Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1435ھ

ہ رسالہ

12 - 15
ذمہ دارانِ مساجد چند اصلاح طلب پہلو

مفتی مجیب الرحمن دیودرگی
	
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کی مسجد میں آمد ورفت رہتی ہو تو تم اس کے ایمان کی گواہی دو۔ (الحدیث )صرف آمدورفت پر ایمانی شہادت کی تعلیم دی گئی ہے،اس سے آگے بڑھ کر اگر کوئی مسجد کی خدمت میں مصروف رہتا ہو تو اس کے کیا فضائل ومناقب ہوں گے؟ کسی کو مسجد کی خدمت نصیب ہوجائے تو یہ ایک بڑی نعمت ہے ، اس پر جس قدر شکر گذاری کی جائے کم ہے۔ کفارِ مکہ بھی مسجد ِ حرام کی تعمیر اور اس کی دیکھ بھال کو اپنے لیے قابلِ فخر تصور کرتے تھے اور جابجا اس کا اظہار ہوتا تھا؛ لیکن قرآنِ کریم نے اس کا رد کیا کہ بغیر ایمان کے صرف تعمیرِمسجد انسانی نجات کے لیے کافی نہیں ، آج ذمہ دارانِ مساجد، مساجد کی دیکھ بھال میں مساجد کی نگرانی سے متعلقہ امور کی انجام دہی میں تندہی کا مظاہرہ تو کرتے ہیں ،لیکن ساتھ ہی کچھ نقائص کچھ خامیاں بھی ہیں، جس کی نشان دہی مقصود ہے، جس کے ازالہ سے ان شاء اللہ یہ خدمت ہمارے لیے نفع سے خالی نہ رہے گی ،ذمہ دارانِ مساجد سے کچھ اوصاف کا مطالبہ ہے ،جن کے اتصاف سے وہ اپنے آپ کو مزید سرخ رو کرسکتے ہیں ۔

امام کا احترام
افضل شخص ہی کو امام بنایا جاتا ہے ، کم از کم قرأتِ قرآن و علم کے اعتبار سے افضل ہو ، امامتِ کبریٰ کے لیے بھی حضرت علی نے امامت صغریٰ ہی کو دلیل بنایا تھا ، شریعتِ مطہرہ میں بھی امام کے کچھ اوصاف بیان کئے گئے ہیں کہ متقی ہو ، صاحبِ ورع ہو، وغیرہ وغیرہ، جب ہم نے اس شخص کو اپنی نمازایسی مہتم بالشان عبادت کے لیے امام تسلیم کر لیا تو پھر اس کے خلاف رکیک جملے ، اس کے روبرو طنزیہ کلمات ، اس کی غیبت کیا معنیٰ رکھتی ہے؟

مساجد کا جائزہ لینے سے بکثرت مشاہدہ ہوتا ہے کہ ائمہ کرام کی ناقدری ایک عام وبا کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، ایک شخص کو امام بھی بنایا جارہاہے اور اس کی ناقدری بھی ہو رہی ہے، امام کی عزت واحترام ایک ذمہ دارِ مسجد کا وطیرہ ہونا چاہیے، تاکہ ذمہ دار سے اور لوگ بھی سبق سیکھیں، اگر کوئی امام، مسجد کے جائز اصولوں کے مطابق خدمت کے لیے آمادہ نہ ہو تو شرافت کے ساتھ اسے علٰحدہ کر دیا جائے ، اب تو بالعموم ائمہ کرام حافظ وعالم ہوتے ہیں ، ان کے ساتھ نازیبا رویہ تو انتہائی مہلک ہے ، صحابہ کرام تو ان افراد کی خدمت میں مصروف ہوتے تھے جو قرآن ِکریم کی تلاوت یا نماز میں مشغول ہوتے ۔

