عربی تفاسیرکے ترجمے…تعارف و تجزیہ
مولانا اشتیاق احمد، دارالعلوم دیوبند
امام فخر الدین رازی ( ولادت544ھ وفات606ھ) کی تفسیر کبیر کی اہمیت سے اہلِ علم واقف ہیں، موصوف چھٹی صدی ہجری کے عالم ہیں ، ان پر معقولات کا غلبہ تھا، تفسیر میں بھی وہی رنگ ہے ، ان کی کنیت ابوعبدالله اور نام محمد ہے ، ان کے والد مرحوم ضیاء الدین عمر خطیب سے معروف تھے، وہ بہت بڑے عالم اور صاحبِ تصنیف تھے، تفسیر کبیر میں مسائل کو دلائل کے ساتھ لکھا گیا ہے، آیت پر ہونے والے امکانی سوال قائم کرکے جواب تحریر کیا گیا ہے ، زبان بھی کافی عمدہ ہے ، آٹھ نوسو سال کے بعد بھی مقبولیت میں ایک حرف کی کمی نہیں آئی او رنہ اس کے مماثل کوئی دوسری تفسیر تصنیف کی جاسکی ہے ، فقہی مسائل میں شافعی مسلک کی ترجمانی ہوتی ہے۔ رقم الحروف کو اس کے دو نامکمل ترجمے دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں نظر آئے:
(الف) ایک ترجمہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب اسرائیلی کا ہے ، اس کا نام ”سراج منیر “ ہے۔
(ب) دوسرا ترجمہ مولانا مرزا حیرت کی سرپرستی میں شائع ہوا ہے، مترجم کا علم نہ ہو سکا۔
سراج منیر ترجمہ اردو تفسیر کبیر
جناب مولانا خلیل احمد صاحب اسرائیلی ابن جناب سراج احمد صاحب کا یہ ترجمہ اپنے وقت کا فصیح ترجمہ ہے ، یہ بات اور ہے کہ ایک صدی کا عرصہ گذر جانے کی وجہ سے اس میں قدامت آگئی ہے، زبان میں فارسیت کا غلبہ ہے ، آیات کے ترجمے ہر سطر کے نیچے دیے گئے ہیں ، ” سوال وجواب “ کو جلی خط میں اور قوسین کے درمیان لکھا گیا ہے ، نیز ہر مسئلہ میں بحث کی تعداد کی ترقیم بھی کی گئی ہے ، صرف پہلی جلد کے دو نسخے نظر نواز ہو سکے، جو ﴿تلک امة قد خلت لھا ما کسبت…﴾ تک کی تفسیر کو شامل ہیں۔
یہ ترجمہ امرت سر پنجاب کے ” مطبع شمس الاسلام“ سے شائع ہوا ہے ، صفحات کی تعداد پانچ سوبتیس (532) ہے ، اس ترجمہ کی طباعت اشاعت کے جملہ اخراجات دو شخصوں نے برداشت کیے ہیں ، یہ دونوں پنجاب کے کتب خانہ اسلامیہ کے مالک ہیں، ان کے اسمائے گرامی شیخ عبدالرحمن اور ماسٹر جھنڈے خان ہیں ، تاریخ طباعت ذوالحجہ 1317ھ مطابق1900ء درج ہے ، ہر صفحہ کا حاشیہ ”الم“ کے خوب صورت طُغر ے سے آراستہ ہے۔
تفسیر کبیر کا ایک اور ترجمہ
مولانا مرزا حیرت رحمة الله علیہ کی نگرانی وسرپرستی میں ایک ترجمہ شائع ہوا تھا ، وہ بھی دالعلوم دیوبند کے کتب خانے میں ہے ، مگر مکمل نہیں ہے ، اس کی صرف ایک جلد نظر نواز ہوئی ، صفحات کی تعداد تین سو اٹھائیس (328) ہے ” مطبع کر زن پریس دہلی“ کے ذریعہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا تھا، غالباً یہ سب سے قدیم ترجمہ ہے ، اس پر ایک صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے ، کاغذ بوسیدہ، کرم خوردہ ہے ، یہ نسخہ ناقابل استفادہ ہے ، ہاں ! اگر جدید ٹیکنالوجی سے اس کے سارے صفحات الگ الگ کیے جائیں او رپھر اس کی فوٹو کاپی کرائی جائے ، تو دوسروں کے لیے استفادہ ممکن ہو سکے گا۔ یہ درمیانی تقطیع پر مطبوع ہے، کتب خانہ دارالعلوم دیوبندمیں”ترتیبِ کتب اردو تفاسیر“ میں اس کا نمبر179 ہے۔
