Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1435ھ

ہ رسالہ

11 - 17
انگوٹھے چومنے کی روایت
اوربعض فقہائے کرام کی ایک عبارت کی تحقیق

مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
ایک ممکنہ اعتراض کا جواب
اور اگر یہ کہا جائے کہ چلو مرفوعاًنہ سہی ، موقوفاً تو بہر حال ثابت ہے، اور اتنی بات عمل کے لیے کافی ہوتی ہے، جیسا کہ ملا علی قاری  نے ”الموضوعات الکبریٰ“میں لکھا ہے، ملاحظہ ہو:

”قلت: وإذا ثبت رفعہ إلی الصدیق، فیکفي العمل بہ؛ لقولہ صلی الله علیہ وسلم:”علیکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدین“․ (الموضوعات الکبریٰ للقاري، حرف المیم، رقم الحدیث: 829، ص: 210، قدیمي کتب خانہ)․
ترجمہ:” جب اس حدیث کا رفع حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تک صحیح ہو گیا، تو حدیثِ نبوی صلی الله علیہ وسلم: ”علیکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدین“ کی وجہ سے اتنا عمل کے لیے کافی ہے“۔

ملا علی قاری  کی ایک بات کی تحقیق
تو اس بارے میں عرض یہ ہے کہ اس مقام پر ملاعلی قاری سے ذہول ہو گیا ہے، اس لیے کہ اس ”حدیث“کی تو سند ہی ثابت نہیں ہے، تو پھر اس کے موقوفاً صحیح یا ثابت ہونے کا کیا مطلب؟! یعنی یہ بات نہیں ہے کہ اگر مرفوع حدیث صحیح نہیں تو موقوف صحیح ہو گی، کیوں کہ یہ تو روایت ہی بے سند ہے۔

ملا علی قاری کی اس بات کے بارے میں علامہ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
”ومِن العجیب أن الموٴلف لمّا نقل في الموضوعات الکبریٰ قول السخاوي:”وأوردہ الشیخ أحمد الرّداد في کتابہ:”موجبات الرحمة“ بسند فیہ مجاھیل مع انقطاعہ عن الخضر علیہ السلام، وکل ما یروی في ھٰذا، فلا یصح رفعہ البتة“، تعقبہ بقولہ :”وإذا ثبت رفعہ إلیٰ الصدیق، فیکفي العمل بہ لقولہ صلی الله علیہ وسلم:”علیکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدین“، فکان تعقبہ لا معنیٰ لہ إلا الخطأ، إذ لم یصح إسنادہ إلیٰ أبي بکرٍ“․(المصنوع في معرفة الحدیث الموضوع، رقم الحدیث: 300، ص: 169، 170،سعید)
ترجمہ:”عجیب بات یہ ہے کہ موٴلف  نے (مذکورہ حدیث کے بارے میں ) موضوعات کبریٰ میں علامہ سخاوی کا قول نقل کیا (جس سے حدیث کا موضوع ہونا ثابت ہوتا ہے)، اور خود ہی اس (قول ذکر کرنے ) کے بعد اپنا یہ قول (جب اس حدیث کا رفع حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تک صحیح ہو گیا، تو حدیثِ نبوی صلی الله علیہ وسلم: ”علیکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدین“ کی وجہ سے اتنا عمل کے لیے کافی ہے)ذکر کیا ہے، پس اُن کے اپنے بعد والے قول کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں، سوائے اس کے کہ اُن سے خطاء ہو گئی ہے، اس لیے کہ اس حدیث کی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تک بھی سند ثابت نہیں ہے۔

علم ِ حدیث میں مذکورہ روایت کی حیثیت
اور اگر کوئی اس حدیث کو ”حسن“ یا ”ضعیف“ مانے(جیسا کہ بعض اہلِ بدعت کا قول ہے :” صحیح نہ ہونے سے کسی حدیث کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا، کیوں کہ ”صحیح“کے بعد ”حسن“ کا درجہ باقی ہے، لہٰذا یہ حدیث اگر ”حسن“بھی ہو تو بھی عمل کے لیے کافی ہے“۔)تو بھی اس بات کو تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے ، اس لیے کہ کتبِ ضعفاء میں یا کتب موضوعات میں جب کسی حدیث کے بارے میں ”لا یصحّ“ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد ”موضوع“ ہی ہوتا ہے ، نہ کہ حسن یا ضعیف۔الشیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے ”المصنوع في معرفة الحدیث الموضوع“ کے مقدمہ میں اس بات کو تفصیل سے ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو:

