Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1435ھ

ہ رسالہ

6 - 15
الحاد اور لادینیت کا سیل رواں

مولانا حذیفہ وستانوی
	
اللہ نے کا رخا نہ دنیا کو بے سو د پید ا نہیں کیا اور نہ ہی بے اصولی کے ساتھ اللہ اسے چلا رہے ہیں،اگر چہ اللہ کی ذا ت کسی دنیا میں لگے بندھے اصول کی پا بند نہیں، جتنی بھی چیزیں ہیں ان میں سے کوئی بھی چیز کسی فائدہ سے خالی نہیں ۔

اگر یہ اصو لی با ت سمجھ میں آ گئی تو اب جا ننا چاہیے کہ انسا ن کو اللہ نے اس دنیا میں مر کز ی حیثیت دی ہے ، انسا ن مقصودِ کا ئنات اور اس کے ماسوا سب اس کی ضرو رت، حاجت کی تکمیل کے لیے ہیں اور اسی میں انسا ن کا امتحان بھی ہے کہ حضرتِ انسا ن اس کے لیے بنا ئی گئی اشیا کو صحیح طور پر استعمال کر تا ہے یا نہیں ؟ ؟ اگر وہ صحیح استعمال کرتا ہے تو اس کو دار ین یعنی دنیا اور آخرت میں اس کا فا ئدہ پہنچنا ہے اور اگر بلا ضرورت اور غلط استعمال کر تا ہے تو دنیا وآخرت میں سز ا کا مستحق ہو نا ہے ۔

ہر ادار ہ ،فیکٹر ی ، مدرسہ ، یو نی ور سٹی اور ملک و حکو مت کے اصو ل وقوانین ہو تے ہیں، اگر اس کی پا بند ی کی جائے تو اس کے لیے بہتر ہو تا ہے اور اگر اس قا نو ن کو تو ڑ دیا جائے تو سز ا ہو تی ہے اور خلفشار بھی پیدا ہو تا ہے ۔

اللہ نے اتنا عظیم کا ر خا نہ دنیا بنا یا تو یہ کیسے چل رہا ہے؟ ضر ور اس نے اس کے قو انین بنائے ہوں گے ؟ جن پر دنیا کے حا لا ت کا مدارہے۔ (اگرچہ اللہ کسی لگے بندھے اصول وقوانین کے پابند نہیں)انسا ن کو قر آ ن و حدیث کے ذریعہ اللہ نے اپنے اصو ل و قو انین سے مطلع کر دیا ہے ۔

دنیا کے حالات کب پر سکون اور سازگار رہیں گے؟
آج جو دنیا کے بد تر ین حالا ت ہیں، ا س کا ذمہ دارخو د انسا ن ہے کیو ں کہ اللہ کے قا نو ن کے مطابق دنیا کے حالا ت کا بگا ڑ انسا ن کے اعمال پر موقو ف ہے ۔ ارشا دِ الہٰی ہے ﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْ النَّاسِ﴾․(الروم:41) ”خشکی اورتری میں فسا د برپا ہو گیا لو گو ں کے اعمال کی وجہ سے ۔“ ایک اور جگہ ارشا د ہے : ﴿وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْکُمْ وَیَعْفُو عَن کَثِیْر﴾․(الشوری:30) ”جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہار ے کیے ہوئے اعمال کی پا داش میں ہوتی ہے جب کہ اللہ بہت سے (گنا ہو ں کی سز ا ) سے درگز ر کر تا ہے ۔ “ایک اور جگہ ارشاد ہے ﴿ولو یوٴاخذ اللہ النا س بما کسبوا ما تر ک علی ظہرہا من دابة﴾ ”اگر اللہ تعالیٰ انسا ن کے اعمالِ سیئہ پر دنیا میں مو اخذہ لینے پر آ جا ئے تو زمین پر ایک رینگتا ہو ا جا نو ر بھی با قی نہ چھوڑے۔ “

معلو م ہو ا یہ تو ہمارے اعمال سیئہ میں سے بعض کی سزاہے، سب کی نہیں ورنہ تو بہت پہلے ہی یہ دنیا نیست و نا بو د ہو چکی ہو تی اور یہ جو حالا ت دنیا میں آئے ہیں وہ بطور سزا کے نہیں ہیں، بلکہ لو گو ں کو مقصدِ حیا ت، یعنی اللہ کی بندگی اور اس کی رضا کی طرف راغب کر نے کے لیے ہیں ، لعلہم یرجعون․

بعضے اعمال کی یہ سز ا وہ بھی بطور سز اکے نہیں؛ تو آخر ت کی سز ا کا کیا عالم ہو گا ؟!!! اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرما ئے اور دنیا و آخر ت کے عذاب سے ہماری حفا ظت فر ما ئے ۔

روحا نی ،جسما نی، معاشی اور سیا سی حالا ت کے بگاڑ کے تین اہم اسبا ب
آج دنیا میں ہر شخص اور ہر علا قہ عجیب وغر یب بے اطمینا نی اور بد امنی کا شکار ہے، ہر شخص حالا ت کا رو نا روتا ہے اور اصل اسباب کی تشخیص نہ کر نے کی وجہ سے حالا ت بد سے بد تر ہوتے جار ہے ہیں ؛ جب صحیح اسبا ب ہی نہیں معلوم تو علاج کیاہو گا؟ اور جب علا ج نہیں ہوگا تو حالا ت کیسے درست ہو ں گے ؟ آئیے !قرآ ن وحدیث کی روشنی میں اس کے اسبا ب و علا ج کو جا ننے کی کوشش کر تے ہیں ۔

