Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1435ھ

ہ رسالہ

12 - 17
سفرِ دیوبند احساسات ومشاہدات

ضبط وترتیب: مفتی معاذ خالد
	
گزشتہ دنوں امیر جمعیت علمائے ہند حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی مدظلہ العالی کی دعوت پر پاکستان کے جید علما ء کرام کے ایک وفد نے عالم اسلام کے مشہور ادارے اور برصغیر کے مدارس کی علمی اور تاریخی بنیاد” دارالعلوم دیوبند“ کا دورہ کیا۔جامعہ فاروقیہ کراچی کے ناظم اعلی، استاد حدیث اور ماہنامہ الفاروق کے مدیر حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب، مولانا خلیل احمد صاحب ناظم تعلیمات ،جامعہ فاروقیہ اور مفتی حماد خالد استاد جامعہ فاروقیہ بھی اس وفد کے ہم راہ تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے عالم اسلام پر گہرے اور عظیم الشان علمی اثرات، بے مثال قربانیوں اور بیش بہا خدمات کی بناء پر مسلمانانِ عالم کے دلوں میں جو عقیدت موجود ہے، اس کے پیش نظر طلبائے جامعہ فاروقیہ کی دلی خواہش تھی کہ اس سفر کی روئیداد ان کے سامنے بھی آجاتی۔ چناں چہ حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب نے جامعہ کے طلبا کے ایک عظیم اجتماع میں اس سفر کی تفصیلات ارشاد فرمائیں۔ موضوع کی اہمیت اور دلچسپی کے حوالے سے قارئین الفاروق کو بھی اس میں شریک کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

آپ یہ جانتے ہیں کہ ہندوستان، پاکستان کے یہ جو حالات ہیں، اس میں ہندوستان کا ویزا پاکستانیوں کے لیے کتنا دشوار او رمشکل ہے او راسی طرح ہندوستان والوں کے لیے پاکستان کا ویزا بہت دشوار او رمشکل ہے اور پھر اس میں بھی ایک فرق ہے، وہ فرق یہ ہے کہ ہماری طرف سے اگر گانے بجانے والے اور ننگے پھرنے والے ہندوستان جانا چاہیں انہیں فوراً ویزا مل جاتا ہے اسی طرح ہندوستان سے گانا بجانے اور ننگے پھرنے والے ادھر آنا چاہیں تو ان کو بھی ویزا فوراً مل جاتا ہے ۔یہاں بھی مسئلہ میرا اور آپ کا ہے کہ اس وضع قطع والوں کو ویزا نہیں ملتا ۔چناں چہ ویزا میں تاخیر ہوگئی اوراتنی تاخیر ہو گئی کہ وہ جو پروگرام تھا آسام والا وہ بالکل قریب آگیا اور ویزا نہیں ملا۔ چناں چہ وہ پروگرام ہو گیا، امام کعبہ بھی اس میں تشریف لائے۔ ہندوستان کی سرکاری ایجنسیوں کی رپورٹ یہ ہے کہ اس اجتما ع میں25 لاکھ مسلمان شریک ہوئے اورجمعیت علماء ہند کی رپورٹ یہ ہے کہ اس اجتماع میں چالیس لاکھ مسلمان شریک ہوئے۔

عظیم الشان اور بڑا اجتماع تھا۔ پروگرام او راس دعوت کے دو حصہ تھے، جیسے میں نے ابھی آپ کو بتایا کہ مغربی بنگال کی سرحد بنگلہ دیش کے ساتھ ملتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ دلی سے… اچھا یہ بات ذہن میں رہے کہ دلی، لاہور سے قریب ہے، دلی دور نہیں ہے … ہم ہندوستان والوں کو کہتے تھے ان کو ڈرانے کے لیے کہ دلی دور نہیں ہے، دلی قریب ہے، تو دلی لاہور سے زیادہ دور نہیں ہے لیکن آسام بہت دور ہے۔ چناں چہ یہاں سے پروگرام یہ تھا کہ پہلے دلی جائیں گے اور دلی سے پھر ہوائی جہاز کے ذریعہ آسام جائیں گے اور آسام کے جلسہ سے فارغ ہو کر پھر دلی آئیں گے اور دلی سے پھردیوبند۔ دلی میں کچھ قیام ہو گا اور اس کے بعد دیوبند کا سفر ہو گا۔ تو دلی کا قیام اوردیوبند کا سفر وہ اس پروگرام کا دوسرا حصہ تھا۔

