فلسفہ وحدت ادیان کا فتنہ
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)
کیا رسول کبھی قتل نہیں ہوئے؟ ایک غلط فہمی کا ازالہ
زمانہ حال کے معروف متجدد، فراہی مکتبہ فکر کے علم بردار جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے نبی اور رسول میں امتیازی فرق بیان کرتے ہوئے ایک نکتہ آفرینی یہ کی ہے کہ نبی بعض اوقات اپنی ہی قوم کے ہاتھوں مقام شہادت پر فائز ہو جاتا ہے ۔ لیکن رسول ہمیشہ غالب بن کر آتا ہے اور قوم پر چھا جاتا ہے ۔ منکرین کی دست درازیاں اس کی روح وجان میں حائل نہیں ہو سکتیں، چناں چہ وہ لکھتے ہیں:
”رسولوں کے بارے میں اس اہتمام کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خدا کی زمین پر خدا کی کامل حجت بن کر آتے ہیں ،وہ آفتاب نیم روز کی طرح قوم کے آسمان پر چمکتے ہیں، کوئی دانا وبینا کسی دلیل وبرہان کی بنا پر ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ الله تعالیٰ ان کو کسی حال میں ان کی تکذیب کرنے والوں کے حوالے نہیں کرتا، نبیوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی قوم ان کی تکذیب ہی نہیں کرتی، بارہا ان کے قتل کے درپے ہو جاتی ہے او رایسا بھی ہوا ہے کہ وہ اس میں کام یاب ہو جاتی ہے… لیکن قرآن ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کے معاملے میں الله کا قانون مختلف ہوتا ہے ۔“ ( ماہ نامہ ”اشراق“ اگست1988، ص:68)
اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی او ررسول میں کئی وجوہ سے فرق ہے، لیکن قتل اورعدم قتل کو امتیازی فرق اور قانون الہٰی قرار دینا درست نہیں، کیوں کہ قرآن کریم کی کئی آیات اس بات کی واضح نشان دہی کر رہی ہیں کہ رسول بھی رزم گاہ حق وباطل میں جامِ شہادت سے سرفراز ہوئے ہیں۔
﴿أَفَکُلَّمَا جَاء کُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَہْوَی أَنفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیْقاً کَذَّبْتُمْ وَفَرِیْقاً تَقْتُلُونَ﴾ (البقرة:87)
ترجمہ:”پھر بھلا کیا جب تمہارے پاس لایا کوئی رسول وہ حکم جو نہ بھایا تمہارے جی کو تو تم تکبر کرنے لگے؟ پھر ایک جماعت کو جھٹلایا اورایک جماعت کو تم نے قتل کر دیا۔“
﴿الَّذِیْنَ قَالُواْ إِنَّ اللّہَ عَہِدَ إِلَیْْنَا أَلاَّ نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّیَ یَأْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْکُلُہُ النَّارُ قُلْ قَدْ جَاء کُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِیْ بِالْبَیِّنَاتِ وَبِالَّذِیْ قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوہُمْ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْن﴾ ․( آل عمران:183)
ترجمہ:” وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ الله نے ہم کو کہہ رکھا ہے کہ یقین نہ کریں کسی رسول کا، جب تک نہ لاوے ہمارے پاس قربانی ، کہ کھا جائے اس کو آگ۔ تو کہہ تم میں آچکے کتنے رسول مجھ سے پہلے نشانیاں لے کر اور یہ بھی جو تم نے کہا ،پھر ان کو کیوں قتل کیا تم نے اگر تم سچے ہو ؟“
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُم﴾․(آل عمران:144)
ترجمہ:” اور محمد تو ایک رسول ہے، ہو چکے اس سے پہلے بہت رسول، پھر کیا اگر وہ مر گیا یا مارا گیا تو تم پھر جاؤ گے الٹے پاؤں؟“
