Deobandi Books

ماہنامہ الابرار اپریل 2010

ہ رسالہ

9 - 15
ملفوظات حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
ایف جے،وائی(April 26, 2010)

مرتبہ: سید عشرت جمیل میر

 مندر جہ ذیل ملفوظات کو فیروز میمن صاحب نے ٹیپ سے نقل کیا جن کو احقر نے مرتب کیا۔

(احقر سید عشرت جمیل میر غفر لہ)

 بعد فجر حضرت والا اپنے حجرہ میں چند احباب کے سامنے بیان فرمارہے تھے۔ احقر فیروز بھی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایاکہ اب آئے۔ کیا کہیں کتنا مضمون اہم نکل گیا۔

بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین

پھر ارشاد فرمایا کہ اپنی بیویوں کی ایک لاکھ خطا معاف کرو، اگر اپنی ایک لاکھ معاف کرانی ہے۔ بھئی! سوچئے کہ جب سے ہم بالغ ہوئے ہیں ہم سے کتنی خطائیں ہوئی ہیں، ہم لوگوں سے کتنی نظر خراب ہوئی، کتنے گناہ ہوئے، کس قدر جھوٹ بولے۔ تو اگر اﷲ تعالیٰ سے اپنی لاکھ خطائیں معاف کرانی ہیں تو اپنی بیویوں کی لاکھ خطا معاف کرو۔ ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ میرے گھر میں لڑائی رہتی ہے۔ میں نے کہا کہ میں جو مشورہ دوں گا عمل کروگے؟ انہوں نے کہاکہ ہاں! میں نے کہا کہ دفتر جانے سے پہلے الگ کمرے میں جائو جہاں کوئی دوسرا نہ ہو اور بیوی سے معانقہ کرو، اس کے گالوں کا پیار سے چمہ لو اور پیشانی بھی چومو، پیشانی چومنا سنت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے چومی تھی۔ کبھی یہ سنت بھی ادا کرو۔ بہرحال اگر قیامت کے دن اپنی ایک لاکھ خطائیں معاف کرانی ہیں تو اپنی بیوی کی ایک لاکھ خطائیں معاف کرو۔

حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار اپنے نوکر سے کہا کہ میں تمہیں کتنا معاف کروں؟ تم نے مجھے اتنا ستایا ہے کہ میں بھگتّے بھگتّے عاجز ہوگیا، اب کتنا بھگتوں؟ بھگتنا کے معنیٰ ہیں برداشت کرنا۔ تو حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اے میرے بھتیجے جتنا تجھے اپنا بھگتوانا ہے اتنا بھگت لے۔ آہ! کیا جملہ ہے!

غرض اپنی بیویوں کی ایک لاکھ خطا معاف کرو اور ان کو پیار سے رکھو۔ تو ان صاحب نے جن کے یہاں لڑائی رہتی تھی اور بیوی ناراض رہتی تھی جب میری بتائی ہوئی ترکیب پر عمل کیا اور دفتر جاتے وقت اور آتے وقت اور سوتے وقت اس کو پیار کیا تو ساری لڑائی ختم ہوگئی اور بیوی نے کہا کہ بس اسی بات کی کمی تھی کہ تم مجھے پیار نہیں دیتے تھے۔ بیوی کی پیشانی کا بوسہ لینا اور گال چومنا بھی جائزہے، مکروہ بھی نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں کہ میری بندی کو پیار کررہا ہے۔ خاص کر بڈھا جب کسی بڑھیا کو پیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ جوانی میں تو طبیعت کے تقاضے سے پیار کررہا تھا، اب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے تقاضے سے پیار کررہا ہے۔ دل نہیں چاہتا بڈھے کا کہ بڈھی کو پیار کرے کیونکہ اس کے دانت باہر آگئے، گال پچک گئے اور آنکھ پر پونے گیارہ نمبر کا چشمہ لگ گیا۔ اس لیے میں نے لندن میں کہا تھا کہ اپنی بڈھی بیویوں سے اکیلے میں کمرہ بند کرکے جہاں کوئی اور نہ ہو پیار کرو اور چاہے دل سے نہ کہو، زبان سے کہو تو بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہے کہ اے میری بڑھیا، شکر کی پُڑیا، واہ رے میری گڑیا۔ خصوصاً بڑھاپے میں خوب پیار کرو۔ اگرچہ دل ساتھ نہ دے رہا ہو، پھر بھی اجر ہے، ثواب ہے، ان شاء اللہ۔ اخلاقِ ظاہرہ دکھانا بھی بعض مرتبہ اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ مبارک

