Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1435ھ

ہ رسالہ

2 - 15
توبہ کا مفہوم ،اقسام،اہمیت اور طریقہ کار

مفتی ابو الخیر عارف محمود
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت عمر،حضرت اُبَیّ بن کعب اور حضرت معاذ رضی الله عنہم فرماتے ہیں : ”التوبة النصوح أن یتوب، ثم لا یعود إلی الذنب، کما لا یعود اللبن إلی الضرع “․ توبہ نصوح یہ ہے کہ وہ توبہ کرے اور پھر اس گناہ کی طرف دوبارہ نہ لوٹے ،جس طرح دودھ تھنوں میں لوٹ کر واپس نہیں جاتا۔ (تفسیر الثعلبي، سورة التحریم:9/350، تفسیر الخازن، سورة التحریم:7/121، تفسیر القرطبي، سورة التحریم:18/197، تفسیر البحر المحیط، سورة التحریم:8/288)

حسن فرماتے ہیں کہ توبہ نصوح یہ ہے کہ بندہ اپنی سابقہ گناہ آلودزندگی پرنادم ہو، دوبارہ اس کی طرف نہ لوٹنے کے عزم کے ساتھ۔کلبی نے کہا کہ توبہ نصوح یہ ہے کہ زبان سے استغفار کرے،دل سے ندامت اختیار کرے اور اپنے بدن کو قابو میں رکھے۔قتادہ نے کہا کہ سچی نصیحت آمیز توبہ کو نصوح کہتے ہیں۔(تفسیر الخازن:7/121)

سعید بن جبیررحمہ الله فرماتے ہیں کہ نصوح مقبول توبہ کو کہتے ہیں اور توبہ اس وقت تک قبول نہیں کی جاتی ہے جب تک اس میں تین چیزیں نہ پائی جائیں:عدم قبولیت کا خوف ہو،قبولیت کی امیدہو،طاعات پر ثابت قدمی ہو۔محمد بن سعیدقرظی کہتے ہیں کہ توبہ نصوح چار چیزوں کے پائے جانے کا نام ہے:زبان سے استغفار کرنا، بدن سے گناہوں کو اکھیڑ پھینکنا،دل سے دوبارہ لوٹنے کے ترک کا اظہار کرنا۔حضرت ابن عباس رضی الله عنہماسے بھی یہی منقول ہے۔ (البحرالمدید:8/127) برے دوستوں کی صحبت سے دوری اختیار کرنا،ذو النون نے کہا: اہل خیر کی صحبت اختیارکرنا۔(تفسیر الخازن:7/122،تفسیر السلّمي:2/337)

سفیان ثوری رحمہ الله نے فرمایا کہ چار چیزیں توبہ نصوح کی علامت ہیں:”القلّة“یعنی گناہوں کو زائل کرنا،”العلّة“ یعنی اللہ کی یاد سے دل بہلانایاتشویش میں مبتلا ہونا یعنی نادم ہونا، ”الذلّة“ یعنی انکساری اور تابع داری اختیار کرنا، ” الغربة “یعنی گناہوں سے دوری وجدائی اختیار کرنا۔فضیل بن عیاض رحمہ الله نے فرمایا کہ( توبہ کے بعد)گناہ اس کی آنکھوں میں کھٹکے، گویا وہ اسے برابر دشمنی کی نگاہ سے دیکھ رہا ہو۔ابوبکر واسطی رحمہ الله نے فرمایا :توبہ نصوح (خالص) توبہ کا نام ہے۔ نہ کہ عقد معاوضہ کا،اس لیے کہ جس نے دنیا میں گناہ کیا اپنے نفس کی سہولت اور مفاد کی خاطر اور پھر توبہ کی اسی نفس کی سہولت کے پیش نظر تو اس کی توبہ اپنے نفس کے لیے ہوگی، نہ کہ اللہ کے لیے۔(تفسیر الثعلبی:9/350)