ان تین آیات کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول ہمیشہ طبعی موت سے ہم کنار نہیں ہوتے، بلکہ بعض اوقات جامِ شہادت بھی نوش فرماتے ہیں، اگر قانون الہی یہی ہوتا جس کا دعوی غامدی صاحب نے فرمایا تو پھر حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم اپنے لیے شہادت کی دعا اور تمنا نہ فرماتے۔
﴿إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَالَّذِیْنَ ہَادُواْ وَالنَّصَارَی وَالصَّابِئِیْنَ مَنْ آمَنَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُون﴾․ (البقرہ، آیت:62)
ترجمہ:” بے شک جو لوگ مسلمان ہوئے اورجو لوگ یہودی ہوئے او رنصاری اور صائبین ، جو ایمان لایا (ان میں سے ) الله پر اور روز قیامت پر او رکام کیے نیک… تو ہے ان کے لیے ان کا ثواب، ان کے رب کے پاس اور نہیں ان پر کچھ خوف اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“
ربط
گزشتہ آیات میں یہودیوں کی جن شرارتوں اور نافرمانیوں کا تذکرہ تھا اسے پڑھ کر کسی یہودی کو یہ خلجان ہو سکتا تھا کہ ہماری نالائقیوں کی طویل فہرست ندامت کے آنسو سے بھی نہیں دھل سکتی ، اب اگر ایمان بھی قبول کر لیا جائے تو شاید بارگاہ الہٰی میں قبول نہ ہو ، اس آیت میں الله تعالیٰ اپنی شان رحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مایوسانہ کیفیت کو دور فرما رہے ہیں۔
تفسیر
اس آیت میں الله تعالیٰ نے چارگروہوں کا تذکرہ فرماکر انہیں نجات او رکام یابی کے ایسے معیار سے آگاہ فرما دیا ہے جس پر پورا اتر کر ہر گروہ رضائے الہی کا پروانہ حاصل کر سکتا ہے۔
پہلے گروہ کا بیان ﴿ان الذین اٰمنوا﴾ سے ہو رہا ہے، اس سے منافقین مراد ہیں، جو زبان سے ایمان کا اقرار کرتے ہیں، لیکن درحقیقت کافرانہ اعتقاد پر قائم ہیں۔ (عن سفیان الثوری: أنہم المؤمنون بألسنتھم، وھم المنافقون، بدلیل انتظامہم فی سلک الکفرة، والتعبیرعنہم بذلک دون عنوان النفاق للتصریح بأن تلک المرتبة وإن عبر عنہا بالإیمان لا تجدیہم نفعاً، ولا تنقذھم من ورطة الکفر قطعاً)․ (روح المعانی، البقرة، تحت آیة رقم:62)
دوسرے گروہ کا بیان ﴿والذین ہادوا﴾ (اور جو لوگ یہودی ہوئے) سے ہو رہا ہے۔ اس سے یہودی مراد ہیں۔ بنی اسرائیل کو دو وجہوں سے یہودی کہا جاتا ہے ۔
1...حضرت یعقوب ں کے چوتھے بیٹے یہودا کی نسبت سے۔
2...حضرت موسی ں کے دعائیہ کلمہ ﴿ إِنَّا ہُدْنَا إِلَیْْکَ﴾․ (الاعراف:156)”ترجمہ:ہم نے رجوع کیا ہے تیری طرف“ سے یہ لقب ماخوذ ہے اور لفظ یہود کا ماخذ اشتقاق ہدنا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیہ رقم:62)
تیسرے گروہ کا بیان ﴿والنصاری﴾ سے ہو رہا ہے، نصاری جمع ہے نصرانی کی۔ نصرانی حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکاروں کا نام ہے، جس بستی میں آپ کی رہائش تھی، اس کا نام ناصرہ تھا ، اسی نسبت سے آپ کے پیروکاروں کو نصرانی کہا جاتا ہے ۔ ( احکام القرآن للقرطبی، البقرة تحت آیة رقم:62)
اس مقام پر مولانا عبدالماجد دریا آبادی صاحب لکھتے ہیں:
” خوب خیال کر لیا جائے کہ قرآن یہاں ذکر مسیحیوں کا نہیں، نصاری کا کر رہا ہے اور قرآن کریم کا ہر ہر لفظ پُر حکمت ہوتا ہے ، مسیحی وہ ہیں جوایمان اناجیل اربعہ پر رکھتے ہیں، مسیح علیہ السلام کو خدا کا نبی نہیں، خدا کا بیٹا مانتے ہیں یایہ سمجھتے ہیں کہ خدا ان کے قالب میں حلول کر آیا تھا، آخرت میں نجات دینے والا (Saviour) خدا کو نہیں، مسیح ” ابن الله“ کو یقین کرتے ہیں او رخدائی کو تین اقنوموں میں تقسیم کرکے ایک ناقابل فہم فلسفہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ہر اقنوم بجائے خود ایک خدا ہے اور تینوں اقنوم مل کر بھی ایک ہی خدا بنتے ہیں ۔ اس کھلے ہوئے شرک کے قائلوں کا ذکر ہر گز اس مقام پر مقصود نہیں ، اسی لیے نام بھی جو مشہور او رچلا ہوا تھا اسے ترک کرکے نصاری لایا گیا۔
نصرانی معرب ہے Nazarene کا، حضرت مسیح علیہ السلام کے سچے پیرو، نبی کو ماننے والے ابتدائی زمانے میں Naza Renes کہلاتے تھے، یہ توحید کے قائل تھے اور بجائے اناجیل اربعہ کے صرف انجیل متّی کو مانتے تھے ، آگے چل کریہی لوگ ایبونیہ(Ebonites) بھی کہلائے، چناں چہ جب خود پولوس پر عدالت میں الزام لگا تو وکیل ترطلس نے اسے فرقہ ناصریہ کا فرد کہہ کر اپنی تقریر میں پیش کیا:
” ہم نے اس شخص کو مفسد اور دنیا کے یہودیوں میں فتنہ انگیز اور ناصریوں کے بدعتی فرقہ کا سرگروہ پایا“۔ ( اعمال:240:16)
مسیح کے ساتھ لفظ ناصری اسی اعمال میں کئی جگہ آیا ہے (2:22:4و3:10) اور خود انجیل متی میں بھی یہ ذکر یوں آگیا ہے:
”یوسف خواب میں ہدایت پا کر گلیل کے علاقہ کو روانہ ہو گیا اور ناصرہ نامی شہر میں جابسا، تاکہ جو نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا۔“ (متی:2:23)
لیکن جب مشرکانہ عقائد کا زو ربندھا او راصل مسیحیت حلولیت اور تثلیث ہی قرار پاگئی تو قدرتاً نصرانیت کا ستارہ بھی گردش میں آیا اور نصرانی ونصرانیت کے الفاظ بجائے عزت وتکریم کے تحقیر کے موقع اور ذم کے محل میں استعمال ہونے لگے، موجودہ مسیحیت سرتاپا” پولوسیت“ ہے اور تمام ترپولوس طرسوسی کی تعلیمات پرمبنی ہے ، یہ حضرت مسیح کے کچھ ہی روز بعد شروع ہو گئی تھی اور نصرانی اس کے بالکل منکر تھے ، قرآن مجید نے محل مدح میں ایک موقع پر بھی تثلیثی مسیحیت کا ذکر نہیں کیا ہے، بلکہ اس کا ذکرجب کبھی آیا ہے تو ہمیشہ ملامت، بے زاری کے ساتھ، مثلاً ان آیتوں:﴿لَّقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُواْ إِنَّ اللّہَ ثَالِثُ ثَلاَثَةٍ﴾․ (المائدہ:73)﴿لَّقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَآلُواْ إِنَّ اللّہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ﴾․(المائدہ:17)․“ ( تفسیر ماجدی، البقرة، تحت آیہ رقم:62)
چوتھے گروہ کا بیان ﴿والصابئون﴾ سے ہو رہا ہے، صابی لغت میں اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنا دین چھوڑ کر دوسرے دین کی طرف چلا جائے یا اس کی طرف مائل ہو جائے۔ ( مفردات القرآن للراغب: ص، ب، ی:ص:475)
صابی: اصطلاح میں ایک مذہبی فرقے کا نام ہے، اس فرقے کے لوگ توحید اور عقیدہٴ رسالت کے قائل تھے ۔ حضرت عمر فاروق اور عبدالله بن عباس رضی الله عنہم نے صابیوں کو اہل کتاب میں شمار کیا ہے۔ (معالم التنزیل، البقرة، تحت آیة رقم:62)