حالات ِدنیا کے مطالعہ سے معلو م ہو تا ہے کہ دنیا کی ابتر ی کا سب سے اہم سبب تو” مقصدِ حیا ت سے غفلت اور اللہ سے دور ی “ہے؛ مگر اس کے ذیلی مو ٹے مو ٹے اسبا ب تین ہو سکتے ہیں :
الحاد اور دین سے دور ی
بے حیا ئی اور بد اخلا قی
رشو ت خوری اور سو د ی نظا م

مذکو رہ تین چیز یں اس وقت دنیا میں انسا ن کی تبا ہی میں اہم رو ل ادا کر رہی ہیں ، تینو ں کے اثرا ت کیا ہیں ؟
الحا د اور دینی علم سے جہا لت ،اور عمل صا لح سے فر ار ،سکو نِ قلبی اور اطمینا نِ روحا نی کے فقدا ن کا سبب ہے۔
بد اخلاقی و بے حیا ئی، ملکی اور عالمی امن و اما ن کے غار ت کا سبب ہے۔
اور رشو ت وسو د خو ری ، مالی بحران اور فقر و فا قہ میں اضافہ کا سبب ہے ۔

اگر عالمی منظر نا مہ اور ملکی و عالمی اخبار، رسائل و جرا ئد کا مطالعہ کریں؛ تو آپ دیکھیں گے کہ کہیں تو وہ لو گ جوصاحب ِثر و ت و ما ل ہیں یا صاحب عز ت و شہرت ہیں؛ وہ چین، سکو ن اور اطمینا ن کی تلا ش میں سر گر دا ں ہیں؛ تو کہیں پور ی پوری حکومتیں یا بڑے بڑے تا جر، مالی بحرا ن کا شکا ر ہیں؛ تو کہیں زنا بالجبر ،قتل وغارت گر ی ، فتنہ و فسا د برپاہے ،کو ئی دن ایسی بری خبر سے خالی نہیں گز ر تا ۔

علم کے نا م پر ”الحاد “ کی گر م با زا ری
دین ،انسا ن کی ایک فطر ی ضرور ت ہے اور صر ف دین ہی نہیں بلکہ” دین اسلا م“ انسا ن کے لیے ضروری ہے ؛کیوں کہ وہ اس دنیا میں کیو ں آیا؟ دنیا میں کیسے آ یا؟ دنیا میں کیا کرنا ہے ؟ اس کو کس نے پید ا کیا ؟ کیسے پیدا کیا؟ اس کا دنیا میں مقا م کیا ہے؟ دنیو ی زندگی کیسے گز ا رے ؟ صر ف دنیا ہی سب کچھ ہے یا اس دنیا کے بعد بھی کچھ ہو گا ؟ مو ت کے بعد کیا ہو گا ؟ اچھائی کا انجام کیا ہو گا؟ اور بر ا ئی کی سز ا کیا ہو گی ؟ یہ ایسے سوالا ت ہیں جن کے جوابات نہ عقل سے ممکن ہیں،نہ حو اس سے ممکن ؛نہ تجر بہ سے ممکن ہیں، نہ مشا ہد ہ سے ممکن؛ ان کے تشفی بخش جو ا با ت صرف اور صر ف ”وحیِ الٰہی “ کی روشنی میں ممکن ہیں اورآخری ”وحیِ الٰہی “ خا تم الا نبیاء والمر سلین ،احمد مصطفی ،محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نا ز ل ہوئی اور اللہ نے اس کی مکمل حفاظت کی ۔ لہٰذا” اسلا م “ صر ف مسلما ن کی ضرو رت نہیں ہے؛ بلکہ ساری دنیا کے انسا نو ں کی ضرو ر ت ہے ۔

تا ریخ اس با ت پر شا ہد ہے کہ دنیا کا کو ئی قا نو ن اور کوئی حکمت وفلسفہ انسا ن کو بر ا ئی سے نہیں روک سکا، انسا ن کو اگر ہر طر ح کی برا ئی سے کوئی چیز رو ک سکتی ہے؛ تو وہ ہے اللہ کے رو بر و جو ا ب دہی کی کلی فکر اور اپنی اس دنیوی زندگی کے بعدقیامت کے دن حساب اور اس پر جز او سزا کے تر تب کا عقیدہ اور تصور ؛جیسا کہ آپ حضرات صحابہ کی سیرتوں کے مطالعہ سے معلوم کر سکتے ہیں؛ یہ ہی نہیں ،بلکہ آج بھی دنیا میں جو جرائم پیشہ لوگ دامنِ اسلام سے وابستہ ہوتے ہیں ؛یکایک ان میں تبدیلی آجاتی ہے ۔کیوں ؟ اس لیے کہ ایمان کے بعد آخر ت کی فکر دامن گیر ہو تی ہے ۔ در اصل یہ سب مغر ب کے بے خدا افکا ر کا نتیجہ ہے ۔

