Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1435ھ

ہ رسالہ

16 - 17
علامہ ابن جوزیؒ

مولانا مسعود عظمت
	
دنیائے عالم کی تخلیق کے بعد رب کائنات نے جب اس دنیا کو حسن وخوبصورتی سے معمور فرمایا، تو اب الله تعالیٰ نے اپنی سب سے اشرف واعلیٰ مخلوق کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا چناں چہ حضرت انسان کو وجود بخشا گیا، دنیا میں آنے کا مقصد اصلی رب کائنات کی عبادت کرنا تھا، لیکن الله تعالیٰ نے انسان کے اندر ایسی صلاحیتیں وخصوصیات بھی پیدا کیں تاکہ اس کی پیدا کی ہوئی نعمتوں سے فائدہ اٹھا سکے، تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا تاکہ دنیا کی خوب صورتی میں اضافہ کرے، طرح طرح کی نعمتیں دیں تاکہ ان نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکے اور اپنے رب کو یاد کرسکے۔ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے دشمن شیطان لعین نے رب کے حکم کی نافرمانی کی اور ”خسر الدنیا والاخرة“ کا مصداق بنا، یہاں سے اس کی انسان دشمنی شروع ہوئی اور قیامت تک جاری رہے گی، خالق کائنات نے خیر کے ساتھ شر کو بھی پیدا فرمایا انسانوں کی ہدایت وراہ نمائی کے لیے مختلف انبیاء ورسولوں کو بھیجا، ان کے ساتھ کتابیں بھی بھیجیں تاکہ شیطان کی پیروی کرنے کے بجائے سیدھی راہ کی طرف آجائیں، آخر میں نبی آخر الزمان خاتم الانبیا صلی الله علیہ وسلم کو بھیجا تاکہ انسان جو کفر وشرک کی گندی آلائشوں سے لت پت ہو چکا تھا او رانسان کے بدن کارواں رواں کفر اور شیطان کی یپروی میں لگ چکا تھا اس کو پاک وصاف کرکے ایک رب کائنات کی عبادت میں لگا دیا جائے، چناں چہ نبی آخر الزمان صلی الله علیہ وسلم نے یہ کام کر دکھایا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم آخری نبی تھے آپ علیہ السلام کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا تھا اس لیے نبیوں والا کام اب اس امّت کے ذمہ لگ چکا تھا، ”العلماء ورثة الانبیاء“ فرما کر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بتا دیا کہ اب یہ ذمہ داری علماء کے ذمہ ہے، کیوں کہ ” لانبی بعدی“ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، آپ علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ نے اسی امّت محمدیہ میں بڑے بڑے اہل علم، صلحاء اتقیاء، محدثین مفسرین کو پیدا فرمایا، کیوں کہ اب اس امت نے نبیوں والے کام کو سر انجام دینا تھا اور اس میدان کو سنبھالنا تھا۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے سے جتنے لوگ دور ہوتے گئے ان کے اعمال واخلاق میں کمی آتی گئی عادات واطوار تبدیل ہونے لگے، روحانی کیفیات میں تنزل واقع ہو گیا، اس کمی کو دور کرنے اور دین سے وابستہ رہنے کے لیے ہر زمانے میں مصلح اور دین کی دعوت کی طرف بلانے والے موجود رہے، انہی عظیم شخصیات ومصلح لوگوں میں علامہ ابن جوزی کا نام بھی چمکتا دمکتا ہے جنہوں نے اپنی کوششوں کے ذریعے سینکڑوں لوگوں کو دین کی طرف دعوت دی اور لوگوں کی اصلاح فرمائی۔

پیدائش وحالات
508ء میں بغداد میں پیدا ہوئے، ان کا نام عبدالرحمن ابن جوزی ہے، بچپن ہی میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، جب پڑھنے کے قابل ہوئے تو والدہ نے اس وقت کے مشہور محدث ”ابن ناصر“ کے پاس مسجد میں بھیج دیا تاکہ ان سے علم کی پیاس بجھا سکیں، حفظ قرآن کے بعد تجوید میں مہارت پیدا کی، پھر حدیث کا علم حاصل کیا، محنت ومشقت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی، خود اپنے بیٹے کو اپنے حالات سناتے ہوئے فرماتے ہیں ۔