اب یہ نجوم پرستی میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ ستاروں کو مقدس جاننا، نجم قطب شمالی کی طرف متوجہ ہونا، تین نمازیں پڑھنا او رمختلف روزے رکھنا، بہتے پانی میں نہانا اس مذہب کی اہم علامات ہیں ،یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ عراق میں دجلہ وفرات کی نچلی پٹیوں او رایران کے ساحلی علاقوں میں آباد ہیں، ان کا دعوی ہے کہ ہم حضرت یحییٰ علیہ السلام کے امتی ہیں۔ ( مذاہب عالم کا جامع انسائیکلو پیڈیا، ص:274)
آیت کریمہ میں الله تعالیٰ نے ان چارگروہوں کا تذکرہ فرماکر… نجات کا اصول او راس کا ایک معیار مقرر کر دیا ہے کہ جو شخص بھی الله تعالیٰ کی ذات وصفات پر ایمان اور اسی ضمن میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کا صدق دل سے اقرار کر لے گا او رانہوں نے روز محشر کے متعلق جو خبردی ہے اس کو حق اور سچ جان کر اعمال صالحہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے گا تو اس کی برکت سے ہم ان کی سابقہ غلطیوں اور شرارتوں کو معاف فر ما دیں گے، انہیں نہ اپنے ماضی کے اعمال پر حسرت ہو گی نہ مستقبل کے متعلق خوف ہو گا۔ ﴿ولا خوف علیہم ولاھم یحزنون﴾ (اورنہیں ان پر کچھ خوف اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔) فتنہ محشر کی حشر سامانیوں میں بھی ان پر اطمینان وسکون کی چادر تنی ہو گی ۔ اگرچہ اس معیار پر اترنے سے پہلے وہ منافقانہ روش پر چل چکا ہو یایہودی ونصرانی اور صابی رہ چکا ہو، ہماری رحمت کسی گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ، صاحب ایمان اور صاحب اعمال صالحہ کے ساتھ مخصوص ہے، اگرچہ اس کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہو۔
فلسفہ وحدت ادیان کی حقیقت
بعض لوگوں نے قرآن کریم کی اسی آیت﴿إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَالَّذِیْنَ ہَادُواْ وَالنَّصَارَی وَالصَّابِئِیْنَ مَنْ آمَنَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُون﴾․(البقرہ، آیت:62) سے وحدت ادیان کا فلسفہ کشید کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یعنی جو شخص بھی الله تعالیٰ کی ذات وصفات پر اور آخرت پر ایمان ویقین رکھنے کے ساتھ ساتھ نیک اعمال کی جستجو میں لگا رہا ،وہ نجات اخروی کا مستحق ہو گا، اگرچہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ محبوب کبریا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا ضروری نہیں، وحدت ادیان کے علم برداروں سے اس آیت کریمہ کے سمجھنے میں بنیادی طور پر دو غلطیاں صادر ہوئیں۔
1...انہوں نے آیت کریمہ کا معنی ومفہوم سمجھنے کے لیے فقط لغت کو پیش نظر رکھ کر اس کے لغوی معنی مراد لیے، حالاں کہ یہاں ایمان بالله کے اصطلاحی معنی مراد ہیں۔
2...قرآنی آیت کی تفسیر سمجھنے میں کسی دوسری آیت یا حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم سے مدد نہیں لی، حالاں کہ قرآن فہمی کے سلسلے میں یہ دونوں چیزیں مسلمہ اصول کی حیثیت رکھتی ہیں ، آیت کریمہ سے وحدت ادیان کا استدلال کئی وجوہ سے باطل ہے:
1...قرآن کریم میں لفظ ، ایمان کا استعمال پورے اسلام کے عنوان کے طور پر ہوا ہے، اس کا لغوی معنی مراد نہیں، بلکہ اصطلاحی معنی مراد ہے، اصطلاح میں ایمان کہتے ہیں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرنے کے بعد، ان کی تعلیمات کی روشنی میں الله تعالیٰ کی ذات وصفات اور قیامت کے احوال وواقعات پر صدق دل سے ایمان لانااوراخروی زندگی سدھارنے کے لیے شریعت محمدی کے موافق زندگی بسر کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ آلوسی رحمہ الله تعالیٰ نے﴿ من آمن بالله﴾ کی تفسیر ”بالدخول فی ملة الاسلام“( دخول اسلام) سے فرمائی۔ ( روح المعانی، البقرہ، تحت آیہ رقم:62)
