Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1435ھ

ہ رسالہ

10 - 15
رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم کے تابندہ ماہ و سال

متعلم محمد ناصر بن محمدانور
	
الحمدلله وحدہ، والصلاة والسلام علی من لانبی بعدہ، وعلی آلہ وصحبہ، ومن نحانحوہ، وبارک وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا، وبعد!

حضور صلی الله علیہ وسلم کی سیرت ایک اتاہ سمندر ہے، اس سمندر میں بڑے بڑے لوگوں نے غوطے لگائے ،لیکن کوئی شخص وہاں سے ایسا موتی نکالنے میں کام یاب نہ ہو سکا جس سے اس سمندر کی لمعانیت کا احاطہ ہو سکے، بلکہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی شخصیت اتنی بلند، پاکیزہ، ارفع، اعلی، بے مثال، نادرہٴ روز گار، نابغہٴ اثر، عبقری صفت ہے کہ کائنات میں کوئی زبان… کوئی لغت ایسی نہیں کہ جو حضور صلی الله علیہ وسلم کے حُسن کا احاطہ کرسکے … دنیا کے تمام الفاظ … خواہ اردو کے ہوں … خواہ عربی کے ہوں ، وہ رسول صلی الله علیہ وسلم کے حُسن کے سامنے دست بستہ… عاجزی کے ساتھ… درماندگی کے ساتھ… فروتنی کے ساتھ… بے مائیگی کے ساتھ… ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں … اور کیا کہتے ہیں ؟ … یہ کہتے ہیں … کہ #
            بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
عربی کا ایک شاعر، حضور صلی الله علیہ وسلم کی شان اقدس میں چالیس ہزار! اشعار لکھنے کے بعد آخرمیں کچھ اس طرح سے لکھتا ہے ، جن کا ترجمہ اردو زبان میں شاعر حفیظ تائب کچھ اس طرح سے کرتے ہیں #
        تھکی ہے فکر رساں، مدح باقی ہے
        اور قلم ہے آبلہ پا، مدح باقی ہے
        تمام عمر لکھا، مدح باقی ہے
        اور ورق تمام ہوا، مدح باقی ہے
                                ( صدائے فاروقی، ص:213)

مولانا عبدالشکور دین پوری  نے بھی کیا ہی خوب فرمایا… ملاحظہ ہو … :
” میرا او رمیرے علماء کا عقیدہ ہے کہ خدا ایک ترازو بنائے ، ایک پلڑے میں میرے دلبر کو بٹھائے، ایک پلڑے میں سجاد،عُباد، زُھاد، اقطاب ، اخیار، ابدال، علماء، صلحاء، اتقیاء، اصفیاء، اولیاء ، جن وملک ، حوروفلک، چودہ طبق، عرش وکرسی، لوح وقلم، جنت ، کعبہ رکھ دے ، ایک طرف محمد صلی الله علیہ وسلم کو بٹھا دے ، ترازو کو اٹھا دے ، دین پورکے علماء کا عقیدہ ہے کہ ساری کائنات کی شان کم ہے اور محمد صلی الله علیہ وسلم کی شان بلند ہے۔“ ( گلہائے رنگا رنگ، ص:197)

حضور سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی شان اقدس وعظمت اس قدر بلند ہے کہ کوئی شخص اس کا حق ادا کرنے کا دعوی نہیں کر سکتا …

