Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1435ھ

ہ رسالہ

1 - 15
سندھ کا ایک نابغہٴ روز گار عالم

مولانا عبید اللہ خالد
	
اداریہ لکھتے ہوئے خیال حضرت مولانا عبدالغفور قاسمی رحمة الله علیہ کی طرف چلا گیا اور پھر قلم اس پر چلنے لگا۔ گزشتہ محرم کی بیس تاریخ کو آپ  انتقال فرما گئے۔

حضرت قاسمی مرحوم ومغفور ایک ہمہ جہت اور متحرک شخصیت کے مالک تھے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور جامعہ فاروقیہ کراچی کے رفقاء سے ان کا خاص قلبی تعلق تھا۔ ان کی باغ وبہار شخصیت احباب کو بہت جلد اپنا گرویدہ بنا لیتی تھی۔سجاول کے ایک معروف خاندان کے چشم وچراغ ہونے کی حیثیت سے انہوں نے سجاول اور اس کے گردونواح کے علاقوں میں جس موثر انداز سے دین کی تبلیغ اوردینی شعور کو اُجاگر کرنے کا کام کیا ،وہ ناقابل فراموش ہے۔

حضرت مولانا عبدالغفور قاسمی کا علمی مقام ہی تھا کہ انہوں نے درس نظامی کی تمام کتابیں پڑھائیں جن میں منطق، فلسفہ ، علم معانی اور فقہ وحدیث سبھی شامل تھیں۔ سبق کے دوران ان کا انداز اپنے طلبہ کی دلچسپی کو برقرار رکھتا تھا۔

حضرت قاسمی کی شخصیت کا ایک پہلو سحر بیان مقرر کی حیثیت سے بھی سامنے ہے ۔حاضرین کے مزاج کا خاص خیال رکھنا اور پھراپنی بات کہنا ایک ”ملکہ“ ہے اور اس پر حضرت قاسمی کو خوب کمال حاصل تھا۔ چناں چہ وہ جب چاہتے ،مجمع کو رلاتے اور جب چاہتے، ہنسا دیتے ۔ چناں چہ طلبہ کے علاوہ عوام بھی آپ کی بات کو توجہ سے سنتے ۔ حتی کہ نوجوان بھی آپ کی گفت گو میں دلچسپی لیتے تھے۔

مدارس کی خدمت اور ترویج حضرت قاسمی کی زندگی کاخاص مقصد تھا اور وہ وفاق المدارس کے رکن کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ یک سوئی کا عالم ہی کہیے کہ فراغت کے بعد نوجوانی میں مدرسہ دارالفیوض ہاشمیہ سجاول سے اپنی تدریس کا آغاز کیا تھا تو اخیر دم تک وہاں سے وابستہ رہے ۔لیکن چاردانگ عالم میں آپ کی خوبیوں کا ڈنکا بجتا تھا۔

حضرت مولانا عبدالغفور قاسمی کی رحلت سے جامعہ فاروقیہ کراچی ایک دیرینہ دوست او رمخلص کرم فرما سے محروم ہو گیا اور بالخصوص اہلیان سندھ اس الله والے کی کمی شاید کبھی پوری نہ کر پائیں۔

Flag Counter