تفسیر بغوی
”معالم التنزیل“ علامہ بغوی کی ہے ، اس کو ہندوستانی علماء اپنے عرف میں ” تفسیرِ بغوی“ کہتے ہیں ، علامہ بغوی مصر کے رہنے والے ہیں اور مسلکاً شافعی ہیں ، ان کی کنیت”ابو محمد“ اور نام ابن مسعود ہے ،516ھ میں ان کی وفات ہوئی، علمِ لغت، علم قرأت کے علاوہ فقہ میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں ، انہوں نے اپنی تفسیر میں عہدِ رسالت سے لے کر پانچویں صدی تک کے اکابر امت کے ارشادات سے استفادہ کیا ہے ، احادیث، آثار صحابہ وتابعین سے یہ تفسیر بھری پڑی ہے ، شان نزول بھی روایات کے حوالوں سے بیان فرماتے ہیں ، اس تفسیر میں تفسیر خازن اور تفسیرابن کثیر کے حوالے بھی خوب ملتے ہیں ، البتہ روایات کے ضمن میں اسرائیلیات بھی درآئی ہیں، علامہ بغوی تحقیق لغات میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں ، اس تفسیر میں اس کے مظاہر ملتے ہیں ، اسی طرح فقہی مسالک اور مسائل کو بھی بیان کیا ہے ، چوں کہ مختلف قراء توں کی وجہ سے تفسیر کے معانی ومفاہیم میں وسعت پیدا ہوتی ہے ، اس لیے موصوف نے قراء ت کی تفصیلات بھی خوب بیان فرمائی ہیں، لیکن یہ سب عربی زبان میں ہے ،اردو خواں حلقہ کے لیے استفادہ مشکل تھا، اس لیے ایک بڑے عالمِ دین ، زبان وادب کے شہ سوار، نثر کے ساتھ نظم پر عظیم تر قدرت رکھنے والی شخصیت نے اس تفسیر کو اردو کا جامہ پہنانا شروع کیا ، میری مراد ”ہدایت القرآن“ کے اولین مؤلف حضرت مولانا محمد عثمان رحمة الله علیہ ہیں ، جو علمی اور ادبی حلقوں میں ”کاشف الہاشمی “ سے جانے جاتے ہیں ۔
ترجمہ کی زبان بہت عمدہ اور ادب کی چاشنی سے لبریز ہے ، آیات اورترجمہ قرآن کے درمیان دو خط کھینچے ہوئے ہیں ، حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمة الله علیہ کے ”فارسی ترجمہ قرآن“ کو اس میں شامل کیا گیا ہے ، اس ترجمہ کے بارے میں تو کوئی کلام نہیں،یقیناوہ معیاری ہے ، اہل علم کے نزدیک قابل اعتماد ہے ، مگر اس کی وجہ سے خالص اردو حلقوں میں ترجمہ قرآن اجنبی رہے گا ، پہلے تو فارسی زبان کا کچھ کچھ رواج تھا، آج تو اردوداں طبقہ فارسی جانتا ہی نہیں، محض علما اور مدارس کے افراد ہی اس زبان سے واقف ہیں، اس لیے فارسی ترجمہ کا انتخاب راقم الحروف کے نزدیک زیادہ مناسب نہیں ، اس وجہ سے بھی کہ عربی تفسیر کو اردو میں ترجمہ کرنے کا مقصد عوام اور اردو جاننے والوں کو قرآن سے قریب کرنا ہے، نہ کہ خواص اور فارسی جاننے والے علماء کو، بہرحال ! مترجم نے ترجمہ تفسیر بغوی میں اپنی پوری مہارت وصلاحیت کو بروئے کا رلایا ہے ، ترجمہ کے ساتھ حواشی بھی بڑھائے ہیں ، تشریحات بھی کی ہیں ، عناوین کا اضافہ بھی کیا ہے ، جس سے ترجمہ کی افادیت بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔
ایک نایاب ترجمہ
حضرت کاشف الہاشمی سے پہلے دارالعلوم دیوبند کے مفتی اعظم حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی نے تفسیر بغوی کااردو زبان میں ترجمہ کیا تھا وہ محض ترجمہ نہیں تھا، بلکہ اس میں مضامین کی تلخیص وتسہیل بھی کی گئی تھی، اس کا نام” منحة الجلیل فی بیان ما فی معالم التنزیل“ رکھا تھا، یہ ترجمہ اہل علم کے درمیان بہت مقبول ہوا ، مگر اب وہ معدوم ونایاب ہے ، اس کی تاریخ 1315ھ بتائی جاتی ہے۔
غرض یہ کہ کاشف الہاشمی مرحوم کے ترجمہ تک ہی راقم الحروف کی رسائی ہو سکی، اس ترجمہ کے شروع میں تین صفحات پر مشتمل ناشر کی تحریر ہے ، اس میں ترجمہ کی اہمیت وافادیت اور ضرورت بیان کی گئی ہے، اسی کے ساتھ ممبر بنا کر قسطوں پر اس کی اشاعت کا طریقہ بھی رقم کیا ہوا ہے ، یہ طریقہ متعدد تفسیروں کے ترجمے کے لیے دیوبند کے کتب خانوں نے اپنایا تھا، اس کے بعد ” عرضِ مترجم“ ہے۔
حضرت کاشف الہاشمی مرحوم کے ترجمہ کے ابتدائی صفحات میں یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ احادیث کے ترجمہ میں سند حذف کر دی گئی ہے ، جب یہ ترجمہ چھپا تو اہل علم نے اسے خوب سراہا، اس پر تین عبقری شخصیات کی تقریظ بھی ہے، جنہوں نے ترجمہ کی عمدگی کودادِ تحسین سے نوازا ہے ، زبان وبیان کی سلاست وروانی اور دل نشینی کا بڑے اچھے انداز میں اعتراف کیا ہے ، وہ شخصیات درج ذیل ہیں:
(الف) حضرت مولانا سعید احمد اکبر آبادی ،مدیر ماہ نامہ”برہان“ دہلی، وصدر شعبہ اسلامیات، یونیورسٹی، مسلم علی گڑھ۔
(ب) حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی ، سباق ایم پی، وناظم جمعیة علمائے ہند۔
(ج) حضرت مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی، بانی ندوة المصنفین دہلی ، ورکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند۔
تفسیر بغوی کی اشاعت دیوبند کے مکتبہ”ندوة الفرقان“ کے ذریعہ عمل میں آئی ، لیکن افسوس اس پر ہے کہ میری رسائی ” صرف پہلی جلد“ تک ہو سکی ، وہ دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں موجود ہے یہ چھیانوے (96) صفحات کا ترجمہ ﴿فذبحوھا وما کادوا یفعلون …﴾ تک کی تفسیر کو شامل ہے ، بازار میں تلاش بسیار کے باوجود مل نہ سکا، جب مترجم کے فرزندارجمند جناب مولوی محمد سفیان صاحب سلّمہ سے ربط کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس کی ایک ہی جلد زیور طباعت سے آراستہ ہو سکی تھی ، بقیہ ترجمہ شائع نہ ہو سکا اور نہ ہی اس کا مسودہ دریافت ہو سکا ہے ۔
ضرورت ہے کہ کوئی صاحبِ قلم، اہل علم اس طرف متوجہ ہو اور اس ترجمہ کو ایک نہج متعین کرکے پایہ ٴ تکمیل تک پہنچائے ، وبالله التوفیق!