علاوہ ازیں قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے بعض ایسے مدعیان ایمان سے ”ایمان“ کی نفی فرمائی ہے جو ذات الہی اور آخرت پر صدق دل سے ایمان رکھتے تھے، لیکن آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کے منکر تھے۔ یعنی ان کا ایمان لغوی (آمنا بالله والیوم الآخر) موجود تھا، لیکن ایمان اصطلاحی نہ تھا، بنا بریں ان کے بارے میں فرمایا گیا ۔
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ آمَنَّا بِاللّہِ وَبِالْیَوْمِ الآخِرِ وَمَا ہُم بِمُؤْمِنِیْنَ ﴾․(روح المعانی، البقرة، تحت آیہ رقم:8)
ترجمہ:”اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے الله پر او ردن قیامت پر اور وہ ہر گز مؤمن نہیں۔“
( المشہور کانوا یھوداً وھم مخلصون فی اصل الإیمان بالله والیوم… أنھم قصدوا بتخصیص الإیمان بھما التعرض بعدم الإیمان بخاتم الرسل ا وما بلغہ ففي ذلک بیان لمزید خبثھم․)
2...قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے واضح اعلان فرما دیا ہے کہ الله کے ہاں دین اسلام ہی مقبول ہے ﴿إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَم﴾․ (آل عمران:19)
ترجمہ:” اور بارگاہِ الہٰی میں فقط دین اسلام کو سند قبولیت حاصل ہے۔“
﴿وَمَن یَبْتَغِ غَیْْرَ الإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَن یُقْبَلَ مِنْہ﴾․(آل عمران:85)
ترجمہ:” او رجو کوئی چاہے سوا دین اسلام کے اور کوئی دین، سو اس سے ہر گز قبول نہ ہو گا۔“
علاوہ ازیں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! میری اس امت میں سے جو شخص بھی میری بات سن لے وہ یہودی ہو یا عیسائی پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔ صحیح مسلم میں اس حدیث مبارکہ کے لیے عنوان ہی یہی باندھا گیا ہے،ہمارے نبی محمد صلی الله علیہ وسلم کی رسالت پر وجوب ایمان کا بیان․“ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب وجوب الإیمان برسالة نبینا محمد صلی الله علیہ وسلم، رقم الحدیث:386)
اس سے پتہ چلا کہ وحدت ادیان کی گم راہی درحقیقت قرآنی آیات اورحدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کو نظر انداز کرکے عقلی گھوڑے دوڑانے کا نتیجہ ہے۔
3...اس نظریہ کی رو سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی رسالت انسانیت کے کسی ایک طبقے کے ساتھ مخصوص ہو جائے گی، حالاں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کا ئنات کے ہر انسان کے لیے ہے: ﴿قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُولُ اللّہِ إِلَیْْکُمْ جَمِیْعاً﴾․ (الاعراف:158)
ترجمہ:” تو کہہ اے لوگو !میں رسول ہوں الله کا تم سب کی طرف“․
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَنَذِیْرا﴾․ (السبا:28)
ترجمہ:” اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو سارے لوگوں کے واسطے، خوشی اور ڈر سنانے کو۔“