ابوبکر مصری رحمہ الله نے فرمایا:توبہ نصوح مظالم کے لوٹانے یعنی حقوق والوں کے حقوق ادا کرنے،دعوے داروں سے حقوق معاف کروانے اور طاعات پر مداومت کرنے کو کہتے ہیں۔رابعہ بصریہ نے کہا:ایسی توبہ جس میں گناہ کی طرف واپس لوٹنے کا خیال نہ ہو۔ذوالنون مصری رحمہ الله نے کہا: توبہ نصوح کی تین علامتیں ہیں: قلتِ کلام، قلتِ طعام، قلتِ منام۔شقیق بلخی رحمہ الله نے کہا کہ توبہ نصوح کرنے والا بکثرت اپنے نفس پر ملامت کرے اور ندامت اس سے کبھی جدا نہ ہو ؛تاکہ وہ گناہوں کی آفتوں سے سلامتی کے ساتھ نجات پاسکے۔سری سقطی رحمہ الله نے کہاکہ توبہ نصوح ایمان والوں کو اصلاح نفس کی فہمائش کیے بغیر نہیں ہو سکتی،اس لیے کہ جس کی توبہ درست قرار پائی تو وہ اس بات کو پسند کرے گا کہ سب لوگ اس کی طرح توبہ نصوح کرنے والے ہوں۔(تفسیر الثعلبی:9/350)

جنید بغدادی رحمہ الله نے فرمایا:توبہ نصوح یہ ہے کہ وہ گناہوں کوایسے بھول جائے کہ پھر ان کا تذکرہ بھی نہ کرے؛کیوں کہ جس کی توبہ درست قرار پاتی ہے وہ اللہ سے محبت کرنے والا بن جاتا ہے اور جس نے اللہ سے محبت کی وہ اللہ کے ماسوا کو بھول گیا،سھل تُستری رحمہ الله نے فرمایا:توبہ نصوح اہلِ سنت والجماعت کی توبہ کا نام ہے،اس لیے کہ بدعتی کی کوئی توبہ نہیں،حضور صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ اللہ نے ہر صاحب بدعت کو توبہ کرنے سے محجوب کردیا ہے۔فتح موصلی رحمہ الله کہتے ہیں کہ اس کی تین علامتیں ہیں: نفسانی خواہشات کی مخالفت کرنا،بکثرت رونا، بھوک اور پیاس کی مشقت کو برداشت کرنا۔ یعنی قلتِ طعام و شراب۔ (الکشف والبیان :9/351)

حضرت عمر رضی الله عنہ سے توبہ نصوح کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایاکہ آدمی برے عمل سے توبہ کرے اور پھر کبھی اس کی طرف لوٹ کر نہ جائے۔حضرت حسن رحمہ الله نے فرمایا: توبہ نصوح یہ ہے کہ تو گناہ سے ویسے ہی نفرت کر جیسے تو نے اس سے محبت کی اور جب تجھے یاد آئے تو اس سے توبہ و استغفار کر۔(تفسیرابن کثیر:8/168،189) ابو بکر وراق رحمہ الله نے کہا :توبہ نصوح یہ ہے کہ زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہو جائے، جیسا کہ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں نے توبہ کی تھی۔(الجواہر الحسان في تفسیر القرآن:4/316،تفسیر السراج المنیر:۱/۵۱۹،تفسیر القرطبی:8/287، 81/197،198)ابو عبد اللہ رحمہ الله کہتے ہیں کہ دس چیزوں کا نام توبہ نصوح ہے: جہل سے نکلنا، اپنے فعل پر نادم ہونا، خواہشات سے دوری اختیار کرنا، سوال کیے جانے والے نفس کی پکڑ کا یقین،ناجائز معاملات کی تلافی کرنا،ٹوٹے ہوئے رشتوں کا جوڑنا،جھوٹ کو ساقط کرنا، برے دوست کو چھوڑنا،معصیت سے خلوت اختیار کرنا،غفلت کے طریق سے عدول کرنا۔(حقائق التفسیر للسلّمي:2/337)

علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ الله لکھتے ہیں کہ توبہ نصوح سے مراد صاف دل کی توبہ ہے، وہ یہ ہے کہ دل میں پھر اس گناہ کا خیال نہ رہے، اگر توبہ کے بعد انہی خرافات کا خیال پھر آیا تو سمجھو کہ توبہ میں کچھ کسر رہ گئی ہے اور گناہ کی جڑ دل سے نہیں نکلی۔ رزقنا اللّٰہ منھا حظاً وافراً بفضلہ وعونہ، وھو علیٰ کل شیءٍ قدیر․(تفسیر عثمانی، سورة تحریم : 8)