صفت جامعیت
سید سلیمان ندوی  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی صفت جامعیت کو کچھ اس انداز سے بیان فرماتے ہیں کہ :
ایک ایسے شخص کی زندگی، جوہر طائفہ انسانی او رہر حالتِ انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا مجموعہ ہو ، صرف محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سیرت ہے ، اگر دولت مند ہو تو مکہ کے تاجر اوربحرین کے خزینہ دار کی تقلید کرو ۔ اگر غریب ہو تو شعب ابو طالب کے قیدی او رمدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو ، اگر بادشاہ ہو تو سلطانِ عرب کا حال پڑھو ، اگر رعایا ہو تو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھو ، اگر فاتح ہو تو بدر وحنین کے سپہ سالار پر نگاہ دوڑاؤ، اگر تم نے شکت کھائی ہے تو معرکہٴ احد سے عبرت حاصل کرو ، اگر تم استاد اور معلم ہو تو صفہ کی درس گاہ کے معلم قدس کو دیکھو ، اگر شاگرد ہو تو روح الأمین کے سامنے بیٹھنے والے پر نظر جماؤ، اگر واعظ اور ناصح ہو تو مسجد مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو، اگر تنہائی وبے کسی کے عالم میں حق کی منادی کا فرض انجام دینا چاہتے ہو تو مکہ کے بے یار ومددگار نبی کا اسوہٴ حسنہ تمہارے سامنے ہے، اگر تم حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمنوں کو زیر او رمخالفوں کو کمزور بنا چکے ہو تو فاتح مکہ کا نظارہ کرو ، اگر اپنے کاروبار اور دنیاوی جدوجہد کا نظم ونسق درست کرنا چاہتے ہو تو بنی نضیر، خیبر اور فدک کی زمینوں کے مالک کے کاروبار اور نظم ونسق کو دیکھو ، اگر یتیم ہو تو عبدالله وآمنہ رضی الله عنہما کے جگر گوشہ کو نہ بھولو ، اگر بچے ہو تو حلیمہ سعدیہ رضی الله عنہا کے لاڈلے بچے کو دیکھو ! اگر جوان ہو تو مکہ کے چرواہے کی سیرت پڑھو، اگر سفری کاروبار میں ہو تو بصریٰ کے کارواں سالار کی مثالیں ڈھونڈو، اگر عدالت کے قاضی اور پنچایتوں کے ثالث ہو تو کعبہ میں نور آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کو دیکھو، جو حجر اسود کو کعبہ کے گوشہ میں کھڑا کر رہا ہے ، مدینہ میں کچی مسجد کے صحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھو، جس کی نظر انصاف میں شاہ وگدا اور امیر وغریب برابر تھے۔

اگر تم بیویوں کے شوہر ہو تو خدیجہ وعائشہ رضی الله عنہما کے مقدس شوہر کی حیات پاک کا مطالعہ کرو ، اگر اولاد والے ہو تو فاطمہ کے باپ اور حسن وحسین رضی الله عنہما کے نانا کا حال پوچھو، غرض تم جو کوئی بھی ہو او رکسی حال میں بھی ہو ، تمہاری زندگی کے لیے نمونہ ، تمہاری سیرت کی درستی اور اصلاح کے لیے سامان ، تمہارے ظلمت خانہ کے لیے ہدایت کا چراغ اور راہ نمائی کا نو رمحمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جامعیت کبریٰ کے خزانہ میں بر وقت اور ہمہ دم مل سکتا ہے ، اس لیے طبقہٴ انسانی کے ہر طالب اور نورایمانی کے ہر متلاشی کے لیے صرف محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سیرت ہدایت کا نمونہ اور نجات کا ذریعہ ہے، جس کی نگاہ کے سامنے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سیرت ہے اس کے سامنے نوح وابراہیم ، ایوب ویونس، موسی وعیسی علیہم الصلاة والسلام سب کی سیرتیں موجود ہیں، گویا تمام دوسرے انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی سیرتیں صرف ایک ہی جنس کی اشیاء کی دوکانیں او رمحمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سیرت، اخلاق واعمال کی دنیا کا سب سے بڑا بازار ( مارکیٹ) ہے، جہاں ہر جنس کے خریدار اور ہر شے کے طلبہ گار کے لیے بہترین سامان موجود ہے ۔“ (خطبات مدراس سید سلیماندوی)

اسما وصفات
یہ حقیقت بھی قابل فراموش نہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اسما وصفات کا آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق واعمال کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، مثلاً:

محمد صلی الله علیہ وسلم اس ہستی کو کہتے ہیں جس کے تذکرے ہمیشہ خوبی اور نیک گوئی کے ساتھ ہوتے ہوں۔ یہ انبیائے سابقین کی بشارات اور مستقبل میں تذکرہ ہائے حیات کی جانب اشارہ ہے اور احمدکااس ذات پر اطلاق ہوتا ہے جو سب سے زیادہ حمد الہٰی کے لیے نغمہٴ سنج ہو۔ یہ ذات اقدس صلی الله علیہ وسلم کی عبدیت کاملہ او رانسان کامل ہونے کو ظاہر کرتا ہے ۔ بلاشبہ آپ صلی الله علیہ وسلم خدا پرست انسانوں کے لیے مبشر وبشیر اور فتنہ جو مفسدوں، کافروں او رمشرکوں کے لیے منذِر ونذیر ہیں روز قیامت صادق وکاذب دونوں پر شاہد وشہید ہیں۔

چشم حق بین اور گوش حق نیوش کے لیے مذکِّر ہیں، راہ حق سے بھٹکے ہوؤں کے لیے ہادی اور خدا سے بھاگے ہؤوں کے لیے داعی ہیں ان کا وجود رحمت ہے کائنات عالم کے لیے او ران کی ہستی نظام کائنات کے لیے نعمت ہے ، جہل وشرک کے لیے نور ہیں اور پیغام الہٰی کے لیے نبی ورسول، مصائب وآلام میں عزیز ہیں اور نوع انسانی کے ہر گوشہ حیات کے لیے رؤف ورحیم، ان کی صدا ، صدائے حق ہے او ران کی ذات الصادق الامین، قرآن خدا کا آخری پیغام ہے ، اس لیے وہ خاتم النبیین ہیں ۔ ان کی بعثت عالم گیر ہے اس لیے طہٰ ویسین ہیں اور آسمانِ نبوت کے سراج منیر ہیں او رکائناتِ رسالت کے بشیر ونذیر عالم ادیان وملل کی سلطانی کے باوجود گدائے کملی پوش ہیں ۔ اس لیے مزمل ہیں اور مدثر، پھر بایں ہمہ حسن کمال ﴿إنما أنا بشر﴾ اور ”لما قام عبدالله“ کے مصداق ہیں۔ اللھم صل وسلم وبارک علیہ․“

خدا پر تو کل اس کا شعار ہے، اس لیے متوکل اس کا وصف عالی وقار ہے اور وہ خدائے برحق کا برگزیدہ ومختار ہے، بارگاہ الہٰی میں ابرار ومقربین سے بھی زیادہ مصطفی، مجتبیٰ، نیکوکار وصالحین کے لیے الشفیع المشفع اور ہر ایک شعبہ ہائے حیات میں الصادق المصدوق ہے۔ صلی الله علیہ وسلم۔ ( قصص القرآن، ص:437)

﴿وَإِذْ أَخَذَ اللّہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْْنَ لَمَا آتَیْْتُکُم مِّن کِتَابٍ وَحِکْمَةٍ ثُمَّ جَاء کُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہِ وَلَتَنصُرُنَّہُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَی ذَلِکُمْ إِصْرِیْ قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْہَدُواْ وَأَنَاْ مَعَکُم مِّنَ الشَّاہِدِیْن﴾․ (سورة آل عمران، آیت:81)

حضرت عبدالله بن عباس او رحضرت علی رضی الله عنہم اجمعین فرماتے ہیں کہ اس آیت میثاق میں اس عہد ومیثاق کا تذکرہ ہے جو ازل میں تمام انبیاء ورسل علیہم الصلاة والسلام سے خاتم الانبیاء محمد صلی الله علیہ وسلم کے متعلق لیا گیا ، خطاب اگرچہ براہ راست انبیاء علیہم الصلاة والسلام سے ہے ، مگر مقصود دو مراد میں ان کی امتیں بھی شامل ہیں، کیوں کہ عمومی طور پر ان ہی کے ذریعہ وفائے عہد کا مظاہرہ ہونے والا تھا۔