4...اس نظریہ کی رو سے وہ تمام ادیان، جو الله تعالیٰ کی ذات گرامی اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہوں،برحق ہیں ، حالاں کہ الله تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ قیامت کے دن میں ان کے مابین فیصلہ کروں گا کہ کون حق پر تھا؟ اگر سب برحق ہیں تو پھر روز محشر کے اس فیصلے کا کیا مطلب ہے؟
﴿إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَالَّذِیْنَ ہَادُوا وَالصَّابِئِیْنَ وَالنَّصَارَی وَالْمَجُوسَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُوا إِنَّ اللَّہَ یَفْصِلُ بَیْْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ شَہِیْد﴾․( الحج:17)
ترجمہ:”جولوگ مسلمان ہیں اور جویہود ہیں اور صابئین اور نصاریٰ اور مجوس اور جو شرک کرتے ہیں، مقرر الله فیصلہ کرے گا ان میں قیامت کے دن، الله کے سامنے ہے ہرچیز۔“
﴿وَقَالَتِ الْیَہُودُ لَیْْسَتِ النَّصَارَی عَلَیَ شَیْْء ٍ وَقَالَتِ النَّصَارَی لَیْْسَتِ الْیَہُودُ عَلَی شَیْْء ٍ وَہُمْ یَتْلُونَ الْکِتَابَ کَذَلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ فَاللّہُ یَحْکُمُ بَیْْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیْمَا کَانُواْ فِیْہِ یَخْتَلِفُون﴾․ (البقرة:113)
ترجمہ:” اور یہود تو کہتے ہیں کہ نصاری نہیں کسی راہ پر اور نصاری کہتے ہیں کہ یہود نہیں کسی راہ پر، باوجود یہ کہ وہ سب پڑھتے ہیں کتاب، اسی طرح کہا ان لوگوں نے جو جاہل ہیں، ان ہی کی سی بات، اب الله حکم کرے گا ان میں قیامت کے دن، جس بات میں جھگڑتے تھے۔“
﴿لِکُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً ہُمْ نَاسِکُوہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِیْ الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَی رَبِّکَ إِنَّکَ لَعَلَی ہُدًی مُّسْتَقِیْمٍ، وَإِن جَادَلُوکَ فَقُلِ اللَّہُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ،اللَّہُ یَحْکُمُ بَیْْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیْمَا کُنتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُون﴾․(سورہ الحج:67۔69)
ترجمہ:”ہر امت کے لیے ہم نے مقرر کر دی ایک راہ بندگی کی کہ وہ اسی طرح کرتے ہیں بندگی ، سو چاہیے تجھ سے جھگڑا نہ کریں اس کام میں اور تو بلائے جا اپنے رب کی طرف، بے شک تو ہے سیدھی راہ پر، سوجھ والا اور اگر تجھ سے جھگڑنے لگیں تو تو کہہ! الله بہتر جانتا ہے جو تم کرتے ہو، الله فیصلہ کرے گا قیامت کے دن جس چیز میں تمہاری راہ جدا جدا تھی۔“
اس نظریے کی رو سے اسلامی بنیادوں پر حکومت کا قیام، کافروں سے جزیہ کی وصول یابی ، اسلامی حدود وتعزیرات کا نفاذ ، اعلائے کلمة الله کے لیے جہادو وقتال کی تمام تر کوششیں بے معنی مقاصد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بلکہ اس فلسفے کی اٹھان اسلام کے سیاسی نظریات کے انہدام پر ہی قائم ہے، برصغیر میں برطانیہ کے استعماری دور میں یہ فلسفہ بڑے زور وشور سے پھیلایا گیا تھا، تقسیم ہند کے بعد گواس کا زور ٹوٹ گیا ،لیکن اب یہی صدا مغرب کی فضا سے ”مکالمہ بین المذاہب“ کے عنوان سے سنائی دے رہی ہے، الله تعالیٰ اس کے شر سے اہل ایمان کو محفوظ رکھے۔ ( آمین)
﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّورَ خُذُواْ مَا آتَیْْنَاکُم بِقُوَّةٍ وَاذْکُرُواْ مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ،ثُمَّ تَوَلَّیْْتُم مِّن بَعْدِ ذَلِکَ فَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّہِ عَلَیْْکُمْ وَرَحْمَتُہُ لَکُنتُم مِّنَ الْخَاسِرِیْن﴾․ (البقرة، آیت:64-63)
ترجمہ:” او رجب لیا ہم نے تم سے اقرار اور بلند کیا تمہارے اوپر کوہ طور کو کہ پڑھو جو کتاب ہم نے تم کو دی زور سے اور یاد رکھو جو کچھ اس میں ہے، تاکہ تم ڈرو، پھر تم پھرگئے اس کے بعد ،سو اگر نہ ہوتا الله کا فضل تم پر اور اس کی مہربانی تو ضرور تم تباہ ہوتے۔“
تفسیر
الله تعالیٰ بنی اسرائیل پر اپنے چودہویں انعام اور ان کی ناشکری کا احوال بیان فرمارہے ہیں ، جس کی تفصیل یہ ہے کہ موسی علیہ السلام نے جب تورات کے احکام بنی اسرائیل کو سنائے تو انہوں نے شدید ناگواری کا اظہار کیا، کیوں کہ وہ احکام ان کی خواہشات کے موافق نہ تھے، اس لیے انہیں مختلف حیلوں اور بہانوں سے ٹالنے لگے ، پہلے تو صاف لفظوں میں یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ احکام الله تعالیٰ کے عطاکردہ نہیں، اگر واقعتا یہ خدا کی کتاب ہے تو خدا ہمیں بتلائے کہ یہ میرے احکام ہیں ، چناں چہ کتاب الہی کی تصدیق چاہنے کے لیے ستر افراد منتخب ہوئے ( جن کا قصہ گزشتہ آیتوں میں گزر چکا ہے)، انہوں نے قوم کو اطمینان دلایا کہ ہمیں الله تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا ہے اور یہ کتاب الله تعالیٰ ہی کی عطا فرمودہ ہے، لیکن اس حقیقت کے ساتھ یہ جھوٹ بھی ملا دیا کہ:”الله تعالیٰ نے فرمایا کہ تمام احکام پر عمل ضروری نہیں جس قدر ہو سکے اس پر عمل کرنا۔“
حالاں کہ انہوں نے الله تعالیٰ سے تورات پر عمل کرنے کا پختہ عہد کر لیا تھا، چناں چہ الله تعالیٰ نے کوہ طور کو زمین سے اٹھا کر ان کے سروں پر سائے کی طرح کھڑا کر دیا ،جو کسی وقت بھی گر کر انہیں چکنا چور کر سکتا تھا ۔ اس خوف ناک صورت حال میں انہوں نے بارگاہ الہی میں گڑ گڑا کر دعا کی کہ ہم سے یہ عذاب ٹال دیجیے، ہم آپ کے احکام صدق دل سے قبول کرتے ہیں۔ چناں چہ الله تعالیٰ نے اپنی شانِ رحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے یہ عذاب ٹال دیا۔
﴿ثم تولیتم من بعد ذلک… الخ﴾․
الله تعالیٰ بنی اسرائیل پر اپنا پندرہواں انعام ذکر فرمارہے ہیں۔
بنی اسرائیل نے جن احکام الہی پر عمل پیرا ہونے کا عہد وپیمان باندھا تھا اسے توڑ دیا، عہد شکنی کی سزا تو یہ تھی کہ انہیں فوراً ہلاک کر دیا جاتا، لیکن الله تعالیٰ نے اپنی ردائے رحمت ان کی حیات مستعار کے ختم ہونے تک مزید پھیلا دی، ثم تولیتم کے ظاہری خطاب سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے مخاطب آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے کے یہودی ہیں، کیوں کہ انہوں نے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی رسالت مبارکہ سے اعراض کرکے عہد شکنی کا ارتکاب کیا تھا، اب انہیں دنیا میں زندہ رہنے کا حق کسی طرح نہ تھا ۔ لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات بابرکات کی وجہ سے انہیں زندگی کی مزید مہلت مل گئی ہے، وگرنہ یہ کب کے سابقہ نافرمان قوموں کی طرح عذاب الہی کا شکار ہو کر نیست ونابود ہو چکے ہوتے۔ ( روح المعانی، البقرہ، تحت آیہ رقم:64)
