Deobandi Books

ماہنامہ الابرار اپریل 2010

ہ رسالہ

11 - 15
اصلاحی خطوط اور ان کے جوابات
ایف جے،وائی(April 26, 2010)

عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

جنوبی افریقہ سے حضرت کے ایک مُجاز عربی کے پروفیسر کا اصلاحی خط

حال: عرصہ سے ایک الجھن میں گرفتار ہوں اس الجھن سے نجات کا خواستگار ہوں۔ اکثر کوئی ایسا کام جو شرعاً ناپسندیدہ ہو (حرام نہیں) اگر اس پر عمل کا خیال بھی آئے تو تصور میں حضرت والا کا خیال آجاتا ہے کہ حضرت کو یہ کام پسند نہیں ہے اور اگر حضرت کو اس کی خبر ہوگی تو حضرت کو پسند نہیں آئے گا اور شاید تکلیف ہوگی۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایسے موقع پر بجائے اﷲ تعالیٰ کے حضرت کا خیال آتا ہے اور تصور میں حضرت کی شبیہ آتی ہے۔ خیال تو اﷲ تعالیٰ کی ناپسندیدگی کا آنا چاہیے۔ اگر حضرت کا خیال آئے تو کیا اس میں کوئی حرج ہے؟

جواب: کوئی حرج نہیں۔ حکیم الامت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ تعلق فی اﷲ والے کی رضا کا قصد اﷲ ہی کی رضا کا قصد ہے او وہ عین اخلاص ہے مثلاً شیخ کے خوش کرنے کے لیے تہجد پڑھنا خلاف اخلاص نہیں (کمالات اشرفیہ ص ۹۷) اور ایک صحابی تلاوت کررہے تھے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری تلاوت سن رہا تھا تو صحابی نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ سن رہے ہیں تو میں اور سنوار کر پڑھتا۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی نکیر نہیں فرمائی۔ اگر یہ صحیح نہ ہوتا تو آپ نکیر فرماتے کہ میری رضا کا قصد کیوں کرتے ہو۔

حال: گذشتہ سال ندوۃ العلماء میں میری ایک تقریر والد ماجدؒ کے مولانا شبلی اور حضرت مولانا تھانویؒ سے تعلقات کی نوعیت پر ہوئی تھی۔ ماہنامہ … … لکھنؤ والوں نے اس کو مختصر کرکے شائع کردیا ہے۔ اس مضمون کی کاپی حضرت والا کے لیے بھیج رہا ہوں۔ اگر کسی اصلاح کی ضرورت ہو تو مطلع فرمادیں۔

جواب: پڑھ کر مطلع کروں گا۔

…………………

دوسری شادی کے متعلق سوال اور حضرت والا کا مشورہ

حال: حضرت ایک بہت بڑی بات ہے وہ یہ کہ ایک بیوی ۳؍ بچوں کے ہوتے ہوئے سیرابی نہیں ہے۔ ایک اور بیوی کی سالوں سے چاہت ہے۔ اس کی گنجائش مکان، خرچہ تو الحمدﷲ موجود ہے فی الحال مگر لوگ بہت برا سمجھتے ہیں۔ بیوی بھی ایسی بات برداشت نہیں کرتی، بلکہ بعض جملے خلاف شرع بول دیتی ہے۔ اور بعض دفعہ دل میں اتنا زور پڑتا ہے لگتا ہے کہ اﷲ کا الہام ہے کہ اس رسم کو میں توڑوں اور دوسری شادی کروں، کسی یتیم یا بیوہ کا سہارا بنوں۔ مگر خوبصورت بچوں اور محبوب بیوی کے جدا ہوجانے کا اندیشہ ہے، پھر دل میں آتا رہتا ہے کہ پیارے بچوں یا پیاری بیوی کی جدائی سے ڈر کر اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ نہیں کرتا۔

دل میں اﷲ کے ذکر سے الحمدﷲ کوئی عورت سمائی ہوئی نہیں رہی، سب ہونا نہ ہونا، مرنا، جینا، بھوکا، پیاسا رہنا، سیرابی، برابر ہوچکا ہے مگر وہ تقاضا بہت سخت ہوتا ہے ذکر کرنے سے ٹلتا نہیں، عصر تا مغرب ذکر میں رہتا ہوں جیسے مچھلی پانی میں، معمولات بدستور بفضلہٖ جاری ہیں۔

جواب: دوسری شادی کے متعلق جو آپ نے لکھا ہے کہ لگتا ہے یہ اﷲ کا الہام ہے تو آپ کا خیال غلط ہے یہ الہام شیطانی ہے۔ غالباً آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سنت پر عمل کرنا عام سنتوں کی طرح مستحب ہے، لیکن اس سنت پر عمل مقید ہے ایک بہت سخت شرط کے ساتھ فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ (پس اگر تم کو غالب احتمال ہو کہ کئی بیویاں کرکے عدل نہ رکھ سکو گے بلکہ کسی بیوی کے حقوق واجبہ ضائع ہوںگے تو پھر ایک ہی بیوی پر بس کرو، (بیان القرآن) اس زمانے میں ایک ہی بیوی کے حقوق ادا نہیں ہوپاتے چہ جائیکہ دوسری بیوی کے بھی ادا ہوں۔ یہ صحابہ ہی کا ایمان تھا جو چار چار بیویوں میں عدل اور برابری کرسکتے تھے ہم لوگوں میں اب نفس ہی نفس ہے، جس میں حسن زیادہ ہوگا اس کے ساتھ کم حسین کے حقوق میں عدل کرنا آسان نہیں۔ اندیشہ ہے کہ آخرت میں گردن نپ جائے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے دوشادیاں کی تھیں۔ کسی نے حضرت سے عرض کیا کہ آپ نے دو شادیاں کرکے مریدوں کے لیے دو شادیوں کا دروازہ کھول دیا فرمایا کہ نہیں، میں نے دروازہ بند کردیا۔ دیکھو یہاں دروازہ پر ترازو لٹکی ہوئی ہے کوئی پھل آتا ہے تو یہ نہیں کہ ترازو میں صرف ہم وزن کرکے دونوں بیویوں کو دوں بلکہ مثلاً اگر دو تربوز ایک ہی وزن کے آئے تو ہر تربوز کو کاٹ کر آدھا آدھا کرکے دیتا ہوں کیونکہ اگر آدھا نہ کروں تو ڈر ہے کہ ایک کے پاس میٹھا چلا جائے اور دوسری کے پاس کم میٹھا جو خلاف عدل ہے، اسی طرح اگر کپڑا دینا ہو تو دونوں کو بالکل ایک طرح کا دیتا ہوں اور کسی بیوی ک پاس اگر چھ گھنٹہ رہا ہوں تو دوسری کی باری پر چھ گھنٹہ گھڑی دیکھ کر اس کے پاس رہتا ہوں وغیرہ۔ اتنا عدل کوئی کرسکتا ہے؟ اس عدل کے باوجود فرمایا کہ دوشادیاں کرنا آسان نہیں، دو شادیاں اتنی مشکل محسوس ہوئیں کہ بعض وقت خود کشی کا وسوسہ آگیا۔