جنا ب مختار فا روقی صاحب نے بالکل درست کہا ہے :
”آج ضرورت اسی با ت کی ہے کہ مغرب کے بے خدا علم (جو علم نہیں فن اور ہنر ہے ) اور خدا بیزا ر فلسفہ نے اپنی چکا چو ند تہذیب کے ذریعہ؛ جو تباہی انسانی اور اخلا قی سطح پر مچا رکھی ہے؛ اس کو جتنا ممکن ہو ،جس سے ممکن ہو ،جہاں جہا ں ممکن ہو اور جس جس ذریعہ سے ممکن ہو، اس کو عا م کر دیا جائے؛ تا کہ اس علم کی تبا ہ کاریو ں کے احسا س کے نتیجہ میں، اپنے خسار ہ اور اخلاقی بحرا ن کا احسا س ہو تا چلا جائے ۔ یہی آ ج کی ضرورت ہے ۔ “ (حکمت با لغہ ص: 4 حقیقت علم نمبر )

ابھی چند دنوں پہلے کی با ت ہے؛ عر بی کی ایک مشہو ر و مقبو ل اسلامی ویب سا ئٹ ”الالوکہ “ www.alukah.com سے ایک مضمو ن موصول ہو ا؛ جس میں کسی امریکی ادار ہ کی جا نب سے، دنیا بھر میں کیے گئے ایک ایسے سر وے کی رپور ٹ تھی، جس میں یہ تنا سب نکا لا گیا تھا کہ دنیا میں کس مذہب کے ما ننے والو ں کا کتنا تناسب ہے ؟ اور الحاد، دہریت اور لا دینیت کا نظر یہ رکھنے والے کتنے ہیں ؟تو اس میں بتا یا گیا کہ اس وقت دنیا میں ملحدین اور دہر یہ لو گو ں کا تناسب 16فی صد ،اور جن کی تعدا د ایک سوبیس کرو ڑ ہو تی ہے ؛ عیسائیت کے ماننے والے 31.5 فی صد یعنی220کروڑ؛ اورسلا م کے ما ننے والے 23فی صد 160کروڑ؛ یہو دیوں کا تنا سب 0.2تعدا د 14/ملین ،اس کے بعد ہندو ،بو دھ اور دیگر مذاہب کے ما ننے والے ، تقریباً 30فی صدہیں۔ مز ید تفصیل میں لکھا ہے کہ سب سے زیا دہ ملحد” چین“ میں ہیں، اس کے بعد فرانس میں ،اس کے بعد امر یکہ میں، اس کے بعد جا پا ن میں۔ (اللادینیین ثالث اکبر فئة فی العالم بعد المسیحیة والاسلام)

اس رپور ٹ کے پڑھنے کے بعد اس شعر کی تصدیق کر نی پڑے گی جس میں غالباً علا مہ اقبا ل نے کہاتھا #
            یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
            افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

مذکورہ رپورٹ پر پور ی دنیا میں واویلا مچنا چا ہیے تھا ، میڈیا کو اسے خوب کوریج دینی چاہیے تھی، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کیو ں ؟ اس لیے کہ جو لو گ مذہب سے منسلک ،ان کی پکڑ بھی اپنے مذہب پر کمز و ر ہے ؛ اکثریت اپنے مذہب کی بنیادی مو ٹی مو ٹی با تو ں سے بھی نا واقف ہے ۔اور میڈیا ؟!!! وہ تو پور اانہیں ملحدوں کے زیر ِتسلط ہے، وہ کبھی نہیں چا ہے گی کہ ایسی خبر کو اہمیت دے ۔

اب یہ چاہے کسی کے لیے ہو یا نہ ہو؛ ہم مسلما نو ں کے لیے تو ضرور سوچنے کا مقا م ہے کہ ایسا کیو ں ہو رہا ہے ؟ معاشر ے میں ملحدو ں اور دہر یوں میں کیو ں اضافہ ہو رہا ہے ؟ ؟ کیوں کہ ہمارا فریضہ صرف اتنے پر ختم نہیں ہو تا ہے کہ ایما ن لا کر خو د عملِ صالح کر لیں ؛بلکہ قرآ ن نے ہماری تخلیق کے مقا صد میں سے ایک مقصد یہ بھی بیا ن کیا ﴿کنتم خیر امة اخر جت للناس﴾تم بہتر ین امت ہو جو لو گو ں کی نفع رسا نی کے لیے پیدا کی گئی ہو۔ اورنفع سے مراداگر چہ عا م ہے ؛مگر اصل مصدا ق نفعِ اخر و ی ہے؛ یعنی امر بالمعر و ف، نہی عن المنکر اور دعو ة الی الا یما ن؛ مگر افسوس ہے ہمیں خو د اپنے آ پ پرکہ نہ ہمیں اپنی اولا د کے ایما ن کو بچا نے کی فکر ہے، نہ اپنے خا ندا ن کے ایما ن کو بچا نے کی فکر ہے اورنہ خو د اپنے ایما ن کی کمزوری کا احسا س ہے ؛اسی بد تر ین غفلت کا نتیجہ ہے کہ الحا د ز و ر پکڑ رہا ہے اور دین سے دوری میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔

الحا د اور دہریت میں اضافہ کیو ں ؟؟ یہ ایک اہم سو ال ہے کہ آخر یہ دہر یت نے اتنا سر کیوں اٹھا یا ہوا ہے ؟؟ تو اس کا سیدھا جو ا ب ہے، تعلیمی نصاب ،اور میڈیا میں مغربی فکر و فلسفہ کا فر وغ ، مغر بی فکر و فلسفہ کو ماسو نیت کے مافیا اور شیطا نی گروہ نے یرغمال بنا رکھا ہے اور صدیو ں سے اپنے نا پا ک مقاصد کے لیے استعمال کرتا چلا آ رہا ہے؛ جس پر سنجیدگی کے ساتھ صرف سوچنے کی نہیں،بلکہ کوئی مضبو ط قد م اٹھا نے کی بھی ضرور ت ہے ۔

انسان کو اپنے رب سے کاٹنے کی منصوبہ سا زی
”یہ ایک تحقیقی با ت ہے کہ مغرب کے ایک سو چے سمجھے منصو بے کے تحت، ایک گرو ہ نے انسا نو ں اور ان کی آئند ہ نسلوں کے لیے تبا ہی کا فیصلہ کیا اور وہ فیصلہ یہ تھا کہ مذہب (آ سما نی ہدایت ،خدا کا تصو ر ، آخر ت کا تصور ، انبیا اور وحی کا تصو ر وغیرہ وغیر ہ غیبیات کا تصو ر ) اور سا ئنس کا رشتہ کا ٹ دیا جائے؛ اور سا ئنس کے آ گے بڑھنے اور پھیلا ؤ کا عمل ،خدا اور آ سما نی وحی کے اصول و ضو ابط سے نہیں؛ بلکہ ما حو ل اور ضرورت کے تحت ہوگا، اسی طرح آئندہ کے تجرباتی علو م ،و سوشل سائنس پر عقل کے تعامل کے مر احل میں کیا کر نا ہے اورکیا نہیں کر نا ؟ یہ فیصلہ ایک ایسے گرو ہ کے ہا تھو ں میں چلا گیا جو استحصا ل کا عادی تھا ۔“(ایضا ً 41)

مذکو رہ گرو ہ نے علم کا احیا یا RENAISSANLE کے نا م سے تحریک شرو ع کی، جس کی بنیاد”مذہب کی عدم مداخلت “پر رکھی اولاً عیسائیت سے بے زا ر یورپ میں اس کو حما یت حاصل ہوئی اور پھر یورپی اقو ا م کے دنیاپر تسلط کے ساتھ یہ تحریک عالم گیر بن گئی؛بس پھر کیا تھا پور ی دنیا گم راہی کی لپیٹ میں آ گئی ۔

تجدیدِ علو م کے حا میا ن کو جب سیکو لر بنیا د و ں پر علو م کو آگے بڑھانے کے لیے فکری بنیاد و ں اور تاریخی اعتبار سے فکر ی تسلسل کی تلا ش در پیش ہوئی؛ تو انہوں نے مذہب دشمنی اور خدا بے زا ری کے جذبہ کے تحت اپنے فکر ی رشتہ کو تین ہز ا ر سال پر انے یو نا نی فلا سفہ” ارسطو“ اور” افلا طو ن“ سے جوڑ دیا اور انہیں زندہ کر کے اسکو لو ں اور یونیور سٹیوں میں پڑھا نے لگے اور انہیں کے استدلا ل اور تصو را ت کو بنیا د بنا کر جد ید فلسفہ کی بنیاد رکھ دی؛ اس طرح کریلا وہ بھی نیم چڑھا جیسا مسئلہ بن گیا ۔

اسی اصو لی فکر اور انحرا ف سے جو فلسفیا نہ سطح پر تبدیلی آئی و ہ یہ تھی :
٭...  اب آ سما نی بات ، خدا ،اللہ ، GOD کا نا م سا ئنس اور فلسفہ میں ہر گز استعمال نہیں ہو گا ۔
٭... وحی ،ہدایت ، آ سما نی راہ نما ئی ، خدا کی مر ضی ، آ سما نی حکو مت ، نبی پیغمبر علیہ السلا م کے الفا ظ بھی اپنی جگہ کتنے ہی مقد س صحیح سا ئنس اور فلسفہ کے میدا ن میں متر و ک متصور ہوں گے ۔
٭... حیا ت بعد الممات یا مو ت کے بعد زندگی ، جنت ، دو زخ ، فرشتے اور قبر کی اصطلا حا ت کا استعمال ممنوع ہو گا ۔
٭...  رو ح ، روحانی زندگی ، بز رگی ، ولا یت وغیرہ کے الفا ظ بھی نوک ِقلم پر نہیں آئیں گے ۔