باعتبار وقتِ و زمانہ کے توبہ کی اقسام
باعتبار وقتِ و زمانہ کے توبہ کی دو قسمیں ہیں :ایک یہ کہ ہر انسان اپنی زندگی میں موت کی ہچکچاہٹ سے پہلے پہلے توبہ کرلے، اس لیے کہ سانسیں اکھڑنے کے بعد کی جانے والی توبہ کاکوئی اعتبار نہیں،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَلَیْْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ حَتَّی إِذَا حَضَرَ أَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّیْ تُبْتُ الآنَ وَلاَ الَّذِیْنَ یَمُوتُونَ وَہُمْ کُفَّارٌ أُوْلَئِکَ أَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَاباً أَلِیْماً﴾․ (النساء :18)

(ترجمہ)اور ایسوں کی توبہ نہیں جو کیے جاتے ہیں برے کام، یہاں تک کہ جب سامنے آجائے ان میں سے کسی کی موت تو کہنے لگا میں توبہ کرتا ہوں اب۔اور نہ ایسوں کی توبہ جو مرتے ہیں حالت کفر میں، ان کے لیے ہم نے تیار کیا ہے عذاب درد ناک۔(ترجمہ از : شیخ الہند)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”انّ اللّٰہ یقبل توبة العبد مالم یغرغر “․بے شک اللہ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتے ہیں جب تک اس کی روح گلے تک نہ پہنچے، یعنی جب تک اس کی سانسیں نہ اکھڑ جائیں ۔(سنن الترمذي، کتاب الدعوات، باب إن اللّٰہ یقبل توبة العبد ما لم یغرغر، رقم:3537،سنن ابن ماجہ،کتاب الزھد، باب ذکرالتوبة، رقم:4253صحیح ابن حبان، باب التوبة: 2/394، رقم:628، مسند أبي یعلیٰ، مسند عبداللّٰہ بن مسعود رضی الله عنہ:9/462،رقم:5609)

توبہ کی دوسری قسم وقت کے اعتبار سے یہ ہے کہ تمام مخلوق کی توبہ اس وقت تک قابلِ قبول ہے جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہونے لگے اور جب سورج مغرب سے طلوع ہو نے لگ جائے تو پھراس وقت کسی کی بھی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، حضو ر صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”من تاب قبل أن تطلع الشمس من مغربھا تاب اللّہ علیہ“․ یعنی جس نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے پہلے توبہ کی، اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرمائیں گے(صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب استحباب الاستغفار والاستکثار منہ، رقم:6861، مسند أحمد، مسند أبي ھریرة رضی الله عنہ:15/66، رقم:9130، 9509، 10581، صحیح ابن حبان، باب التوبة:2/396، رقم :629، إتحاف الخیرة المھرة، کتاب علامات النبوة:7/415، رقم:7215، بغیة الباحث، باب الاستغفار:2/973، رقم:1077)

توفیقِ توبہ کے اعتبار سے لوگوں کی قسمیں
اللہ تعالیٰ کی طرف سے توبہ کی توفیق ملنے اور نہ ملنے کے اعتبار سے لوگوں کی مختلف قسمیں ہیں :
ایک قسم تو ان لو گوں کی ہے جن کو زندگی بھر سچی توبہ کی تو فیق نہیں ملتی، ان کی تمام عمر سنِ شعور سے لے کر موت تک پورا عرصہ گناہوں اور معصیت میں َصرف ہو جا تا ہے، یہاں تک کہ اسی حالت میں ان کو موت آجاتی ہیں،یہ بد بخت لوگوں کی حالت ہے ۔