ایک شخص آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو آرہا ہے پورے خاندان کا سب سے برا آدمی ہے۔ یہ بہت اہم بات بتا رہا ہوں، یہ بھی دیکھو کہ اس وقت اﷲ تعالیٰ کیا مضمون عطا فرمارہے ہیں، دنیاوی بارش کا تو موسم ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کوئی موسم نہیں جب چاہے برسادیں۔ اس وقت اس کا حکم بتارہا ہوں کہ اگر دل میں بیوی کی محبت نہ ہو تب بھی محبت کا اظہار کرو جس کی آپ کو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے دلیل بھی مل جائے گی۔ تو اس شخص کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! یہ جو شخص آرہا ہے یہ اپنے خاندان کا بدترین انسان ہے، اس کے اخلاق اچھے نہیں ہیں، مگر جب وہ قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آئیے آئیے یعنی شاباشی دی کہ آئو بھئی آئو، بیٹھو، ان کو کچھ کھلاؤ پلائو۔ آپ اس سے اچھے اخلاق سے پیش آئے۔ جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ ابھی تو آپ فرمارہے تھے کہ یہ اپنے خاندان اور قبیلے کا سب سے بُرا آدمی ہے لیکن آپ نے تو ایسا استقبال فرمایا اور خوب اکرام فرمایا، یہ کیا معاملہ ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ مدارات کے لیے پیدا کیا گیا ہوں اور مدارات سکھانے کے لیے پیدا کیا گیا ہوں کہ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤں۔

بُعِثْتُ لِمُدَارَاۃِ النَّاسِ

میں مبعوث کیا گیا ہوں اچھے اخلاق سے پیش آنے کے لیے۔

اب اس میں کیا فائدہ ہے کہ دل تو نہیں چاہتا مگر زبان سے کہتا ہے کہ آئیے آئیے بیٹھئے! اس میں دو فائدے ہیں:

ایک یہ کہ آپ اس کے شر سے بچے رہیں گے، آپ کے دُشمن نہیں بڑھیں گے، وہ آپ کو ستائے گا نہیں۔ وہ سمجھ جائے گا کہ آپ کو اس سے بغض نہیں ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب کسی بستی سے واپس ہوتے تھے تو وہاں کے کافر روتے تھے کہ آہ! یہ برکت والے لوگ ہمیں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ لہٰذا اس طرح رہو کہ کافر بھی آپ کی جدائی سے روئیں۔

دوسرا فائدہ یہ کہ وہ اسلام سے اور ہدایت سے قریب ہوجائے گا، جب آپ دین کی کوئی بات بتائیں گے تو سن لے گا، لیکن اگر آپ نے اس کو کہا کہ نالائق، اُلو کہیں کا، بدتمیز، تو خاندان کا سب سے بُرا آدمی ہے تو کبھی ہدایت قبول کرے گا؟

بعض لوگ ڈاڑھی منڈانے والے کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ کیا کہوں ساری زندگی کے لیے اس کو ڈاڑھی سے محروم کردیتے ہیں۔ ایسے عالم کی زندگی بھی سنت کے خلاف ہے۔

حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاق

ایک ہندو پنڈت کا لڑکا چھت سے گرگیا۔ میرے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ ہسپتال میں اس کو دیکھنے گئے اور فرمایا کہ کافر کی عیادت بھی سنت ہے کیونکہ اس سے وہ اسلام سے قریب ہوجائیں گے کہ مولوی صاحب کو دیکھو ہم جیسے کافر کے بچے کو دیکھنے آئے ہیں۔ ہمارے بڑے بزرگ اخلاق کی بلندیوں کے مینارے تھے۔ سب سے بڑی چیز اصلاحِ اخلاق ہے۔

بیویوں کا ایک حق

لہٰذا دل نہ چاہے پھر بھی بیوی کو پیار کرو، کبھی کوئی جائز فرمائش کرے اس کو پورا کرنا نہ بھولو ورنہ اس کے دل میں یہ ہوگا کہ شوہر کے دل میں ہماری قدر نہیں ورنہ ہماری چائے، بسکٹ وغیرہ کی چھوٹی سی فرمائش ضرور پوری کرتا۔ اس کی فرمائش کو خاص طور سے نوٹ کرو اور جلدی پورا کرو۔ اگر ایک بسکٹ کی فرمائش کرے تو تین پیکٹ لے آئو، وہ کہے گی کہ تین کیوں لے آئے؟ تو کہو کہ ہماری محبت نہیں مانتی۔ تمہاری فرمائش تو ایک کی ہے، مگر ہماری محبت نہیں مانتی، میرا دل چاہتا ہے کہ میں تین ڈبے لائوں۔ آہ! ارے یہی اخلاق پیش کرکے جنت چلے جائو، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ قیامت کے دن تہجد کا نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے تہجد کیوں نہیں پڑھی، یہ پوچھا جائے گا کہ میرے بندوں کے ساتھ تمہارے کیا اخلاق تھے؟

دیکھو! اللہ تعالیٰ نے اپنا حق معاف کردیا لیکن مخلوق کے حق کو زیادہ بڑھایا کیونکہ مخلوق تکلیف محسوس کرتی ہے لیکن ہماری نالائقیوں سے اللہ تعالیٰ کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ حدیثِ پاک کی دعا ہے:

یَا مَنْ لَّا تَضُرُّہُ الذُّنُوْبُ وَلَا تَنْقُصُہُ الْمَغْفِرَۃُفَہَبْ لِیْ مَا لَایَنْقُصُکَ وَاغْفِرْلِیْ مَالَا یَضُرُّکَ

(مناجاتِ مقبول)

اے وہ ذات! اے میرے اللہ! میرے گناہوں سے تجھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور اگر تو ہم کو بخش دے تو تیرے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہوگی، پس تیرا جو خزانہ کم ہونے والا نہیں وہ ہمیں دے دے یعنی تو ہمیں معاف کردے اور ہمیں بخش دے اور ہمارے جن گناہوں سے تجھ کو تکلیف نہیں ہوئی تو انہیں معاف کرنے میں آپ کا کیا بگڑتا ہے، پس آپ اپنی رحمت سے ہم کو معافی دے دیں۔ یہ مضمون حدیث شریف کا ہے۔

مخلوق کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو اگر تم فرض نماز پڑھ رہے ہو اور کوئی اندھا جارہا ہے اور سامنے کوئی گڈھا یا کنواں ہے اور ڈر ہے کہ وہ اس کنوئیں میں گر جائے گا تو تم نماز توڑ دو، میرا حق چھوڑ دو، میری مخلوق کا خیال کرو۔ دیکھا آپ نے یہ ہے اللہ تعالیٰ۔ اللہ اﷲ ہے بھائی! اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ مخلوق کے معاملے میں کبھی ظلم نہ کرو۔