”مجھے خوب یاد ہے کہ چھ سال کی عمر میں مکتب میں داخل ہوا ،بڑی عمر کے طلبہ میرے ہم سبق تھے، مجھے یاد نہیں کہ میں کبھی والله بچو ں کے ساتھ کھیلا ہوں یا زور سے ہنسا ہوں، سات برس کی عمر میں جامع مسجد کے سامنے کے میدان میں چلا جایا کرتا تھا،وہاں کسی مداری یا شعبدہ باز کے حلقہ میں کھڑے ہو کر تماشا دیکھنے کی بجائیمحدث کے درس حدیث میں شریک ہوتا وہ حدیث وسیرت کی جوبات کہتا وہ مجھے زبانی یاد ہو جاتی پھر گھر جا کر اس کو لکھ لیتا۔

میں اساتذہ وشیوخ کے حلقوں میں حاضری دینے میں اس قدر جلدی کرتا تھاکہ دوڑنے کی وجہ سے میری سانس پھول جاتی تھی ،صبح اور شام اس طرح گزرتی کہ کھانے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔“ ( تاریخ دعوت وعزیمت:ج226/1)

علمی انہماک اورمطالعہ
بغداد جو اس وقت ایک شان دار علمی مقام تھا، ہر قسم کے لوگ وہاں پر موجود تھے، سینکڑوں کی تعداد میں وہاں کتب خانے اور عظیم الشان کتابی ذخیرے وہاں موجود تھے، ابن جوزی نے ان کتب خانوں او رکتابوں کے ذخیرے سے فائدہ اٹھایا، مطالعہ کا ذوق وحرص بچپن ہی سے تھا اس لیے بڑے ہو کر بھی اپنا مشغلہ کتابوں کے مطالعہ کو ہی بنایا، ان کا مطالعہ کسی خاص فن یا موضوع کے متعلق نہیں تھا بلکہ ہر موضوع یا فن کی کتاب ہوتی وہ اس کا مطالعہ فرماتے، خود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:” اگر میں کہوں کہ بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ہے تو بہت زیادہ معلوم ہوگا اور یہ طالب علمی کے دور کا ذکر ہے، مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے سلف کے حالات واخلاق، قوت حافظہ، ذوق عبادت اور علوم نادرہ کا ایسا اندازہ ہوا جو ان کی کتابوں کے بغیر نہیں ہو سکتا۔“

تصنیف وتالیف
علامہ ابن جوزی جہاں ایک طرف مطالعہ کے حریص تھے تو دوسری طرف انہوں نے نو عمری ہی سے تصنیف وتالیف کا مشغلہ اپنا لیا۔ روزانہ چار جزء لکھنے کا معمول تھا، حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کی تالیفات شمار کیں تو وہ ایک ہزار تک پہنچیں، حدیث کے فن میں اس قدر مہارت رکھتے تھے کہ کسی بھی حدیث کے بارے میں بتا دیتے کہ وہ صحیح ہے یا حسن ضعیف ہے یا مرفوع ہے، اسی طرح ادب وانشاء کے اندر بھی ان کی مہارت کو تسلیم کیا جاتا تھا۔

تصنیفات میں سے بہت سی تصنیفات ایسی ہیں جن کو قبول عام حاصل ہوا، جن کے مطالعہ سے سینکڑوں لوگوں نے استفادہ کیا، ان کی تصنیفات میں ایک ” صید الخاطر“ ہے، جس میں مصنف نے اپنے قلبی تاثرات، زندگی کے حالات وواقعات، افکار ونظریات کو ذکر کیا ہے، اسی طرح انہوں نے اس میں اپنی غلطیوں او رکمزوریوں کا بھی ذکر کیا ہے، یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں انہوں نے نفس سے مکالمے ، سوال وجواب، ذہنی کش مکش کی روداد، مفید ہدایات، روز مرہ کے واقعات اور اس طرح کی کئی دوسری چیزیں ذکر کی ہیں، اس کے مطالعہ سے آدمی معلومات کے ساتھ ساتھ منفرد انداز بیان اور لطیف نکات سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے۔

حافظ ابن جوزی باوجود محدث وفقیہ ہونے کے اس بات سے بے خبر نہ تھے کہ قلب کی اصلاح کے لیے اور دینی ذوق وشوق پیدا کرنے کے لیے سلف صالحین کے حالات وواقعات کا مطالعہ نہایت ضروری اور اہم ہے جس کی وجہ سے طبیعتوں میں عمل کا جذبہ بیدار ہوتا ہے اور نئے عزم وجذبہ کے ذریعہ انسان دوبارہ عمل شروع کر دیتا ہے، اس کے لیے انہو ں نے صید الخاطر اور تلبیس ابلیس تصنیف کی جس میں مختلف قسم کے واقعات لکھے ہیں۔