تفسیر ابن کثیر
حافظ ابن کثیر رحمة الله علیہ (700ھ774ھ) کی تفسیر القرآن الکریم اہل علم کے نزدیک سب سے قابل اعتماد تفسیر ہے ، اس کو عرف میں لوگ تفسیر ابن کثیر ہی کہتے ہیں ، ان کا نام اسماعیل، کنیت ابوالفداء اور لقب عماد الدین ہے ، تفسیر، حدیث، تاریخ میں اہلِ علم ان پر اعتماد کرتے ہیں ، اساطین علمائے امت نے ان کی علمی قدرومنزلت کا کھل کر اعتراف کیا ہے اور تصانیف کو بڑے اونچے الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے ، موصوف کی زندگی میں ہی چار دانگِ عالم میں تصانیف پہنچ چکیتھیں، قرآن پاک کی تفسیر کے سلسلہ میں علامہ سیوطی نے فرمایا: لم یؤلف علی نمطہ مثلہ․ ( اس طرز پر دوسری تفسیر نہیں لکھی گئی ) اور یہ واقعہ ہے کہ آج بھی اسلامی کتب خانہ میں کوئی تفسیر ایسی نہیں ملتی ، جو حافظ ابن کثیر کی تفسیر کا مقابلہ کر سکے او رمحدیث کوثری نے فرمایا: ھو من افید کتب التفسیر بالروایة ( یعنی تفسیر ابن کثیر ، تفسیر بالروایہ میں سب سے زیادہ مفید کتاب ہے۔ )
مولانا عبدالرشید نعمانی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں:
”مصنف اس کتاب میں سب سے پہلے ”تفسیر القرآن بالقرآن“ کے اصول پر ایک آیت کی تفسیر، اُس مضمون کی دوسری آیات کی روشنی میں کرتے ہیں ، پھرمحدثین کی مشہور کتابوں سے اس کے بارے میں جو احادیث مروی ہیں ، ان کو نقل کرکے ان کی اسانید ورجال پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں او راس کے بعد آثار صحابہ وتابعین کو لاتے ہیں۔
حافظ ابن کثیر کا یہ سب سے بڑا علمی کارنامہ ہے کہ انہوں نے تفسیر اور تاریخ سے اسرائیلیات کو بہت کچھ چھانٹ کر علیٰحدہ کر دیا ہے اور سچ یہ ہے کہ اس اہم کام کے لیے ان جیسے بالغ نظر محدث ہی کی ضرورت تھی ، یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اگر ان کی علمی خدمات میں صرف یہی ایک خدمت ہو، تب بھی وہ اُن کے فخر کے لیے کافی تھی … الحمدلله یہ کتاب متداول ہے او ربارہا طبع ہو چکی ہے ۔“ ( از مقالہ : درابتدائے ترجمہ تفسیر ابن کثیر ص:9)
ترجمہ کے شروع میں مولانا محمد عبدالرشید نعمانی کا نو صفحات پر مشتمل ایک مقالہ شاملِ اشاعت ہے ، یہ نہایت ہی محقق ومدلل ہے ، اس کی تیاری میں تراجم ورجال کی ایک درجن کتابوں سے استفادہ کیا گیاہے ، ہر ہر بات کی تحقیق میں بڑی عرق ریزی کی گئی ہے ، اہل علم کے لیے بہت مفید ہے ۔
تفسیر ابن کثیر کے دو اردو ترجمے
تفسیر ابن کثیر کے دور اردو ترجموں تک راقم الحروف کی رسائی ہو سکی ہے :