والدین کو ستانے والے کی توبہ کا طریقہ

اگر کبھی کسی کو ستا دیا ہے مثلاً اگر ماں باپ کو ستایا ہے اور ان کا انتقال ہوگیا، اب پچھتاوا ہوا کہ میں نے ماں باپ کو بہت ستایا ہے تو اس کے لیے بھی راستہ موجود ہے۔ روزانہ یٰسین شریف پڑھ کر ثواب بخشو، صدقہ خیرات سے ایصالِ ثواب کرو اور ان کی مغفرت کے لیے دعا بھی کرو، ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اﷲ اس کو فرمانبرداروں میں لکھ دے گا۔

حدیثِ پاک میں اللہ پاک کا وعدہ ہے کہ اگر کسی شخص کے ماں باپ ناراض ہوکر وفات پاگئے اور وہ ساری عمر قرآنِ پاک پڑھ کرایصالِ ثواب کرتا رہے اور کچھ مال بھی مدرسہ وغیرہ میں ان کے نام سے صدقہ جاریہ میں لگادے تو ان شاء اللہ قیامت کے دن فرمانبردار لکھ دیا جائے گا۔ اور اگر ماں باپ زندہ ہیں تو ان کے پیر پکڑ کر معافی مانگو۔ بیوی بھی زندہ ہے تو اس کو الگ کمرے میں بلاکر لپٹ جائو اور کہہ دو کہ ہمیں معاف کرو اور صرف سوکھی معافی مت مانگو۔ ایک عالم سے سب نے لپٹ کر مصافحہ تو کیا مگر کسی نے ایک روپیہ بھی ہدیہ نہ دیا تو اس نے جنوبی افریقہ سے لندن جاکر مولانا ایوب سورتی سے کہا کہ محبت تو خوب کی مگر مصافحہ خشک کیا۔لہٰذا محبت کرو تو کچھ ہدیہ بھی دو اور پیر بھی ہدیہ دے، یہ نہیں کہ ون وے ٹریفک چلائے، پیر کے لیے بھی ضروری ہے کہ کبھی وہ بھی ہدیہ دے، دونوں طرف سے ہدیہ ہے، جن احباب سے بے تکلفی ہو ان سے کبھی ہدیہ مانگنا بھی سنت ہے۔ ایک کنجوس سے کسی نے انگوٹھی مانگی کہ اسے دیکھ کر تمہیں یاد کرلیا کروں گا۔ اس نے کہا کہ میں انگوٹھی نہیں دوں گا، جب اپنی خالی انگلی دیکھو تو یاد کرلینا کہ میںنے انگوٹھی نہیں دی۔

بتائو! میری تقریر میں مزہ آرہا ہے یا نہیں۔ دیکھو! اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ میری تقریر اور مجلس کو اللہ تعالیٰ نے چٹ پٹی مزیدار بنایا ہے، آج تک کسی نے نہیں کہا کہ میرا دل گھبرارہا ہے بلکہ جس کا دل گھبراتا ہے یہاں آکر اس کی گھبراہٹ دور ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا احسان اور کرم ہے۔ اس لیے میں نے اس وقت چند نصیحتیں کی ہیںکہ اپنی بیوی کی ایک لاکھ خطائیں معاف کرو اور غیرت کا نام نہ لو کہ مجھے غیرت آتی ہے کہ بیوی ہوکر ہمیں غلام بنانا چاہتی ہے، لفظ غیرت سے توبہ کرو۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ غیرت تمہاری نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

یَغْلِبْنَ کَرِیْمًا وَیَغْلِبُہُنَّ لَئِیْمٌ فَاُحِبُّ اَنْ اَکُوْنَ کَرِیْمًا مَغْلُوْبًا وَلَا اُحِبُّ اَنْ اَکُوْنَ لَئِیْمًا غَالِبًا

(روح المعانی، ج:۵، صفحہ۱۴)

جو کریم شوہر ہیں، لائق شوہر ہیں اُن پر بیویاں غالب رہتی ہیں اور جو نالائق اور کمینے لوگ ہیں وہ بیویوں پر غالب رہتے ہیں، پس میں محبوب رکھتا ہوں کہ میں کریم رہوں، ان سے مغلوب رہوں، میرے اخلاق خراب نہ ہوں اور اس کو محبوب نہیں رکھتا کہ کمینہ ہوکر ان پر غالب رہوں۔

