الحلیم جل جلالہ
ڈاکٹر محمد اشرف کھوکھر
الحلیم جل جلالہ، الله تعالیٰ کے اسمائے حسنٰی میں سے ایک ہے۔ لُغت میں حلیم بردبار، متحمل مزاج، نرم وملائم کو کہا جاتا ہے۔ الحلیم وہ برد بار جو باوجود پوری قدرت وطاقت کے انتقام لینے میں جلدی نہیں کرتا۔ رسولِ کریم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہونے والی آخری آسمانی کتاب قرآن کریم میں متعدد جگہ الله تعالیٰ نے اپنی اس صفت کو بیان فرمایا ہے کہیں فرمایا:﴿والله غفور حلیم﴾ بے شک وہ بڑا مغفرت والا اور حلم والا ہے، کہیں الله تعالیٰ نے اپنی اس صفت کو بیان فرمایا ہے او رصفت علیم کا ذکر بھی کیا۔ صفت حلم کے کچھ حصے الحلیم جل جلالہ نے انسان میں بھی ودیعت فرمائے ہیں۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح کرنے کا حکم ملا تو ان کی بردبار طبیعت پر کچھ زیادہ اثر نہ ہوا، اگرچہ اولاد کی فطری محبت انسان کی طبیعت میں رچی بسی ہوئی ہے۔
انسان خطا کا پتلا ہے، غلطی، کوتاہی سردز ہو جاتی ہے، لیکن الحلیم جل جلالہ فوری طور پر سزا نہیں دیتا اور الحلیم جل جلالہ سب کو رزق دینے میں بخل نہیں کرتا، سب کو رزق دیتا ہے۔ بہتر رزق دینے والا جو ہوا۔ دنیا میں بڑے بڑے ظالم اور جابر لوگ گزرے ہیں جنہوں نے مخلوق خدا پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے، جائر وناجائز سزائیں دیں، قتل وغارت گری، زنا، چوری، ڈاکہ زنی اورراہ زنی میں اپنے مذموم عزائم کو استعمال کیا، بڑے بڑے متکبر اور ظالم بادشاہوں نے رعایاکا خون چوسا، ان کی غربت وافلاس سے ناجائز فائدہ اٹھایا، ان کی عزتوں کو پامال کیا اور ہر طرح کا ظلم وتشدد کیا، مالٹا، کالے پانی اور شور کی بے جا اور ناجائز سزائیں دیں، غرضیکہ مخلوق خدا کا جینا دوبھر کیا، لیکن الحلیم جل جلالہ نے باوجود پوری قدرت وطاقت کے انتقام لینے میں جلدی نہیں کی۔ اس لیے کہ الله بڑا حلیم او ربرد بار ہے۔
الله رب العزت نے صفت حلم کا کچھ حصہ اپنی مخلوق میں ودیعت کیا ہے،تمام انسانوں سے زیادہ حلم اپنے انبیاء ورسل علیہم السلام میں ودیعت فرمایا۔ رسولِ اکرم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نہایت حلیم اوربرد بار تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے تمام جانی دشمنوں کو معاف فرما دیا۔ حالاں کہ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم پر عرصہٴ حیات تنگ کر دیا تھا، شعب ابی طالب میں محصور ہونے پر مجبو رکر دیا تھا، رات کی تاریکی میں اپنے آبائی شہر او رمحور تجلیات الہٰی، حرم کعبہ کو چھوڑنے پر مجبور کیا، پھر ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں سکون اور چین کی زندگی نہ گزارنے دی۔ جنگیں لڑیں، پتھر مارے، دندان مبارک شہید کیے، غرضیکہ ہر ظلم روا رکھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کرام کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا، بلال وخبیب پر ظلم وستم ڈھایا، سمیہ، یاسر کو شہید کیا اور دیگر بہت سے صحابہ کرام کو شہید کیا، لیکن قربان جائیے خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے حلم، عفو ودرگزر پر، آپ صلی الله علیہ وسلم نے سب کو یہ کہہ کر معاف کر دیا کہ ”لا تثریب علیکم الیوم یغفر الله لکم وھو ارحم الراحمین․“
ترجمہ:” آج تم پر کچھ الزام نہیں، الله تم کو معاف کر دے اور بے شک وہ رحم کرنے والوں میں سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔“
اپنے سب سے پیارے چچا حضرت حمزہ کا کلیجہ چپانے والی ہندہ کو معاف فرما دیا، یہ ہیں رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کے حلم کے تابندہ نقوش ۔
صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ ایک موقع پر کچھ قیدی آئے۔ ان میں ایک عورت کا بچہ تھا ،جو اسے مل گیا، دیکھتے ہی مامتا کی خاص تڑپ کے ساتھ اسے سینے سے لگا کر دودھ پلانے لگی، بچہ مل جانے کی خوشی اور دودھ پلانے کی پرسرور تسکین سے وہ بظاہر اس درجہ سرشار ہو گئی کہ گردوپیش او رماحول کا کچھ خیال نہ رہا۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہ کیفیت دیکھ کر فرمایا:
