Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1435ھ

ہ رسالہ

13 - 15
ایک مشہور بے سند روایت  ایک بَدّو کے آپ صلی الله علیہ وسلم  سے چوبیس سوالات
مفتی طارق امیر خان، متخصص فی علوم الحدیث، جامعہ فاروقیہ کراچی

اسلا می تاریخ کا ہر آنے والا دور، ایک مضبوط بندھن کے ساتھ عہدِ رسالت سے جڑا ہوا ہے، اس مبارک ربط کو محدثین کی اصطلاح میں”اسناد“ کہا جاتا ہے،یہ سند نہ صرف مخبر صادق حضرت محمدصلّی الله علیہ وسلّم کے اقوال ہم تک پہنچاتی ہے، بلکہ ان احادیث کو اسی سند کی کسوٹی پر، پرکھا جاتا ہے، چناں چہ حضرت عبد اللہ بن مبارک نے امرِ دین میں ”اسناد“ کا مقام ان لفظوں میں بیان کیا ہے:

”جو شخص سند کے بغیر اپنے دین کو تلاش کرنا چاہے،اس کی مثال ایسی ہے،جیسے کوئی شخص سیڑھی کے بغیر چھت پر چڑھنے کا خواہش مند ہو“۔(الإسناد من الدین :16، تالیف: الشیخ عبد الفَتَّاح أبو غُدَّة، مکتب المطبوعات الإسلامیة بحلب، الطبعة الأولی 1412ھ․)

یہی وجہ ہے کہ محدثینِ کرام نے ”اسناد“ کی مضبوط باڑ، خیر القرون ہی میں قائم کر لی تھی، تا کہ ذخیرہٴ احادیث کو خس وخاشاک سے بچایا جا سکے، چناں چہ آپ صلّی الله علیہ وسلّم کے انتساب سے صرف ایسی بات کی جاسکتی ہے جو کسی معتبر سند سے ثابت ہو،اسی تناظر میں حضرت عبد للہ بن مبارک کا ایک دوسرا قول سنہرے حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے:

”…حضرت عبداللہ بن مبارک کے تلمیذ عبدان بن عثمان کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ ابن مبارک  کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :میرے نزدیک اسناد دین میں سے ہے اور اگر اسناد نہ ہوتی تو یقیناً ہر شخص جو چاہتا،سو کہتا رہتا ، لیکن جب اس سے پوچھا جائے کہ آپ کو یہ حدیث کس نے بیان کی ہے؟تو وہ خاموش، چپ کھڑا ہو جاتا ہے! عبدان فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن مبارک نے یہ قول زَنادقہ اور ان کی من گھڑت روایتوں پر گفتگو کے دوران فرمایا تھا“۔ (الإسناد من الدین:19، تالیف:الشیخ عبد الفَتَّاح أبو غُدَّة، مکتب المطبوعات الإسلامیة بحلب، الطبعة الأولی 1412ھ․)

بہر حال اَسلاف کے اس منہج کو باقی رکھتے ہوئے، ہر فردِ امت کو اسلامی تعلیمات کے بارے میں حساس رہنے کی ضرورت ہے،اسی مقصود کے پیشِ نظر، ذیل میں ایک ایسی ہی روایت پیش کی جائے گی، جو اگرچہ کسی معتبر سند سے ثابت نہیں ہے،اس کے باوجود یہ روایت زبان زَد عام ہے،حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ ایسی بے اصل حدیثیںآ پ صلّی الله علیہ وسلّم کی طرف منسوب کرنا ہر گز جائز نہیں ۔

روایت کا عنوان
ایک بَدُّو کا آپ صلّی الله علیہ وسلّم سے 24 سوالات کرنا

تحقیق کا اجمالی خاکہ:
 روایت کی تحقیق چار بنیادی اَجزا پر مشتمل ہے:
1.. روایت اور اس کے مصادر
2.. سند کی تحقیق
3.. روایت کا فنی حکم
4.. زیرِ بحث روایت کا ایک غلط انتساب اور اس کا سبب

روایت اور اس کے مصادر
علامہ علاء الدین علی المتقی الہندی (المتوفی 975ھ) کنز العُمّال(کنز العمال: کتاب المواعظ والرقائق والخطب والحکم، قسم الأفعال: 16/53، رقم: 44147، ت:محمود عمر الدمیاطي، دارالکتب العلمیة بیروت، الطبعة الثانیة 1424ھ․) میں لکھتے ہیں:

علامہ جلال الدین سُیوطِی فرماتے ہیں کہ مجھے شیخ شمس الدین ابن القماح کے ایک ”مجموعہ “میں یہ روایت ملی،جس میں ابو العباس مستغفری  سے یہ مروی تھا کہ میں نے ایک دفعہ علم کی تلاش میں ابو حامد مصری کے پاس مصر جانے کاارادہ کیا، وہاں پہنچ کر میں نے ان سے حدیثِ خالد بن ولید کی التماس کی،انھوں نے مجھے ایک سال روزے رکھنے کا حکم فرمایا، پھر میں نے اس بارے میں ان سے دوبارہ گذارش کی، تو انھوں نے اپنے شیخ سے حضرت خالد بن ولیدتک کی سندکے ساتھ مجھے یہ حدیث بیان کی :

