب وہ اس سے زیادہ سوا گھنٹہ او ربعض اوقات ڈیڑھ گھنٹہ تک کھڑا رہے گا، یہ اور اس طرح کی کئی دیگر وجوہات کی بناء پر پہلی راتوں میں نظر آنے والا چاند کبھی چھوٹا او رکبھی بڑا نظر آئے گا۔ کبھی 50 منٹ یا ایک گھنٹہ اور کبھی ڈیڑھ گھنٹہ نظر آتا رہے گا۔ کبھی تھوڑا بلند اور کبھی کافی اونچا نظر آئے گا، مگر ان کی کیفیات کو صرف ماہرین علم فلکیات ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ ان باریکیوں کو عام پڑھا لکھا آدمی نہیں سمجھ سکتا۔ لہٰذا چاند کے چھوٹا بڑا ہونے، موٹا باریک ہونے اور زیادہ اونچائی یا کم اونچائی سے تاریخوں کا فیصلہ قطعا نہیں ہو سکتا۔ حدیث پاک میں کئی صحابہ سے منقول ہے کہ آخری زمانے میں عام لوگ پہلی کے چاند کو دوسری تیسری کا چاند کہنا شروع کر دیں گے۔ لہٰذا اس میں محتاط رہنا بہت ضروری ہے۔ اور ان باریکیوں کو ماہرین فن پر چھوڑ دینا چاہیے۔

اختلاف مطالع کیا ہے؟
چاند افق مغرب پر بصورت ہلال نظر آیا کرتا ہے ۔ مگر مغرب کی سمت شمال او رجنوب کے درمیان پورے کرہ ارض یعنی عرض بلد پر مشتمل ہے۔ اس کو خالق کائنات نے مغربین بھی کہا ہے۔ یعنی مغرب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، اور مغارب بھی فرمایا ہے یعنی مغرب کے ہر ہر درجے کو مغرب کا نام دے دیا ہے۔ سورج کی ڈیٹ لائن اہل علم نے طے کر دی ہے ۔ جو مستقل صورت رکھتی ہے ۔ مگر چاند کبھی ایک درجے پر کبھی دوسرے پر، کبھی کہیں اور کبھی کہیں طلوع ہوتا ہے۔ اس کے قواعد وضوابط بھی طے کر لیے گئے ہیں مگر ہزار کوشش کے باوجود بھی اسے فیصلہ کن نہیں کہا جاسکتا ہے۔ تمام سائنس دان اس بات پر آج بھی متفق ہیں کہ شرعی طور پر جسے رؤیت ہلال کہا گیا ہے ۔ وہ ہر ماہ آنکھوں سے دیکھ کر ہی فیصلہ کن ہوا کرتی ہے ۔ اس طرح عام طور پر چاند اپنی گردش کے دوران زمین کے گرد گھومتے ہوئے دائیں سے بائیں یعنی زمین کے مغرب سے جنوب کی طرف گھومتا ہوا مشرق سے شمال کی طرف موڑ کاٹ کر دوبارہ مغرب کو چلا جاتا ہے۔ چاند کا یہ سفر بعض اوقات بہت ہی مختصر خطہٴ ارض کو، بعض اوقات جنوبی نصف کرہ کو بشمول آسٹریلیا، ملائیشیا، اور بعض اوقات بغیر ان دونوں خطوں کے صرف جنوبی یا وسطی ومغربی افریقی ممالک کو گھیرتا ہوا مغرب کو بڑھ جاتا ہے۔ بعض اوقات ایسے بھی ہوتا ہے کہ کرہ ارض کے جنوب مغرب (جنوبی امریکا) کے نہایت محدودعلاقہ یا صرف سمندری علاقوں کو چھو کر چاند واپس غروب ہو جاتا ہے۔ یہ باتیں اگر عام قارئین نہ سمجھ سکیں تو کسی سمجھ دار اسکول ٹیچر یا پروفیسر کو بتا کر سمجھ سکتے ہیں۔ خیر مقصد یہ ہے کہ عام طور پر چاند بہ شکل ہلال ایک ہی دن میں پوری دنیا میں نظر آنا ممکن نہیں ہوتا۔ خصوصاً انتہائی شمالی علاقوں میں اور بسا اوقات شمالی یورپ شمالی ایشیا اور ناروے سے سویڈن ڈنمارک کینیڈا وغیرہ علاقوں (بشمول برطانیہ وغیرہ) میں تو اکثر باقی دنیا سے ایک دن بعد ہی رؤیت ہلال ممکن ہوتی ہے۔ فیصلہ تو علماء اسلام ہی کرسکتے ہیں تاہم اتنا ضروری ہے کہ اگر جنوبی امریکا اور وسطی جنوبی افریقہ میں چاند نظر آجائے تو ضروری نہیں کہ وہ باقی دنیا میں بھی نظر آئے، مشرق اور شمال کے مناطق میں نظر آنے والا چاند البتہ اکثر مغربی جنوبی علاقوں میں نظر آسکتا ہے۔ یہی بات اختلاف رویت مقامی رویت یا اصطلاحی الفاظ میں اختلاف مطالع کہلاتی ہے۔