تمہارا کیا خیال ہے کہ آیا یہ عورت اپنا بچہ آگ میں ڈال دینے کے لیے تیار ہو جائے گی؟ ہم نے عرض کیا جب تک اس کی طاقت وقدرت میں ہے کبھی نہ ڈالے گی ۔
النبی الخاتم صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں حلم کے واقعات بہت ہیں، جنہیں بخوف طوالت ہم اس چھوٹے سے مقالے میں لکھنے سے قاصر ہیں۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کرام میں بھی حلم کے واقعات بے شمار ملتے ہیں، حضرت امیر معاویہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی قبیلے کا سردار آپ صلی الله علیہ وسلم سے ملنے آیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے مجھے ان کو دوسری جگہ پہنچانے کا حکم دیا ، میں انتہائی گرمی کے موسم میں، شدید دھوپ میں، ننگے پاؤں اس کی اونٹنی کے ساتھ چل رہا تھا۔ میں نے کہا چچا دھوپ سخت ہے، میرے پاؤں جلتے ہیں، مجھ اپنا ردیف بنالیں؟ وہ بولا تو اس قابل نہیں کہ میں تجھے اپنا ردیف بنا لوں۔ میں نے کہا، مجھے جوتادے دیجیے۔ کہا تو اس قابل نہیں کہ سرداروں کے جوتے پہنے۔ البتہ میری اونٹنی کے سایہ میں چل سکتے ہو۔ پھر وہ زمانہ آیا کہ خلیفہ وقت بنا تو وہی سردار مجھے ملنے کے لیے آیا، میں نے اسے اپنے برابر اپنی مسند پر بٹھایا اور کچھ نہ کہا۔
حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کی بردباری اور حلم مثالی تھا۔ یہاں تک کہ اپنے حلم کی وجہ سے اپنے گھر کے اندر محصور ہوگئے، اور بلوائیوں کے حملوں کے نتیجے میں شہادت کو قبول کرکے حلم وبردباری کا عظیم سبق اور امت مسلمہ کے لیے روشن اور عمدہ نمونہ پیش فرمایا۔
حضرت علی کرم الله وجہہ کا معروف واقعہ تاریخ اسلام کی زینت بنا ہوا ہے، آپ نے اپنے مقابل حریف کو پچھاڑا اور سرتن سے جدا کرنا چاہا، لیکن اس نے آپ کے روئے مبارک پر تھوک دیا تو آپ نے اس کو معاف کر تے ہوئے آزاد کر دیا، یہودی نے آپ سے پوچھا: آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو فرمایا پہلے میں الله کی رضا کے لیے تمہیں قتل کرنا چاہتا تھا، لیکن اب میرے نفس کا انتقام اس میں شامل ہو گیا ہے، لہٰذا میں نے تجھے چھوڑ دیا۔
آپ رضی الله عنہ کے حلم کی وجہ سے یہودی مسلمان ہو گیا۔
راقم کے شیخ ثانی حضرت مولانا خلیفہ حافظ غلام رسول (خلیفہ مجاز حضرت مولانا احمد علی لاہوری اور خلیفہ حضرت شمس الحق افغانی اور خلیفہ حضرت غلام حسن سواگ) جن کا ماضی قریب میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک سو پندرہ سال کی عمر میں انتقال ہو گیا ہے،ایک مرتبہ فرمایا کہ:”حضرت مولانا احمد علی لاہوری گھر سے مسجد تک جب تشریف لاتے تو راستے میں ایک ہندو بیٹھا حقہ پیتا رہتا تھا، جیسے آپ گزرتے وہ ہندو ، حضرت کو بہت گالیاں دیتا ، آپ کمال حلم اور بردباری سے گزر جاتے تھے، اسی طرح ایک طویل عرصہ گزر گیا۔ ایک دن ہندو ہاتھ جوڑ کر حضرت لاہوری کے سامنے کھڑا ہو گیا، معافی مانگ رہا تھا اور کہتا جاتا تھا، حضرت! مجھے کلمہ شہادت پڑھاؤ، میں مسلمان ہوتا ہوں اور وہ مشرف بہ اسلام ہو گیا۔
ماضی میں خلیفہ مامون الرشید کے بردباری کے واقعات بھی بہت مشہور ہیں۔ الله رب العزت علیم وحلیم ہے، اس کی بردباری کی انتہا ہے کہ اعمال سیئہ کے باوجود وہ اپنے بندوں کو توبہ کی مہلت دیتا ہے۔
زانی، چور، ڈاکو، راہ زن، ظالم وجابر، رشوت خور، سود خور، بردہ فروش، منشیات فروش،اسمگلر، ذخیرہ اندوز، ناجائر منافع خور، غرباء، یتامیٰ اور مساکین کا حق خور، درندہ صفت انسانوں کو الله تعالیٰ فی الفور مبتلائے عذاب نہیں کرتا، بلکہ توبہ کی مہلت دیتا ہے، نہ ظالم کو زمین فوری نگل لیتی ہے اور نہ آسمان سیشہاب ثاقب گرا کر دھرتی کو ظلم وجور کے تعفن سے پاک کرتا ہے ، مہلت ہے سب کے لیے وقت مقررہ تک، تاکہ توبہ کر لیں اور آخرت میں عذاب الہٰی سے بچ جائیں ۔
پکی اور سچی توبہ!!