(الف) ایک ترجمہ ” اعتقاد ہاؤس نئی دہلی “ نے شائع کیا ہے ، یہ ترجمہ پانچ جلدوں پر مشتمل ہے ، جناب اعتقاد صدیق نے عرض ناشر میں یہ وضاحت کی ہے کہ ” یہ ترجمہ بار بار لیتھو پر چھپتا رہا ، مگر طباعت کے صاف نہ ہونے کی وجہ سے قارئین کو ناپسند تھا، میں نے ” نور محمد کارخانہ تجارت کراچی“ کے نسخہ سے فوٹو لے کر اس کتاب کو آفسیٹ پر چھاپا ہے ، تاکہ قارئین کے نزدیک یہ طباعت شرف مقبولیت حاصل کرسکے۔“ ( تلخیص، ص:2)
اس ترجمہ میں کتابت ہاتھ کی ہے او راچھی ہے ، اس نسخہ میں قرآن پاک کی آیات اور ترجمہ کے درمیان لکیریں کھینچی ہوئی ہیں”ترجمہ قرآن“ جناب مولانا محمد جونا گڈھی کا ہے ،جو مسلکاً اہل حدیث ہیں ، البتہ یہ عقدہ میرے لیے اب تک لاینحل ہے کہ تفسیر کے مترجم کون ہیں؟ بعض لوگوں نے حضرت مولانا عبدالرشید نعمانی کو مترجم سمجھ لیا ہے ، حالاں کہ اس ترجمہ کی پہلی جلد کے شروع میں صرف ان کا ایک مقالہ ہے ، جس کے شروع میں مقالہ نگار کی حیثیت سے نام بھی لکھا ہوا ہے ترجمہ کو پڑھ کر مجھ ناچیز کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ یہ ترجمہ مولانا نعمانی کا نہیں ہو سکتا ، مثلاً (ج1، ص:132) پر ) ”والنجم والشجر الخ“ میں نجم کا ترجمہ ”ستارہ“ کیا ہے، حالاں کہ مفسرین کے نزدیک اس جگہ ”نجم“ کا ترجمہ ”بے تنا درخت“ ہے، جیسا کہ حضرت تھانوی کے ترجمہ قرآن میں بھی ہے، تفصیل کا موقع نہیں ، اس لیے ایک ہی مثال پر اکتفا کیا جاتا ہے ، بعض لوگوں نے مولانا محمد جونا گڈھی کا ترجمہ سمجھا ہے ، اس کی بھی میر ے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، اس لیے مترجم کا علم نہ ہونے کی وجہ سے اس ترجمہ کے پڑھنے او رمطالعہ کرنے کا مشورہ دینا سمجھ میں نہیں آتا البتہ زبان وبیان کا پیرا یہ ٹھیک ہے ۔
اس ترجمہ میں ہر جلد کے شروع میں مضامین کی مفصل فہرست دی گئی ہے ، جس سے اپنے مقصد کے مضامین کا مطالہ آسان ہو گیا ہے ، ہر صفحہ میں دو کالم بنائے گئے ہیں ، تاکہ اردو مطالعہ قارئین کو زحمت نہ ہو ، ہندوپاک میں یہ ترجمہ بھی اصل کی طرح متداول ہے ، لیکن کسی اہلِ علم نے اس پر اعتمادکا اظہار کیا ہو ، اس کا حوالہ راقم الحروف کے پاس نہیں ۔
(ب) تفسیرابن کثیر کا دوسرا ترجمہ دیوبند کے ” مکتبہ فیض القرآن“ نے پانچ جلدوں میں شائع کیا ہے ،یہ ترجمہ مشہور ومعروف عالم دین وانشا پر داز حضرت مولانا انظرشاہ صاحب کشمیری شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند کا ہے ، یہ ترجمہ اپنی گونا گوں خصوصیت کی وجہ سے پہلے ترجمہ کی بہ نسبت بہتر اور قابل اعتماد ہے ، حضرت مولانا مرحوم نے اس پر حواشی بھی تحریر فرمائے ہیں ، ظاہرہے کہ حافظ ابن کثیر شافعی مسلک کے ہیں ، انہوں نے تفسیر میں مسائل ودلائل اپنے مسلک کے مطابق لکھے ہیں ، ان مقامات پر حنفی قاری کا تشویش میں مبتلا ہو جانا بدیہی تھا، اس لیے مولانا کشمیری مرحوم نے ان سارے مقامات پر عمدہ حواشی تحریر فرمائے ، مزید علوم ومعارف سے حواشی کا دامن لبریز ہے ، اس ترجمہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں آیات کا ترجمہ حضرت تھانوی علیہ الرحمہ کا ہے ، جس کی صحت پر اردو زبان وادب کے ساتھ قرآنیات سے دلچسپی رکھنے والے سارے علمائے کرام کا اتفاق ہے ، اسی طرح ” تفسیر تھانوی “ کے عنوان کے تحت مولانا کشمیری مرحوم نے ” بیان القرآن“ کے مضامین کا اختصار پیش فرمایا ہے۔
پہلے یہ ترجمہ بھی ہاتھ کی کتابت اور لیتھو کی طباعت سے مزین تھا، اب مزید عمدگی پیدا کرنے کے لیے کمپیوٹر کے ذریعہکتابت کرائی گئی ہے اور طباعت آفسیٹ کی ہے۔ ( عرض ناشر ) مولاناکشمیری مرحوم نے کئی عربی تفسیروں کے اردو ترجمے شروع کیے تھے ، مگر یہی ایک ترجمہ ایسا ہے جومکمل ہو سکا، بقیہ سارے ترجمے ادھورے ہی رہ گئے ، یہاں تک کہ مرحوم راہی ملکِ عدم ہو گئے ، الله تعالی بال بال ان کی مغفرت فرمائیں او رجنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائیں! ( آمین)
تفسیر جلالین
پانچ صدی سے یہ تفسیر امت میں متداول ومقبول ہے ، یہ تفسیر نہیں، بلکہ قرآن پاک کا ”عربی ترجمہ“ ہے، اس میں تفسیری کلمات قرآن پاک کے الفاظ کے برابر ہیں ،کہیں کہیں چند الفاظ یا جملے زائد ہیں، اس تفسیر کو پڑھنے وپڑھانے او راستفادہ کرنے والے جانتے ہیں کہ شروع سے ” سورہ مدثر“ تک ایسا ہی ہے، اس کے بعد تفسیر کے الفاظ آیات سے کچھ زائد ہیں۔
علامہ سیوطی (849ھ911ھ) اور علامہ محلی (791 ھ تا864ھ) دونوں کا لقب چوں کہ جلال الدین ہے ، اس لیے ان کی تفسیر ”تفسیر الجلالین“ سے موسوم ہوئی ، علامہ سیوطی کا نام عبدالرحمن ہے، ان کو دو لاکھ احادیث یاد تھیں ، متعدد فنون پر دست رس حاصل تھی، ” الاتقان فی علوم القرآن ، لباس النقول فی أسباب النزول“ وغیرہ ان کی مشہور تصانیف ہیں ، یہ علامہ محلی کے شاگرد ہیں ، جن کا نام محمد بن احمد بن محمد ہے، ان کی مشہور تصانیف میں سر فہرست ”جمع الجوامع“ ہے ، علامہ محلی نے ”سورہٴ کہف“ سے آخیر قرآن تک کی تفسیر لکھی اور شروع سے ” سورہٴ فاتحہ “ کی تفسیر لکھی تھی کہ فرشتہ اجل آدھمکا ، بالآخر علامہ سیوطی نے اپنے استاذِ محترم کے نہج کو باقی رکھتے ہوئے ہی، تفسیر پوری کی ، کوئی عالم محض مطالعہ کی بنیاد پر دونوں کے درمیان خط امتیاز نہیں کھینچ سکتا، دونوں شخصیتوں کے سامنے خصوصیت کے ساتھ شیخ موفق الدین کی دو تفسیریں رہی ہیں ، ایک کا نام ” تفسیر کبیر “ ہے ،جسے اہلِ علم ”تبصرہ “ کے نام سے جانتے ہیں اور دوسرے کا نام ” تفسیر صغیر“ ہے ،جسے ”تلخیص“ کے نام سے جانا جاتا ہے ، ان کے علاوہ تفسیر وجیز، بیضاوی او رابن کثیر سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