پہلا حصہ تو ہو چکا اور ویزا نہیں ملا۔ اطلاع بھی آگئی کہ ویزا ردّ ہو گیا ہے۔ چناں چہ ہم بھی یکسو ہو گئے! لیکن چند دن گزرنے کے بعد پھر اطلاع آئی کہ ویزا ہو گیا۔ چناں چہ ویزا ہونے کی اطلاع آگئی پھر پاسپورٹ ویزا لگ کر آگئے ،لیکن یہاں یہ ہوا کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب زید مجدہم کی طبیعت خاصی ناساز ہو گئی ۔ دارالعلوم کراچی میں وفاق کی مجلس عاملہ کا اجلاس تھا۔ اس میں حضرت تشریف لے گئے، اجلاس بہت طویل ہو گیا، وہاں حضرت کی طبیعت خاصی خراب ہوئی، خیر گھر تشریف لے آئے اور یہاں آنے کے بعد عشاء تک آرام بھی فرمایا اور اپنے معمولات بھی کیے۔ کچھ مہمان بھی آئے ان سے بھی ملاقاتیں ہوئیں، عشاء کے بعد آرام فرمایا، لیکن رات کے ڈیڑھ بجے والدہ صاحبہ نے مجھے اطلاع کی کہ حضرت والدصاحب کی طبیعت بہت خراب ہے آپ فوراً آئیں۔ چناں چہ میں بھی دوڑا اور بچوں کو بھی جگایا حضرت کے کمرے میں پہنچے تو حضرت پر لرزے کی کیفیت تھی۔ جیسے سردی کا اور ملیریا کا بخار ہوتا ہے اس طرح کی کیفیت تھی ۔خیر کمبل بھی ڈالا اور ہیٹر بھی جلایا ، میں نے کوشش کی کہ بخار بھی چیک کیا جائے تھرما میٹر سے بخار چیک کیا۔

اس میں عجیب بات یہ ہوئی کہ جب تھرما میٹر میں نے دیکھا تو اس میں36 ڈگری حرارت تھی جب کہ سرخ رنگ کا جو نشان ہوتا ہے وہ 37 ڈگری پر ہوتا ہے 37 اور اس کے بعد بخار کے درجے ہوتے ہیں ۔ باہر آئے میں سمجھا یہ تھرما میٹر خراب ہے۔ تو دوسرا تھرما میٹر منگوایااس سے چیک کیا تو اس میں بھی 36! میری سمجھ میں نہیں آیا یہ کیا بات ہے؟ چناں چہ یہی سمجھا کہ یہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ تیسرا تھرما میٹر منگوایا، اس سے چیک کیا اس میں بھی 36! تو پھر میں نے ڈاکٹر کو فون کیا جو حضرت کے معالج خاص ہیں۔ رات کے 2:00 بجے کا وقت تھا، لیکن بہرحال فون کیا۔ یہ بھی شبہ تھا کہ اس وقت کوئی اٹھائے گا یا نہیں ۔ لیکن الله تعالیٰ کی مدد ونصرت ہوئی کہ پہلی ہی گھنٹی پر ڈاکٹر صاحب نے فون اٹھا لیا۔ میں نے ساری تفصیل بتائی اور انہوں نے کچھ دوا تجویز کی۔ اب رات کے دو بجے دوا تلا ش کرنا ،خیر الله تعالیٰ نے اس میں بھی مدد فرمائی۔ دوا آگئی اور فجر تک طبیعت میں بحالی اور بہتری ہو گئی اور وہ کیفیت ختم ہو گئی لیکن اس کے بعد سے اب تک حضرت کی طبیعت پر جو ضعف طاری ہوا ہے اس ضعف میں کمی نہیں آئی ہے۔ حالاں کہ اس کے بعد حضرت دارالحدیث بھی تشریف لاتے رہے لیکن دورہ حدیث کے طلباء نے مشاہد ہ کیا ہو گا کہ حضرت کی طبیعت میں ضعف بہت بڑھ گیا ہے۔