اس ساری کوشش کا حاصل یہ ہوا کہ اس ساری محنت کے نتیجے میں اب فلسفہ سا منے آ نے لگا اور آج تک مغر ب کے فکر ی خزا نے سے بر آ مد ہو رہا ہے … اس کے اہم نکا ت یہ ہیں کہ:
٭... خدا کے مقا بلے میں کا ئنا ت پر بحث کرنی ہے ؛خدا ہے یا نہیں اس سے بحث نہیں ۔
٭... آخر ت کے مقا بلے میں دنیا وی زندگی کی بہتر ی، فلا ح و بہبو د پر زیاد ہ تو جہ دی جا تی ہے ۔
٭...رو ح کے مقابلے میں جسما نی اور ما دی زندگی اور ا س کی لذات اور ا ن کا حصو ل اصل مطمح نظر قر ار دیا گیا ہے ۔
٭...انبیائے کر ا م علیہم السلا م ، وحی ، فر شتے ، آ سما نی ہد ایا ت کے الفاظ اب سائنس وفلسفہ کا موضو ع نہیں ؛بلکہ زندگی میں حلا ل و حرا م اوراختیار و رد کر نے کی بنیاد، سائنسی تحقیق اورسائنس دانو ں کے خیالا ت قر ار پاگئے ۔ (حکمت بالغہ، حقیقت علم نمبر ص 43/42 )

تجدید ِعلو م اورنشأة ِثا نیہ کی یہ تحر یک ،بے پنا ہ ما دّی تر قی کے جلوے میں اپنے اختیار کر دہ اصولوں کے مطابق رواں دواں ہو ئی؛ تو ایک بگٹٹ گھوڑے کی طرح آ گے ہی بڑھتی چلی گئی، چناں نچہ …تصو ر کائنا ت ، انسا ن کی حقیقت اورآئیڈیل ،انسا نی زندگی کے لیے راہ نما ئی کے میدا ن میں ایسے ایسے فلسفے اور تازہ بہ تا زہ نت نئے افکا ر سامنے آئے، کہ خدا کی پنا ہ! فکر ی سطح پر انسا ن پر ضمیر کی گر فت کا خا تمہ ، اخلاقی اصو لوں کے بندھنوں کا کھل جا نا؛ اورمادّی ترقی نے مغر ب کے انسا ن کو ما در پدر آ زا د بنا کر رکھ دیا ۔

صنعتی انقلا ب کے نتیجہ میں انسا نی استعمال کی چیز وں کی بھر ما ر نے مغرب کے عو ا م و خو اص کو حیرا ن کر دیا ، اور نت نئی ایجا دا ت کے احسا س نے مغرب کے اوپر کے طبقا ت میں ایک ایسا ثقافتی انقلا ب پیدا کر دیا، جس سے سارے یورپ کی سابقہ اخلاقی اقدار کی عمارت زمین بو س ہوگئی ۔ (اور فلسفہ کی سطح پر لا دینیت اور لامذہبیت کی طرح انسا نی اور سما جی سطح پر لا اخلا قیت نے لے لی !)(حکمت بالغہ، حقیقت علم نمبر ص47)

اگر چہ علمی سطح پر سا ئنسی تجر بہ ایک VERIFIABLE FACT شمار ہو تا ہے؛ جو کہ دنیا کے کسی علاقے میں بھی مخصوص حالا ت کے تحت آز ما یا جا سکتا ہے اور ایک جیسے نتا ئج حاصل کیے جا سکتے ہیں؛ تا ہم فلسفہ وفکر کے میدان میں ا ن ٹھوس حقا ئق کے ساتھ جو تصو ر کا ئنا ت کی عمار ت فلا سفہٴ مغرب نے بنا ئی اور اس میں انسا ن کا مقام متعین کیا؛ تو وہ ان کی اپنی فکر تھی ۔ ہو سکتا ہے یہ فکر خالصةً ان کے قلب و ذہن کی پیدا وا ر ہو ؛ تا ہم اس کا بھی امکان ہے کہ یورپی فکر کے پیچھے جو ما سٹر ما ئنڈ (MASTERMIND) تھا اور وہ آج بھی ہے ، اس نے مطلوبہ نتا ئج حاصل کر نے کے لیے ان فلا سفہ کو HIRE کیاہو؛جنہوں نے مطلو بہ نتا ئج نکال کر دکھا دیے ۔ قرآئن دو نوں طرف کے مو جو د ہیں، تا ہم فلسفہ کے میدا ن میں یہ نتا ئج کبھی حقا ئق (FACTS ) کا درجہ حاصل نہ کر سکے؛ بلکہ نظریات (THEORIES) ہی کا در جہ آ ج تک ان کو دیا جا تا ہے ۔(مگر بڑ ھا چڑھا کر ضرور پیش کیا جا تا ہے ، جس کے نظر یہ سے وہ عقید ہ کی حدو د میں داخل ہو جا تا ہے ۔نا م اگر چہ نظریہ دیا جا تا ہے، مگر اس کے ساتھ سلو ک عقید ہ جیسا کیا جا تا ہے۔ )(حکمت بالغہ، حقیقت علم نمبر ص47)

مغر ب کے ملحدا نہ نظریا ت
فکر مغر ب کے اجز ا وہ مشہو ر نظریا ت ہیں جو بیسو یں صدی کے چوتھے عشر ے تک سا منے آ کر مغربی معاشر ے میں سرایت کر چکے تھے، بلکہ معاشرہ ،زندگی کے ہرمیدا ن میں اپنے آپ کو ان کے حو الے کر چکا تھا؛ کہیں کوئی مخالفت بیسویں صدی کے آ غا ز میں مو جو د تھی بھی ؛تو وہ بیسو یں صدی کا نصف حصہ گز رتے گز ر تے دم توڑ چکی تھی ۔
٭...…ڈارون کا نظریہ ارتقا
٭...میڈو گل کا نظریہ جبلت
٭...سگمنڈ فر ائڈ کا نظریہ جنس
٭...کار ل مارکس کا نظریہ دولت
٭...ایڈ لر کا نظریہ حب تفوق

