Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1435ھ

ہ رسالہ

7 - 15
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
	
ریڈبُل(Red Bull) انرجی ڈرنک کا حکم
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے سلسلہ میں کہ: کیا انرجی مشروبات خاص طور پر ”ریڈبُل“ اسلام میں حرام ہیں؟ اس کے اجزاء ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
"Red Bull contains: caffeine, taurine, glucuronolactone, B-group vitamins, sucrose, and glucose.[19] Red Bull Sugarfree is like Red Bull Energy Drink, but without sugar. The sugars sucrose and glucose have been replaced by the sweeteners acesulfame K and aspartame/ sucralose.[20]"

جواب…سَنہا(S.A.N.H.A) جنوبی افریقہ میں حلال اتھارٹی کا معتمد ادارہ ہے، اس کی معلومات کے مطابق ریڈبُل (Red Bull) کا اوریجنل (Orignal) فلیو ر حلال ہے ، بقیہ فلیورز کے بارے میں جب تک معلومات او رتحقیقات مکمل نہ ہو جائیں، کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا ، سنَہا سے ذاتی استفسار کرنے پر جو جواب موصول ہوا وہ درج ذیل ہے:
" In terms of information at our disposal Red Bull orignal variant is Halaal suitable. Regrettably at present we do not have information on the new Red Bull flavours we have queried them and awaiting feedback."
ترجمہ:” ہمارے پاس موجودہ معلومات کے مطابق ریڈ بُل کا اوریجنل فلیور حلال ہے ، بقیہ فلیورز کے حوالے سے ہمارے پاس معلومات نہیں، ہم نے اس سلسلے میں ریڈ بُل سے رابطہ کیا ہے او ران کے جواب کے منتظر ہیں۔“

چوں کہ اس سلسلے میں ہمارے لیے تحقیق کرنا ممکن نہیں ہے اس لیے سنَہا کا حوالہ دیا گیا ہے ، البتہ شرعی طور پر جب تک کسی مشروب میں حرام چیز کی ملاوٹ کا یقینی علم نہ ہو جائے ، اسے پینے کی گنجائش ہے ، لیکن اگر کوئی چیز شک میں مبتلا کر دے تو اس سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔

کمپیوٹر ڈیٹا کی بنیاد پر اسٹور انچارج کو ضامن ٹھہرانے کا حکم
سوال…کیا فرماتے ہیں فقہاء کرام او رمفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ” میں ایک دوائیوں کے ڈسٹری بیوٹر(ادارے) میں ایک اسٹور انچارج او رکمپیوٹر ڈیٹا( کمپیوٹر) آپریٹر کی حیثیت سے کام کرتا ہوں ، اسٹور میں موجود دواؤں کا سارا حساب کتاب کمپیوٹر کے ذریعہ محفوظ کیا جاتا ہے، مثلاً :اس وقت اسٹور میں کتنی پراڈکٹ کتنی مقدار میں موجود ہیں اور اس میں سے بکنے کے لیے کتنی دوائیں سیلز مین لے کر گئے ہیں ، کتنی بِکیں، کتنی واپس آگئیں، گویا کہ ہر طرح کا ریکارڈ کمپیوٹر میں ایک خاص سافٹ ویئر پروگرام کے ذریعہ محفوظ رہتا ہے اور ہر طرح کی حسابی کمی وبیشی میں مالکان کمپیوٹر ریکارڈ ہی پر کُلی اعتماد کرتے ہیں، اب اگر اسٹور میں کوئی پراڈکٹ (یعنی دوائیوں کی کوئی ڈبی یا نمونہ) کمپیوٹر ریکارڈ کے مطابق موجود نہ ہو، یا جتنی مقدار میں پراڈکٹ کی کمپیوٹر سافٹ ویئر بتا رہا ہے اس سے کم ہو تو اس سلسلے میں مالکان کمپیوٹر آپریٹر اسٹور انچارج کو ذمہ دار ٹھہرا کر اس سے اس دوا کے کم ہو جانے کا جرمانہ (ضمان) بھرواتے ہیں، لیکن اب پوچھنا یہ ہے کہ بسا اوقات ذکر کی گئی صورت کے الٹ بھی ہو جاتا ہے یعنی جو ریکارڈ کمپیوٹر سافٹ ویئر اور سیلز مین وغیرہ جمع کراتے ہیں ان سب کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹور میں کچھ دوائیں اضافی بچ جاتی ہیں جب کہ ریکارڈ کے مطابق وہ نہیں بچنی چاہییں تو اس صورت میں آیا ان اضا فی بچ جانے والی دواوں کا اسٹور انچارج کے لیے لینا کیسا ہے؟ جب کہ دواؤں کے کم ہونے کی صورت میں مالکان اس سے کمی کی قیمت کا جرمانہ بھی بھرواتے ہیں۔