خیر اب پھر سفر کی روداد پر آتاہوں… ! ویزے لگ گئے ہیں اورہندوستان کا سفر حضرت زید مجدہم کے حوالے سے اتنا جذباتی اور اتنا اہم کہ کم از کم میں حضرت سے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ اس سفر میں نہیں جاسکتے اس لیے کہ حضرت کا آبائی وطن بھی،پھر حضرت کی مادر علمی بھی اور پھر حضرت کی ایک عرصہ تدریس کا زمانہ بھی وہاں تو میں کیسے کہوں ؟میں بڑا پریشان کہ حضرت کی کیفیت ایسی نہیں ہے کہ جس میں حضرت سفر فرمائیں او رموضوع اتنا حساس کہ ان کو کہے کون کہ آپ نہیں جاسکتے تو پھر الله تعالیٰ نے دل میں بات ڈالی کہ حضرت کے جوتین چار ڈاکٹر ہیں اور عرصہ سے حضرت کا علاج بھی کرتے ہیں او رحضرت سے محبت بھی کرتے ہیں او رحضرت سے بے تکلف بھی ہیں ان سب کو نماز عصر کے وقت بلایا جائے اور عصر سے عشاء تک انہیں حضرت کے ساتھ رکھا جائے۔ اور ان کو یہ بتا بھی دیا کہ مسئلہ یہ ہے اور اس کو آپ حضرات دیکھیں اس لیے کہ یہ موضوع آپ کا ہے ۔ صحت اس سفر کی اجازت دیتی ہے یا نہیں دیتی ؟ ان حضرات نے عصر سے عشاء تک حضرت کے ساتھ وقت گزارا اور باتوں باتوں میں یہ بات بھی نکلی، حضرت نے فرمایا ہم تو ہندوستان جارہے ہیں۔ ڈاکٹروں نے کہا ،حضرت آپ ضرور ہندوستان تشریف لے جائیں لیکن ابھی مناسب نہیں ہے اس لیے کہ آپ کی صحت اس کا تحمل نہیں کرسکتی اور چوں کہ ہم ڈاکٹر ہیں ہمارا کام یہی ہے اور ہمیں آپ سے عقیدت بھی ہے، محبت بھی ہے تو ہم آپ کو غلط مشورہ نہیں دیں گے جو ہمارا دیانت دارنہ مشورہ اور رائے ہے وہ یہ ہے کہ آپ یہ سفر نہ فرمائیں ۔

خیر یہ بات ہو گئی وہ لوگ چلے گئے ۔ اب حضرت سے یہ کون پوچھے کہ آپ کی اب کیا رائے ہے ؟یہ پوچھنا ہمارے بس میں نہ تھا۔ کئی دن ہم نے انتظار کیا کوئی تذکرہ ہندوستان کا نہیں کیا ۔پھر میں نے والدہ صاحبہ سے عرض کیا کہ آپ باتوں باتوں میں پوچھیں کہ آپ کا کیا ارادہ ہے ؟ انہوں نے پوچھا اس پر حضرت نے فرمایا کہ ہمارے ڈاکٹروں نے ہمیں سفر سے چوں کہ منع کر دیا ہے او رہمیں اپنے معالج کی بات ماننی چاہیے۔ لہٰذا ہمارا اب ارادہ سفر کا نہیں ہے۔ لیکن میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ ارادہ ملتوی کرنا حضرت کے لیے کتنا گراں، کتنا ثقیل گزرا ہو گا۔ اس لیے کہ حضرت کی وابستگی علمی حوالہ سے ایسی شدید ہے کہ یہ فیصلہ حضرت کے لیے آسان نہیں تھا۔بہرحال ہم نے بھی سوچ لیا کہ جب حضرت کے بارے میں یہ فیصلہ ہو گیا کہ تشریف نہیں لے جائیں گے تو ہم کیا کریں گے ۔ چناں چہ یہ بات ختم ہو گئی اور فائل بند ہو گئی کہ ہندوستان نہیں جانا۔

چند دن گزرے، حضرت نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ آپ حضرات ہندوستان کیوں نہیں جارہے ؟ میں نے کہا اس لیے نہیں جارہے کہ آپ نہیں جارہے، ہم تو آپ کے ساتھ جارہے تھے ۔ آپ نہیں جارہے تو ہم کیا کریں گے۔ حضرت نے فرمایا نہیں ! میں تو معذور ہوں اور مجھے تو ڈاکٹروں نے منع کیا ہے، آپ کوکس ڈاکٹر نے منع کیا ہے آپ جائیں۔ چناں چہ حضرت نے حکم فرمایا کہ یہ ویزا چوں کہ بار بار ملتا نہیں ہے او ربہت مشکل سے ملتا ہے اور اب چوں کہ مل چکا ہے لہٰذا آپ ہندوستان کا سفر ضرور کریں۔ چناں چہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب،مفتی حماد خالد صاحب اور میں سفرکے لیے تیار ہوگئے۔