حضرت خالد بن ولید فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا کہ میں دنیا وآخرت کے متعلق آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ” جو چاہے پوچھو“، اس پر وہ شخص کہنے لگا:

اے اللہ کے نبی! میں سب سے بڑا عالم بننا چاہتا ہوں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا خوف اختیار کرلو، سب سے بڑے عالم بن جاؤ گے“۔

وہ شخص کہنے لگا: میں لوگوں میں سب سے زیادہ غنی بننا چاہتا ہوں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”قناعت اختیارکرو،لوگوں میں سب سے غنی بن جاوٴ گے“۔

وہ شخص کہنے لگا:میں لوگوں میں سب سے بہتر بننا چاہتا ہوں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں میں سب سے بہتر شخص وہ ہے، جو لوگوں کو نفع پہنچانے والا ہو، چناں چہ تو بھی لوگوں کو نفع پہنچانے والا بن جا“۔

وہ کہنے لگا: میں لوگوں میں سب سے بڑا عادل بننا چاہتا ہوں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، وہی لوگوں کے لیے پسند کر، تو لوگوں میں سب سے بڑا عادل بن جائے گا“۔

وہ کہنے لگا: میں اللہ کی بارگاہ میں، سب سے خاص بندہ بننا چاہتا ہوں ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کا ذکر کثرت سے کر، تو اللہ کے بندوں میں سب سے خصوصی بن جائے گا“۔

وہ کہنے لگا: میں ان لوگوں میں ہونا پسند کرتا ہوں،جو احسان والے(صفتِ احسان کے ساتھ متّصف) ہیں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کی عبادت ایسے کر، گویا تو اس کو دیکھ رہا ہے، پھر اگر تو اسے نہیں بھی دیکھ رہا ہے، وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے“۔

وہ کہنے لگا: میں چاہتا ہوں کہ میرا ایمان کامل ہوجائے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اپنے اخلاق اچھے بنالے، تیرا ایمان کامل ہوجائے گا“۔

وہ کہنے لگا:میں اللہ کے فرمانبر دار بندوں میں ہونا پسند کرتا ہوں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ کے فرائض کو بجا لاؤ، اللہ کے مطیع بن جاؤ گے“۔

وہ کہنے لگا: میں چاہتا ہوں کہ گناہوں سے پاک صاف ہوکر اللہ سے ملوں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” تو غسل جنابت خوب صفائی سے کیا کر، ایسا کرنے پر تو روزِ قیامت اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ تجھ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا“۔

وہ کہنے لگا: میں چاہتا ہوں روزِ قیامت مجھے نور میں اٹھایا جائے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”کسی پر ظلم مت کر، روزِ قیامت تجھے نور میں اٹھایا جائے گا“۔

وہ کہنے لگا:میں چاہتا ہوں کہ میرا رب مجھ پر رحم فرمادے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اپنے آپ پر رحم کھا اور اللہ کی مخلوق پر رحم کر، اللہ تجھ پر رحم کرے گا“۔

وہ کہنے لگا: میں چاہتاہوں کہ میرے گناہ کم ہوجائیں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ سے بخشش مانگو،تمہارے گناہ کم ہوجائیں گے“۔

وہ کہنے لگا: میں چاہتا ہوں کہ لوگوں میں سب سے معزز بن جاؤں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لوگوں کے سامنے اللہ کی شکایت ہرگز مت کر، تو معزز ترین شخص بن جائے گا“۔

وہ کہنے لگا: میں اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم  کا محبوب بننا چاہتا ہوں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا:”جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہو، تو بھی اسے پسند کر اور اللہ اور اس کے رسول جس چیز سے بغض رکھیں، تو بھی اس سے بغض رکھ“۔

وہ کہنے لگا: میں اللہ کی ناراضگی سے مامون رہنا چاہتا ہوں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”کسی پر غصہ مت ہو،تو الله کے غصے اور ناراضگی سے محفوظ رہے گا“۔

وہ کہنے لگا: میں مستجاب الدعوات بننا چاہتا ہوں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا:” حرام سے پرہیز کر، مستجاب الدعوات بن جائے گا“۔

وہ کہنے لگا: میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ گواہوں کے سامنے مجھے رسوا نہ کرے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اپنی شرم گاہ کی حفاظت کر، تاکہ تو گواہو ں کے سامنے رسوا نہ ہو“۔

وہ کہنے لگا: میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے عیبوں پر پردہ ڈال دے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اپنے بھائیوں کے عیبوں پر پردہ ڈال، اللہ تیرے عیبوں پر پردہ ڈال دے گا“۔

وہ کہنے لگا: کون سی چیز میرے گناہوں کو مٹانے والی ہے؟
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”آنسو، عاجزی اور بیماریاں“۔