آپ نے جو لکھا ہے کہ دوسری شادی سے بیوی بچوں کے جدا ہونے کا اندیشہ ہے تو صرف اندیشہ نہیں اس زمانے میں یہ جدائی یقینی ہے، زندگی تلخ ہوجائے گی، ہمارے سامنے بہت سے واقعات ہیں کہ جن بیویوں نے خوشی سے اجازت بھی دی شادی کے بعد اپنی اولاد کے ساتھ شوہر کے خلاف محاذ قائم کردیا۔

اگر بقول آپ کے دل میں کوئی عورت سمائی ہوئی نہیں ہے ہونا نہ ہونا برابر ہے تو دوسری بیوی کی چاہت کا اتنا سخت تقاضا کیوں؟ نفس سے ہوشیار رہیں، اس کے کید بہت باریک ہوتے ہیں۔

…………………

عشق مجاز سے توبہ کرنے والے کا عاشقانہ خط اور حضرت کا جواب

حال: پیران پیر عارف باﷲ حکیم الامت حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم، السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ۔

جان من جانان من سلطان من

اے توئی اسلام من ایمان من

حضرت والا! امید ہے کہ آپ خیر و عافیت سے ہوں گے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ آپ کی عمر ۱۲۰؍سال تک سلامت رکھے اور صحت میں صحابہ کرام جیسی طاقت عنایت فرمائیں، آمین۔

تقریباً دس یا ساڑھے دس بجے دن کے وقت میں حضرت والا کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ میں بلوچستان سے آپ کے دیدار و بیعت ہونے کی نیت سے حاضر ہوا تھا۔ میرے ہمراہ میرے دو دوست بھی تھے ہم سب کی ایک ہی نیت تھی جب ہم خانقاہ حاضر ہوئے تو محترم ……بھائی کے پاس گئے۔ ان سے ہم نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ تو انہوں نے بتایا کہ حضرت والا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے وہ اس وقت آرام فرمارہے ہیں ابھی آپ لوگ مجلس میں تشریف لے جائیں۔ ہم مجلس میں چلے گئے جہاں ایک حضرت بیان فرمارہے تھے۔ ہم نے بھی بیان سنا ان کے بیان سے مشک اختر دامت برکاتہم کی خوشبو آرہی تھی۔ بیان ختم ہونے کے بعد ہم نے دیکھا کہ کچھ حضرات ان میں سے باہر آئے۔ تو ہم بھی باہر نکلے تو دیکھا کہ آپ کے کمرے کا دروازہ کھلا اور آپ کے عاشقین، مشتاقین باہر کھڑکی سے آپ کی دید کی مئے پی رہے تھے۔ میں بھی ان میں شامل ہوا کہ آنکھوں کے ذریعے آپ کی دید کا عرق بید مشک آسمانی پی لیں۔

آپ نے اک نگاہ کیا ڈالی

رنگ ہستی میرا نکھار دیا

اس وقت میں نے اپنی آنکھوں کے ذریعے اپنے دل کا آپ کو پیغام دیا ؎

ساقیا جام الفت پلادے

میری اصلاح کی بھی دعا دے

میرے مولا سے مجھ کو ملا دے

اور گناہوں کو مجھ سے چھڑا دے

کسی نے کیا خوب کہا ہے سلوا العارفین فان عجائبہم لا تفنی

حضرت والا! اس وقت میں آپ کو کھڑکی سے دیکھ کر رو رہا تھا کہ بھائی… کی مجھ پر نظر پڑی تو انہوں نے اپنے پاس بلایا اور بتایا کہ کچھ دیر بعد آپ حضرات کو حضرت والا سے ملاقات کرائیں گے لیکن آپ لوگوں نے وہاں کچھ بولنا نہیں کیونکہ حضرت والا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ پھر ہمیں آپ عارف باﷲ کے کمرہ مبارک میں آنے کا کہا گیا ہم اور ہمارے ساتھ خانقاہ کے دیگر حضرات آپ کے کمرہ مبارک میں داخل ہوئے۔

اے سوختہ جاں پھونک دیا کیا مرے دل میں

ہے شعلہ زن اِک آگ کا دریا مرے دل میں

اور تقریباً ۵؍منٹ بیٹھنے کے بعد کسی نے ہم سب کو باہر جانے کا کہا۔ اس ۵؍منٹ والی نعمت پر بھی اﷲ کا شکر ادا کرکے ہم خانقاہ سے باہر نکلے تو دیکھا کہ بھائی…… ہمیں آواز دے رہے تھے۔ ہم پھر خانقاہ حاضر ہوئے تو بھائی …… نے میرے دوستوں کو بتایا کہ حضرت والا نے آپ لوگوں کے لیے یہ ٹوپیاں دی ہیں اور انہوں نے اپنے مبارک ہاتھوں سے ٹوپیاں میرے دوستوں کو پہنا دیں کیونکہ وہ ننگے سر تھے اور مجھے بھی ایک دی جو کہ میں نے سنبھال کے رکھا ہوا ہے اور جمعہ کی نماز میں اسی ٹوپی سے ادا کرتا ہوں۔ اور آپ کی نصیحت بھی میرے دوستوں کو بتایا کہ حضرت والا نے نصیحت کی ہے کہ ڈاڑھی سنت کے مطابق رکھ لو۔ ہم تین دوستوں میں، میں وہ تھا جس کی ڈاڑھی بھی تھی اور سر پر ٹوپی بھی۔ ہمیں پھر آپ کی خدمت عالیہ میں آنے کا موقع ملا۔ بس یہ اﷲ کا کرم تھا ورنہ ہم اس قابل کہاں ؎

سب کی نظروں میں ہو ساقی یہ ضروری ہے مگر

سب پہ ساقی کی نظر ہو یہ ضروری تو نہیں۔

جواب: آپ کی محبت سے بہت دل خوش ہوا۔

حال:حضرت والا! میری زندگی کے گولڈن ڈیز (Golden Days) میری زندگی کا بہترین حصہ دنیاوی تعلیم حاصل کرنے اور عشق مجازی میں گزر گیا۔ آٹھویں جماعت سے ہی ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوا یہ بات یہ قصہ پھر عرض کروں گا یہاں مقصد کچھ اور ہے صرف اپنے عشق مجازی میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ناراض ہونے کا ذکر کروںگا کہ مجھ بدبخت کو آپ کی دعا اور صحبت کی ضرورت ہے۔