ابن جوزی ایک طرف محدث وفقیہ ہیں تو دوسری طرف وہ ایک سیرت نگار کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں، انہوں نے صلحائے امت اور اسلاف میں سے کئی ایک کی سیرتیں لکھی ہیں، مثلاً حضرت حسن بصری، سیدنا عمر بن عبدالعزیز، حضرت سفیان ثوری، حضرت ابراہیم بن ادہم، حضرت بشر حافی، امام احمد بن حنبل اور حضرت معروف کرخی  ، ان سوانح حیات وتذکروں کے علاوہ ایک تذکرہ صفة الصفوہ کے نام سے لکھا جو چار جلدوں پر مشتمل ہے اورابو نعیم اصفہانی کی مشہور ومعروف کتاب ” حلیة الاولیاء“ کی تہذیب وتنقیح ہے۔

تاریخ کی اہمیت
ابن جوزی تاریخ کی اہمیت وضرورت کے بھی قائل تھے، کیوں کہ تاریخ سے ناواقفیت کی بناء پر بڑی بڑی فرو گذاشتیں ہو جاتی ہیں، علماء صلحاء کے لیے ابن جوزی بہت زور دیے تھے، ایک جگہ فرمادیتے ہیں کہ فقیہ کو چاہیے کہ ہر فن کے ضروری حصہ سے واقف ہو، تاریخ ہو یا حدیث لغت ہو یا دوسرا کوئی اور فن اس لیے کہ فقہ تمام علوم کا محتاج ہے اس لیے ہر فن کے ضروری حصّہ سے اس کو واقف ہونا چاہیے، میں نے سنا ہے کہ بعض فقہاء یہ کہتے ہیں کہ شیخ شبلی اور قاضی شریک ایک مجلس میں جمع ہوئے، مجھے سن کر بڑا تعجب ہوا کہ اس کو ان دونوں بزرگوں کا فاصلہ نہیں معلوم۔ پھر آگے فرماتے ہیں کہ ایک محدث کے لیے یہ بات کتنی معیوب ہے کہ کسی واقعہ کے متعلق اس سے فتویٰ لیا جائے اور وہ جواب نہ دے سکے اس لیے کہ وہ طرق حدیث کے جمع کرنے میں مشغول ہے، اس کو مسائل وجزئیات کی فرصت ہی نہیں ہوئی، اسی طرح ایک فقیہ کے لیے یہ بات کتنی نامناسب ہے کہ اس سے ایک حدیث کا مطلب پوچھا جائے اور وہ حدیث کی صحت او راس کے مفہوم سے بالکل ناواقف ہو طالب علم کو مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر فن سے فی الجملہ وہ واقف ہو، اور تاریخ سے اتنی واقفیت رکھتا ہو کہ کوئی بڑی غلطی نہ کر بیٹھے۔“ ( تاریخ دعوت وعزیمت248/1)

تصنیف وتالیف کے مشغلہ کے ساتھ ساتھ ابن جوزی نے ایک مصلح او رمبلغ کا کردار بھی ادا کیا ،وہ اپنے زمانے کے بڑے مقرر تھے، ان کی فصاحت وبلاغت اور حسن خطابت کا اس زمانے میں چرچا تھا، سینکڑوں ہزاروں لوگ ان کی مجلس وعظ میں شریک ہوتے، لوگ خالی دامن لے کر ان کی مجلس میں حاضر ہوتے لیکن جب واپس جاتے تو دامن بھر کر لے جاتے، سینکڑوں لوگ ان کے وعظ سے راہ راست پر آتے، نصف صدی تک انہوں نے دین کی دعوت کو لوگوں تک پہنچایا۔

وفات
ابن جوزی کی پیدائش بغداد میں ہوئی تھی اور بغداد ہی میں سن 597ھ شب جمعہ کو رحلت فرمائی۔ ان کی موت کی خبر کو سننا تھا کہ ہر طرف کہرام مچ گیا۔ بازار اور مارکیٹیں بند ہو گئیں، لوگوں کا اژدحام گلی کوچوں میں بڑھ گیا، جامع منصورہ میں نماز جنازہ ادا کی گئی،اس طرح امت ایک عظیم شخصیت سے محروم ہو گئی۔

Flag Counter