اس کو مثال سے یوں واضح کر سکتے ہیں کہ جو چاند جنوبی امریکا اور افریقا کے جنوبی ممالک میں نظر آیا ہے ضروری نہیں کہ وہ حجاز مقدس اور پاک وہند میں بھی نظر آئے۔ اب ہم نہ ان کو روک سکتے ہیں کہ تمہارے ہاں رمضان کا چاند نظر تو آگیا ہے مگر تم روزہ نہ رکھو۔ عید کا چاند نظر آگیا ہے مگر تم عید نہ کرو یا قربانی سے رک جاؤ اور دوسرے دن جب مکہ مکرمہ اور حجاز مقدس میں چاند نظر آئے گا تم بھی ان کے ساتھ روزہ عیدین اور قربانیاں کر لینا۔ بالکل اسی طرح جب حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کے واضح حکم نص قطعی کے مطابق سعودی علاقوں میں اور پاک وہند میں ہلال ڈھونڈنے کے باوجود نظر نہیں آیا۔ شرعی شہادتیں نہیں مل سکیں تو ان مخلص موحد مسلمانوں کو ہم اس کا پابند نہیں کرسکتے کہ چوں کہ سوڈان اور الجزائر کے علاقوں میں یا جنوبی امریکا کے مسلمانوں کو کھلی آنکھوں ہلال نظر آگیا ہے لہٰذا حجاز مقدس کے محبوب باسی اور پاک وہند کے بنیاد پرست مسلمان بھی ضرور روزہ رکھیں عید کریں اور انتہائی مغرب میں واقع علاقوں کے لوگوں کی گواہی پر حج جیسی عظیم عبادت کا مدار رکھیں۔ یہ نہ ممکن ہے نہ مطلوب۔ اسی اختلاف رؤیت کو شرعی فقہی اصطلاح میں اختلافِ مطالع کا نام دیا گیا ہے۔

اختلاف مطالع پر بھی علماء وفقہا کا پر خلوص اختلاف رہا ہے ۔ بہت سے متقدمین فقہاء اختلافِ مطالع کو حجت نہیں کہتے ،بس جب رؤیت ہلال شرعی قیود کے ساتھ ثابت ہو جائے تو مسلمانوں پر روزہ فرض اور عیدین کی ادائیگی واجب ہو گی اور اس پر ہی قربانیاں ہوں گی ،مگر اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب انسانی آبادی کی آخری حدود مراکش اور اس کے متصل سمندری جزیرے تھے اور یہ آخری انسانی آبادی اسی وجہ سے اس زمانے میں المغرب کہلائی اور آج بھی اگر عربی میں المغرب بولا جائے تو اس سے مغربی افریقہ کا ملک مراکش ہی مراد ہو گا۔ لیکن آج امریکا کی دریافت کو طویل زمانہگزرچکا او رانسانی آبادی کا ایک بڑا حصہ شمالی او رجنوبی امریکا میں ناقابل انکار حقیقت ہے، اسی بناء پر متقدمین علماء میں سے ان لوگوں کی رائے کو متاخرین علماء نے ترجیحاً لے لیا۔ جنہوں نے اختلافِ مطالع کو اختلاف رؤیت کی ایک وقیع وجہ قرار دیا تھا۔ ذرا غور تو کیجیے بنگلہ دیش اور چین وغیرہ سے تقریباً اتنے ہی فاصلے پر حجاز مقدس ہے جتنا مراکش اور یورپ سے مکہ مکرمہ۔ لیکن جب امریکا کے شمالی وجنوبی ممالک کو انسانی آبادی کی وسعتوں میں شامل کر لیا جائے تو اختلاف مطالع کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ کیوں کہ اب کرہ ارض کی آبادی پہلے سے دگنی وسعتوں کی حامل ہے۔

اختلافِ مطالع کی ایک اہم بنیاد انتظامی مناطق بھی ہیں یعنی ایک ہی انتظامی منطقہ میں رؤیت ہلال کے اختلافی اعلانات سے انتظامی مسائل پیدا ہوں گے لہٰذا حکم دیا گیا کہ مرکزی طور پر ایک ہی اعلان ہو گا اور تمام ماتحت علاقوں میں اس پر عمل ہو گا۔ البتہ حج کی عبادت کا تعلق طے شدہ ہے کہ وہ صرف رؤیت حرمین سے منسلک ہے۔ اب پوری دنیا میں پانچ درجن اسلامی ممالک ہیں ،جو الگ الگ انتظامی یونٹس کے ماتحت ہیں۔ اور وہ مشرقی ایشیا سے جنوبی امریکا تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ اور اہل اسلام کی کم نصیبی سے خلافت اسلامیہ موجود نہیں ہے اوراس وقت سربراہان ممالک اسلامیہ میں سے ایک بھی اس کا اہل نظر نہیں آتا کہ ساری امّت اس پر متفق ہو سکے ۔ لہٰذا تمام انتظامی مناطق یعنی اسلامی ممالک کی رؤیت الگ الگ ہونا ہی بہتر ہے۔ اور اس بات پر مفتی اعظم سعودی عرب کا فتوی اور فیصلہ بھی موجود ہے۔

Flag Counter