جواب: یہ لفظ نہ لکھیں مومن بدبخت نہیں ہوتا۔

حال: حضرت والا! پچھلے تقریباً گیارہ سالوں سے وکالت کے شعبے سے وابستہ ہوں چند سال پہلے میں اتفاقاً تبلیغ پر چلہ رائے ونڈ جانے کا اتفاق ہوا تو دوران تشکیل ایک دوست کے ساتھ آپ کے مواعظ حسنہ تھے۔ انہوں نے پڑھنے کو دیئے جن کا میں نے مطالعہ کیا۔ اور اس کے بعد حضرت والا کی تمام تصانیف، مواعظ، سی ڈی، کیسٹیں میری لائبریری کا حصہ ہیں جن کے بغیر میں نامکمل ہوں، آپ کی تقاریر سننے سے قبل حضرت مولانا ……صاحب کی تقاریر سنتا تھا۔ لیکن جب سے آپ کو سنا کسی دیگر اﷲ والے کی تقریر میں مزہ نہیں آتا۔ آپ کی باتوں میں ایسی مقناطیسی کشش ہے کہ تقریر سننے کے دوران ہی سننے والا خود کو بھی ولی اﷲ کے گروہ میںشامل دیکھتا ہے۔ اور آپ کی تمام تصانیف و مواعظ حسنہ کا مطالعہ کرتا ہوں وہ ایک طرح کے میری خواراک ہیں جب تک روزانہ آپ کی کوئی تصنیف نہ پڑھوں بے چین رہتا ہوں، اور جس کا اثر یہ ہوا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے دینی شوق بڑھتا گیا حرام اور حلال میں تمیز ہوا۔ اور اس طرح مجھے وکالت کے شعبہ سے نفرت ہوئی۔

جواب: الحمدﷲ تعالیٰ۔ احقر کے مضامین سے نفع ہونا کمال مناسبت کی دلیل ہے۔

حال:اب شاید چار مہینے بعد مزدوری کے لیے لیبیا جائوں۔ مزہ کی بات یہ ہے کہ جب سے آپ کی تصانیف وغیر کا مطالعہ شروع کیا ہے میں اپنے قانون کی کتابیں کم اور آپ کی کتب کا زیادہ مطالعہ کرتا ہوں۔

جواب: وکالت میں پہلے اگر ناجائز پیروی کی ہے اور کسی کا حق آپ کی پیروی کی وجہ سے مارا گیا تو آپ کے ذمہ اس کی تلافی واجب ہے یا تو اس کا حق ادا کریں یا اس سے معاف کرائیں۔

حال:حضرت والا! کتب بینی بہت کی اب قطب بینی کرنا چاہتا ہوں۔آپ کے بیانات پڑھنے اور سننے کا اثر مجھ پر یہ ہوا کہ میں کلین شیو سے ڈاڑھی ولا بن گیا۔ ٹی وی اپنے گھر سے نکال دیا اور ڈش جیسی لعنتوں کو ختم کیا۔

جواب: الحمدﷲ تعالیٰ۔ بہت دل خوش ہوا۔

حال:میں شوقیہ انگلش گانے سنتا تھا جس کے لیے میں جاپان سے اوریجنل کیسٹیں منگوا کر ریکارڈنگ کرواتا تھا آج ان تمام کیسٹوں پر آپ کے بیانات ریکارڈ کرائے ہیں۔

جواب: الحمدﷲ تعالیٰ۔

حال:اور بدنظری نہ کرنے سے اﷲ کا قرب حاصل ہوتا ہے یہ بھی آپ ہی سے معلوم ہوا حالانکہ میں نے تبلیغی جماعت کے ساتھ چلہ بھی لگایا اور رائیونڈ میں صبح و شام بزرگ حضرات کی تقاریر سنیں۔ مگر کسی نے ایک دن بھی اس Topicپر بات نہ کی۔ اس موضوع پر صرف آپ کو خاص پایا۔

جواب: اﷲ کا شکر ہے۔

حال:حضرت والا! پانچ سال سے میں نے آپ کو اپنا مربی مانا ہے۔ اور اسی زمانے سے ارادہ ہے کہ آپ سے اجازت لے کر آنجناب کی خدمت اقدس میں اصلاح کی غرض سے قیام کے لیے آجائوں۔

جواب: ضرور آئیں۔

حال: لیکن بدبخت شعبہ وکالت کی وجہ سے اتنا عرصہ میں آپ کے قرب سے محروم رہا۔ میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کو گواہ بناکر بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپ کو اپنے اہل و عیال اور والدین سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں۔ اور ۲۰۰۵ئ؁ سے ہی کوئی دن ایسا نہیں جس میں آپ کو ہر لمحہ یاد نہ کروں۔ ہر وقت ذہن پر آپ کے خیالات کی فلم چل رہا ہوتا ہے۔

جواب: اپنے مربی کی محبت تمام ترقیات کی کنجی ہے مبارک ہو۔ آپ کی محبت سے بہت دل خوش ہوا۔

حال:میں نے کئی مرتبہ آپ کو خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑی آگ لگی ہوئی ہے۔ میں آگ کے نزدیک پریشان کھڑا ہوں کہ آپ آئے اور مجھے فرمایا کہ لا الٰہ الا اﷲ پڑھو۔ جب میں نے یہ ورد شروع کیا تو دیکھا کہ آگ چھوٹی ہوتی گئی اور آخر کار ختم ہوکر غائب ہوگئی۔

جواب: مبارک خواب ہے مرئی یعنی جس کو خواب میں دیکھا ہے اس سے دینی نفع پہنچنے کی اور نقصان سے حفاظت کی بشارت ہے۔

حال:ایک مرتبہ ایک وظیفہ ، حسبنا اﷲ و نعم الوکیل تعداد ۳۰۸؍ بار جو کہ حضرت مولانا عبدالغنی صاحب پھولپوریؒ کے تلقین کردہ وظائف میں سے ہے آپ کی کتاب … باتیں ان کی یاد رہیں گی صفحہ ۳۱۱؍ سے شروع کیا اور اس وظیفہ کو آپ نے مذکورہ کتاب میں پڑھنے کو اجازت دی ہے۔ میں نے پہلے وظیفہ شروع کیا تو کچھ دن بعد آپ کو اور حضرت پھولپوریؒ کو خواب میں دیکھا کہ آپ دونوں فجر کی نماز کے لیے اٹھے اور آپ دونوں کی سونے کا جگہ نزدیک تھی آپ دونوں چارپائی پر سوئے ہوئے تھے۔ مجھے حضرت پھولپوریؒ کے اٹھنے کا منظر آج بھی آنکھوں کے سامنے ہے۔ میں آپ دونوں سے کچھ فاصلے پر تھا آپ نے مجھ سے فرمایا کہ وضو کرکے نماز پڑھو پھر حضرت سے آپ کو ملائوں گا۔