پس منشائے تقدیر الہٰی یہ ہوا کہ ایسے پیغام اور پیغمبر کی نصرت وحمایت کے لیے ازل ہی میں انبیاء ورسل علیہم السلام سے عہد ومیثاق لیا جائے او ران کو مطلع کیا جائے کہ جب وہ پیغام کامل اور ”آخری صدائے حق “ بلند ہو جس کا تعلق رہتی دنیا تک تمام کائنات ارضی کے ساتھ یکساں طور پر وابستہ ہے تو وہ اور ان کی امتیں اس کو قبول کریں اور اس کی مدد فرض سمجھیں، کیوں کہ کائنات روحانی کا یہی مرکزِ وحدت اور نقطہٴ مثل اعلیٰ ہے ۔ ( قصص القرآن:442-438)

خلاصہ یہ کہ اس میں نبی آخر الزماں کی تشریف آوری کی بشارت دی گئی ہے اور سابقہ انبیاء علیہم الصلاة والسلام سے حضور خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کے متعلق عہد لیا گیا۔

تورات او ربشارت
سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی حضور خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کی تشریف آوری کی بشارتیں دی گئی تھیں اور آج بھی یہ بشارات ان تحریف شدہ نسخوں میں موجود ہیں۔ اگرچہ دو ہزار سال سے یہود ونصاریٰ ان بشارات کو ان کتابوں سے نکال نکال کر تھک گئے لیکن پھر بھی نہ نکال سکے ۔

چناں چہ تورات میں ہے:
اور یہ وہ برکت ہے مردِ موسی جو خدانے اپنے مرنے سے آگے بنی اسرائیل کو بخشی اور اس نے کہا کہ خدا وند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا ،فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا، دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لیے تھی ۔“ ( عہد نامہ قدیم ( تورات )باب استثناء :43/2)

پیش گوئی کا مطلب واضح ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ خدائے برتر کی صداقت وہدایت کا پیغام نورِ ہدایت بن کر سینا سے حضرت موسی علیہ السلام کی شکل میں نمودار ہوا اور سراة ( شعیر) پر حضرت مسیح علیہ السلام کی صورت میں طلوع افروز ہوا اور فاران ( مکہ) پر محمد صلی الله علیہ وسلم کا رخ انور بن کر جلوہ گر ہوا۔

یہ الفاظ بھی خصوصیت کے ساتھ قابلِ توجہ ہیں:
”وہ دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں آتشی شریعت ان کے لیے تھی۔“
"He shown from mountain Faran and he came with ten thousand are sereats." (Holy Bible America, Old Testament 2/33)
جب ہم تاریخ کے اس واقعہ کا مطالعہ کرتے ہیں کہ رمضان 8ھ مطابق جنوری630ھ میں فتح مکہ کی غرض سے جب محمد صلی الله علیہ وسلم روانہ ہوئے تو دس ہزار صحابہ رضی الله عنہم اجمعین جلو میں تھے اور آتشی شریعت یعنی ”جہاد بالسیف“ کا حکم الہٰی ان کے ہاتھ میں تھی ۔(قصص القرآن، ص:448)

انجیل او ربشارت
انجیل یوحنا میں ایک بشارت اس طرح مسطور ہے:
” اور یوحنا کی گواہی یہ ہے کہ جب یہود نے یروشلم سے ”کاہن“ اور ”لیوی“ یہ پوچھنے کے لیے اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے ؟ تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا کہ میں تو مسیح علیہ السلام نہیں ہوں، انہوں نے اس سے پوچھا کہ پھر کون ہے ؟ کیا تو ایلیاہ ہے ؟ اس نے کہا نہیں ہوں ، کیا تو وہ نبی ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں ،پس انہوں نے اس سے کہا پھر تو کون ہے ؟ تاکہ ہم اپنے بھیجنے والوں کو جواب دیں کہ تو اپنے حق میں کیا کہتا ہے۔“ ( عہد نامہ جدید، انجیل یوحنا، باب نمبر16، آیت:22-19)

