Deobandi Books

ماہنامہ الابرار اپریل 2010

ہ رسالہ

12 - 15
صراطِ مستقیم
ایف جے،وائی(April 26, 2010)

ملفوظات حضرت پھولپوریؒ مرتب شیخ العرب والعجم عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
(گذشتہ سے پیوستہ)

متقی عالم سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان سے کبھی کوئی معصیت ہی صادر نہیں ہوتی بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ معصیت پر اصرار نہیں کرتا ہے۔ اگر احیاناً کوئی خطا ہوگئی تو فوراً سجدہ میں گریہ و زاری اور استغفار میں لگ جاتا ہے۔ جس گناہ پر سچے دل سے بندہ توبہ کرلے اور آئندہ کے لیے حق تعالیٰ سے پختہ عہد کرلے کہ اب پھر یہ گناہ نہ کروں گا لیکن اس کے بعد اگر نفس کے غلبے سے گناہ پھر صادر ہوگیا تو پہلی توبہ بیکار نہیں ہوتی ہے اور نہ یہ اصرار کرنے والوں میں سے ہے البتہ اس دوسری بار کے گناہ کا وبال اس کی گردن پر رہے گا مگر یہ کہ وہ پختہ ارادے کے ساتھ پھر توبہ کرلے کہ اے اﷲ نفس اور شیطان نے مجھے پہلی توبہ سے پھسلادیا آپ اپنی رحمت سے معاف فرمادیجئے اور خوب گریہ و زاری اور ندامت سے استغفار کرکے پھر کام میں لگ جاوے۔ اسی طرح اگر سوبار بھی توبہ ٹوٹتی رہے تو ہمت نہ ہارے۔ ہمارے خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎

نہ چت کرسکے نفس کے پہلواںکو

تو یوں ہاتھ پائوں بھی ڈھیلے نہ ڈالے

ارے اس سے کشتی تو ہے عمر بھر کی

کبھی وہ دبالے کبھی تو دبالے

اس طرح ہمت سے کام میں لگے رہنے سے ایک دن ایسا بھی آوے گا کہ حق تعالیٰ کو رحم آوے گا کہ یہ بندہ اپنی طرف سے گرتا پڑتا راستہ قطع کررہا ہے، یہ ضعیف اور عاجز ہے میں قوی اور غالب القدرۃ ہوں۔ پس حق تعالیٰ اس بندے کا ہاتھ پکڑ کر اس کو کھینچ لیتے ہیں یعنی اپنی مدد خاص سے اس کو اپنا بنالیتے ہیں اور جب ان کی مدد شامل حال ہوجاتی ہے تو نفس اور شیطان کے تمام دائوں پیچ بے اثر ہوجائے ہیں۔ چھوٹے بچے کو پہلے خود چلا کر دیکھتے ہیں کیونکہ بچوں کا لڑکھڑاتے ہوئے چلنا ماں باپ کو بھلا معلوم ہوتا ہے لیکن جب بچہ تھک جاتا ہے تو ماں باپ دوڑ کر گود میں لے لیتے ہیں۔ والدین کی محبت اور شفقت جو حق تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی ہے جب اس میں یہ اثر ہے تو ؎

جرعہ خاک آمیز چوں مجنوں کند

صاف گر باشد ندانم چوں کند

حق تعالیٰ کی رحمت کا کیا حال ہوگا۔ مولانا رومیؒ حق تعالیٰ کی طرف سے حکایۃً فرماتے ہیں ؎

مادراں را مہر من آموختم

چوں بود شمعے کہ من افروختم

مائوں کو اولاد سے محبت کرنا میں نے ہی سکھایا ہے اور وہ شمع کیسی ہوگی جسے میں نے روشن کیا ہوگا۔ حق تعالیٰ ہماری طرف سے چند دن مجاہدہ اور کوشش دیکھنا چاہتے ہیں پھر اس کے بعد تو وہ خود ہی اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ اپنی عنایت و کرم کے لیے بندوں کی طرف سے کوشش کو شرط ٹھہرا دیا ہے والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو بندے ہماری راہ میں کوششیں کرتے ہیں ہم ان کے لیے اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔

مگر یہ کوشش اپنی رائے سے نہ ہو کسی کامل کی اتباع کے ساتھ ہو صراط الذین انعمت علیہم راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے۔ دین کا راستہ کسی صاحب انعام سے ملے گا اور صاحب انعام سے مراد کی تفصیل کرچکا ہوں۔

منعم علیہم بندوں کو حق تعالیٰ نے ایسے خطابات عطا فرمائے ہیں جن کے اندر ان کے انعامات کی تصریح بھی مندرج ہے، نبیین کا خطاب انعام نبوت کو صدیقین کا خطاب انعام صدیقیت کو شہداء کا خطاب انعام شہادت کو صالحین کا خطاب انعام صلاحیت کو ،ہر خطاب اپنے اندر اپنے انعام کو بھی لیے ہوئے ہے۔ انہیں بندوں کے تعلق سے سیدھا راستہ ملے گا۔ جج اکبر الہ آبادی مرحوم نے خوب کہا ہے ؎

نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا

دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

اﷲ والوں کی پہچان کا سہل طریقہ ہمارے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ فرمایا تھا کہ جس بندے کی طرف تم دیکھو کہ خواص امت متوجہ ہیں اس کو تم بھی اپنا مقتدا بنالو۔ عوام کی بھیڑ کو معیار نہ بنانا چاہیے، سو اندھے اگر کسی کے پاس معتقدا نہ بیٹھے ہیں تو یہ بھیڑ اس کی مقبولیت اور ولایت کی علامت نہ ہوگی لیکن اگر امت کے چند خواص یعنی علماء متقین صالحین اس کو اپنا بڑا سمجھتے ہیں تو یہ معیار اپنی جگہ پر بے شک معیار ہے۔

صراط الذین انعمت علیہم کے بعد حق تعالیٰ شانہ نے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فرمایا ہے یعنی جس طرح صراط مستقیم حاصل کرنے کے لیے انعام یافتہ بندوں کی اتباع ضروری ہے اسی طرح مغضوبین اور ضالین بندوں کی اتباع سے پرہیز بھی ضروری ہے۔ صراط الذین انعمت علیہم میں جلب منفعت یعنی حصول نفع دین کا طریقہ ارشاد فرمایا گیا ہے اور غیر المغضوب علیہم ولاالضالین میں دفع مضرت کا یعنی دین کو نقصان پہنچانے والے اسباب کے دفاع کا طریقہ ارشاد فرمایا گیا ہے۔ حق تعالیٰ شانہ نے صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولاالضالین کے اندر اجمالی طور پر پورا دین رکھ دیا ہے۔ سورۂ فاتحہ کو اسی لیے ام القرآن بھی کہتے ہیں یعنی قرآن کی ماں جس طرح ماں اپنے بچے کو پیٹ میں لئے رہتی ہے اسی طرح سورۂ فاتحہ سارا قرآن اپنے اندر لیے ہوئے ہے کیونکہ سارے قرآن میں یا تو منعم علیہم کا تذکرہ ہے یا مغضوبین اور ضالین کا تذکرہ ہے۔ سورۂ فاتحہ اجمال ہے اور قرآن اسی اجمال کی تفصیل ہے۔

غیر المغضوب علیہم ولاالضالین میں لفظ غیر فرماکر بتادیا کہ ان کا راستہ غیر صراط مستقیم ہے، نہ یہ میرے ہیں نہ ان کا راستہ میرا ہے، یہ غیر ہیں ان کا راستہ بھی غیر ہے۔ ان کے غیر ہونے کی علامت یہ ہے کہ ان پر میرے غضب کے آثار ہیں اور ان کا چال چلن ان کی گمراہی کا پتہ دیتا ہے۔ قرآن کا عجیب اعجاز ہے، جس طرح انعام والے بندوں کے خطابات اپنے اندر انعامات لیے ہوئے ہیں اسی طرح مغضوبین اور ضالین کے عنوانات عتاب اپنے اندر سزا اور عتاب بھی لیے ہوئے ہیں۔