جواب: بہت مبارک خواب ہے۔

حال:ایک رات میں نے نماز حاجت برائے جذب پڑھی اور سوگیا تو خواب میں دیکھا کہ میری زبان سے بے ساختہ یاسلام کا ورد جاری ہے اور درمیان میں یہ بھی پڑھتا جاتا تھا یاسلام … سلامتی آپ کے لیے ہے۔ یااﷲ تو میرا ہوجا اور جو تیری مرضی ہو ویسا کر اور ایک نہر جاری جو کہ شہد کی تھی پر چل رہا تھا اور مذکورہ ورد کررہا تھا۔ اور جب چلے چلتے نہر شہد کے آخر پر پہنچا تو دیکھا کہ آپ کھڑے تھے۔ اس کے آگے بھی کچھ ہوا جو کہ اﷲ سے متعلق ہے۔ اس خواب کو ایک سال کا عرصہ ہوتا ہے اس لیے صحیح یاد نہیں اگر قیاس پر لکھوں گا تو یقینا خاتمہ، ایمان پر نہ ہوگا… اور جب میں بیدار ہوا تو یہی ورد جاری تھی اور رات کے تین بجے تھے۔

ہمارے علاقے میں ایک بزرگ ہیں کشف والے، ایک رات میرے خواب میں آئے تھے اپنے پاس بلایا کہ میرے پاس آئو۔ میں نے ان سے کہا کہ میں عارف باﷲ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم سے بیعت ہوں تو انہوں نے کہا کہ وہ مجھ سے بہت بڑے ہیں میں تمہیں نہیں بلا سکتا۔

جواب: بہت مبارک خواب ہے دینی مربی سے اﷲ تعالیٰ کی محبت کی مٹھاس ملنے کی بشارت ہے جو شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔

اور ابھی کچھ دن قبل میں نے حکیم الامت مجدد زمانہ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی نوراﷲ مرقدہ کے قبر مبارک کی زیارت کی اور دعا بھی پڑھی۔

اور اس خط کے لکھنے سے تقریباً ایک ہفتہ قبل میں نے آپ کو پھر خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا محل تھا بہت بڑا، بہت قیمتی پتھروں سے بنا ہوا اور اس میں ایسی روشنی تھی جسے نور سے تشبیہ دینا انصاف ہوگا۔ آپ ایک تخت پر بیٹھے ہوئے تھے اور لباس سفید رنگ کا تھا اور آپ کے بہت سے مریدین جو کہ سفید لباس میں تھے آپ کی خدمت میں موجود تھے۔ میں بھی کچھ فاصلے پر آپ کو محبت سے دیکھ رہا تھا کہ آپ کو بتایا گیا کہ آپ کے کچھ خاص مہمان سائوتھ افریقہ سے آئے ہیں جن کی تعداد تین یا چار تھی آپ نے جب ان کو دیکھا تو خوشی سے اپنے تخت سے نیچے اتر کر ان سے معانقہ کیا آپ صحت مند بہت چست چاق و چوبند تھے۔

جواب: تمام خواب مبارک ہیں۔

حال:حضرت والا! جیسا کہ میں نے اپنے خط کے شروع میں آپ کو بتایا ہے کہ اپنے عشق مجازی کا ایک واقعہ آپ کو بتائوں گا جو میری بدبختی کا سبب ہے اور اس زمانے سے اب تک بے چین، خوار اور ذلیل ہوں۔

حضرت والا! میں نے نیا نیا FSCپاس کیا تھا کہ محکمہ ٹیلی فون PTCLمیں آپریٹر بھرتی ہوا۔ اور میری ڈیوٹی شکایات 18پر لگی۔ جس میں لوگ اپنے ٹیلی فون سے متعلق شکایات درج کرواتے ہیں کہ اک روز ایک لڑکی نے فون کیا اور مجھے اپنی شکایت نوٹ کروائی۔ اس کی آواز اتنی خوبصورت تھی کہ میں کہے بنا رہ نہ سکا کہ آپ کی آواز بہت خوبصورت ہے، حیرت ہے وہ برف، برف لہجہ، آپ کے لہجے نے مجھے متاثر کیا اور میں نے ان کو اپنا نام بھی بتایا اور یہ بھی بتایا کہ آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت تو اس لڑکی نے کوئی جواب دیئے بغیر فون بند کیا۔ اس واقعہ کے تقریباً ایک ہفتہ بعد اس لڑکی نے مجھے فون کیا۔ اور اس طرح ہماری دوستی کا آغاز ہوا اور جب ہم ملے اسے بھی یقین نہ ہوا کہ میں اتنا حسین ہوں۔ خیر اس طرح ہماری دوستی کا آغاز ہوا۔ وہ روزانہ مجھے رات 11بجے فون کرتی اور صبح کی اذان تک ہم بات کرتے بعد میں پتہ چلا کہ اس کے والد سرکاری آفیسر ہیں۔ قصہ مختصر میرنی منگنی اپنے خاندان میں ہوچکی تھی۔ میں نے اپنی منگنی توڑی۔ جس سے دونوں خاندان پریشان، میری والدہ کو دورہ پڑا، بہت پریشانی اٹھانی پڑی جو کہ آج تک جاری ہیں۔ اور جس لڑکی سے میں نے منگنی توڑی بعد میں اس کے کئی رشتے آئے لیکن اس نے انکار کیا اور آج تک شادی نہ کی۔ اور دوسری طرف اس لڑکی سے میرا یہ معمول تھا کہ رات 11بجے فون کرتی اور ہم صبح تک باتیں کرتے ایک دن میں بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک آدمی کچھ پمفلٹ تقسیم کررہا تھا مجھے بھی ایک دیا جو کہ ایک شیخ محمد نامی شخص کی طرف سے تقسیم کیا جارہا تھا جس میں یہ تھا جو اسے پڑھ کر آگے تقسیم کرے اس کے فلاں فلاں کام ہوں گے۔ جس میں تحریر تھا کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم شیخ محمد کے خواب میں آئے ہیں اور ان کو بتایا ہے کہ ان کے ڈاڑھی مبارک کے بال قرآن پاک میں موجود ہیں ان کو قرآن پاک میں ڈھونڈو مل جائیں گے کچھ اس طرح کا مضمون تھا۔