اس پیش گوئی میں یہود کے مقدسین کی جماعت نے حضرت یحییٰ (یوحنا علیہ السلام) سے تین پیغمبروں کے متعلق دریافت کیا کہ وہ ان میں سے کون ہیں؟ مگر انہو ں نے انکار کیا کہ وہ ان تینوں میں سے کوئی نہیں ہیں تو یہ سوالات ظاہر کرتے ہیں کہ یہود تین یا دو پیغمبروں کے منتظر تھے، حضرت مسیح علیہ السلام، حضرت ایلیاہ علیہ السلام کے او رایک ایسے پیغمبر کے، جس کا ذکر ان کے درمیان اس درجہ مشہور تھا کہ انہوں نے سوالات کے وقت دو ناموں کی طرح نام لینا ضروری نہ سمجھا اور صرف ” وہ نبی “ کہنا ہی کافی خیال کیا ۔“ (قصص القرآن، ص:448)

اس حقیقت کو قرآن نے اس طرح بیان کیا:
﴿الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمْ وَإِنَّ فَرِیْقاً مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُون﴾․(قصص القرآن، ص:453)

تورات او رانجیل میں بیسیوں جگہ حضور پرُ نور صلى الله عليه وسلم کی آمد کی خوش خبریاں دی گئی ہیں اس جگہ اختصار کی خاطر صرف ایک ایک حوالے پر اکتفا کیا گیا ، مزید چند حوالہ جات درج کیے جاتے ہیں، تفصیل کے لیے مراجعت کیجیے:
عہد نامہ قدیم، کتاب استثنا، باب نمبر18 ، آیت:21-15۔
عہد نامہ قدیم، باب نمبر31، آیت نمبر20-18۔
عہد نامہ قدیم، استثناء33/2۔
عہد نامہ جدید، متی کی انجیل
پیدائش باب نمبر17 آیت نمبر20۔
یوحنا کی انجیل، باب نمبر7، آیت:41-40۔
پیدائش، باب نمبر21، آیت نمبر21-20۔
گلیلیوں کے نام باب نمبر4، آیت نمبر34۔
استثنا باب نمبر32، آیت نمبر 21۔
یوحنا کی انجیل، باب نمبر9، آیت نمبر7۔
                        (دروس حضرت مولانا محمد انور اوکاڑوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ)

یہود کی دعا
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ایک دفعہ قبیلہ غطفان اور یہود کے درمیان جنگ ہوئی تو خیبر کے یہود ان کے مقابلے میں فتح ونصرت کے لیے یہ دعا مانگتے تھے:”اللھم إنا نسألک بحق محمد النبی الامی الذی وعدتنا أن تخرجہ فی آخر الزمان ان نصرتنا علیھم․“ (قصص القرآن بحوالہ البدایہ والنہایة، ص:450)

سدپیمبری
الله تعالیٰ نے ختم نبوت کا تاج سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کو عطا کیااو رآ پ صلی الله علیہ وسلم کو خاتم النبیین بناکر بھیجا، آپ صلی الله علیہ وسلم کی آمد سے پہلے وحی ورسل کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور قرآن کریم میں جگہ جگہ اس کا بیان ہے، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی نبی ورسول کا ذکر نہیں ۔

﴿والَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ وَبِالآخِرَةِ ہُمْ یُوقِنُون﴾․ (سورة البقرة، آیت:4)

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلَی رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِیَ أَنزَلَ مِن قَبْل﴾․(سورة النساء، آیت:136)