مذکورہ بالا ساری صورت کا خلاصہ کے طور پر دو سوالوں کا جواب مطلوب ہے۱
1... کمپیوٹر جو ریکارڈ بتا رہا ہے اسٹور میں اگر کچھ دوا ئیں کم ہوں تو کیا اسٹور انچارج سے اس کا ضمان بھروانا درست ہے؟
2... کمپیوٹرجو ریکارڈ بتارہا ہے اسٹور میں اگر کچھ دوائیں اس ریکارڈ سے زیادہ ہیں تو آیا اسٹور انچارج کا انہیں خود لینا درست ہے ؟ جب کہ کمی کی صورت میں اس سے ضمان بھی بھروایا جاتا ہے؟

یہ بات خصوصاً قابل نظر ہے کہڈسٹری بیوٹر مالکان ہر چیز میں کمپیوٹر ریکارڈ کا ہی اعتبار کرتے ہیں اس کے علاوہ سے انہیں کوئی سروکار نہیں ۔

جواب…(1.. 2..): واضح رہے کہ صورتِ مسئولہ میں اسٹور انچارج کی پوری احتیاط اور دیانت داری کے باوجود اگر کوئی چیز ریکارڈ میں ہونے کے باوجود اسٹو رمیں موجود نہ ہو ، یا ریکارڈ شدہ مقدار سے کم پائی جائے ، تو اس صورت میں مالکان کی طرف سے اس سے ضمان لینا ظلم اور خلافِ شرع ہے، جس سے اجتناب لازم ہے ، تاہم اگر مالکان اس ظلم سے باز نہیں آتے اور اسٹور انچارج کو ہی ذمہ دار اٹھہرا کر ضمان لیتے ہیں ، تو دوسری صورت (زیادتی) میں اسٹور انچارج صرف اپنے حق کے بقدر ( جتنی مقدار میں اس سے ضمان بھروایا گیا ہے ) لے سکتا ہے (زائد کو ریکارڈ پر لانا لازم ہے)، زیادہ لینے کی صورت میں وہ بھی ظلم کا مرتکب ہو گا، جس کا نتیجہ اس کو آخرت میں بھگتنا ہو گا۔

غیر شادی شدہ بیٹے کی شادی کا خرچ باپ کے ترکے سے نکالنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرج ذیل مسئلے کے بارے میں کہ :زید کے چار بیٹے ہیں ابوبکر ، خالد،معاویہ اور بلال، ان میں سے ابوبکر او رخالد کی شادیاں زید نے اپنیحیات میں کر دی ہیں ،جب کہباقی معاویہ اور بلال کی شادی سے پہلے زید چل بسا۔

اب ترکہ تقسیم کرنے میں اختلاف ہو گیا، معاویہ اور بلال کا کہنا ہے کہ پہلے ترکے میں سے ہماری شادی کا خرچہنکال کر ہمیں دے دیا جائیپھر بقیہ کو تقسیم کیا جائے اور ابوبکر اور خالد کا کہنا اس کے برعکس ہے، تو کیا والد کے لیے اپنے بچوں کی شادی کرانا ضروری ہے؟

اگر ضروری نہیں ہے تو کیا یہ ان دونوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی؟ اگرشادی کا خرچہ پہلینکالا جائے گا تو اس کی مقدار کیا ہو گی ۔

مذکورہ صورت میں اگر والدنے اپنی حیات میں اس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہو کہ پہلے ان کے شادی کا خرچہ نکالا جائے پھر ترکہ تقسیم کیا جائے تو کیا یہ نافذ ہو گا؟

ہرجز کا مکمل ومدلل جواب دے کر شکریہ کا موقع دیں۔

جواب… واضح رہے کہ بیٹے جب کمانے کے قابل ہو جائیں تو والد پر ان کا کسی قسم کا خرچ ( خواہ نان نفقے کے اخراجات ہوں یا شادی بیاہ کے) لازم نہیں ، اگر کسی کے والد نے اپنے کسبِ معاش کے قابل بیٹوں کے نان ونفقے اور شادی بیاہ کے اخراجات برداشت کیے تو یہ والدکا بیٹوں پر محض تبرع او راحسان ہے ، پھر اگر دیگر بیٹوں کی شادی کرنے سے پہلے والد کی وفات ہو گئی تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ” ان بیٹوں پر احسان کرنے کا موقع اس کو نہیں ملا“۔ اور احسان ترک کرنے کی صورت میں ناانصافی لازم نہیں آتی۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں معاویہ اور بلال کے والدکو ان کی شادی کرنے کا موقع نہیں ملا، تو یہ ان کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوئی، رہی یہ بات کہ اگر والد نے اپنی حیات میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہو کہ ”ترکہ میں سے پہلے معاویہ اور بلال کی شادی کا خرچ نکالا جائے، پھر باقی ترکہ کو تقسیم کیاجائے “ تو یہ وصیت ہے اور وارث کے حق میں وصیت نافذ نہیں ہوتی، ہاں اگر تمام بالغ ورثاء کسی وارث کے حق میں وصیت کے نفاذ پر متفق ہو جائیں، تب اس وصیت کا نفاذ جائز ہو جاتا ہے ، لیکن موجودہ صورتِ حال اس کے برعکس ہے ۔