جواب: اس طرح کے پمفلٹ ناقابل اعتبار ہیں۔ یہودیوں کی سازش معلوم ہوتی ہے۔

حال:میں جب گھر آیا تو مجھ بدبخت کے ذہن میں شیطان نے ڈال دیا کہ (منافق) شیخ محمد نامی شخص کا خواب اپنی طرف سے منسوب کرکے اپنی گرل فرینڈ کو بتادو تاکہ ہماری محبت مضبوط ہواور ہم شادی کریں۔ رات کو جب اس لڑکی کا فون آیا تو یہی خواب جو شیخ محمد نے دیکھا تھا میں نے اپنی طرف سے پیش کیا کہ میں نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے اور مذکورہ پمفلٹ والی باتیں اسے بتادیں اور اپنی جانب سے بھی کچھ کہا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ہماری دوستی سے بہت خوش ہیں۔

جواب: اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگ لیں۔

حال:اس رات اس لڑکی کو یہ جذباتی خواب سنا کر میں نے فون جلدی بند کردیا اور رات کو خواب میں دیکھا کہ ایک شخص مجھے کوڑے مارتے ہوئے ایک خیمہ کے اندر لے گیا جہاں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم تھے وہاں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے کچھ کہا جو کہ اس وقت مجھے یاد نہیں کیونکہ یہ واقعہ کئی سال پہلے کا ہے اس وقت میری عمر تقریباً۲۱/۲۲ سال تھی میں عمر کے جس حصے میں تھا۔ صبح ہوکر یہ خواب میں بھول گیا سنجیدگی سے نہیں لیا کہ حضرت محمد مصطفی مجھ سے ناراض ہوگئے ہیں میں ان سے معافی طلب کروں کیونکہ آپ ہی سے سیکھا ہے ؎

مایوس نہ ہوں اہل زمیں اپنی خطاسے

تقدیر بدل جاتی ہے مضطر کی دعا سے

جواب: یہ خواب آپ کی ہدایت کے لیے تھا کہ اس عشق مجاز سے توبہ کرلو۔ یہ بھی اﷲ کا فضل تھا اگر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ناراض ہوتے تو خواب میں کیوں آتے خواب میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نعمت عظمی ہے۔ حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ مجھے قیامت کے دن بھی دیکھے گا۔

حال:اس خواب کے بعد قدرت کی طرف سے ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ اسی ہفتہ وہ لڑکی مجھ سے کسی بات پر ہمیشہ کے لیے ناراض ہوگئی اور پھر تعلیم کے لیے انگلینڈ چلی گئی اور محبت کی یہ کشتی ڈوب گئی۔

جواب: اور آپ کی کشتی غرق ہونے سے بچ گئی الحمدﷲ تعالیٰ، شکر کریں۔

حال:ابھی کچھ دن قبل اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ وہ لندن سے آگئی ہے۔ ایک سرکاری عہدے پر فائز ہے۔ تو ایک دم سے وہ سارا منظر پھر نظر کے سامنے آیا۔ اور اپنی کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ اور ہر لمحہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ناراضی کا خیال دل کو ستاتا ہے۔

جواب: اس اس کی طرف ہرگز ہرگز نہ رخ کرنا ورنہ تباہ ہوجائوگے کہ یہ اﷲ و رسول کی ناراضگی کا سبب ہوگا۔ بس اس سے دور رہیں توحضور صلی اﷲ علیہ وسلم آپ سے راضی رہیں گے اور اب بھی ناراض نہیں ہیں آپ کو جو زیارت ہوئی یہ آپ کے راضی ہونے کی دلیل ہے۔ اور اس سے علیحدگی اسی خواب کی تعبیر تھی۔ ہاں خدانخواستہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف دوبارہ مجاز کی طرف گئے العیاذ باﷲ تو یہ بات ناراضگی کی ہوگی۔ اﷲ پناہ میں رکھے۔

حال: میں محبت کے کنویں میں گرا ہوا تھا۔ آپ کے اشعار اور وعظ نے مجھے وہاں سے نکالا۔ میں نکل تو گیا ہوں لیکن گنہگار بھی ہوں۔ زخمی بھی ہوں، گناہ بھی پرانا ہے، زخم بھی پرانا ہے۔ میں اﷲ تعالیٰ اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے شرمندہ ہوں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس گناہ سے توبہ کرلی ہے۔ لیکن کوئی بھی مریض اپنا علاج خود نہیں کرسکتا۔ آپ ہی میرا علاج فرمادیں کہ اس گناہ کا کفارہ کیسے ادا کروں۔ (درج بالا خواب پندرہ سال پہلے کا ہے پہلی مرتبہ صرف آپ کو بیان کیا ہے برائے علاج)

جواب: حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو توبہ کرلیتا ہے وہ ایسا ہوجاتا ہے کہ گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔اس کا کفارہ صدق دل سے توبہ ہے اور توبہ پر استقامت کے لیے صحبت اہل اﷲ ہے۔

حال:حضرت والا! میں آپ سے بیعت ہونا چاہتا ہوں۔ آپ مجھے بیعت فرمالیجئے اور معمولات ذکر بھی عنایت فرمادیں اور خط و کتابت کی بھی اجازت چاہتا ہوں۔ میرے غم کا مداوا کیجئے

من نجویم زیں پس راہ اثیر

پیر جویم یر جویم پیر پی

اور دعا کی بھی درخواست ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم مجھے معاف فرمادیں اور اﷲ تعالیٰ اپنا قرب خاص اور صحبت شیخ بھی جلد نصیب فرمائیں۔

جواب: آپ کو بیعت کرلیا۔ پرچہ معمولات برائے سالکین پر عمل کریں۔ جملہ مقاصد حسنہ کے لیے دل و جان سے دعا ہے۔جب چاہیں خانقاہ آجائیں آپ کو کس نے منع کیا ہے۔

…………………

حال: کافی عرصہ سے یہ محسوس کررہا ہوں کہ میرے اندر یہ برائی ہے کہ بعض اوقات دوسروں کے نقصان سے خوشی ہوتی ہے مثلاً امتحان میں میرا کسی سے مقابلہ ہے تو اگر دوسرے کا امتحان خراب ہوجاتا ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔

جواب: اس خوشی سے توبہ کریں۔

حال: ایسے جذبات عام طور پر ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں جو مجھے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں یا ان سے کوئی مقابلہ چل رہا ہوتا ہے۔

جواب: پھر بھی مسلمان ہیں آپ کی خوشی ان کے نقصان پر گناہ ہے۔ ہر ایک کا بھلا چاہو، اﷲ والے تو دشمنوں کا بھی برا نہیں چاہتے۔

حال: کوشش بھی کی کہ ایسا نہ ہو لیکن پھر بھی یہ خیالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ میری حفاظت فرمائے۔ آپ سے علاج کی درخواست ہے۔