ان آیات میں الله تعالیٰ نے ایمان ویقین کا معیار لوگوں کے لیے اس بات کو بنایا ہے کہ وہ ایمان لائیں، اس کتاب پر جو آپ صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوئی او ران کتابوں پر جو آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے انبیاء اکرام علیہم السلام پر نازل ہوئیں۔ لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ ”من بعدک“ کہ تمہارے بعد بھی کتاب یا رسول آئے گا، ایسا نہیں کہا ، تو یہ دلیل ہے اس بات کی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ورسول نہیں آئے گا کہ جس کو کتاب دی جائے یا جس کی شریعتپر ایمان لانے کو کہا جائے…

الله رب العزت نے انبیاء ورسل کا سلسلہ جاری فرمایا او رمختلف اعلانات نبی ورسول کے دور میں ہوتے گئے ، چناں چہ ارشاد فرمایا:﴿یَا بَنِیْ آدَمَ إِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِّنکُمْ یَقُصُّونَ عَلَیْْکُمْ آیَاتِیْ فَمَنِ اتَّقَی وَأَصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ﴾․(سورة الاعراف، آیت:35)

اس آیت کریمہ میں ”رسل“ کا لفظ ذکر فرمایا کہ ”کئی رسول آئیں گے “ پھر حضرت نوح علیہ السلام او رحضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں بھی یہی اعلان ہوتا ہے کہ ”تمہارے بعد کئی رسول آئیں گے۔“ اور جب حضرت موسی علیہ السلام کا زمانہ آیا تو اعلان میں کچھ تبدیلی ہوئی اور فرمایا ” ان کے بعد کئی رسولوں سے ہم نے ان کی مدد فرمائی ۔“ لیکن جب حضرت عیسی علیہ السلام کا زمانہ آیا تو اُسلوب ہی بدل گیا ، طرز ہی بدل گیا۔ اور خوش خبری سنائی گئی کہ میرے بعد کئی رسول نہیں آئیں گے بلکہ صرف ایک ہی نبی آئے گا جن کا نام نامی واسم گرامی ”احمد“ صلی الله علیہ وسلم ہو گا۔

﴿یأتي من بعدی اسمہ أحمد﴾
اور جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تو قرآن نے ایک نیا اُسلوب اختیار کیا۔

﴿ مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْماً﴾․(سورة الاحزاب، آیت:40)

اور صراحت کے ساتھ واضح طور پر یہ اعلان کر دیا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم ” خاتم النبیین“ ہیں ، آپ صلی الله علیہ وسلم پر نبوت کی انتہا کر دی گئی: ﴿الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً﴾․(سورة المائدة، آیت:3)

دین مکمل ہو چکا ہے، اب نبوت کی کوئی ضرورت باقی نہ رہی، اب کوئی نیا نبی نہیں آئے گا اور جو نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ کافر ،مرتد ، زندیق، کذاب، دجالی، لعین اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ (قادیانی شبہات کے جوابات، ج:1)

حضور صلی الله علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا:”عن ثوبان رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: إنہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی، وأنا خاتم النبیین لانبي بعدی․“ (رواہ مسلم عن ابی ھریرة رضی الله عنہ 367/2 ترمذی ، ج2،ص:45، مسند احمد، ج5، ص:278، درمنشور، ج5، ص204 زیر آیت ماکان محمد أبا أحد…الخ) (شان خاتم النبیین، ص:100)

ختم نبوت پر قرآن پاک کی سو آیات اور دو سو دس احادیث شاہد ہیں، جن کو حضرت مفتی محمد شفیع صاحب  نے اپنی کتاب ” ختم نبوت کامل“ میں ذکر کیا ہے ۔ (شان خاتم النبیین، ص:12)