معجزات کے منکرین﴿ورفعنا فوقکم الطور﴾(اور بلند کیا تمہارے اوپر کوہ طور کو ) کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں، ان کی معروف تاویل یہ ہے کہ ” بنی اسرائیل کوہ طور کے دامن میں اس جگہ کھڑے تھے جہاں پہاڑ کا کچھ حصہ ان پر جھکا ہوا تھا، اسی کو ﴿ورفعنا فوقکم الطور﴾ سے تعبیر فرمایا ہے۔“ (دیکھیے پرویزی تفسیر مفہوم القرآن، سرسید کی تفسیر القرآن، البقرہ، تحت آیہ رقم:63) یہ صریح غلط بیانی ہے ، کیوں کہ سورة الاعراف میں الله تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ﴿وَإِذ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَہُمْ﴾․ (الاعراف:171)
ترجمہ:” اور جس وقت اٹھایا ہم نے پہاڑ ان کے اوپر۔“
نتق کہتے ہیں زمین سے اکھاڑنا۔ یعنی الله تعالیٰ نے پہاڑ کو زمین سے اکھاڑ کر ان کے سروں کے اوپر معلق کر دیا تھا۔ اس قدر واضح الفاظ کے بعد کسی تاویل کی گنجائش نہیں رہتی۔
کیا دین میں بھی زبردستی ہے ؟ ایک شبہے کا ازالہ
الله تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے کہ دین میں کوئی زبردستی اور جبر نہیں ﴿لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ﴾․(البقرة، آیت:256) ترجمہ:”زبردستی نہیں دین کے معاملے میں۔“ پھر الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر پہاڑ معلق فرما کر زبردستی ان سے اپنے احکام کی پیروی کا عہد کیوں لیا؟
﴿لاَإِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْن﴾( زبردستی نہیں دین کے معاملہ میں) کا مطلب یہ ہے کہ دین حق قبول کرنے کے لیے کسی پر زبردستی او رجبر کرنا جائز نہیں (لاتکرھوا أحداً علی الدخول فی دین الاسلام، تفسیر ابن کثیر، البقرة، تحت آیہ رقم:256)
یہی وجہ ہے کہ اگر کفار جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں توان سے جہاد وقتال کا سلسلہ روک دیا جاتا ہے، انہیں زبردستی ایمان لانے پر آمادہ نہیں کیا جاتا، کیوں کہ جہادد ین حق قبول کرانے کا نام نہیں، بلکہ پوری انسانیت کو قانون الہی میں داخل کرنے کا کا نام ہے، تاکہ کافر ومسلمان سب عدل وانصاف کے سائے تلے زندگی گزارسکیں ۔
البتہ اگر کوئی شخص دین حق قبول کر لے تو پھر اسے من مانی زندگی گزارنے کا حق نہیں رہتا، بلکہ دین حق ( اسلام) کے احکام کی بجا آوری اس پر لازم ہو جاتی ہے اور حتی الامکان اسے مجبو رکیا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا سفر احکامِ خدا وندی کی روشنی میں طے کرے او راس میں کسی قسم کے شبہے کی گنجائش ہی نہیں۔ یہ تو بالکل ایسا ہے جیسے دنیا میں جو شخص جس ملک کا شہری نہ ہو اس ملک کے قوانین کو تسلیم نہ کرے یا ان کا مذاق اڑائے تو وہ مجرم شمار نہیں ہوتا، لیکن اس ملک کا شہری بن جانے سے ملکی قوانین اس پر زبردستی لاگو ہو جاتے ہیں، اب اگر وہ ملکی قوانین کا احترام نہ کرے یا مذاق اڑائے یا ماننے سے ہی انکار کر دے تو حکومت اسے باغی قرار دے کر پھانسی تک کی سزا دے دیتی ہے، اس میں نہ کسی کو اشکال ہوتا ہے اور نہ زبردستی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، یہی حکم دین اسلام کے متعلق سمجھا جائے۔ (جاری)