جواب: ایسے خیالات کو صرف برا سمجھنا کافی ہے اور استغفار بھی زبان سے کرلیں پھر بھی دل میں ایسے خیال کا وجود وسوسہ ہے جس پر معافی متوقع ہے۔

…………………

حال: گذارش دراصل یہ ہے کہ بہت تحقیق کے بعد میں اس فیصلے پر آیا ہوںکہ آپ سے بیعت لے لی جائے۔ میری تحقیق ان شرائط پر مبنی تھی جو کہ عام طورپر کسی بھی شیخ کو حاصل ہونی چاہیے۔ مگر معیار صرف نام ہی نیہں بلکہ دراصل طور پر تقویٰ تھا۔ ظاہر ہے کہ میں کوئی غیب کا علم تو نہیں جانتا کہ بتاسکوں کہ آپ کے اندر کتنا اﷲ کا ڈر موجود ہے مگر اپنی حد تک جتنا بھی میں آپ کے بارے میں اور دوسرے بزرگوں کے بارے میں معلوم کرسکا وہ میں نے کیا۔ شاید میرے لکھنے کے انداز سے آپ کو ایسا معلوم ہورہا ہوگا کہ بیعت میں نہیںبلکہ آپ کو لینی ہے۔ مگر بات اصل میں یہ ہے کہ میں نے اپنے شیخ کو ڈھونڈنے میں بہت وقت لگایا ہے اور اب میں مزید غفلت میں رہنا نہیں چاہتا اور یہ بھی نہیں چاہتا کہ آپ مجھ کو انکار کردیں۔ میں نے بہت سارے مفتی عالم اور بزرگوں کے بارے میں علم حاصل کیا۔ آپ کو پسند کرنے کی وجوہات یہ ہیں:

جواب: اطلاع وجوہات کی احقر کو کیا ضرورت ہے۔

حال: (۱) آپ کے کیسٹ میں نے سنے ہیں۔ (۲)آپ کے بارے میں میں نے سنا ہے کہ آپ کسی دعوت میں نہیں گئے جہاں کے میزبان بینک میں کام کرتے تھے حالانکہ یہاں شیخ الحدیث مولانا…… دامت برکاتہم بھی موجود تھے۔

جواب: اکابر سے حسن ظن رکھیں۔ ممکن ہے بینک والے نے حلال پیسہ قرض لے کر دعوت کی ہو۔

حال: (۳) آپ کی ایک کتاب جس کا نام فضائل توبہ ہے جو کہ حج کے دوران آپ نے بیان کیا تھا اس کو کتاب کی شکل دی گئی ہے میں نے پڑھی ہے۔ (۴) آپ میرے پھوپھا کے بھی شیخ ہیں۔

جواب: (۴) یہ کون سی وجہ ہے؟

حال: میں نے دارالعلوم کراچی خط بھیج کر یہ سوال بھی کیا تھا کہ میں کس کو اپنا شیخ بنائوں تو انہوں نے جو نام لکھے ان میں آپ کا نام بھی تھا۔

جواب: نامزدگی سے کیا ہوتاہے، اپنی مناسبت دیکھیں۔

حال: (۵)آپ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ کے خلیفہ سے بھی بیعت ہیں اس کے علاوہ اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جن کی بناء پر آپ کا نام میرے ذہن میں آیا۔اب صرف اﷲ سے مشورہ رہ گیا ہے ورنہ باقی سب لوگوں سے مشورہ کرلیا ہے اور امید ہے کہ آپ مجھے اپنے مریدوں میں شامل کرلیںگے۔

جواب: استخارہ کرلیں پھر اگر چاہیں تو اصلاحی مکاتبت کریں۔ بیعت میں جلدی نہ کریں۔

حال: اب ایک گذارش کرنی ہے کہ آپ مجھے اپنے سگے بیٹوں کی طرح سمجھیں اور اسی طرح سے سختی نرمی کریں۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ صرف میرے چہرے کو دیکھ کر ہی مجھے پہچانیں بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ مجھ کو صحیح دین پر چلنے کی فکر آپ کو ہر وقت رہے جو صرف سکون کے ساتھ ہوسکتی ہے۔

جواب: جس کو آپ اپنا مصلح بنا رہے ہیں اس کو اصلاح کا طریقہ بھی سکھا رہے ہیں! اگر وہ طریق اصلاح سے واقف نہیں تو مصلح بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی بچہ والدین سے کہے کہ مجھے اس طرح پالنا۔ یہ بات خلاف ادب ہے۔

حال: میں نے اس دنیا میں اپنے لیے ایک بہت ہی اہم مقصد سوچا ہوا ہے جو صرف تقویٰ سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ اس لیے میں یہ چاہتا ہوں کہ کوئی مجھے کان سے پکڑ کر صحیح راہ پر لانے کی کوشش کرے تاکہ میں اﷲ کے حکم اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر چل سکوں اور ایسا ماحول اس معاشرے میں بناسکوں کہ لوگ سجدے کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ اہم سمجھنے لگیں۔

جواب: کسی کو کیا پڑی ہے کہ آپ کا کان پکڑے، آپ خود اپنا کان پکڑ کر راہ پر آئیں یعنی اپنے نفس کا جائزہ لیں بہشتی زیور کا ساتواں حصہ یا احقر کی کتاب روح کی بیماریاں سے علم ہوگا کہ نفس میں کون کون سی بیماریاں ہیں۔ ایک ایک بیماری سے اپنے مصلح کو آگاہ کریں جو علاج وہ تجویز کرے اس پر عمل کریں۔ اور اس میں نیت بھی صرف اپنی اصلاح کی ہو کہ میں اﷲ والا بن جائوں مجھے اﷲ مل جائے نہ یہ کہ میں اپنے نفس کی اصلاح کرکے دوسروں کا مصلح بنوں، معاشرہ کی اصلاح کروں۔ ایسے شخص کو اﷲ نہیں مل سکتا کیونکہ یہ طالب جاہ ہے طالب اﷲ نہیں۔ جو مقصد آپ نے سوچا ہوا ہے بظاہر بڑا عظیم الشان معلوم ہوتا ہے لیکن اس میں حب جاہ کا بت چھپا ہوا ہے۔ نیت صحیح کریں ورنہ کچھ حاصل نہ ہوگا۔ صرف یہ نیت کریں کہ میری اصلاح ہوجائے اور میں اﷲ والا ہوجائوں۔

اصول طریق بتادیئے گئے ۔ اگر ان پر عمل کرنے کا جذبہ ہے تو فبہا ورنہ مکاتبت نہ کریں۔