ان سے قبیح اور برے وہ لوگ ہیں جن کو ابتدا سے لے کر آخر تک تمام عمر نیک اعمال کی توفیق ملتی رہی، پھر آخری وقت میں کسی برے عمل میں مبتلا کر دیے گئے ،یہاں تک کہ وہ اسی برے عمل کو کرتے ہوئے مرگئے، جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ تم میں سے بعض لوگ اہلِ جنت والے اعمال اختیار کرتے ہیں یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے ،پھر اس پر تقدیر غالب آجاتی ہے اور وہ جہنمی لو گوں والا کوئی عمل اختیار کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے ۔ (صحیح البخاری،کتاب الأنبیاء، باب قول الله تعالیٰ:﴿وإذ قال ربک للملائکة إني جاعل في الأرض خلیفة﴾،رقم:3332، صحیح مسلم، کتاب القدر، باب کیفیة خلق الآدمي في بطن أمہ․․․، رقم:6892، سنن أبي داود، باب في القدر، رقم4710، سنن الترمذي، کتاب القدر، باب ما جاء أن الأعمال بالخواتیم، رقم:2137، سنن ابن ماجہ، باب في القدر، رقم:76)

ایک تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنا کل متاع عزیز اور ساری زندگی غفلت و دھوکے میں گزار دیتے ہیں، یہاں تک کہ پھر انہیں کسی عملِ صالح کی توفیق مل جاتی ہے ا ور وہ اس پر انتقال کر جاتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو عمر بھر جہنمی لوگوں والے اعمال کر تے رہے، یہاں تک کہ ان کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر تقدیر غالب آجاتی ہے اور وہ اہلِ جنت جیسا عمل اختیار کر کے جنت میں داخل ہو جاتے ہیں ۔(حوالہ سابق)

یہ بات تو واضح ہے کہ اعما ل کا دار و مدار خاتمہ پر ہے،اعتبار خیر یا شر پر خاتمے کا ہے ،حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا معاملہ فرماتے ہیں تو اسے کسی نیک عمل کی توفیق عنایت فرمادیتے ہیں، پھر اسی پر اس کی روح قبض کر لیتے ہیں ۔(سنن الترمذي، کتاب القدر،باب ما جاء أن الله کتب کتاباً لأہل الجنة وأ ہل النار، رقم2142، صحیح ابن حبان، کتاب البر والإحسان، باب ما جاء في الطاعات وثوابہا، رقم:341 ،342،343 )

ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ اور پل پل اللہ کی اطاعت و فرماں بر داری میں گزار تے ہیں، پھر موت سے پہلے ان کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ اب اللہ سے ملاقات کا وقت آ پہنچا ہے تو وہ اس ملاقات کی تیاری میں لگ جاتے ہیں اور ایسا زادِ راہ و توشہ اختیار کرتے ہیں جو اس ملاقات کے شایانِ شان ہو،یہ لوگوں کی سب سے بہترین اشرف و اعلیٰ قسم ہے، حضرت ابنِ عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی الله علیہ وسلم پر ﴿إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّہِ وَالْفَتْحُ﴾(النصر:1) نازل ہوئی، جس میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دنیا سے پردہ کرنے کے بارے میں اشارہ فرمایا گیا ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی تمام تر صلاحیتیں اور کوششیں آخرت میں کام آنے والے اعمال میں صرف کرنے لگے (جیسا کہ نبوت ملنے کے بعد سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا معمول تھا )۔(الدر المنثور،سورة النصر:15/722،723، تفسیر ابن کثیر:6/562)،حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم حیات کے آخری لمحات میں اٹھتے ، بیٹھتے ، آتے جاتے ہر وقت ”سبحان اللّٰہ وبحمدہ، أستغفر اللّٰہ وأتوب إلیہ“کہا کر تے تھے، میں نے آپ صلى الله عليه وسلم سے اس کثرت کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے ،پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے سور ہ نصر تلاوت فرمائی۔ (تفسیر الثعلبي،النصر:10/321، تفسیر ابن کثیر، النصر:5/564، تفسیر السراج المنیر،النصر:4/442،تفسیر القرطبی، النصر:10/166، اللباب في علوم الکتاب، النصر: 20/542، 543)