امام ابوداوٴد  نے اپنے مراسیل میں نقل کیا ہے کہ کچھ صحابہ کرام  ایک شخص کی بڑی تعریف کررہے تھے اور یہ کہنے لگے کہ ہم نے ان جیسا آدمی نہیں دیکھا ، جب سفر میں ہوتے تو قرأتِ قرآن میں مصروف ہیں اور جب سواری سے اترتے ہیں نماز میں مصروف ہیں ، تو ان صحابہ کرام  سے کہا گیا کہ اس شخص کا سامان کون اٹھائے گا؟ اس کے جانور کون چرائے گا؟ تو صحابہ کرام نے فرمایا، ہم کریں گے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، تم سب خیر پر ہو۔(حیاةالصحابہ 2/10)

بعض دفعہ ابتدا ء ً امام کی آمد کے ساتھ اعزاز و اکرام کا معاملہ ہوتا ہے، لیکن رفتہ رفتہ امام کی خامیوں کی تلاش شروع ہو جاتی ہے،امام کی غلطیو ں پر نکتہ چینی کی جاتی ہے، مستحبات کے ترک پر نکیر کی جاتی ہے،حالاں کہ یہ نکیر درست نہیں،اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿لا تَجَسَّسُوا﴾ (الحجرات)کسی کی جاسوسی میں مت پڑے رہو۔ کسی کے عیوب پر مطلع ہونے کی کوشش مت کرو۔ آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں ،میں ایک ایسی قوم کو جانتا ہوں جو اپنے سینوں کو پیٹ رہے ہوں گے، جس کے مارنے کی آوازاہل جہنم بھی سنیں گے، ان میں ایک طعنہ زن ہوں گے اور وہ افراد ہوں گے جو لوگوں کے عیوب تلاش کرتے ہیں اور ان کی پردہ دری کرتے ہیں۔(تفسیر کبیر 11/279) ذمہ دارانِ مسجد یہ بات ذہن میں رکھیں کہ امام بھی انسان ہی ہے، کوئی فرشتہ نہیں کہ جو معصوم ہو، اسی لیے معمولی معمولی غلطیوں کو نظر انداز کریں ۔ حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب لاج پوری  فرماتے ہیں :

” فی زمانہ یہ ذمہ داری متولیانِ مسجد اور محلہ و بستی کے بااثر لوگوں کی ہے ، ان کو اس اہم مسئلہ پر توجہ دینا بہت ضروری ہے ،ائمہ مساجدکے ساتھ اعزازو احترام کا معاملہ کریں ، ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھیں، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصبِ امامت کی سخت تو ہین ہے ، یہ بہت ہی اہم دینی منصب ہے، پیشہ ور ملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے، جانبین سے اس عظیم منصب کے احترام ، وقار،عزت،عظمت کی حفاظت ضروری ہے ۔“(فتاویٰ رحیمیہ9/293جدید)

موٴذن کے ساتھ رویہ
حدیث پاک میں آتا ہے ، آپ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزِ محشر لوگوں میں گردن کے اعتبار سے لمبے موٴذن حضرات ہوں گے (الحدیث) ایک اور حدیث میں فضیلت والی چیزوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : اگر پہلی صف اور اذان دینے کی فضیلت کا علم ہوجائے تو آپس میں قرعہ اندازی کی نوبت آجائے گی ۔(الحدیث) ایک جانب موٴذن کی یہ فضیلت ہے ، دوسری جانب ذمہ داروں کا رویہ ہے کہ وہ موٴذنین کے ساتھ آبائی وخاندانی ملازمین کا سا برتاوٴ کرتے ہیں ، انھیں تنخواہ دینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمارے زر خرید غلام ہیں ، اگر اسلامی حکومت ہوتی تو بیت المال ان کا کفیل ہوتا، اب چوں کہ بیت المال کا وجود نہیں، اس لیے عوام ان کی تنخواہوں کی ذ مہ دار ہے ، اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ موٴذن اور امام دونوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں ، ان کے ساتھ حسنِ اخلاق کا معاملہ کریں، غیر اخلاقی رویہ سے کلی اجتناب کریں ۔ کئی موٴذنین اپنے ذمہ داروں کے رویہ سے نالاں رہتے ہیں ،بعض دفعہ ذمہ د اروں کے ہراساں کرنے سے موٴذنین اس عظیم خدمت سے دست بردار ہورہے ہیں ، ذمہ دار موٴذنین کو معاش کی بنا پر تنگ نہ کریں۔