مغربی فکر وفلسفہ کے بڑ ے بڑے امام ڈارون ، میڈو گل ، فر ائڈ ، ایڈ لر ، کار ل ما رکس اور میکا ولی ہیں ۔ ڈارون کی طرف ارتقا کا نظریہ منسو ب ہے ؛ میکڈو گل نے جبلت کا نظریہ پیش کیا ہے ؛ فر ائڈ اور ایڈ لر نے لا شعو ر کے نظریات پیش کیے ہیں ؛ کار ل ما رکس کی طرف سو شلز م کا نظریہ منسو ب ہے ، اور میکاولی نیشنلز م کی مو جو د ہ شکل کا مبلغ سمجھا جا تا ہے ۔

یہ پا نچ تو وہ ہیں جو زیا دہ زور پکڑ سکے ہیں اور جنہوں نے مو جو د ہ الحا د کے فروغ میں اہم کردار ادا کیاہے ، ورنہ صرف یہ پا نچ نظریات نہیں ظا ہر ہو ئے، بلکہ جنا ب سید محمد سلیم نے ”مغربی فلسفہ تعلیم ایک تنقیدی مطالعہ “میں تقریباً ایسے سو ملحدانہ افکار کا ذکر کیا ہے؛(مغر بی فلسفہ کی وجہ سے دین کے بار ے میں ایک سو پچاس سے زا ئد گم راہیوں کو پر و فیسر حسن عسکر ی صاحب نے مر تب کیا ہے ) اس سے بھی اندا ز ہ لگا یا جا سکتا ہے کہ مغرب میں الحاد نے کیسا سر اٹھا یا ہو گا !!!

لا دینی تحر یک پر سید محمد سلیم تحر یر فر ما تے ہیں :
لا دینی تحریک
غیر محسو س اورغیر ما دّی حقا ئق کا بر ملا انکا ر کرنے کے بعد مذہب بے زا ری Theophobia جدید نظام فکر کا اہم عنصر پایا ۔ مغرب میں اب صرف وہ علم معتبر ہے ؛جس سے لا دینی فکر کو تقویت ملتی ہو ؛ سا ئنس کا ہر ہم سفر شعور ی یا غیر شعو ری طورپر مذہب بے زا ری کے جذبے سے متا ثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکا ۔ مغر ب کے حکماء اورفلاسفہ کی اس ذہنیت کو ”لادینیت “ Secularism کے نا م سے موسو م کر تے ہیں۔ یہ لاادریت Agnosticism سے بالکل مختلف نظر یہ ہے ۔ یو نا ن کے ”لا ادریہ“ فلسفی لا علمی کے مدعی تھے ؛لیکن جدید دور کے حکما ء اورفلا سفہ مذہب دشمنی کے عَلَم بردار ہیں ۔ خدا کے تصور کو حذف کر نا اور ما دیت کے ذریعہ کا ئنا ت کی ہرشے کی تشریح کر نا اب سائنس کا منتہائے مقصو د بن گیاہے ؛ اس کا واضح ثبوت فر انس کے سائنس داں ”لا پلا س“ Laplace کے جو اب سے ملتا ہے ؛ اس نے اپنی طبیعاتی تصنیف نپو لین (1804ء تا 1814ء ) کو پیش کی ۔ نپو لین نے لا پلاس سے دریافت کیا ؛ میں نے آ ٹھ سو صفحا ت کی کتاب میں خدا کا لفظ کہیں نہیں پڑھا؛ اس کی کیا وجہ ہے؟ لاپلاس نے جو اب دیا : ”آقا ! اب اس فا رمو لے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔“(مغربی فلسفہٴ تعلیم کا تنقید ی جا ئزہ، ص:32 )

لا دینیت
مغربی معاشرہ انکا ر ِمذہب اورانکار مابعد الطبیعیات کی بنیاد پر استوار ہو ا ہے؛ اس لیے مذہب دشمنی اور لا دینیت اس نظام ِحیات کی معروف اور مقبول قدر ہے ؛اس نظا م ِحیا ت کے رگ وریشہ میں لا دینیت سرایت کیے ہوئے ہے ؛ لا دینیت کوا س نظا م میں اصو لِ مو ضو عہ کے طو ر پر تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ ابتد ا میں ہی لا دینی تصو ر حیا ت کو نوخیز طلبہ کے ذہنو ں میں راسخ کر نے کی پیہم کوشش کی جا تی ہے ۔ سرکاری سطح پر احکام نافذ کیے جا تے ہیں ،جن کے ذریعہ سرکا ری درس گا ہوں میں ہرقسم کے مذہب کی تعلیم ممنو ع قر ار دی گئی۔ امر یکہ کی ریا ست” میسا چو سیٹس“ Massachusetts نے پہل کی اور 1828ء کے تعلیمی ایکٹ کے ذریعہ سرکاری مدارس میں مذہبی تعلیم کا داخلہ بند کردیا گیا ۔ دوسرے مغربی ملکوں نے کم وبیش انہی خطو ط پر اپنے یہاں احکا م نافذکیے اور اپنے شہریو ں کو مذہب کی تعلیم حاصل کر نے سے رو ک دیا۔ (مغربی فلسفہٴ تعلیم کا تنقید ی جا ئزہ ص:123)