سن لو! بڑی غیرت غیرت کرتے ہو خاص کر بعض علاقے کے لوگ غیرت کے نام پر بہت ظلم کرتے ہیں، پہلی رات میں بیوی کو بلاقصور مارتے ہیں، کہتے ہیں تاکہ ہمیشہ کے لیے اس پر رعب رہے، کیا کہیں ظلم ہی ظلم ہے۔ ارے محبت ایسی چیز ہے کہ اگر تم پیار سے رکھو گے تو تم پر فدا رہے گی، غلام بنی رہے گی، ہر طرف تعریف کرے گی، اپنے ماں باپ سے بھی کہے گی کہ ہم تو زبان کی کڑوی ہیں، نالائق ہیں مگر آپ کو داماد فرشتہ ملا ہے۔ لہٰذا فرشتے بن کر رہو اور بیوی کی ایک لاکھ خطا معاف کرو، اور قیامت کے دن اپنی معاف کرالو، ان شاء اللہ! اور دل نہ چاہے تو بھی پیار کرو، خاص کر بڑھاپے میں کیونکہ بڑھاپے میں چہرہ خراب ہوجاتا ہے، اس وقت بھی تم پیار کروگے تو اللہ تعالیٰ اس پر ڈبل اجر دے گا کہ اب میرے بندے کا دل نہیں چاہتا، چہرے کا نقشہ بدل گیا، صورت خراب ہوگئی پھر بھی آسمان پر مجھ کو خوش کرنے کے لیے زمین پر مہربانی کررہا ہے۔ جوانی میں تو سب ہی پیار کرتے ہیں، کافر بھی پیار کرتا ہے لیکن بڈھی بیوی کو پیار کرنا اولیاء اللہ کا کام ہے کہ یااللہ! تیری بندی ہے۔ اس کا دل خوش کرنے کے لیے کلیجہ سے لگالیا اور یہ نہیں کہ خشک معانقہ اور خشک مصافحہ کیا بلکہ کبھی سو روپیہ پیش کردیا، اللہ تعالیٰ نے اگر زیادہ دیا ہے تو ایک ہزار کا نوٹ پیش کردیا اور کہا کہ یہ تمہارا ہے جو چاہو خرچ کرو، پوتوں کو دو، نواسوں کو دو، اپنے ماں باپ کو دو، خود کھائو۔ حضرت حکیم الامت نے لکھا ہے کہ بیوی کو وظیفہ دینا اس کا ایک حق ہے۔ اس کا نام ہدیہ ہے۔ کچھ رقم ہر ماہ اس کو دو جس کا اس سے حساب نہ لو کہ ایک ہزار روپیہ دیا تھا، کہاں خرچ کیا؟

ماضی میں بیوی پر ظلم کیا ہو تو اسے لپٹا کر معافی مانگ لو کہ جب سے شادی ہوئی ہے آج تک مجھ سے آپ کو کوئی تکلیف پہنچی ہو تو مجھے معاف کردو، اب ہم آئندہ آپ کو محبت سے رکھیں گے، کبھی نہیں جھڑکیں گے، نہ ڈانٹیں گے۔ ان کا ہر مہینہ ہدیہ مقرر کردو اور اس کا حساب نہ لو۔

غرض جن سے دل نہ چاہے ان کے ساتھ بھی اخلاق سے پیش آئو۔ مخلوق ستائے تو اس کے لیے موت کی تمنا یا بیماری کی تمنا مت کرو، بس یہ کہو کہ اے اللہ! اس کو ہدایت دے دے، اس کے ظلم سے ہم کو نجات دے اور اس کو تلافی کی توفیق دے دے۔