”قولھم في الحدیث:”لا یصح“، أو ”لا یثبتُ“ … ونحو ھٰذہ التعابیر إذا قالوہ في کتب الضعفاء أو الموضوعات، فالمراد بہ أن الحدیث المذکور موضوع، لا یتصف بشییٴ من الصحة؛ وإذا قالوہ في کتب أحادیث الأحکام، فالمراد بہ نفي الصحة الاصطلاحیة“․ (المصنوع في معرفة الحدیث الموضوع، ص: 27، قدیمي)

بلکہ علامہ زاہد الکوثری رحمہ اللہ نے تو اس بات کو پوری وضاحت کے ساتھ صاف صاف بیان فرما دیا ہے کہ کتب ضعفاء میں جس حدیث کے بارے میں ”لا یصح“ کہہ دیا جائے ، تو اس سے ”حَسن“ مراد نہیں لے سکتے، بلکہ وہ حدیث باطل ہے، ملاحظہ ہو:

”إن قول النقاد في الحدیث: ”إنہ لا یصح“ بمعنیٰ أنہ باطل في کتب الضعفاء والمتروکین، لا بمعنیٰ أنہ حسن، وإن لم یکن صحیحاً، کما نص علیٰ ذٰلک أھل الشأن، بخلاف کتب الأحکام، کما أوضحت ذٰلک في مقدمة ”انتقاد المغني“․ (مقالات الکوثري، حول حدیثین في حدیث من أحادیث رمضان، ص:42، دارالسلام)

معجم المصطلحات الحدیثیہ
میں بھی یہی بات پوری تفصیل سے مذکور ہے، ملاحظہ ہو:
قولہ:” لا یصح“․ ھي لفظةٌ یستعملھا المحدثون للإخبار عن عدمِ ثبوت الحدیث في درجة الصحیح، فقولھم في الحدیث: ”لا یصح“، أو ”لا یثبت“، أو ”لم یصح“، أو ”لم یثبُت“، أو ”لیس بصحیحٍ“، أو ”لیس بثابتٍ“، أو ”غیرُ ثابتٍ“، أو ”لا یثبت فیہ شییٴ“، ونحو ھٰذہ الألفاظ، إذ قالوھا في کتب الضعفاء أو الموضوعات؛ فمرادھم بھا: أن الحدیث المذکور موضوع، لا یتصف بشییٴ من الصحة․

وأما إذا قالوھا في کتب أحادیث الأحکام؛ فمرادھم بھا نفي الصحة الإصطلاحیة؛ لأن فیھا عدم صحة الحدیث لا یلزم أن یکون موضوعاً․ (معجم المصطلاحات الحدیثیة، حرف اللام، لا یصح، ص: 443، مکتبة زمزم للطباعة والنشر والتوزیع، کراتشي)

محدثین کرام رحمہم اللہ اس قول ” لا یصح“ کو کسی حدیث کے صحیح نہ ہونے کی خبر دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں، پس محدثین ِ کرام رحمہم اللہ ان الفاظ”لا یصح“، أو ”لا یثبت“، أو ”لم یصح“، أو ”لم یثبُت“، أو ”لیس بصحیح“، أو ”لیس بثابتٍ“، أو ”غیرُ ثابتٍ“، أو ”لا یثبت فیہ شییٴ“، کا استعمال جب کتب ِ ضعفاء میں ہو یا کتبِ موضوعات میں ہو تو محدثین کی ان الفاظ سے مراد اس حدیث کے موضوع ہونے کو بتلانا ہوتا ہے، کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے.

اور جب محدثین ان الفاظ کا استعمال احادیث احکام کی کتب میں کرتے ہیں توان کی مراد اصطلاحی صحت کی نفی کی خبر دینا ہوتا ہے، کتب ِ احادیثِ احکام میں ”عدمِ صحت “موضوع ہونے کو مستلزم نہیں ہوتی۔

چناں چہ ! معترض کی بات (صحیح نہ ہونے سے کسی حدیث کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا، کیوں کہ ”صحیح“کے بعد ”حسن“ کا درجہ باقی ہے، لہٰذا یہ حدیث اگر ”حسن“بھی ہو تو بھی عمل کے لیے کافی ہے)کا کسی درجہ میں بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا، اور مذکورہ حدیث باطل ہے۔