جلالین کی اردو شروحات
راقم الحروف کے علم واطلاع میں اردو زبان میں اس کے تین ترجمے اور شرحیں ہیں:
(الف) کمالین (ب) فیض الامامین (ج) جمالین۔
کمالین شرح اردو جلالین
”کمالین“ نام کی جلالین کی ایک شرح عربی زبان میں بھی ہے ، اس کی زیارت حیدر آباد کے ”سالار جنگ میوزیم“ میں ہوئی، شیشے کے اوپر سے ہی کھلے ہوئے ورق کو دیکھ سکا، یہ شرح اردو زبان میں ہے، اس کے ” تیس اجزا “ ہیں ، ہر پارے کو الگ جز میں لکھاگیا ہے ، سولہ ،سترہ اور اٹھار ویں پارے کا ترجمہ اور اس کی تشریح حضرت مولانا انظر شاہ صاحب رحمة الله علیہ نے کی ہے ، بقیہ سارے اجزا حضرت مولانا محمد نعیم صاحب استاذ تفسیر دارالعلوم دیوبند نے لکھے ہیں، یہ شرح مدارس کے طلبہ کے درمیان متعارف ہے ، اس کی شاعت ” مکتبہ تھانوی دیوبند“ کے توسط سے عمل میں آئی ہے، حضرت مولانا محمد نعیم صاحب دارلعلوم کے قدیم اساتذہ میں سے تھے ، ان کی بھی متعدد علمی تصانیف ہیں ، جو اہل علم سے داد تحسین حاصل کر چکی ہیں ۔
زبان وبیان کے لحاظ سے کسی طرح کی کمی نہیں ہے ، جلالین کے حل کرنے اور اردو سمجھنے والے علماء وطلبہ کے لیے معاون ہے ، طباعت بہت عمدہ نہیں ہے ، اب تک قدیم نسخہ پر ہی چھائی جارہی ہے۔
راقم الحروف کو دارالعلوم حیدر آباد میں چھ سال مسلسل جلالین شریف پڑھانے کا موقع نصیب ہوا اور الحمدلله یکے بعد دیگر ے دونوں حصوں کے پڑھانے کی توفیق ملی ، اس دوران تین مشکل مقامات پر ” کمالین“ کو دیکھنے کی نوبت آئی ، ان میں سے دو مقام پر عبارت کا ترجمہ بھی نظر نہیں آیا اور ایک مقام پر ترجمہ تو تھا، مگر قاری کی مشکل حل ہوتی ہوئی نظر نہ آئی ،اس کے بعد اور اس سے پہلے اس کو دیکھنے کا موقع میسر نہ آیا ، بعض ایسی شروحات جو محض تجارتی نقطہٴ نظر سے بعض تجار لکھواتے ہیں ، ان میں لکھنے والوں کو بعض جگہوں پر جلدی کی وجہ سے تحقیق کا موقع نہیں ملتا اور ویسے ہی مسودہ کاتب کے پاس چلا جاتا ہے، الله تعالیٰ ان سب کو معاف فرمائیں ! غرض یہ کہ ”کمالین شرح جلالین“ بھی ان شرحوں میں سے ہے ، جن کو کسی بالغ نظر عالم کی تحقیق کے بعد ہی اعتبار حاصل ہو سکتا ہے ۔
فیض الامامین شرح اردو تفسیر الجلالین