ارے دوستو! قدر کرلو ایک دن اختر بھی قبر میں جانے والا ہے، یہ باتیں اللہ کی رحمت کے صدقے میں ہیں، ہماری اپنی کمائی اور مطالعہ نہیں ہے۔ بزرگوں کی صحبت اُٹھانے کے صدقہ میں اللہ تعالیٰ وقت پر میرے دل پر مضامین عطا فرماتا ہے۔ آج اس زمانے میں روئے زمین پر اتنی صحبت اُٹھانے والا آپ کو نہیں ملے گا۔ ہر عالم اور ہر دینی مربی سے جاکر پوچھو کہ تم شیخ کے ساتھ کتنا رہے تو ان شاء اللہ میرا عرصۃٔ صحبت بڑھ جائے گا۔ دس برس تو میں اپنے شیخ کے ساتھ جنگل میں رہا اور سات برس اپنے مدرسہ کا ملاکر سترہ سال ہوئے اور تین سال یہاں، تین برس مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ، رات دن روزانہ بلاناغہ ان کی صحبت میں جاتا تھا۔

اور مولانا شاہ محمد احمد صاحب اتنے بڑے شیخ تھے کہ میرے شیخ مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم نے ان کو اپنا پیر بنایا ہوا تھا۔ اور میرے شیخِ اوّل شاہ حضرت عبدالغنی پھولپوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکان پر گئے اور حضرت نے وہاں کی زمین اور آسمان کو دیکھا اور فرمایا کہ مولانا محمد احمد صاحب کا نور میں زمین سے آسمان تک دیکھ رہا ہوں، اتنا بڑا شخص اور حکیم الامت کا خلیفہ مولانا شاہ محمد احمد صاحب کے بارے یہ کہہ رہا ہے، تو مولانا شاہ محمد احمد صاحب کے ساتھ میں تین سال رہا۔

میں فخر نہیں کررہا ہوں، میں حق تعالیٰ کی رحمت کا شکریہ ادا کررہا ہوں کہ اختر ان بزرگوں کے پاس نہیں جاسکتا تھا، اگر آپ توفیق نہ دیتے کیونکہ میری بالکل جوانی کا آغاز تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اولیاء اللہ کی گود میں، اللہ والوں کی گود میں ڈال دیا۔ میں ان کے اولیاء اللہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن اُمت مسلمہ ان کو ولی اللہ سمجھتی ہے اور میں بھی ان کے بارے میں یہی نیک گمان رکھتا ہوں اور ان کے آثار اور علامات بھی ایسے ہی تھے کہ دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ اﷲ والے ہیں۔

حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب کی مجلس ہورہی تھی، دیوبند کے صدر مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ بھی مجلس میں موجود تھے کہ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب تقریر کرتے کرتے تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئے۔ حضرت مفتی صاحب نے جھک کر مولانا کے چہرہ کی طرف دیکھا اور میرے کان میں فرمایا کہ اب مولانا یہا ںنہیں ہیں یعنی زمین پر نہیں ہیں۔ یہ وہ اﷲ والے ہیں کہ ذرا سی دیر میں فرش سے عرش پر پہنچ جاتے ہیںتو مفتی صاحب نے فرمایا کہ اب مولانا یہاں نہیں ہیں۔ الحمدللہ! ایسے ایسے بزرگوں کی اللہ نے زیارت نصیب فرمائی۔ انہی کے صدقے میں یہ مضمون بیان ہورہا ہے، آپ کا دل فیصلہ کرے گا کہ یہ باتیں آپ کو کم ملیں گی، ہم نایاب نہیں کہتے کمیاب کہتے ہیں، نایاب کہنا جائز نہیں ہے کیونکہ دعویٰ ہوجائے گا، ہوسکتا ہے اﷲ کا کوئی بندہ چھپا ہوا ہو لیکن مختلف خانقاہوں میں بیٹھ کر پھر میری بات سنو پھر آپ کو قدر معلوم ہوگی۔

(جاری ہے)
Flag Counter