ملا علی قاری کا مذکورہ کلام (کہ روایت اگرچہ مرفوعاً ثابت نہیں، موقوفاً ثابت ہے) اس لیے بھی محلِ نظر ہے کہ ملا علی قاری ہی کے نزدیک حافظ سخاوی یا دیگر محدثین کا یہ کلام (لا یصِحُّ) لم یثْبُتْ کے معنیٰ میں بھی ہوتا ہے، مثلاً: ملا علی قاری ”الأسرار المرفوعة“ میں ہی حدیث: ”من طاف بھٰذا البیت أسبوعاً…إلخ“ کے تحت لکھتے ہیں:

”لا یقال: إنہ موضوع، غایتہ أنہ ضعیف، مع أن قول السخاوي: لا یصح، لا ینافي الضعف والحسن، إلا أن یرید بہ أنہ لا یثبت، وکأن المنوفي فھم ھٰذا المعنی حتی قال في ”مختصرہ“: إنہ باطل، لا أصل لہ․ (الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة، حرف المیم، رقم الحدیث:501، ص:335م المکتب الإسلامي)

اس کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملا علی قاری کے نزدیک بھی لفظِ لا یصِحبعض اوقاتلم یثْبُت کے معنی پر محمول ہوتا ہے۔ زیرِ بحث موقع پر اگرچہ ملا علی قاری نے روایت کے موقوف ہونے کا رجحان ظاہر فرمایا ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ لا یصح یہاں لم یثْبُتکے معنی میں ہے، جیسا کہ علامہ زاہد الکوثری اور شیخ أبو غدة  کے کلام سے ظاہر ہے، اس لیے ملا علی قاری کا کلام ان کی ہی تصریحات کی روشنی میں محلِ نظر ہے، اور صحیح یہ ہے کہ یہاں(لا یصِحُّ) لم یثْبُتْ کے معنی پر محمول ہے، جس کے نتیجے میں مذکورہ حدیث باطل اور موضوع کے حکم میں ہو گی۔

دوسری روایت کی تحقیق
دوسری روایت ”جو حضرت خضر علیہ السلام سے مروی ہے“ کے بارے میں علامہ سخاوی ، علامہ طاہر پٹنی اور ملا علی قاری رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ اس روایت کی سند میں بہت سے راوی ایسے ہیں، جو مجہول ہیں۔ملاحظہ ہو:

”وکذا ماأوردہ أبو العباس أحمد بن أبي بکر الرّداد الیماني المتصوف في کتابہ ”موجبات الرحمة وعزائم المغفرة“ بسند فیہ مجاھیل مع انقطاعہ عن الخضر علیہ السلام أنہ: مَن قال حین سمع …إلخ“․ (المقاصد الحسنة للسخاوي، حرف المیم، رقم الحدیث: 1019،ص: 441، دارالکتب العلمیة) (الموضوعات الکبریٰ للقاري، حرف المیم، رقم الحدیث: 829، ص:210، قدیمي کتب خانہ) (تذکرة الموضوعات لطاھر الفتني، باب الأذان ومسح العینین فیہ، ص:34، کتب خانہ مجیدیةملتان)

ابو العباس احمد بن ابی بکر الرّداد یمانی صوفی نے اپنی کتاب ”موجبات الرحمة وعزائم المغفرة“ میں حضرت خضر  کی منقطع روایت کو ایسی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے جس میں بہت سارے راوی مجہول ہیں (یعنی ان کا تذکرہ ہی کتب اسماء الرجال میں نہیں ملتا)۔

الغرض یہ تو اُن روایات کا حال تھا، جن سے استدلال کیا جاتا ہے۔ اب ایک نظر اُن کتب پر بھی ڈال لینی چاہیے، جن میں سے یہ روایات نقل کی جاتی ہیں، یا جن کتب میں یہ مسئلہ مذکور ہے۔

روایات کے مأخذ کا بیان
چناں چہ! علامہ شامی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ اورروایات کے مأخذ میں کنز العباد، قہستانی، کتاب الفردوس اور فتاویٰ صوفیہ کا حوالہ دیا ہے۔