مساجد کی جائیداد واموال کا تحفظ
بہت سے لوگوں نے اپنی جائیدادیں مسجد کے لیے وقف کی ہیں ، اب ان اوقافی جائیدادوں کا تحفظ اربابِ مجاز کے سپرد ہے، کئی مقامات پر مساجد کی جائیدا دپر خود ذمہ دار ہی قابض ہیں ، اور کرایہ بڑھانے کے لیے تیار نہیں، عرف کے خلاف سب سے سستے کرایہ میں خود رہ رہے ہیں اور اگر ابتداءً میں معاہدہ نہیں ہوا ہے، اس کے باوجود قانونی جھول وکمزوری کا سہارا لے کر کرایہ میں اضافہ نہیں کر رہے ہیں ، یہ اپنی قوت اور عہدے کا ناجائز استعمال ہے، کئی مقامات پر مسجد کا مال کہہ کر بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے ، کوئی پرسانِ حال نہیں ، آج مساجد کے نام پر عطیہ دینے والوں کی کمی نہیں، لیکن صحیح اور معتمد افراد کی قلت ہے ، جس کی بنا پر لوگ دینے سے کتراتے ہیں ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ متولی حضرات مساجد کے اموال کی صحیح نگرانی کریں ، صحیح مقام پر کفایت شعاری کے ساتھ خرچ بھی کرنے کا اہتمام کریں۔

مساجد میں شور
مسجد اللہ کا گھر ہے ،کوئی کھیل کود کی جگہ نہیں ،یہ مساجد عبادت وذکر کے لیے ہیں، یہاں دنیوی باتوں سے احتراز ضروری ہے، چیخنا چلّا نا ویسے بھی ناپسندیدہ ہے، قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے گدھے کی آواز کو سب سے بھونڈی آواز شمار کیا ہے اور آواز میں میں پستی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ،آج جب مساجد کے انتظامی معاملات میں مشورے ہوتے ہیں، تو مسجد میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ایسی آوازیں بلند ہو تی ہیں جسے بیان نہیں کیا جاسکتا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے جو قیامت کی علامتیں بیان کی ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مساجدمیں آوازیں بلند ہونے لگیں، آپ خود بھی مسجد میں شور نہ کریں اور دوسروں کو بھی شور کرنے سے روکیں۔

امام رازی  مشہور مفسر ہیں ، انہوں نے سورہٴ توبہ (آیت:18) کی تفسیر کے ضمن میں تعمیر مسجد کے خواہاں افراد کے لیے کم ازکم چار اوصاف سے متصف ہونا ضروری قراردیاہے، کم ازکم یہ چار اوصاف ہر ذمہ دارِ مسجد میں بھی ہونے چاہییں۔ اللہ اور آخرت پر ایمان، نماز کا اہتمام، ادائیگی زکوة کا اہتمام، صرف اور صرف اللہ کا خوف ۔ نماز کا اہتمام کیوں کہ مسجد کی رونق ِتعمیر سے نہیں، مسجد کا مقصد تعمیر نہیں، بلکہ مسجد کا مطلوب نماز اور نمازی ہے ، مسجد کی تعمیر سے زیادہ مسجد کو نمازیوں سے آباد کرنے کی ضرورت ہے، جب مسجدیں ناپختہ تھیں تو نمازی پکے تھے ، اب مسجدیں پختہ ہیں ، رنگ وروغن سے مزین ہیں تو نمازیوں کا وجود نہیں ، اسی لیے ذمہ دارِ مسجد نہ صرف یہ کہ تعمیر کی جانب توجہ دے ؛بلکہ وہ بذاتِ خود بھی نمازوں کا اہتمام کرے اور مسجد کو نمازیوں سے آباد کر نے کی جستجو میں لگا رہے۔