لہٰذا ترکے کی تفسیم سے پہلے معاویہ اور بلال کی شادی کا خرچ ترکے میں سے نہیں نکالا جائے گا، بلکہ چند ضروری واجبات مالیہ منہا کرنے کے بعد شریعت کے مقر ر کردہ حصص کے بقدر ورثاء میں میراث کو تقسیم کیا جائے جس کی صورت یہ ہو گی کہ سب سے پہلے مرحوم کے ترکہ میں سے اس کی تجہیزوتکفین کا درمیانہ خرچ نکالا جائے، اس کے بعد اگر ان کے ذمے کوئی قرض یا دیگر مالی واجبات ہوں تو وہ ادا کیے جائیں ، پھر اگرمرحوم نے مذکورہ بالا وصیت کے علاوہ غیر وارث کے لیے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے بقیہ مال کے ایک تہائی میں سے نافذ کیا جائے، پھر بقیہ مال کو ورثاء میں ان کے حصص شرعیہ کے بقدر تقسیم کیا جائے۔

تصویر کی شرعی حیثیت
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ تصویر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز جان دار اور بے جان کی تصویر میں فرق ہے یا نہیں ؟ ڈیجیٹل تصویر، موبائل وغیرہ کی تصویر اور عام کیمرہ کی تصویر یا ہاتھ سے بنائی ہوئی تصویر میں فرق ہے یا نہیں؟

نیز موبائل کے اندر محفوظ تصویر کا کیا حکم ہے ؟

ویڈیو کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز براہ راست ویڈیو کا حکم کیا ہے؟ دلائل کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت فرماکر ممنون فرمائیں۔

جواب… واضح ہے کہ جان دار اور بے جان اشیاء کی تصاویر میں شرعاً حکم کے اعتبار سے فرق ہے ، چناں چہ بے جان اشیاء مثلاً: درخت، پہاڑ، سمندر، آسمان او ربادل وغیرہ کی تصاویر بنانا اور ان کی منظر کشی کرنا شرعاً جائز ہے ، اسے پیشہ بنانا بھی جائز ہے او راس کی آمدنی بھی بلاشبہ حلال ہے (بشرطیکہ کوئی اور شرعی مفسدہ نہ پایا جائے)۔

اس کے برعکس کسی بھی ذی روح ( جان دار) چیز ( خواہ وہ جانور ہو یا انسان) کی تصویر سازی، تصویر بینی اور تصویر نمائی بغیر معقول شرعی عذر کے ناجائز وحرام ہے ، خواہ وہ تصویر سایہ دار ہو یا غیر سایہ دار ، تصویر ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا کیمرہ وغیرہ جدید آلات کی مدد سے کھینچی گئی ہو ، کیمرہ خواہ سادہ ہو یا ڈیجیٹل، سب کا ایک ہی حکم ہے۔

موبائل کیمرہ کے ذریعے تصویر کھینچنا بھی ناجائز ہے خواہ بعد میں اسے ڈلیٹ کیا جائے یا موبائل فون میں محفوظ کیا جائے، نیز جان دار اشیاء کی ویڈیوز بنانا، دیکھنا اور دکھانا ( خواہ براہِ راست ہوں یا پہلے سے محفوظ شدہ ہوں، ویڈیوز مجاہدین کی ہو ں یا کسی او رکی ) اور یہ پیشہ اختیار کرنا بھی ناجائز اور آمدنی حرام ہے ، خالق کائنات کی صفتِ تخلیق کی نقالی اور ملائکہ رحمت کی دوری کا ذریعہ ہے ، بت پرستی کا مبدأ اور لعنتِ خداوندی کا موجب ہے ، لہٰذا اس عمل سے کلی اجتناب لازم اور ضروری ہے۔