…………………

حال: حضرت یہ خط میں رات کے سوا دس بجے پریشانی کے عالم میں لکھ رہا ہوں۔ اس پریشانی کے پڑھنے سے قبل اصل واقعہ کا تحریر کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ میں نے دو ماہ قبل حضرت صوفی …… صاحب دامت برکاتہم کی طرف ایک اصلاحی خط لکھا اس کا جواب نہ پاکر میں نے دوسرا خط ایک ماہ بعد اور لکھا جواب نہ پاکر تیسرا خط پندرہ دن بعد لکھا۔ اس کا جواب آج رات ملا لیکن اﷲ کو کچھ اور ہی منظور تھا اب صورتحال یہ ہے کہ میں نے آپ سے بھی اصلاحی تعلق جوڑ لیا اور بیعت بھی ہوگیا ہوں اور حضرت صوفی…… صاحب سے بھی اصلاحی تعلق جوڑ لیا لیکن بیعت نہیں ہوا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اب مجھے مشورہ دیجئے کہ میں اب اس پریشانی کے عالم میں کیا کروں امید ہے کہ جواب سے محروم نہ فرمائیں گے۔

جواب: جس شیخ سے زیادہ مناسبت ہو اس سے بیعت و اصلاح کا تعلق قائم کریں۔ بلکہ اگر غلطی سے بیعت ہوگئے لیکن اس شیخ سے مناسبت نہیں تو بدون اس کو اطلاع کئے ہوئے دوسرے شیخ سے تعلق قائم کرلیں۔ مقصود اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے نہ کہ شیخ۔ شیخ ذریعۂ مقصود ہے پھر اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ اصلاحی تعلق کسی ایک سے کریں بیک وقت دو سے اصلاحی تعلق رکھنا مناسب نہیں۔ کیا جسمانی علاج بیک وقت دو ڈاکٹروں سے کراتے ہو؟

…………………

حال: سال بھر سے پیر کے بیان میں اﷲ کے حکم سے آنے کی توفیق ہوجاتی ہے اور الحمدﷲ ایسا مزہ اور تازگی ملتی ہے کہ ہر پیر کے بعد اگلی پیر کا انتظار ہونے لگتا ہے۔ آپ کے یہاں مجلس میں آنے کی برکت سے پہلے جن گناہوں کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی اب ان پر ندامت ہونے لگی ہے۔

جواب: الحمدﷲ تعالیٰ۔ ندامت ہونا نعمت عظمیٰ ہے اور ترک معاصی پر استقامت کا ذریعہ ہے ان شاء اﷲ تعالیٰ۔

حال: حضرت مجھے غصہ بہت آتا ہے۔ جب بھی کوئی بات طبیعت کو گراں گذرے یا پھر کوئی میرے مزاج کے خلاف مجھ سے کسی بات پر اصرار کرے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا اور میں سامنے والے کو سخت بات کہہ دیتی ہوں۔

جواب: بعد میں اس سے معافی مانگیں اگر تنہائی میں کہا ہے تو تنہائی میں اور سب کے سامنے غصہ کیاہے تو سب کے سامنے معافی مانگیں۔

حال: حالانکہ اس غلطی کا احساس ہے لیکن یہ عادت اتنی پختہ ہے کہ اگر میری والدہ محترمہ بھی مجھ سے کوئی بات میرے مزاج کے خلاف کرنے کو کہیں چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز مجھے غصہ آجاتا ہے اور پھر بعد میں افسوس ہوتا ہے کہ میں یہ بات نرمی سے بھی کہہ سکتی تھی۔

جواب: افسوس ہونا کافی نہیں اب تک جو غصہ کیا ہے زبان سے اس کی معافی مانگیں۔ آئندہ اگر غلطی ہو تو پائوں پکڑ کر معافی مانگیں۔ پندرہ دن بعد اطلاع حال کریں۔ پرچہ اکسیر الغضب روزانہ ایک بار پڑھیں اور وعظ علاج الغضب کے چند صفحات بھی۔

حال: اس کے علاوہ کسی ایسی شادی جہاں مووی ہو یا کوئی ایسا تفریح مقام جہاں میرے تایا زاد یا ماموں زاد ہوں اور پردے کا انتظام بھی نہ ہو اور میری والدہ محترمہ اگر مجھے اور میرے شوہر کو چلنے پر اصرار کریں تو مجھے غصہ آجاتا ہے۔

جواب: ا ﷲ کی نافرمانی پر غصہ آنے میں مضائقہ نہیں، علامت ایمان ہے۔ شریعت کے خلاف یعنی ناجائز بات میں کسی کی اطاعت نہیں خواہ والدین ہوں خواہ کوئی ہو۔ لیکن والدین سے بدتمیزی کی اجازت نہیں ان کی اس بارے میں ہرگز اطاعت نہ کریںلیکن رویہ میں جہاں تک ہوسکے نرمی اور ادب کا لحاظ رکھیں۔ بزرگوں نے فرمایا کہ نرم اور مضبوط ریشم کی طرح رہو جو انتہائی نرم ہوتا ہے لیکن مضبوط اتنا ہوتا ہے کہ ہاتھی بھی نہیں توڑ سکتا ہے لیکن اگر اس معاملہ میں غصہ آجائے تو معافی مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اﷲ کی نافرمانی سے بچنا فرض ہے۔

حال: حضرت گھر پر ہوتی ہوں تو اکثر دوپٹہ بھی نہیں اوڑھتی امی کے گھر پر ہوں تو ابو اور بھائیوں کے سامنے کندھے پر پھیلا لیتی ہوںلیکن اگر کبھی دعوت میں جانا ہو اور پردے کا انتظام بھی ہو اور اگر وہاں سر نہ ڈھکا ہو تو گھبراہٹ ہوتی ہے اور بے اختیار ہی سر ڈھک لیتی ہوں۔ حضرت مجھے احساس ہوتا ہے کہ کہیں یہ دکھاوا تو نہیں حالانکہ میری نیت دکھاوے کی نہیں ہوتی۔

جواب: یہ دکھاوا نہیں ہے۔ صرف شوہر کے سامنے بغیر دوپٹہ کے رہ سکتی ہو۔

حال: میرے شوہر کا باہر کافی آنا جانا ہے زیادہ تروقت گھر میں گذارتی ہوں شام کو میرے اور بچوں کے اکیلے ہونے کی وجہ سے امی کے گھر پر پردے کا خاص انتظام نہیں ہے۔ میرے دونوں بھائی اور بھاوجیں ساتھ کھانا کھاتے ہیں اور ہنسی مذاق بھی ہوتا ہے ایسے میں میں ان کے ساتھ کھانا کھاتی ہوں کوئی حرج تو نہیں؟

جواب: حرج معلوم ہوتا ہے کیونکہ اصول یہ ہے کہ جس مجلس میں کوئی نافرمانی ہورہی ہو اس میں شرکت جائز نہیں۔ ایسی مجلس میں جس میں آپ کے تو سب محرم ہوں لیکن آپ کے محرموں کے نامحرم بھی شریک ہوں تو ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ دل سے اس کو برا سمجھیں اور ان کے ہنسی مذاق میں شریک نہ ہوں۔