جلالین کی مقبولیت اور اس کے درسِ نظامی کے نصاب میں داخل ہونے کی وجہ سے متعدد علماء نے اردو زبان میں اس کی شرح لکھی ہے ، ان میں ایک اور عظیم شخصیت ہیں ،جنہوں نے بخاری ، مسلم اور دیگر عربی درسی کتابوں کی شرحیں لکھی ہیں ، ان کے نوٹس شائع کیے ہیں ، میری مراد مظاہر علوم سہارن پور کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عثمان غنی ہیں ، ان کا قلم بہت عمدہ ہے ، طلبہ کرام کے نزدیک ان کی شرحیں پسندید گی کی نگاہوں سے دیکھی جاتی ہیں ، موصوف نے جلالین کی اردو شرح” فیض الامامین“ کے نام سے تحریر فرمائی ، یہ چھ جلدوں میں ہے ، مکتبہ فیض القرآن دیوبند سے چھپی ہے، دیوبند اور سہارن پور کے تجارتی کتب خانوں میں دست یاب ہے ، موصوف نے ایک بار خود سنایا تھا کہ میں جس کتاب کو بھی پڑھاتا ہوں، اس کی شرح لکھ ڈالتا ہوں ، بعض کتب خانہ والوں نے میری شرح کو دوسرے کے نام سے بھی چھاپ دیا ہے ،ایسا ہی اتفاق ایک بار بنگلہ دیش میں ہوا، ایک کتاب میں نے دیکھی ، مجھے اچھی لگی، لیکن پڑھنے کے بعد میری اپنی تحریر محسوس ہوئی تو میں نے غور سے دیکھا تو حواشی پر میرے نام کے مختصرات ( ع، غ چلمل) لکھے ہوئے تھے، چلمل میرا وطن ہے ، بہار کے سرائے ضلع میں ہے ، تب مجھے نام بدل کر چھاپنے والوں پر بہت افسوس اور تعجب ہوا، راقم الحروف کو افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ مولانا مرحوم آج بہ تاریخ1432/2/8ھ مطابق2011/1/13ء رات چار بجے اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے، غرض یہ کہ ”فیض الامامین“ میں کتاب کو اچھی طرح حل کیا گیا ہے، والله اعلم․
جمالین شرح اردو جلالین
”جمالین“ حضرت الاستاذ مولانا محمد جمال ابن حکیم شیخ سعدی صاحب بلندی شہری دامت برکاتہم ( ولادت1938ء) استاذ فقہ وتفسیر دارالعلوم دیوبند کی ہے ، یہ میرٹھ کے رہنے والے ہیں، ابتدائی تعلیم کو رانہ ضلع بلند شہر اور مفتاح العلوم جلال آباد میں حاصل کی ، پنجم عربی سے دارالعلوم دیوبند میں پڑھا، مولانا مدنی اور علامہ بلیاوی سے کسبِ فیض کیا،1955-56ء میں فراغت ہوئی، طب کے ساتھ فنون کی تعلیم حاصل کی،1986ء میں وسطیٰ (ب) میں تقرر ہوا، اس لحاظ سے دارالعلوم دیوبند میں پچیس سال سے استاذ ہیں، موصوف کی متعدد شرحیں منصہ شہودپر آچکی ہیں، ہدایہ، حسامی او رمقاماتِ حریری کی شرحیں طبع ہو کر قبولِ عام حاصل کر چکی ہیں، تقریباً سترہ (17) سال سے جلالین شریف کا درس دے رہے ہیں، ”قرة العینین“ کے نام سے جلالین کا اردو ترجمہ فرمایا، اس کے بعد اپنے درسی افادات کو خود سے مرتب فرماکر”جمالین“ کے نام سے ” مکتبہٴ جمال“ سے شائع فرمایا ہے، چھ جلدوں میں پوری تفسیر کا احاطہ کیا گیا ہے، چوں کہ علامہ محلی نے بعد کے پاروں کی تفسیر پہلے فرمائی تھی، اس لیے آپ نے بھی پہلے اخیر کی تین جلدیں شائع کیں، شروع کی تین جلدوں کی تصنیف، کتابت، طباعت اور اشاعت بعد میں عمل میں آئی ہیں۔ (جاری)