امام اعظم ابوحنیفہ کا فتویٰ
امام اعظم ابوحنیفہ  جیسے محتاط امام کا فتوی ہے :
”حضور صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی مدعی نبوت سے جو معجزہ یا دلیل طلب کرے وہ کافر ہو جائے گا ، کیوں کہ دلیل طلب کرنا شک کی علامت ہے، دلیل وہاں ہوتی ہے جہاں کچھ گنجائش ہو، جس طرح کسی خدائی کا دعویٰ کرنے والے سے دلیل طلب کرنا کفر ہے، اسی طرح حضور خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی بھی مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنا بھی کفر ہے ۔“ ( خاتم النبیین، ص:24)

اس فتوی سے بھی عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
 

 

 

 


عدنان تک سلسلہٴ نسب تمام نسابین کے نزدیک مسلم ہے، کسی کا اس میں اختلاف نہیں اور عدنان کا اسماعیل کی اولاد میں سے ہونا بھی سب کے نزدیک مسّلم، حافظ ابن حجر نے جامع صحیح، ج7 ص:125 میں لکھا ہے کہ امام بخاری نے اپنی تاریخ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام تک نسب بیان کیا ہے۔ ( سیرت مصطفی، ص:34)

پیدائش سے بعثت تک
ولادت باسعادت:
حضور سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت اصح قول کے مطابق 9 ربیع الاول عام الفیل بمطابق20 اپریل571ء یکم جیٹھ628 بکرمی بروز پیر ، صبح صادق کو واقعہ فیل کے پچاس یا پچپن دن بعد جناب ابو طالب کے مکان میں پیدا ہوئے جب کہ مصنف ابن شیبہ میں ابن عباسی رضی الله عنہ سے 12 کا قول منقول ہے، لیکن اس میں سنداً انقطاع اور کلام ہے ، بعض حضرات نے 8 ربیع الاول قرار دیا ہے، چوں کہ آٹھ کا دن گزرا تھا، سیرت ابن ہشام اور اسی طرح الکامل میں ابن اثیر نے ابن اسحق  کے حوالے سے 12 ربیع الاول کا قول ذکر کیا ہے، البتہ امام محمد زاہد الکوثری  اور مصر کے محمود پاشا فلکی نے9 ربیع الاول کا دن قرار دیا ہے اور یہی قول راحج قرار دیا ہے۔(الکامل فی التاریخ، ج1، ص:270)

محدث خطیب بغدادی  کی ایک ضعیف روایت میں ہے کہ:
آں حضرت صلى الله عليه وسلم کی پیدائش کے وقت ندا آئی کہ محمدصلى الله عليه وسلم کو ملکوں ملکوں پھراؤ اور سمندر کی تہوں میں لے جاؤ کہ تمام دنیا ان کے نام کو پہچان لے ، جن وانس، چرند وپرند، بلکہ ہر جان دار کے سامنے ان کو لے جاؤ، ان کو آدم کا خلق ، شیث کی معرفت ،نوح کی شجاعت ، ابراہیم کی دوستی، اسماعیل کی زبان، اسحاق کی رضا، صالح کی فصاحت، لوط کی حکمت، موسی کی سختی، ایوب کا صبر ، یونس کی اطاعت ، یوشع کا جہاد، داؤد کی آواز، دانیال کی محبت ، الیاس کا وقار، یحییٰ کی پاک دامنی اور عیسی کا زہد عطا کرواور تمام پیغمبروں کے اخلاق میں ان کو غوطہ دو۔“

جن علما نے اس روایت کو اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے ، ان کا منشا درحقیقت یہی ہے کہ پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کی صفت جامعیت کو نمایاں کریں ، کہ جو کچھ اور انبیاء علیہم الصلاة والسلام کو متفرق طور پر عطا ہوا تھا وہ سب مجموعی طور سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو عطا ہوا۔“ (گلہائے رنگا رنگ، ص:174)