اگر جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ کتنے ذمہ دارانِ مساجد نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں ، اور کتنوں کی صرف ہفتہ وار حاضری ہوتی ہے ، ادائیگی نماز فرض ہے، نگرانی ِ مسجد نفل ہے، فرائض سے غافل ہوکر صرف نوافل کی کثرت یا نوافل میں انہماک کسی کی نجا ت کے لیے کا فی نہیں،یہ نوافل تو رنگ وروغن کے مماثل ہے اور فرائض دیوار کے مماثل ہے ، جب فرائض کی دیوار ہی نہ ہوتو نوافل کے رنگ وروغن سے کسے مزین کیا جائیے گا ؟

فرائضِ اسلام میں ایک فرض زکوٰة بھی ہے ،گویا فرائض ِاسلام کے خوگر شخص کو تعمیر ِمسجد کا اہل قرار دیا گیا ہے ، کیوں کہ جو فرائض پر مداومت کرے گا وہ نوافل کو بھی صحیح ڈھنگ سے انجام دینے کی کوشش کرے گا، جو فرائض ہی سے غافل ہو وہ نوافل میں بدرجہٴ اولیٰ کوتاہ ہوگا ، بعض مساجد کے ذمہ دار زکوة کی ادائیگی سے جی چراتے ہیں ، فرض چھوڑ کر غرباء کا حق دبا کر مسجد کی خدمت سے کیا فائدہ؟ کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھاہے کہ مسجد کی خدمت زکوة کی ادائیگی سے مستغنی کردے گی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان مذکورہ بالا صفات سے متصف افراد کو خدمتِ مسجد کا اہل قرار دیا ہے ۔

چوتھا اہم اور بنیادی وصف معمارِ مسجد کو صرف اور صرف اللہ کا خوف لاحق ہو ، اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف واندیشہ نہ ہو اور یہاں بھی قرآن کریم کا اندازِ بیان کچھ اس طرح ہے کہ نفی اور استثنا کے ذریعہ اسے بیان کیا گیا، جو حصر پر دلالت کرتا ہے ، یعنی صرف اور صرف اللہ ہی کاخوف ہو ، کسی اور کا خوف دامن گیر نہ ہو ، ذمہ دارانِ مسجد کا کوئی کام ریا کاری پر مبنی نہ ہو ، اوروں کے دکھانے کے لیے کوئی کام نہ کیا جائے، اب اگر جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ کتنے ہی اعمال ایسے ہیں جو صر ف اور صرف عوامی خوش نودی کے لیے کئے جاتے ہیں ،جن میں رضائے الٰہی کا شائبہ بھی نہیں ہوتا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے معمارِ مسجد کے لیے خوفِ خدا ضروری قرار دیا ہے ۔