مغر ب اور مغر ب کے زیرِتسلط دنیا کے مختلف خطوں میں جب لادینی تحریک کو فر و غ حاصل ہوا ؛تو بیسویں صدی میں U.N.O (اقو ا مِ متحدہ) تشکیل دی گئی اور دنیا کے تمام ممالک کو اس کا ممبر بننے کی دعو ت دی گئی؛ بلکہ مجبور کیا گیا اور پھر مغربی منصو بہ سا ز نے ایک خوف نا ک منصو بہ بنا یا۔ مغرب کے اس منصوبہ ساز ذہن گرو ہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جب دیکھا کہ اس کا سیاسی تسلط دنیا سے ختم ہورہا ہے؛ تو پور ی دنیا کو اپنی ذہنی غلا می میں کسنے کے لیے 20/اکتوبر 1945ء کے دن اقو ا م متحدہ کی بنیاد ڈا لی گئی؛ ابتدا ء میں 50ممالک اس کے ممبر تھے، مگر اس کے بعد مجبو ر اً یا مفا د کی خاطر اس سے ملحق ہوتے رہے ؛اس وقت تقر یباً 190/( ایک سو نوے ) ممالک اس کے ممبر ہیں۔(www.ur.org)اقو ا م متحدہ نے 10/ دسمبر1948ء کے دن Universai Declavation of Human Rights یعنی انسانی حقو ق کا علم بر داراعلامیہ جاری کیا؛بس پھر کیا تھا! گویا پور ی دنیا سیاسی، معاشرتی، معاشی ، تجا رتی ، تعلیمی ، انتظامی ، رفا ہی ، مذہبی ؛ہر اعتبار سے سے مغربی ملحدین کے قبضہ میں آ گئی ۔

U.N.O کے زیر نگر ا نی مند ر جہ ذیل ادارو ں کو وجود دیا گیا :
1...سیکور ٹی کونسل: جو مملکتو ں کے معا ملا ت نبھائے گی ؛ مگر ویٹو طاقتوں کے مفا د میں ۔
2... ورلڈ بنک اور آئی، ایم، ایف :جو عا لمی معیشت پر کنٹر و ل کرتے ہیں ۔
3... W.T.O :جو عالمی تجا رت پر قا بو کر تا ہے ۔
4... W.H.O :جو عا لمی صحت پر اجارہ داری قا ئم کیے ہوئے ہے۔
5... F.A.O :جو عا لمی زرا عت پر کنٹر و ل جما ئے ہوئے ہے ۔
6... E.L.O : جو عالمی صنعتوں کو لیبر کے ذریعہ کنٹر ول کر تا ہے ۔
7... یو نی سیف : جو تعلیم کو اپنے نہج پر لا نے کے لیے دبا ؤ ڈا لتا ہے۔
8... رو ٹر ی اور ڈ ینرز کلب ملک کے اعلیٰ تعلیم یا فتہ طبقے پر کنٹر و ل کے لیے ۔

دنیا پر اس وقت مغربی فکر و تہذیب کا غلبہ ہے اور مغرب اپنی تہذیب کی عالم گیریت کے لیے ہر ممکن طریقے سے کو شاں ہے ، مغر ب نے اپنی تہذیب و فکر کے ڈانڈے یو نا ن و رو ما سے جوڑے ہیں ؛جب کہ یو نا نی تہذیب بت پرستی، ما دّیت پر ستی اور عقلیت پر ستی سے متا ثر ہے اور رو می تہذیب دنیا پر ستی ، ظاہر پرستی، فنونِ لطیفہ ، شاعری ، موسیقی ، مذہب سے بے رغبتی اور شہو ا نیت پر ستی سے متأ ثر ہے ؛ اس طر ح مغر بی فکر و تہذیب گو ”جُما ع الا ثم “ یا مجمع الآ ثا م ہے ۔

اس کے علا وہ ملٹی نیشنل کمپنیا ں اور این ، جی ، اوز وغیرہ کا بد تر ین کردار، سب اقو ا م متحدہ کے آ ڑ میں ہو تا ہے ۔

اس کا فا ئدہ اٹھاکر پوری دنیا کو مذہب ،خدا اور آخر ت کے تصورات سے پا ک کر نے کا منظم پلا ن بنا یا اور تعلیمی میدا ن میں ایسی اصلاحات کی جس کی رو سے نئی نسل مذہب اورخدابے ز ا ری کے سا تھ سا تھ اخلاقِ حسنہ سے بھی محرو م ہو جا ئے۔ اور انسا ن کو حیو ا نِ کا مل بنا دیا اور اس کے لیے Morallessاور Valueless سوسائٹی کا منصوبہ بنا یا اور اس کے ماتحت تعلیمی نصاب تشکیل دے کر پور ی دنیا کے تعلیمی ادار وں میں نا فذ کر دیا،جس سے خالص سیکو لر تعلیم کا آ غا ز ہوا، جس کا منشا یہ ہے کہ انسا ن کے اندر سے مذہب کی گر فت ختم کر دی جائے اور اباحیت کا نظریہ یعنی ہر چیز جائز ہے ، مذہبی اصطلاحا ت جا ئز ، نا جا ئز ،حلا ل، حرا م بے معنی ہیں؛ کو عا م کر دیا گیا ۔