آپ صلی الله علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ یہ تھی کہ ہر سال رمضان میں دس دن اعتکاف فرماتے اور حضرت جبرئیل  کو ایک دفعہ قرآن مجید سناتے تھے ، وصال والے سال بیس دن اعتکاف کیا اوردو دفعہ قرآن ِ پاک کا دور فرمایا اور آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اب اللہ سے ملاقات کا وقت قریب ہے ،پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے حجة الوداع ،آخری حج، ادا فرمایا،اس موقع پر ارشاد فرمایا : لوگو! مجھ سے حج کے مسائل سیکھو ،شاید میں اس سال کے بعددوبارہ حج نہ کر سکوں،یا آپ سے نہ مل پاوٴں۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب استحباب رمي جمرة العقبة یوم النحر راکباً، رقم:3137، سنن أبي داود، کتاب المناسک، باب في رمي الجمار، رقم:1970، سنن النسائي، کتاب مناسک الحج، باب الرکوب إلیٰ الجمار واستظلال المحرم، رقم:3064)

اس کے علاوہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے قرآن و سنت کو مضبوطی سے پکڑنے اور ان پر عمل کر نے کا حکم دیا اور مدینہ واپس آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد دنیا سے پردہ فرمالیا ۔(تفسیر القرطی:20/167)

گناہوں سے توبہ کا طریقہ
علمائے کرام نے فرمایا کہ بندہ جن گناہوں میں مبتلا تھا ان سے توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ… دیکھا جائے کہ اس گناہ کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہے یا بندوں کے حقوق سے؟ اگر اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے کوئی حق ہے ،جیسا کہ ترکِ نماز کا مرتکب تھا تو اس گناہ سے توبہ اس وقت تک صحیح نہیں ہو سکتی جب تک قلبی ندامت کے ساتھ فوت شدہ نمازوں کی قضا نہ پڑھ لے،اسی طرح روزہ اور زکوٰة وغیرہ کا معاملہ ہے کہ جب تک سابقہ روزوں اور زکوٰة کی ادائیگی نہیں کرے گا اس وقت تک اس کی توبہ کامل نہیں ہوگی، اگر گناہ کسی کو ناحق قتل کا ہے تو اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کرے، اگر اولیائے مقتول نے اس کا مطالبہ کیا …، ورنہ دیت ادا کرے،اگر کسی پر ایسی جھوٹی تہمت لگائی ہے جس سے ”حد “ لازم آتی ہے تواپنے آپ کو اس کے لیے پیش کرے،اگر قتل اور تہمت میں اسے معاف کردیا گیا تو ا خلاص کے ساتھ ندامت اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کافی ہوجائے گا،اسی طرح چور، ڈاکو ،شرابی اور زانی بھی توبہ کرلیں اور ان گناہوں کو ترک کریں اور اپنی اصلاح کریں تو ان کی توبہ درست ہوجائے گی۔اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو قدرت رکھتا ہو تو فورا صاحب حق کا حق ادا کردے، اگر فوری ادائیگی کی قدرت نہ ہو تو جتنی جلدی ممکن ہو قدرت ہونے پر ادائیگی کا عزم کرلے،اگر کسی مسلمان کو نقصان پہنچانے کا سبب اختیار کیا ہے تو فوری طور سے اس سببِ نقصان کوزائل کردے،پھر اس مسلمان بھائی سے معافی طلب کرے اور اس کے لیے استغفار بھی کرے اور اگر صاحب حق نے معاف کردیا تو یہ اس گناہ سے بری ہوجائے گا،اسی طرح اگر کسی دوسرے کو کسی بھی طرح کا ضرر پہنچایا تھا یا ناحق اسے ستایا تھا او ر اس صاحب حق سے ناد م ہو کر معافی مانگی اورآئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم بھی ہو اور برابر اس سے معافی طلب کرتا رہا، یہاں تک کہ اس مظلوم نے اسے معاف کردیا تو اس کے وہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔ (تفسیر القرطبي:18/199،200،روح المعاني :28/158۔ 159، اللباب فی علوم الکتاب:19/211،212) یہی حال باقی تمام معاصی وگناہوں کا ہے کہ اگر حقوق اللہ سے تعلق ہے تو ذکر کردہ شرائط کے مطابق توبہ کرے اور اگر بندوں کے حقوق کا معاملہ ہو تو مذکورہ طریقہ توبہ کو اپنانے کے ساتھ حقوق کی ادائیگی کرے یا معاف کروائے۔