وہ کہنے لگا: اللہ کے نزدیک کون سی نیکی سب سے افضل ہے؟
آپ صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا:”اچھے اخلاق، تواضع، مصیبت پر صبر اور اللہ کے فیصلے پر رضامندی“۔

وہ کہنے لگا: اللہ کے نزدیک کون سی برائی سب سے بڑی ہے؟
آپ صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا:”بد اخلاقی اور وہ بخل جس کی اطاعت کی گئی ہو“۔

وہ کہنے لگا، رحمن کے غصے کو ٹھنڈا کرنے والی چیز کیا ہے؟
آپ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھپ کر صدقہ کرنا اور صلہ رحمی“۔

وہ کہنے لگا: دوزخ کی آگ کو بجھانے والی چیز کیا ہے؟
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”روزہ“۔

علامہ جلال الدین سُیوطِی (المتوفی 911ھ) نے جامع الأحادیث (جامع الأحادیث ”الجامع الصغیر وزوائدہ“ والجامع الکبیر: المسانید والمراسیل،7/405،15922،تحقیق:عباس أحمد صقر و احمد عبد الجواد، دار الفکربیروت، الطبعة 1414ھ․) میں یہ روایت نقل کی ہے، پھر یہی حدیث شیخ علاء الدین علی المتقی الہندی  (المتوفی 975ھ) نے کنز العُمّال میں امام سُیوطِی  کے حوالے سے نقل کی ہے۔

سند پر کلام
امام سُیوطِی  سے منقول زیرِ بحث روایت میں کل تین راویوں کا ذکر ہے:
1.. قاضی شمس الدین ابن القماح ۔
2.. ابو العباس جعفر بن محمدبن المعتزبن محمد بن المستغفرالنسفی المستغفری ۔
3.. ابوحامد المصری ۔

پہلے ان تینوں راویوں کے مختصر حالات لکھے جائیں گے،تاکہ آئندہ روایت کی اسنادی حیثیت سمجھنا آسان رہے:
1... قاضی شمس الدین ابن القَمَّا ح :
قاضی شمس الدین ابن القماح ،تاج الدین سُبْکِی  کے شیخ ہیں، موصوف کے بارے میں علامہ تاج الدین السُبْکِی  ”طبقات الشافعیة الکبری“ (طبقات الشافعیة الکبری: الطبقةالسابعة7/56، ت: مصطفی عبد القادر أحمد عطا، دار الکتب العلمیة بیروت، الطبعة الأولی 1420ھ․) میں لکھتے ہیں:

” موصوف کئی مفید مجموعوں کے حامل تھے،آپ کی ولادت 656ھ میں ہوئی ہے…آپ ذکی الفطرت،قوی حافظے والے،اکثر فقہی مضامین کے حافظ،قرآن کے اچھے حافظ اور کثرت سے تلاوت کرنے والے تھے،آپ نیابةً قاہرہ میں قاضی تھے،آپ کا انتقال741ھ قاہرہ میں ہوا“۔

ایک اہم نکتہ:
قاضی شمس الدین ابو المعالی ابن القماح کے اس مختصر تعارف میں قابل غور امر ہے کہ موصوف کے پاس ایسے مفید مجموعے موجود تھے، جن سے لوگ عام طور پر واقف تھے،زیرِ بحث روایت میں بھی علامہ سُیوطِی  قاضی شمس الدین ابن القماح کے اسی مجموعے سے روایت نقل کر رہے ہیں،اگرچہ علامہ سُیوطِی  کی قاضی شمس الدین ابن القماح سماعت نہیں ہے،علامہ سُیوطِی نے ایک اور مقام پر بھی اس مجموعے کا ذکر کیا ہے،چناں چہ آپ ”الشماریخ في علم التاریخ“(الشماریخ في علم التاریخ: ذکر مبدأ التاریخ الہجري، 1/12، ت: عبد الرحمن حسن محمود،مکتبة الآداب القاہرة․) میں لکھتے ہیں:

”…میں(علامہ سُیوطِی )کہتا ہوں کہ میں ایک ایسی دلیل سے واقف ہوں جو پہلے قول کو ترجیح دیتی ہے،چناں چہ میں نے ابن القماح کے مجموعے میں ان کی یہ تحریر دیکھی ہے…“۔

حافظ ابنِ حجر  نے”الدُرَرُ الکَامِنَة“(الدُرَرُ الکامنة في أعیان المائة الثامنة: حرف المیم،2/185،3448، ت:الشیخ عبد الوارث محمد عليّ، دار الکتب العلمیةبیروت،الطبعة الأولی 1418․) میں موصوف کے حالات مزید تفصیل سے لکھے ہیں،ان میں اس ”مجموعہ“کا ذکر بھی ہے،ملاحظہ ہو:

”شمس الدین ابن القماح کے پاس ایسے کئی مجموئے تھے جو بہت سے فوائد پر مشتمل تھے“۔ (جاری)

Flag Counter