اسی خو ف نا ک سا زش کا نتیجہ ہے کہ آ ج دنیا میں تقریباً 16/ فی صد لوگ اوروہ بھی جدید تعلیم یا فتہ اپنے آپ کو بر ملا ملحد کہنے پر فخر محسو س کر تے ہیں۔ اللہ ہمار ی حفاظت فر ما ئے اور جو لو گ صر ف بر ائے نام مذہب سے منسلک ہیں؛وہ ملحدین تو اس سے مستثنیٰ ہے۔ ﴿وان کا ن مکرہم لتزول منہ الجبال﴾․

مغر ب میں رومیوں نے دینِ مبین کا حلیہ بگاڑ ا، جس کے نتیجہ میں غالی اور دنیا دار عیسا ئی راہبو ں نے مذہب کو چیستا ں بنا دیا ؛ رہبا نیت کے نام پرمذہب ِمسیح کو غلا ظتوں اورریا ضتو ں سے تعبیر کر دیا ؛جس سے لو گ مذہب سے ڈرنے لگے۔ اس کے بعد عقل دشمن کلیسا نے پہلے کتب ِمقد سہ میں تحر یف کی اور سائنس دانو ں کو وحشیانہ سزائیں دیں؛ جس کی وجہ سے عقل اور مذہبِ مسیح میں دشمنی ٹھن گئی اور سا ئنسی علو م نے مذہبی تعلیما ت کی تغلیط شروع کر دی ۔

عیسا ئیت چوں کہ انحر اف کا شکار ہو چکی تھی اور اس کی صحیح تعلیما ت بالکل مسخ ہو چکی تھیں؛ بلکہ کلی نہیں تو اکثر ی طور پر وثنیت کی صور ت اختیار کر چکا تھی؛ لہٰذا وہ سائنس کے سا منے نہیں ٹک سکی ؛کیو ں کہ اس کے عقا ئد چیستاں سے زیا دہ پیچیدہ ہو گئے تھے اور آ ج بھی ہیں؛ جو عقلی بیدا ری کی تحر یک کا مقابلہ نہ کر سکی اور اس طر ح عقلیت کے بعد دوسرے مر حلہ میں مغر ب، مذہب بے زاری کی تحر یک سے دو چار ہوگیا ؛بس پھر کیا تھا؟ لا سکی افکا ر کا سیلا ب اٹھتا ہے؛ جو رہے سہے مذہبی اقدار اور اخلا قیا ت کو بھی اپنی رو میں بہا لے جا تا ہے ۔

عقلیت کے زیر اثر مدرسیت کی تحر یک بر پا ہوئی، جس کا مقصد ارسطوئی منطق اور جدید فلسفہ کی بنیا د، آ ر تھو ڈو کس عیسا ئی افکا ر کی حقا نیت کو ثابت کر نا تھا ۔اسی تحر یک کے نتیجہ میں ہیبرس، بو لو گنا، آ کسفو رڈ اور کیمبرج کی یونیورسٹیوں کا آ غا ز ہوا ۔

اس کے بعد ہیومنز م کی تحریک بر پا ہوئی۔ یہ چند بے دین اور مذہب بے زا ر فلا سفہ کی تحر یک تھی؛ جس کا مقصد انسا ن کی عظمت کا ثبو ت اور انسا نی عقل و شعور کو (اللہ کے دیے مقا م سے زیاد ہ اونچے مقام) پر فا ئز کر نا تھا؛ اسی تحریک نے مذہبی مسیحی نظریا ت کی زنجیر وں کو تو ڑ نے میں اہم کر دا ر ادا کیا ۔

رومن کیتھو لک پادریوں کی دولت پرستی، رو من اور کلیسا کے مذہبی جبر کے خلاف ما رٹن لو تھر نے تحریک اصلاحِ دین شروع کی؛ جس کا مقصد الہامی متو ن کی تشریح کا حق ہر شخص کو ہے ،نہ کہ محض کلیسا کو ؛یعنی ہر شخص کو اجتہاد کے مر تبے پر بٹھادیا گیا اور لو تھر نے یہ دعو یٰ کیا کہ دینی معاملات میں پو پ کا مکمل اقتد ا ر غلط ہے اور ہر انسان انجیل سے برا ہِ راست ہدایت حاصل کر سکتا ہے۔ اصل میں اس کے پیچھے بھی عقلیت اور ہیو منز م کے اثر ا ت کا ر فر ما تھے ۔ اٹھا رویں صد ی کے آخر میں انقلا ب ِفرانس میں بظا ہر تو بادشا ہت کا خا تمہ کر کے جمہو ری حکو مت قائم کی گئی؛ مگر اس انقلا ب کے پیچھے جمہو ریت ، آ زا دی اور مسا وا ت کے اصو ل کا ر فر ما تھے ۔ (جاری)

Flag Counter