سلفِ صالحین کا طرزِ عمل
سلفِ صالحین کی رائے یہ ہے کہ جس شخص کی موت کسی نیک عمل، جیسے رمضان کے روزے یا حج یا عمرہ کے بعد واقع ہوجائے تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ جنت میں جا ئے گا ،خود اکابرین سلفِ صالحین عمر بھر نیک اعمال میں صرَف کرنے کے با وجود موت کے وقت توبہ و استغفار کا اہتمام کرتے اور اپنا عمل استغفار اور کلمہ طیبہ ”لاإلہ إلا اللّٰہ “پر ختم کیا کرتے تھے ۔علا ء بن زیاد رحمہ الله کا جب آخری وقت آپہنچا تو رونے لگے ،کسی نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا : اللہ کی قسم! میری یہ خواہش و چاہت ہے کہ توبہ کے ذریعے موت کا استقبال کروں ،ان سے عرض کیا گیا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے! آپ ایسا کرلیں، انہوں نے وضو کے لیے پانی منگوایا ،وضو کیا ،پھر نئے کپڑے منگوائے، انہیں زیب تن کیا، پھر قبلہ کی جانب رخ کرکے اپنے سر کو دو مرتبہ جھکایا ، پھر پہلو کے بل لیٹ گئے اور روح پرواز کر گئی۔ عامر بن عبد اللہ رحمہ الله وقت ِ اجل رونے لگے اور فر مانے لگے ایسے ہی وقت کے لیے عمل کرنے والے عمل کرتے ہیں، اے اللہ! میں آپ سے اپنی کمی اور کوتاہی کی معافی چاہتا ہوں اور اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں ،پھر اس کے بعد مسلسل ”لاإلہ إلا اللّٰہ “کا ورد کرتے رہے، یہاں تک کہ روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی ۔عمرو بن العاص رضی الله نے موت کے وقت فرمایا:اے اللہ! آ پ نے ہمیں طاعت کا حکم دیا، ہم نے اس میں کوتا ہی کی اور آپ نے معاصی سے منع کیا، ہم ان کا ارتکاب کر بیٹھے، ہمارے لیے سوائے آپ کی معافی و مغفرت کے اور کوئی چارہ کار نہیں، پھر اس کے بعد ”لاإلہ إلا اللّٰہ “ کا ورد کر تے رہے، یہاں تک کہ موت نے آلیا ۔

توبہ کی دعوت
برادرانِ عزیز !آج انسان گناہ و معاصی کے بحرِعمیق میں ڈوبا ہوا ہے، کوئی نفس بشر خطا و لغزش سے بچا ہوا نہیں، لیکن مایوس ہونے کی قطعا ً ضرورت نہیں، ہر وہ شخص جس نے گناہ و معصیت کے ذریعے اپنے نفس پر ظلم وزیادتی کی ہے ،اسے اس بات کی خوش خبری ہو کہ اللہ پاک اپنے پاک کلام میں انہیں توبہ ورجوع کی دعوت بھی دے رہے ہیں اور یہ اعلان بھی فرما رہے ہیں کہ وہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والے ہیں ، قرآن میں اللہ تعالی ٰ کا ارشادِگرامی ہے: ﴿قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ وَأَنِیْبُوا إِلَی رَبِّکُمْ وَأَسْلِمُوا لَہُ مِن قَبْلِ أَن یَأْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ﴾(زمر :53،54)(ترجمہ) کہہ دے اے بندو میرے! جنہوں نے کہ زیادتی کی ہے اپنی جان پر، آس مت توڑو اللہ کی مہربانی سے ،بے شک اللہ بخشتا ہے سب گناہ، وہ جو ہے وہی گناہ معاف کر نے والا مہربان اور رجوع ہو جاؤ اپنے رب کی طرف اور اس کی حکم برداری کرو پہلے اس سے کہ آئے تم پر عذاب، پھر کوئی تمہاری مدد کو نہ آئے گا۔(ترجمہ از : شیخ الہند) ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے:﴿وَإِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اہْتَدَی﴾․ (طہ:82) (ترجمہ) اور میری بڑی بخشش ہے اس پر جو توبہ کرے اور یقین لائے اور کرے بھلے کام، پھر راہ پر رہے۔(ترجمہ از : شیخ الہند) حضرت ابنِ عباس رضی الله عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :”مَن آیس عباد اللّٰہ بعد ھذا فقد جحد کتاب اللّٰہ “․(تفسیر ابن کثیر:7/108، روح المعاني: 24/16) جس نے اس کے بعد اللہ کے بندوں کو توبہ سے مایوس کیا تو گویا اس نے کتاب اللہ کا انکار کیا ۔