ڈیوٹی کمی کے لیے کسٹم حکام سے جھوٹ بولنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں :
میں پردے کے کپڑے کا کاروبار کرتا ہوں ، بہت سی دفعہ کپڑا خریدنے کے لیے چائنا جانا پڑتا ہے، عموماً تو جس پارٹی سے مال خریدتے ہیں ، وہ بالکل صحیح اور قانونی طریقے سے ہمیں پاکستان کپڑا پہنچا دیتے ہیں، البتہ ایک اور طریقہ کا ہمیں ابھی پتہ چلا ہے اور اس دفعہ ہمارا ارادہ بھی اسی کے ذریعہ کپڑا لینے کا ہے ، وہ طریقہ یہ ہے کہ وہاں ( چائنا) میں ایک پاکستانی شخص سے ہم کپڑا خریدتے ہیں اور وہ ہمیں کپڑا افغان ٹرانزٹ کے ذریعے بھیجتا ہے، افغان ٹرانزٹ میں ڈیوٹی کم لگتی ہے ، مثلاً: اگر نارمل ڈیوٹی120 روپے ہے تو افغان ٹرانزٹ کے ذریعے80 روپے کی پڑتی ہے، اس کا فائدہ ہمیں یہ ہوتا ہے کہ ہمیں کپڑا سستا پڑتا ہے، خیال یہ آرہا ہے کہ افغان ٹرانزٹ تو افغانستان کے لیے ہے نہ کہ پاکستان کے لیے تو اب مال افغان ٹرانزٹ کے ذریعے پاکستان بھیجنا کیسا ہے ؟ یعنی پاکستانی مارکیٹ کے لیے وہ مال بھیجنا صحیح ہے یا نہیں اور کسی ایسے تاجر سے خرید وفروخت کرنا جو اپنا مال افغان ٹرانزٹ کے ذریعے پاکستان بھیجتا ہو صحیح ہے یا غلط؟

اس میں ہماری طرف سے تو کوئی غلط کام نہیں پایا جارہا ہے ، البتہ ہم جس سے کپڑا لے رہے ہیں ، وہ پاکستان اس طرح کپڑا بھیجتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں وہ کپڑا سستا پڑتا ہے ، تو کیا ہم ایسے تاجر سے کپڑا خرید سکتے ہیں ؟

اس کی دوسری صورت یہ بھی ہے کہ جب وہ پاکستانی شخص پاکستان کپڑا لے آیا افغان ٹرانزٹ کے ذریعے ، ہم پھر اس سے کپڑا خریدتے ہیں ، یعنی پاکستان پہنچنے کے بعد ! پہلی صورت میں ہم کپڑا چائنا میں اسی شخص سے خریدتے ہیں اور دوسری صورت میں کپڑا پاکستان پہنچنے کے بعد خریدتے ہیں ،دونوں صورتوں کا حکم تحریر فرما دیں کہ آیا ایسے شخص سے کپڑا خریدنا درست ہے یا نہیں؟

جواب… واضح رہے کہ اگر حکومت درآمد کردہ اشیا پر مناسب شرح میں کسٹم ڈیوٹی وصول کرتی ہے جو کہ ظلم کے دائرہ میں نہ آتی ہو تو ایسی صورت میں ہر شہری پر اس ڈیوٹی کی ادائیگی قانوناً لازم ہوتی ہے او راس کے خلاف کرنا یا ڈیوٹی میں کمی کے لیے حکام سے جھوٹ بولنا، خیانت اور دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے ، جو کہ شرعاً وقانوناً دونوں طرح سے ناجائز ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں مذکورہ تاجر سے کپڑے کی خرید وفروخت کرنا پہلی صورت میں ناجائز ہے او ردوسری صورت میں کپڑا پاکستان پہنچنے کے بعد اس سے خریدنا جائز ہے ، البتہ در وغ گوئی کا گناہ اور وبال اسی پرہو گا ، آپ اس سے بری الذمہ رہیں گے ، لیکن اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اسلامی تعلیمات سے متصادم توہین آمیز تحریرات کی خریدوفروخت
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام شریعت کی رو سے ایسی تحریر، کہانیاں، ناول، قصے اور ڈائجسٹ وغیرہ جن میں گھروں کے اندر کا رہن سہن، رشتوں کے آپس میں تعلق کی نوعیت ، رشتہ داریاں، خاندانی معاشرت ، محلہ داری اور عام معاشرہ سوسائٹی کے دیگر تمام پہلوؤں وغیرہ غرض لین دین، رہن سہن، برتاؤ رکھنے کا انداز، المختصرجزئی(فرد) سے لے کر کلی (معاشرہ) تک کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہو جویکسر اسلامی تعلیمات سے متصادم ہوں جیسے مرد وزن کا اختلاط اور دوستی ،بے پردگی کی حوصلہ افزائی ہو او رپاک دامنی او رپردے کا مذاق اور حوصلہ شکنی ہو مخلوط تعلیم کی ترغیب جب کہ بزعم خود فوائد بیان ہوں او رغیر مخلوط تعلیم کی حوصلہ شکنی، بے دین، بے غیرت، میراثیوں اور طوائفوں کی تعریف او ران کو بطور نمونہ او رمعیار اتباع بنا کر پیش کیا گیا ہو اور علماء کی توہین، شعائرِ دین کی بے وقعتی، تاریخ کے مسلمہ واقعات اور حقائق کو بگاڑ کر سچ کو جھوٹ او رجھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا گیا ہو ۔