یہ سفر اسی دعوت پر تھا، جس کا میں نے ذکر کیا ۔ اس کا ایک باب اور ایک حصہ تو گزر چکا تھا اب ایک حصہ دلی اور دیوبند کا باقی تھا۔ پاکستان سے 24 حضرات اس سفر میں موعو تھے جس میں اصل حضرت زید مجدہم تھے جو اپنے عذر کی وجہ سے نہیں جاسکے، دوسرے حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم مہتمم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن تھے ، ان کے ساتھ ان کے صاحبزادہ تھے اسی طرح جامعة الرشید کے مولانا عدنان کاکاخیل تھے۔ ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب دارالعلوم اکوڑہ خٹک سے تھے، مولانا حسین احمد صاحب جامعہ عثمانیہ پشاور سے تھے، حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی صاحب دامت برکاتہم ،امیر عالمی مجلس ختم نبوت وہ بھی اس سفر میں تھے۔ کل24 افراد تھے۔

ہمارا سفر 14 اپریل بروز جمعہ شام کو شروع ہواہمارے لیے اس دعوت میں جو انتظام تھا ، وہ کراچی سے دلی ہوائی جہاز کا تھا۔ لیکن کراچی سے دلی پی آئی اے کے علاوہ اور کوئی ائیر لائن نہیں جاتی۔ اس کی پرواز بھی پورے ہفتہ میں صرف ایک ہے ۔ ایک جاتی ہے اور ایک آتی ہے۔ حضرت زید مجدہم نے ہمیں یہ فرمایا کہ آپ ہوائی جہاز سے دلّی نہ جائیں ۔ بلکہ آپ کراچی سے لاہور ہوائی جہاز سے چلے جائیں۔ لاہور سے پھر اگلا سفر بائی روڈ کریں۔ اس کا ایک بہت بڑا فائدہ ہو گا کہ ایک تو آپ آزاد ہوں گے کیوں کہ واہگہ باڈر سے آپ ہر روز آنا جانا کرسکتے ہیں لیکن اگر آپ پی آئی اے سے جائیں گے اور خدا نخواستہ فلائٹ کینسل ہو گتی تو آپ کو ایک ہفتہ دلی میں انتظا رکرنا پڑے گا ۔ اس لیے کہ نہ اور کوئی پرواز او ر نہ کوئی ائیر لائن۔

ایک بات تو حضرت نے یہ فرمائی ، دوسری بات حضرت نے یہ فرمائی کہ ہوائی جہاز کے ذریعے دو گھنٹے بعد آپ دلی اتر جائیں گے تو آپ کو کیا نظر آئے گا؟ جب کہ اگر بائی روڈ جائیں گے تو آپ کو سب نظر آئے گا۔ شہر آتے جاتے نظر آئیں گے ،لوگ نظر آئیں گے، چیزیں نظرآئیں گی تو اس میں استفادہ زیادہ ہو گا۔ چناں چہ اس ہدایت پر ہم 14 اپر یل بروز جمعرات شام سوا چھے بجے کی پرواز سے لاہور پہنچے اوررات لاہو رمیں حضرت مولانا عبدالغفور صاحب مدظلہ کے ہاں قیام کیا۔ ہمارے اس سفر کے منتظم پاکستان میں حضرت مولانا مفتی مظہر شاہ صاحب مہتمم جامعہ اسعد ابن زرارہ بہاولپور تھے۔ مفتی مظہر شاہ صاحب حضرت مولانااسعد مدنی نور الله مرقدہ کے متوسلین میں سے ہیں، حضرت مدنی اور ان کے خاندان سے خصوصی تعلق اور لگاؤ ہے۔ چناں چہ پاکستان کے انتظامات مولانا کے ذمہ تھے انہوں نے ہمیں یہ ہدایت فرمائی کہ رات کوچاہے لاہور میں کہیں بھی ٹھہریں لیکن صبح9:00 بجے سرحدپر پہنچ جائیں ۔ ہم بھی پہنچ گئے اور رفقائے سفر کو بھی یہی اطلاع تھی۔ چناں چہ سب حضرات صبح9:00 بجے واہگہ باڈر پر جمع ہو گئے۔

وہاں کا منظر عجیب تھا۔ جو لوگ وہاں گئے ہیں انہوں نے دیکھا ہے کہ واہگہ سرحد پر بہت بڑا دروازہ بنا ہوا ہے۔ اس دروازہ کا نام ہے ”باب آزادی“ اس کے اوپر لکھا ہوا ہے ” پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا الله“ اور بانی پاکستان محمد علی جناح صاحب کی تصویر اس پر لگی ہوئی ہے ،یہ تو پاکستان ہے۔ لہٰذا اس دروازہ میں داخل ہونا اور آگے جانا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ پھر آگے پاکستان کا امیگریشن جہاں پر خروج لگتا ہے ۔ ہم پاکستان کے امیگریشن میں پہنچ گئے، وہاں بڑی آسانی تھی، مہرلگا دی گئی، ہم آگے چلے، چوں کہ اب ہم پاکستان سے نکل چکے تھے ہمارے پاسپورٹ پر خروج لگ گیا تھا اب یہ جو اگلا مرحلہ ہے یہ جیسے عالم برزخ ہے کہ نہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں۔ نہ اب ہم پاکستان میں تھے نہ ہندوستان میں اس لیے کہ پاکستان سے تو نکل چکے او رہندوستان میں داخل نہیں ہوئے تو یہ برزخ ہے اس کو پیدل عبور کیا۔