علامہ طحطاوی رحمہ اللہ نے کتاب الفردوس اور کنز العباد کا حوالہ دیا ہے ۔

صاحب تفسیر روح البیان نے اس مسئلہ میں حوالہ قہستانی اور قوت القلوب کا دیا ہے۔

مجموعی طور پر مذکور تمام کتب غیر معتبر ہیں، ان کتب کے صرف وہ مسائل معتبر شمار ہوں گے، جن کی تائید دوسری معتبر کتب سے ہو جائے۔

”کنز العباد“ کے بارے میں علامہ لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وکذا”کنز العباد “فإنہ مملوءٌ من المسائل الواھیة والأحادیث الموضوعة، لا عبرةَ لہ، لا عند الفقہاء ولا عند المحدثین، قال علي القاري فيطبقات الحنفیة: ”علي بن أحمد الغوري… ولہ ”کنز العبادفي شرح الأوراد“، قال العلامة جمال الدین المرشدي: فیہ أحادیث سمجة موضوعة لا یحل سماعھا، انتھیٰ“․ (النافع الکبیر علی الجامع الصغیر، مقدمة الجامع الصغیر، الفصل الأول في ذکر طبقات الفقہاء والکتب،ص:27، إدارة القرآن کراتشي)

اور اسی طرح ”کنز العباد“ میں ایسے مسائل واہیہ اور احادیث ِ موضوعہ بھری ہوئی ہیں، جن کا محدثین اور فقہاء کے نزدیک کوئی اعتبار نہیں ، ملا علی قاری ”طبقاتِ حنفیہ“ میں فرماتے ہیں کہ علی بن احمد الغوری  کی ایک کتاب ”کنز العباد في شرح الأوراد“ ہے۔ علامہ جمال الدین المرشدی فرماتے ہیں : اس کتاب میں ایسی موضوع احادیث بھری ہوئی ہیں، جن کا سننا صحیح نہیں ہے۔

”فتاویٰ صوفیہ“ کے بارے میں حاجی خلیفة  ، علامہ زرکلی اور علامہ لکھنوی  فرماتے ہیں: ”الفتاویٰ الصوفیة في طریق البھائیة“ لفضل اللہ محمد بن أیوب المنتسب إلیٰ ماجو ․ قال صاحب کشف الظنون: قال المولیٰ البرکلي: الفتاویٰ الصوفیة لیست من الکتب المعتبرة، فلا یجوز العمل بما فیھا إلا إذا علم موافقتھا للأصول“․ (کشف الظنون عن أسامي الکتب والفنون، حرف الفاء: 2/1225،دار إحیاء التراث العربي، بیروت) (الأعلام للزرکلي، الماجوری: 6/47، دار العلم للملایین، بیروت) (النافع الکبیر علی الجامع الصغیر، مقدمة الجامع الصغیر، الفصل الأول في ذکر طبقات الفقہاء والکتب،ص:27، إدارة القرآن کراتشي)
ترجمہ: ”الفتاویٰ الصوفیة في طریقة البہائیة“ علامہ فضل اللہ محمد بن ایوب -جو ماجو کی طرف منسوب ہے اور ان کی وفات 666 ہجری میں ہوئی- کی تصنیف ہے،مولیٰ برکلی فرماتے ہیں: ” فتاویٰ صوفیہ معتبر کتب میں سے نہیں ہے، اس میں موجود کسی مسئلہ پر اس وقت تک عمل نہیں کرنا چاہیے جب تک اس مسئلہ کی موافقت اصول کے مطابق صحیح نہ ہوجائے“۔

”قہستانی “ کے بارے میں علامہ لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قہستانی کی کتاب ”جامع الرموز“ ہے، ان کاپورانام شمس الدین محمد خراسانی القہستانی ہے، انہوں نے ”کنز العباد“ سے نقل کرتے ہوئے مذکورہ مسئلہ ذکر کیا ہے،”علامہ عصام الدین “قہستانی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ اپنے زمانے میں صرف کتابوں کی خرید وفروخت کرتے تھے، اور اپنے ہم عصر علماء کے درمیان نہ ہی بطورِ فقیہ مشہور تھے اور نہ ہی فقہ کے علاوہ کسی اور علم کے ماہر۔اس بات کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی اس کتاب میں ہر کچی پکی بات اور صحیح اور ضعیف بات بغیر تصحیح اور تدقیق کے جمع کر دی ہے ملاحظہ ہو:

وقال المولیٰ عصام الدین في حق القہستاني: ”إنہ… لا یعرف الفقہَ ولا غیرَہ بین أقرانہ ویوٴیدہ أنہ یجمع في شرحہ ھٰذا بین الغث والسمین، والصحیح والضعیف من غیر تصحیح ولا تدقیق، فھو کحاطب اللیل جامع بین الرطب والیابس في النیل، وھو العوارض في ذم الروافض، إلخ“․ (النافع الکبیر علی الجامع الصغیر، مقدمة الجامع الصغیر، الفصل الأول في ذکر طبقات الفقہاء والکتب،ص:27، إدارة القرآن کراتشي)

”قہستانی “ کے بارے میں علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”والقھستاني“ کجارف سیل وحاطب لیل․ (تنقیح فتاویٰ الحامدیة، کتاب الحظر والإباحة: 2/356، حقانیة․

وکذا في عمدة الرعایةعلی شرح الوقایة، ص:10، مکتبة إمدادیة، ملتان)
ترجمہ:” قہستانی “ ہرمُحَقَّقْ اور غیِر مُحَقَّقْ مسائل کو جمع کرنے والے ہیں۔ (”جارف سیل “ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح سیلاب اپنے ساتھ ہر قسم کی خس وخاشاک کو بہا لاتا ہے، اسی طرح قہستانی نے اپنی کتاب میں ہر قسم کے(معتبر اور غیر معتبر)مسائل جمع کر دیئے ہیں،اور”حاطب لیل“ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح کوئی شخص رات کے اندھیرے میں لکڑیاں چننے والا ہو، تو اسے کوئی خبر نہیں ہوتی کہ وہ کس قسم کی لکڑیاں چُن رہا ہے ، اسی طرح قہستانی نے بھی اپنی کتاب میں ہر طرح کے مسائل جمع کر دیئے ہیں اور اسے کوئی خبر نہیں کہ اس نے کیسے مسائل جمع کیے ہیں ، اس کی پرواہ کیے بغیرکہ وہ عمدہ ہیں یا غیر عمدہ ، مُحَقَّقْ ہیں یا غیر مُحَقَّق)

”فردوس للدیلمي“ کے بارے میں امام ابن تیمیہ، حافظ جلال الدین سیوطی اورشاہ عبد العزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں:
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”فردوس للدیلمی “کے موٴلف ”الحافظ شِیرَوَیْہ بنِ شُہْرَدَار بن شِیرَوَیْہ رحمہ اللہ“ ہیں۔
(تاریخ الإسلام للذہبي، حرف الشین: شیرویہ، 35/219، 220،دار الکتاب العربي، لبنان )

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”کتاب الفردوس فیہ من الأحادیث الموضوعات ما شاء اللہ ومصنفہ شیرویہ بن شھردار الدیلميوإن کان من طلبة الحدیث ورواتہ، فإن ھذہ الأحادیث التي جمعھا وحذف أسانیدھا نقلھا من غیر اعتبار لصحیحھاوضعیفھا وموضوعھا، فلھٰذا کان فیہ من الموضوعات أحادیث کثیرة جداً“․
ترجمہ:کتاب الفردوس میں موضوع روایات بھری ہوئی ہیں، اس کتاب کے مصنف ”شیرویہ بن شہردار الدیلمی“ رحمہ اللہ اگرچہ حدیث کی تلاش میں پھرنے والے اور حدیث روایت کرنے والے تھے، لیکن انہوں نے ان احادیث کو جن کو ان کی سندوں کے بغیر جمع کیا ہے، صحیح ، ضعیف اور موضوع کا اعتبار کیے بغیر ہی نقل کر دیا ہے، اسی وجہ سے اس کتاب میں موضوع احادیث بہت زیادہ تعداد میں جمع ہیں“۔

دوسری جگہ فرماتے ہیں: ”کتابُ الفردوس للدیلمي فیہ موضوعاتٌ کثیرةٌ، أجمَع أہلُ العلم علی أنَّ مجرد َکونِہ رواہ لا یدلُّ علی صحَّةِ الحدیثِ“․ (منھاج السنة النبویةلابن تیمیة: 5/39،الفصل الخامس، و:7/110، الفصل الثاني عشر، موٴسسة قرطبة)
ترجمہ:دیلمی کی کتاب الفردوس میں موضوع احادیث بہت زیادہ ہیں، اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ کسی حدیث کا محض اس کتاب میں ہونا اس کے صحیح ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ (جاری)
 

Flag Counter