درحقیقت ان چار اوصاف میں مطلوبہ کئی چیزوں کو سمو دیا گیا ہے، نماز کے اہتمام کامطلب یہ ہے کہ وہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں کو تاہ نہ ہو، زکوة کی ادائیگی کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی خاص توجہ دیتا ہو ، یعنی وہ اللہ کا عطا کردہ مال اپنے قبضے میں امانت سمجھ رہا ہے، اگر امانت نہ سمجھتا تو ادائیگی زکوة میں کوتارہتا، جب امانت داری کی اہم صفت اس میں موجود ہے تو مسجد کے اموال کی نگرانی میں بھی وہ امانت و دیانت ہی کا مظاہرہ کرے گا۔ ورنہ خائنین تو اموالِ مسجد میں بے جا تصرف اور غیر شرعی مقامات پراسے خرچ کریں گے، اللہ کے خوف کا یہ مطلب ہوا کہ مسجد سے غیر شرعی امور کے خاتمہ میں کسی ملامت گر کا خوف اسے لاحق نہیں ہوتا، ورنہ جو عوامی خوش نودی کا خواہاں ہو، عوامی رضامندی کا طالب ہو،وہ معصیات سے روکنے کے بجائے عوامی طرف داری میں منکر کا مرتکب خود ہی ہوگا،آج جس طرح کے افراد کو مساجد کا ذمہ دار بنانے کی سعی جاری ہے وہ قابل مذمت ہے ۔ان ذمہ داروں کے اثرات پورے محلے پر مرتب ہوتے ہیں اس لیے نیک، صالح، خوفِ خدا کے حامل پاکباز ا فراد کو مساجدکا ذمہ دار بنایا جائے ،اور مساجد کی کمیٹیوں میں کم از کم ایک حافظ و عالم کو بھی شامل کیا جائے، تاکہ ارباب اختیار وانتظام کی جانب سے ہونے والی کوتاہیوں پروقتا ً فوقتاً متنبہ کیا جاتا رہے ،جن کے مفید مشوروں کو بروئے کار لاکر نظامِ مسجد میں اصلاح لائی جائے۔

سورہٴ توبہ کی مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد تحریر فرماتے ہیں:
”نیز یہ حقیقت بھی واضح کردی کہ خدا پاک کی عبادت گاہ کی تولیت کا حق متقی مسلمان کو پہنچتا ہے اور وہی اسے آباد رکھنے والے ہوسکتے ہیں، یہاں سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ فاسق و فاجر آدمی مساجد کا متولی نہیں ہو سکتا،کیوں کہ دونوں کے درمیان مناسبت باقی نہیں رہتی، بلکہ متضاد باتیں جمع ہو جاتی ہیں، وہ یہ کہ مسجد خدا پرستی کا مقام ہے اور متولی خدا پرستی سے نفور(یعنی خدا پرستی سے منھ موڑنے والا)۔“(ترجمان القرآن بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ9/295)

نیز مفتی عبد الرحیم صاحب لاج پوری  ر قم طراز ہیں:
”متولی اور مہتمم کا عالم باعمل ہونا ضروری ہے، اگر میسر نہ ہو سکے تو صوم و صلاةکا پابند ،امانت دار،مسائلِ وقف سے واقف کار، خوش اخلاق ،رحم دل، منصف مزاج،علم دوست،اہلِ علم کی تعظیم و تکریم کرنے والا ہو ، جس میں یہ اوصاف زیادہ ہوں اس کو متولی اور مہتمم بنانا چاہیے۔“(فتاویٰ رحیمیہ9/293)

نیز ایک اور مقام پر مفتی صاحب  رقم طراز ہیں:
”افسوس فی زمانہ صرف مال داری دیکھی جاتی ہے، اگر چہ وہ بے علم و عمل ہو،نماز و جماعت کا پابند نہ ہو، فاسق ہو، حا لاں کہ مسجد کا متولی حقیقت میں نائبِ خدا شمار ہوگا تو ایسے عظیم منصب کے لیے اس کے شایانِ شان متولی ہونا چاہیے، مگر افسوس ! لائق نالائق، فاسق و فاجر،سب متولی بننے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، حدیث میں ہے کہ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ بڑے بڑے عہدے نا اہلوں کے سپرد کردیے جا ئیں گے اور قوم کا سردار فاسق بنے گا۔“( مشکوٰة: فتاویٰ رحیمیہ9/674)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ذمہ دارانِ مساجد کی اصلاح فرمائے اور اخلاصِ نیت کے ساتھ صحیح طرز پر مساجد کا نظام سنبھالنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین!

Flag Counter