پیدل عبور کرنے کے بعد آگے ہندوستان کا دروازہ ہے اسی طرح جس طرح پاکستان کا باب آزادی ہے ۔یہاں دروازے کے اوپرہندوستانی لیڈر گاندھی کی تصویر لگی ہوئی ہے۔ پیدل اس دروازہ پر پہنچے، اب یہ ہندوستانی سرحد ہے، اس میں قدم رکھنے کے بعد آپ ہندوستان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہاں ہندوستانی فوجی کھڑے ہوئے تھے ، ظاہر ہے کہ کلمہ کا نور الگ ہوتا ہے اورکفرکی نحوست الگ ہوتی ہے، ہمارے ہاں جو فوجی اور عملہ تھا۔ ان کے دلوں میں بہرحال کلمہ ہے ان کے چہرہ کی رنگت ان کے چہرہ کی چمک دمک جدا تھی۔ جب آگے بڑھے اور ان لوگوں کو دیکھا تو ایک وحشت سی ہونے لگی ۔

بہرحال چوں کہ ان کا ملک ہے، ا س میں داخل ہوگئے، وہاں ایک بس کا انتظام تھا جو حکومت کی طرف سے تمام مسافروں کے لیے ہوتا ہے چناں چہ اس بس میں ہم بھی بیٹھ گئے سامان بھی اس میں رکھ دیا ، ہمیں یہ بس لے کر چلی شاید پانچ منٹ کی مسافت طے کی اور ایک بلڈنگ کے سامنے جاکر رک گئی ۔

یہ ہندوستانی امیگریشن آفس ہے ۔ بلڈنگ کے اندر آپ جائیں گے تو وہاں ہندوستانی امیگریشن پر پاسپورٹ اور ویزا چیک ہو گا اورتمام مراحل ہوں گے، اس کے بعد آپ ہندوستان میں داخل ہوں گے ،بہرحال اجنبی ملک ہے ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ آپ کی جو وضع قطع ہے، وہ پسند نہیں کی جاتی، اچھی نہیں لگتی یہی سلوک ان کا تھا چاہے زبان سے نہ ہو لیکن نظروں سے بہرحال یہی تھا ،وہاں ایک بہت اہم بات یہ سامنے آئی کہ حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور الله مرقدہ کے سب سے چھوٹے صاحبزادے حضرت مولانا اسجد مدنی دامت برکاتہم دیوبند بہت بڑی تعداد میں علماء کے ساتھ اس وفد کے استقبال کے لیے بارڈر پر تشریف لائے ہوئے تھے۔ اب چوں کہ ہم ہندوستان میں داخل ہو گئے تھے اور امیگریشن کے اندر آگئے تھے اس لیے حضرت مولانا اسجد مدنی دامت برکاتہم ہمارے پاس تشریف لے آئے ۔ سب حضرات سے ملاقات فرمائی او روہاں کے امیگریشن کا جو بڑا افسر تھا اس کے کمرے میں مجھے بھی لے گئے، وہاں بیٹھ کر خیر وعافیت پوچھی۔پھرہمارے سامنے امیگریشن کا مرحلہ او رپھر کسٹم کا مرحلہ تھا، یہ سارے مراحل طے کئے۔ باوجود اس کے کہ لوگ کہتے ہیں، بہت ترقی ہو گئی ہے، لیکن وہاں ہم نے امیگریشن او رکسٹم کو دیکھا کہ وہ بہت پیچھے ہیں۔

خیرالله الله کرکے باہر نکلے تو وہاں حضرت مولانا اسجد مدنی صاحب دامت برکاتہم تشریف فرما تھے ان کے ساتھ جمعیت علماء مشرقی پنجاب کے علماء تھے۔ ہما چل پردیش کے علماء تھے، چندی گڑھ کے علماء تھے، امرتسر کے علماء تھے اور بڑی تعداد میں علماء تھے جو استقبال کے لیے آئے تھے۔ الله تعالیٰ ان کو اپنے شایان شان جزاء خیر اور بدلہ عطاء فرمائے ۔آمین۔ (جاری)

Flag Counter