آپ صلی الله علیہ وسلم کے والد محترم
آپ صلى الله عليه وسلم کے والدمحترم جناب عبدالله رضی الله عنہ مدینہ منورہ میں پچیس سال کی عمر میں آپ صلى الله عليه وسلم کی ولادت سے پہلے انتقال فرماگئے، ایک روایت کے مطابق آپ صلى الله عليه وسلم کی ولادت کے اٹھائیس دن یا دو ماہ بعد انتقال فرماگئے تھے، اصح قول پہلا ہے ۔(سیرة ابن ہشام، ص:158)

آپ صلی الله علیہ وسلم کی والدہ محترمہ
آپ صلى الله عليه وسلم کی والدہ محترمہ حضرت بی بی آمنہ رضی الله عنہا کا تعلق قبیلہ بنو زہرہ سے تھا، آپ صلى الله عليه وسلم کو سب سے پہلے آپ کی والدہ محترمہ نے دودھ پلایا، آپ صلى الله عليه وسلم کے دادا عبدالمطلب نے ساتویں روز عقیقہ کیا اور آپ صلى الله عليه وسلم کا نام ”محمد“ رکھا جب کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی والدہ ماجدہ نے آپ صلى الله عليه وسلم کا نام احمد رکھا، آپ صلى الله عليه وسلم کی والدہ محترمہ کا انتقال مدینہ منورہ سے واپسی پر مقام ابواء پر ہوا، جو کہ مکہ اورمدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے، اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر مبارک6 سال تھی، 577ء ہجرت سے 74 سال قبل۔( الکامل فی التاریخ، ج1،ص :26)

رضاعت
آپ صلی الله علیہ وسلم کی والدہ محترمہ کے بعد ابولہب کی آزاد کردہ باندی ثویبہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو چند روز دودھ پلایا اور پھر قبیلہ بنو سعد بن بکر کی نیک بخت خاتون حضرت حلیمہ سعدیہ رضی الله عنہا نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو دودھ پلایا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی پرورش کی ۔

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی الله عنہا کے یہاں سپردگی : آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر مبارک 7 یوم، تاریخ17 ربیع الاول حضرت حلیمہ کی طرف سے پہلی واپسی: عمر مبارک 2 سال 573ء ،حضرت حلیمہ سعدیہ رضی الله عنہا کی طرف سے آخری واپسی: عمر مبارک6 سال 577 ء قبل ہجرت 47 سال۔ (رہبر ورہنما، ص:77)

کفالت
آپ صلى الله عليه وسلم کے والد ماجد کی وفات کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم کے دادا حضرت عبدالملطب نے آپ صلى الله عليه وسلم کی کفالت کی ذمہ داری لی اورداداکی وفات کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم کے چچا جناب ابو طالب نے آپ صلى الله عليه وسلم کی کفالت کی ۔ (الکامل فی التاریخ، ج1،ص:271)

ولادت کا چوتھا سال575ء
اس سال شق صدر کا پہلا واقعہ پیش آیا ، دو فرشتوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے سینہٴ مبارک کو چاک کیا اور قلب مبارک کو نکالا اور نور سے بھر دیا جب کہ ابن اثیر نے دو سال کی عمر میں پہلے شق صدر کے واقعہ کا ذکر کیا ہے ۔

شق صدر کے واقعات آپ صلى الله عليه وسلم کی زندگی میں چار بار پیش آئے۔
1..زمانہٴ طفولیت میں.2.. دس سال کی عمر میں.3.. بعثت کے وقت.4.. شب معراج کے موقع پر۔(الکامل فی التاریخ، ج1، ص:272)

ولات کا چھٹا سال577ء
آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ مدینہ کی جانب پہلا سفر کیا ، مدینہ منورہ سے واپسی پر آپ صلى الله عليه وسلم کی والدہ محترمہ کا مقام ابواء پر انتقال ہوا، پھر اس سفر میں ایک باندی ”أم ایمن“ جو ساتھ تھیں، آپ صلى الله عليه وسلم کو مکہ لے آئیں۔ (الکامل فی التاریخ، ج1، ص:275) (جاری)

Flag Counter