حماد بن سلمہ رحمہ الله جب سفیا ن ثوری رحمہ الله کی عیادت کے لیے آئے تو ان سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ میرے جیسے کی مغفرت فرمائیں گے ؟تو حماد بن سلمہ رحمہ الله نے فرمایا :اللہ کی قسم! اگر مجھے اللہ اور اپنے والدین میں کسی ایک کے محاسبہ اختیار کرنے کا کہا جائے تو میں اللہ کے محاسبہ کو اختیار کروں گا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ میرے والدین سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں ۔

توبہ کاایک عبرت آمیزواقعہ
قارئین کرام !آپ کی خدمت میں توبہ کرنے اور اللہ کی طرف رجوع کر کے نیکی و صلاح کی زندگی گزارنے والے اللہ کے ایک نیک بندہ کا واقعہ پیش کرتا ہوں ، اس لیے کہ اس میں نہ صرف ہمارے لیے سامانِ عبرت ہے بلکہ ان میں ہمارے لیے توبہ کی دعوت بھی ہے ۔

ابنِ قدامہ رحمہ الله نے ”کتاب التوابین“ میں ایک نوجوان کا قصہ نقل کیا ہے کہ رجاء رحمہ الله کہتے ہیں: ایک دن ہم صالح کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ گفتگو فرما رہے تھے، انہوں نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک نوجوان سے کہا : اے نوجوان!(قرآن میں سے) پڑھو، اس نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تلاوت کی: ﴿وَأَنذِرْہُمْ یَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ کَاظِمِیْنَ مَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَلَا شَفِیْعٍ یُطَاع﴾(غافر :18) (ترجمہ) اور خبر سنا دے ان کو اس نزدیک آنے والے دن کی، جس وقت دل پہنچیں گے گلوں کو تو وہ دبا رہے ہوں گے، کوئی نہیں گناہ گاروں کا دوست اور نہ سفارشی کہ جس کی بات مانی جائے۔(ترجمہ از : شیخ الہند) شیخ صالح رحمہ الله نے آیت کی تفسیر میں فرمایا: جب رب العالمین خود لوگوں سے مطالبہ کرنے والے ہوں تو اس دن ظالموں کے لیے کیسے کوئی دوست سفارش کرنے والا ہوگا؟اگر تم لوگ وہ منظر دیکھ لو کہ جب گناہ گاروں کو زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑ کر ننگے پیر اور برہنہ حال جہنم کی طرف لایا جائے گا،ان کے چہرے سیاہ اور آنکھیں پیلی اور جسم خو ف سے پگھلے جا رہے ہوں گے اور وہ پکار رہے ہوں گے : اے ہماری ہلاکت ، اے ہماری موت! یہ ہمارے ساتھ کیا ہوا؟ ہمیں کہاں لے جا یا جا رہا ہے ؟وہ کیا ہی منظر ہوگا جب ملائکہ انہیں آگ کی لگاموں کے ذریعے ہانکتے لے جا رہے ہوں گے؟ کبھی منہ کے بل انہیں گھسیٹا جا رہا ہوگااور کبھی اس حال میں کہ وہ خون کے آنسو رو رہے ہوں گے ،دل ان کے حیران اور وہ تکلیف سے چلا رہے ہوں گے ،وہ ایک ایسا خوفناک منظر ہوگاکہ کوئی آنکھ اسے دیکھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی، کسی دل میں اتنا حوصلہ نہیں کہ بے قرار نہ ہو اور قدم اس دن کی شدت کی وجہ سے بے قابو ہوں گے؟ پھر روتے ہوئے فرمانے لگے :کیا ہی برا منظر اور کیا ہی برا انجام ہوگا؟ان کے ساتھ سامعین بھی رونے لگے، حاضرین مجلس میں ایک گناہ ومستی میں ڈوبا ہوا جوان بھی بیٹھا ہوا تھا ،اس نے شیخ کی یہ گفتگو سن کر کہا :اے ابو البشر !کیا یہ سارا کچھ جوآپ نے بیان کیا قیامت کے دن ہوگا؟شیخ نے فرمایا ،ہاں! اے میرے بھتیجے! اس سے بھی بڑھ کر حالات ہوں گے۔مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ آگ میں چیخ رہے ہوں گے، یہاں تک کہ چیختے چیختے ان کی آواز بیٹھ جائے گی اور عذاب کی شدت کی وجہ سے صرف ایک بھنبھناہٹ باقی رہ جائے گی ۔

