Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1435ھ

ہ رسالہ

11 - 15
مولانا عبدالغفور قاسمی

مولانا حسین شاہ، مدیر الفاروق سندھی
	
20/محرم الحرام1435ھ مطابق25 /نومبر2013ء جامعہ دارالفیوض قاسمیہ، سجاول، ٹھٹھہ کے مہتمم وبانی، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالغفور قاسمی صاحب طویل علالت کے بعد کراچی کے ایک ہسپتال میں رحلت فرما گئے ۔انا الله وانا الیہ راجعون․

حضرت قاسمی  جمعیة علمائے اسلام ( ف) سندھ کے سرپرست، مجلس تحفظ ختم نبوت سندھ کے سرپرست، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ممبر اور بہت سے مدارس کے مہتمم تھے، آپ حضرت، محدث العصر، شیخ سید محمدیوسف بنوری کے تلمیذ رشید تھے اور آپ کے حضرت شیخ الجامعہ، صدر وفاق، شیخ الحدیث، حضرت مولانا سلیم الله خان زیدمجدہ اور ان کے فرزندان ڈاکٹر محمد عادل خان اور مولانا عبیدالله خالد صاحب سے بہت گہرے اور دیرینہ مراسم تھے، الفاروق سندھی کا اجرا بھی آپ کے مشورے سے ہوا۔

حضرت مولانا عبدالغفور قاسمی علمی او رتاجر خاندان کے چشم وچراغ تھے آپ کے والد مولانا محمد قاسم صاحب کپڑے کے تاجرتھے آپ کی پیدائش1940ء گوٹھ محمد شاہ تعلقہ سجاول میں ہوئی ، گوٹھ محمد شاہ کو مینئن جو گوٹھ (مولویوں کی بستی) کہا جاتا ہے ،یہاں پر ہمیشہ اہل علم اور دین دار لوگ بڑی تعداد میں آباد رہے ہیں، آپ نے پرائمری کی تعلیم اپنے گوٹھ میں حاصل کی، بعد میں مدرسہ دارالفیوض الہاشمیہ سجاول میں داخلہ لیا، یہاں پر آپ نے درس نظامی کی تمام کتابیں پڑھیں، زیادہ تر حضرت الاستاد مولانا نور محمد صاحب  کے پاس پڑھا، فنون کی تعلیم کے لیے آپ سرگودھا، رحیم یار خان، ظاہر پیر وغیرہ گئے اور دورہ حدیث جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سے1964ء میں کیا، دورہ حدیث کے امتحان میں آپ پہلی پوزیشن لے کر کام یاب ہوئے ، فراغت کے بعد آپ کا مستقل طور پر سجاول کے مدرسہ دارالفیوض ہاشمیہ میں بطور مدرس عربی تقرر ہوا اور آپ پورے شوق سے آخری دم تک تدریسی خدمت کرتے رہے۔

شروع میں آپ کو منطق، فلسفہ اورعربی ادب پڑھانے کا شوق تھا، منطق میں سلم العلوم، ملاحسن، قاضی مبارک ، ادب میں دیوان حماسہ، دیوان متنبی، سبعہ معلقات کے گویا حافظ تھے 15,10 سال منطق وفلسفہ پڑھاتے رہے، پھر علم معانی اور فقہ وحدیث رسول پڑھانے میں لگ گئے، وفات تک بخاری شریف پڑھاتے رہے، جیسے آپ کام یاب مدرس تھے ویسے شعلہ بیان مقرر بھی تھے ،سامعین کی نفسیات کے مطابق تقریر فرماتے تھے، کیسا ہی مجمع ہو حضرت کی مٹھی میں ہوتا تھا، سامعین کو چاہتے تو رلادیتے، چاہتے تو ہنسا دیتے، استاد صاحب کی تقریروں کے بہت سے واقعات یاد ہیں، فقط ایک موقعہ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔

واقعہ یوں ہے کہ ضیاء الحق کا دور تھا اور ربیع الاول کا مہینہ ہر جگہ سیرت النبی کے جلسے اور سیمینار تھے، اسی سلسلہ میں ایگری کلچرل یونی ورسٹی ٹنڈوجام میں ایک سیرت النبی پر تقریروں کا مقابلہ رکھا گیا تھا استاد صاحب کو دعا کرنے کے لیے دعوت تھی، یونی ورسٹی کا پورا ماحول بگڑا ہوا تھا، انتظامیہ کو خوف تھا کہ طلباء جلسے میں ہلڑ بازی کریں گے،لیکن جب طلباء نے مقالے پڑھے اور مولانا قاسمی صاحب کو دعا کے لیے بلایا گیا تو استاذ صاحب نے دعا کو دو گھنٹے کی تقریر میں تبدیل کر دیا، تقریر کیا تھی؟ دیوبند اور علی گڑھ کی تعلیم، لارڈ میکالے کا نصاب، موجودہ وقت میں یونی ورسٹیز اور کالجوں میں تعلیم وتربیت کا فقدان، کاپی کلچر اور سفارشات وغیرہ ان موضوعات پر مدلل تقریر فرمائی، دوران تقریر دیکھا کہ نہ صرف پوری یونی ورسٹی، بلکہ پورا شہر ٹنڈوجام ، پنڈال میں موجود تھا اور طلباء کیخیر مقدمی نعروں سے پنڈال گونج رہا تھا، نعرے یہ تھے جیے جیے قاسمی جیے، آخر میں VC صاحب نے پرتکلف دعوت کی اوراپنی گاڑی ڈرائیور کے ساتھ مولانا صاحب کے حوالہ کی۔

اسی طرح حضرت نے ختم نبوت کانفرنس لندن میں بھی معرکة الآراء تقریر کی ،مولانا صاحب سیاسی اعتبار سے جمعیة علمائے اسلام سے وابستہ رہے، جمعیة کے ٹکٹ پر متعدد مرتبہ الیکشن میں بھی حصہ لیا اور ختم نبوت کے ہر جلسہ میں دعوت ملنے پر تشریف لے جاتے تھے، کتنے ہی غیر مسلموں کو مسلمان کیا ،سجاول میں جو غیر مسلم بھیل وغیرہ ہیں ان سب کو مسلمان کیا او ران کے لیے ایک مسجد مدرسہ بھی بنا دیا گیا ،اس وقت ان نو مسلموں کے بچے قرآن پاک کے حافظ اور مولوی ہیں۔

مولانا صاحب کی عمر کے آخری دس بارہ سال متعدد بیماریوں میں گذرے ،ایک ایکسیڈنٹ میں آپ کے بازو ،ٹانگوں اور سر پر چوٹیں آئیں اور آپ کا علاج ہوتا رہا ،بعد میں شوگر کی وجہ سے ایک پیر بھی کاٹا گیا ،آخر میں منھ میں کینسر ہو گیا اور آپ وفات پاگئے، آپ نے وفات سے پندرہ دن پہلے سجاول کے مصری شاہ قبرستان میں اپنی قبر کی جگہ کی نشان دہی کی تھی، وہاں آپ کی قبر بنائی گئی، آپ کا جنازہ آپ کے شاگرد مولانا محمد صالح بن مولانا نور محمد نے پڑھایا او رمصری شاہ کے قبرستان میں تدفین ہوئی، آپ کے جنازے میں تقریباً پورا سندھ اور بلوچستان شریک تھا، میں نے اپنی عمر میں ایسا جنازہ نہیں دیکھا، یہاں پر استاد مخالف بھی دھاڑیں مار کر رو رہے تھے، حاصل یہ کہ ایک عظیم استاد، جید عالم، بے باک سیاسی مدبر سے ہم محروم ہو گئے، الله تعالیٰ حضرت مولانا کی مغفرت فرمائے او رہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین!

Flag Counter