نبوت اور رسالت کا انعام تو ختم ہوچکا ہے مگر اتباع سنت سید المرسلین صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیض سے صدیقیت اور شہادت اور صلاحیت کے انعام کا دروازہ قیامت تک کے لیے کھلا ہوا ہے۔

ہنوز آں ابر رحمت درفشان است

خم و خمخانہ بامہر و نشان است

ایک سوال اس مقام پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ سورۂ فاتحہ میں حق تعالیٰ نے منعم علیہم کا ذکر مغضوبین اور ضالین سے پہلے فرمایا ہے حالانکہ دفع مضرت کو جلب منفعت پر مقدم رکھا جاتاہے۔ اس اشکال کاجواب یہ ہے کہ مغضوبین اور ضالین کے اوپر جو غضب اور ضلالت کے آثار ہیں ان کی شناخت اور ان کی مضرت کا احساس موقوف ہے کسی منعم علیہم کی صحبت اٹھانے پر۔ کفر اور شرک اور فسق کا قبیح ہونا نیک بندوں کی صحبت کے فیض ہی سے معلوم ہوتا ہے۔ جو کیڑا ہمیشہ نابدان میں پلا ہو اسے کیا خبر کہ باہر کیا ہے، اس کو نابدان کا گندا پانی ہی آب خوشتر اور آب حیات معلوم ہوتا ہے۔ پس کفر و شرک اور فسق کے ماحول میں پرورش پایا ہوا انسان جب تک کسی مقبول بندے کی صحبت میں نہ بیٹھے گا اسے کیسے معلوم ہوگا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ اسی کو حضرت عارف فرماتے ہیں ؎

کے دہد زندانی در اقتناص

مرد زندانی دیگر راخلاص

جو خود علایق دنیویہ میں مبتلا ہو تو وہ دنیا کا شکار کردہ شخص دوسرے قیدی کو کب خلاصی دلا سکتا ہے۔

جز مگر نادر یکے فردانئے

تن بزنداں روح او کیوانئے

مگر وہ نادر مقدس ذات جس کی روح میں حق تعالیٰ کے ساتھ ایک قوی رابطہ خاص قائم ہو اس کا جسم تو دنیا میں چلتا پھرتا ہو لیکن اس کی روح عالم قدس سے رابطہ رکھتی ہو ایسا شخص جب اﷲ کی طرف پکارتا ہے تو اس کے کلام میں استحضار عظمتِ حق اور استحضار معیتِ حق کے انوار ہوتے ہیں جو دوسروں پر بدون اثر کئے نہیں رہتے ؎

شیخ نورانی زرہ آگہہ کند

نور را بالفظہا ہمرہ کند

مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ وہ نورانی مقبول بندہ جس کی صحبت میں تم بیٹھو گے وہ تمہیں حق تعالیٰ کے راستے سے آگاہ کرے گا اور اپنے قلب کے انوار کو اپنے الفاظ کے ہمراہ کرکے تمہارے دلوں میں پہنچا دے گا۔

اسی لئے حق تعالیٰ نے منعم علیہم بندوں کو مغضوبین اور ضالین سے پہلے ذکر فرمادیا تاکہ ان مقبول بندوں کے انوار میں مغضوبین اور ضالین کی ظلمتوں کا ادراک اور شعور ہوجاوے۔ ظلمت کی معرفت موقوف ہے روشنی پر تعرف الاشیاء باضدادہا ہر شے اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اس وجہ سے موقوف علیہ کو مقدم فرمادیا گیا۔ نیز مقصود اصل میں نفع ہوتا ہے دفع مضرت اس مقصود کے بقا کا ذریعہ ہوتا ہے۔ نسخے میں پہلے پرہیز نہیں لکھتے ہیں۔ اوَّلاً مفید دوائوں کو لکھتے ہیں پھر مضر غذائوں سے پرہیز لکھ دیتے ہیں۔
(جاری ہے۔)
Flag Counter