اس غافل جوان نے یہ سن کر ایک چیخ ماری اور کہا ! اے اللہ ! ہائے میری زندگی کے غفلت کے ایام ،ہائے میرے آقا و مولا !میں نے اطاعت میں کوتاہی سے کام لیا ، ہائے افسوس !میں نے اپنی عمر دنیا کی فانی زندگی کے لیے برباد کردی، اس کے بعد اس جوان نے رونا شروع کردیا اور قبلہ رخ ہوکر کہنے لگا:اے اللہ! آج میں ایسی توبہ کے ساتھ آپ کی طرف رجوع کرتا ہوں، جس میں کسی ریا کا شائبہ نہیں ، اے اللہ! میری توبہ قبول فرما اور میرے سابقہ معاصی کو معاف فرما اور میری لغزشوں سے در گزر فرما، مجھ پر اور حاضرین مجلس پر رحم فرما اور اپنا فضل و کرم ہمارے شامل ِحال فرما ،اے ارحم الرٰحمین ،اے اللہ! آپ کے لیے میں اپنی گردن سے گناہوں کے بار اتار پھینکتا ہوں اور اپنے تمام اعضا و جوارح اور سچے دل کے ساتھ رجوع کرتا ہوں ،اے اللہ! اگر آپ میری توبہ قبول نہیں کریں گے تو یہ میری ہلاکت اور بربادی ہے، اس کے بعد وہ جوان بے ہوش ہو کر گر پڑا، اسے وہا ں سے منتقل کیا گیا ،شیخ صالح اپنے ساتھیوں کے ساتھ کچھ دنوں تک اس کی عیادت کرتے رہے ،پھر اس جوان کا انتقال ہوا ،اس جوان کے جنازہ میں خلقِ خدا نے شرکت کی، وہ روتے ہوئے اس کے لیے دعائے مغفرت کر رہے تھے، شیخ صالح گاہے بگاہے اس جوان کا اپنی مجلس میں تذکرہ کرتے اور فرماتے :میرے والدین اس پر قربان ہوں، یہ قرآن کا قتیل ہے ،یہ وعظ اور غم وحزن کاقتیل ہے (یعنی قرآن کی اس آیت اور اس کی تفسیر نے اس نوجوان پر اتنا اثر ڈالا کہ وہ قیامت کے د ہشت ناک احوال کے خوف سے جان سے گزر گیا )۔ راوی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے موت کے بعد اس جوان کو خواب میں دیکھا تو اس سے پوچھا کہ تمہا را کیا بنا ؟ اس نے کہا کہ شیخ صالح کی مجلس کی برکت میرے شامل حال رہی اور میں اللہ کی وسیع رحمت میں داخل ہوا، یعنی میری مغفرت کردی گئی ۔ اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو گناہ کو گناہ سمجھ کر اس سے سچی توبہ کی توفیق دے اور تمام امت مسلمہ کی مغفرت فرمائے۔(آمین)

Flag Counter