غرض ایسی تحریرات جن میں بے دینی یا ایک جدید دین کی تصویر کشی کی گئی ہو ، ان کوچھاپنا فروخت کرنا، لے کر پڑھنا او رایسی تحریرات لکھ کر ان کو فروخت کرنا کیسا ہے شریعت کی رو سے؟

جواب…مذکورہ نوعیت کے حامل تمام اقسام کے لیٹریچر اور تحریرات کہ جن میں اسلام کی بنیادی تعلیمات او راحکامات خداوندی کی صریح مخالفت ہو ، شعائراسلام اور علماء کرام کی تضحیک وتوہین کی گئی ہو اور خالص مغربی ماحول ومعاشرہ کی ترجمانی او ران کی تعلیمات سے مرعوب ہو کر اُسے معیار زندگی اور نمونہ اتباع قرار دیا گیا ہو ، ایسی تحریرات او رجرائد ورسائل کا لکھنا ،پڑھنا ، یا لکھ کرچھاپنا اور چھپوانا او ران کی خرید وفروخت کرنا سب شرعاً ناجائزہے ، اس قسم کے مضامین او رمواد تحریر کرنے والے لکھار ی اور نامہ نگار کا ایمان سلامت رہنامشکل ہے، اس پر لازم ہے کہ اپنے اس مذموم روشن خیالی اور جدت پسندی کی روش سے توبہ تائب ہو کر تجدیدِ ایمان کے ساتھ ساتھ تجدیدِ نکاح بھی کرے اور آئندہ کے لیے ایسے امور سے مکمل اجتناب کرے۔

کیا ملازمین کے لیٹ آنے پر تنخواہ سے کٹوتی جائز ہے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ: ۱ ہماری کمپنی کی جانب سے لیٹ آنے والے ملازمین کے لیے مندرجہ ذیل پالیسی بنائی گئی ہے:

فیکٹری کی جانب سے 10 منٹ کی چھوٹ دی گئی ہے، اگر کوئی ملازم 11 منٹ لیٹ ہوتا ہے تو اس کا ایک پوائنٹ بن جاتا ہے ، اسی طرح اگر کوئی ملازم16 منٹ لیٹ ہوتا ہے تو اس کے دو پوائنٹس بن جاتے ہیں ، جب کسی بھی ملازم کے لیٹ آنے پر پانچ پوائنٹس بن جاتے ہیں تو اس کے بعد انتظامیہ کی جانب سے ہدایت کی گئی ہے کہ اس کی ایک چھٹیC/L کاٹ لی جاتی ہے، اگر کسی ملازم کی C/L ختم ہو جائیں تو اس کی ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔

یہ صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ ملازم وقت پر آئے، اس پالیسی کی وجہ سے کافی زیادہ ملازم وقت پر آنا شروع ہو گئے ہیں، اگر کسی وجہ سے ٹریفک جام ہو یا کوئی ایسی وجہ ہو جس کی وجہ سے زیادہ تر ملازم لیٹ آئیں تو اس دورانیہ کی چھوٹ دی جاتی ہے، کچھ ملازمین کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے یہ طریقہ غیر شرعی ہے۔

آپ سے راہ نمائی کی درخواست ہے اگر یہ طریقہ غلط ہے تو پھر کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔

جواب…صورتِ مسئولہ میں آپ کا اس طرح ضابطہ بنانا جس کی بناء پر ملازمین وقت کی پابندی کریں اور بلاعذر تاخیر نہ کریں، درست ہے ، لیکن ضابطے میں بقدر تاخیر تنخواہ سے کٹوتی جائز ہو گی اورکسی ملازم کی معمولی سی تاخیر پر ان کو مکمل دن کی تنخواہ نہ دینا یا اس کی پورے دن کی چھٹی کاٹنا جائز نہیں، لہٰذا آپ کو ضابطہ بناتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔

Flag Counter