حال: دوسری بات یہ کہ کھانا کھاتے ہوئے اگر خبرنامہ کا وقت ہو یا کوئی خاص موقع ہو تو ٹی وی کھول لیتے ہیں مجھے احساس تو ہوتا ہے لیکن حوصلہ نہیں ہوتا کہ یا تو منع کردوں یا الگ جاکر کھالوں بعدمیں افسوس ہوتا ہے کہ کھانے کے دوران حرام کام ہوتا رہا اور میں بیٹھی رہی۔

جواب: یا تو منع کرکے بند کردیں ورنہ اس مجلس سے اٹھ جاتا واجب ہے۔ تعجب ہے کہ دوسروں کی رعایت میں اﷲ کو ناراض کرتی ہو۔ سوچا کریں کہ کوئی قبر میں ساتھ نہیں جائے گا اﷲ پوچھے گا کہ وہاں کیوں بیٹھی رہیں تو کیا جواب دوں گی۔

حال: اگر کھانے کا مسئلہ نہ ہو تو کوشش کرتی ہوں کہ دوسرے کمرے میں چلی جائوں۔

جواب: کھانے کو چھوڑ کر وہاں سے اٹھ کر کھڑا ہونا چاہیے تاکہ ان کو احساس ہوجائے کہ یہ بات اس کو پسند نہیں آئی۔

…………………

حال: میں اور میرا ماموں ایک ہی مکان میں رہتے ہیں اور استطاعت نہیں ہے کہ الگ مکان لیں۔ مجھے ممانی سے نظر بچانے اور گھر والی کو پردہ کرنے میں دقت ہورہی ہے۔ لہٰذا کوئی عمل بتادیجئے جس سے اﷲ تعالیٰ الگ مکان لینے کی استطاعت عطا فرمائے۔

جواب: آپ بھی شرعی پردہ کریں اور گھر والی کو بھی کرائیں۔ نا محرم کے ساتھ تنہا نہ رہیں جب گھر میں آپ یا ماموں داخل ہوں تو آواز دے کر اور نامحرم عورت چادر یا موٹے دوپٹہ سے بدن اور گھونگھٹ نکال کر چہرہ چھپالے۔ مکان کے لیے دو نفل حاجت کے پڑھ کر روزانہ دعا کریں۔

…………………

حال: الحمدﷲ تعالیٰ بخیر ہوں آنجناب کی خیریت کا طالب ہوں، حضرت والا نے جو گذشتہ خط میں علاجات تحریر فرمائے ہیں ماشاء اﷲ بے حد مفید ثابت ہوئے خصوصاً دنیا سے بے رغبتی کے بعد کسل کا واقع ہونا قدیمی مرض تھا جس کی حقیقت احقر پر واضح نہیں تھی شش و پنج لگی رہتی تھی، جزاہم اﷲ خیر الجزائ۔

جواب: پچھلے خط کی نقل ساتھ رکھ دیا کریں یا اہم مضمون کو مختصراً لکھ دیں۔

حال: بعض مدرسہ کے طلباء میں متبوعیت کی شان پائی جاتی ہے۔ چنانچہ دو مرتبہ مہتمم صاحب سے کسی مطالبہ پر ہڑتال کرچکے ہیں نہ مطالعہ کا شوق ہے۔

جواب: انا اﷲ و انا الیہ راجعون۔ یہ کالجوں کا اثر ہے افسوس جب دین کے محافظ دین شکنی کریں گے تو ان سے کیا خدمت دین ہوگی۔مہتمم کو چاہیے کہ ہڑتال کرنے والے طلباء کا اخراج کردے۔

حال: احقر تو حل سبق الحمدﷲ اپنا حق سمجھتے ہوئے کرتا رہتا ہے باقی ان کا اپنا کام۔

جواب: صحیح ۔

حال: کبھی جبکہ تعب یا عذربھی نہیں ہوتا لیٹ کر یا پیر پھیلا کر مطالعہ پر نفس کوشاں رہتا ہے اور اسے کامیابی بھی ہوجاتی ہے۔

جواب: کوئی مضائقہ نہیں۔

حال: چلتے وقت دائما نگاہ نیچی نہیں رہتی بلکہ خوامخواہ دوکانوں اور گزرنے والی گاڑیوں وغیرہ پر پڑتی رہتی ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آتا ہے جب احقر کی مدرسہ آمد و رفت ہوتی ہے۔

جواب: بس اس کا اہتمام رکھیں کہ محل حرام پر نہ پڑے۔

حال: زبان پر ذکر دوامی بھی نہیں کبھی مراقبہ ہوتا ہے مگر ذکر لسانی نہیں خاموشی رہتی ہے۔ بہ تکلیف یاد آنے پر ذکر کرتا ہوں۔ مگر پھر ادھر ادھر کی سوچ مانع بن جاتی ہے اور نسیان ہوجاتا ہے۔

جواب: ذکر لسانی گاہ بگاہ بھی کافی ہے۔ بقدر تحمل ذکر کریں اصل ذکر دوامی یہ ہے کہ ایک سانس بھی اﷲ کی ناراضگی میں نہ گذرے۔

حال: کبھی خلوت میں اپنی زندگی اور جملہ اشیاء عجیب سی محسوس ہوتی ہیں اس وقت شدید دین کا جذبہ اور طلب آخرت پیدا ہوتی ہے۔ مگر وقتی پھر یکایک یہ سب کچھ رخصت ہوجاتاہے، اس حالت کا دوام اور رسوخ نہیں۔

جواب: یہ مطلوب بھی نہیں ایک سی حالت ہر وقت نہیں رہتی۔ مطلوب اتباع سنت اور اجتناب عن المعاصی ہے۔

حال: احقر کی عمر چوبیس سال ہے اہل خانہ زوجیت کے متعلق سوچ رہے ہیں، رشتہ داران کا خیال کچھ اور ہے جبکہ احقر چاہتا ہے صالح مقام حاصل ہو اہل خانہ احقر سے بھی رائے لیناچاہتے ہیں مگر بندہ کی ابھی تک رائے کہیں نہیں جمتی فکر تو ہے مگر وحشت سے بھی رہتی ہے کہ مزاج و معاشرت میں ہم آہنگی اگر خدانخواستہ نہ ہوئی تو پھر یہ ٹوٹا پھوٹا دین کا کام بھی نہ ہوسکے گا۔

جواب: رشتہ کے لیے یا جامع ۱۱۱۱ ؍مرتبہ پڑھ لیا کریں بشرط تحمل وصحت و فرصت۔ ورنہ دو نفل حاجت پڑھ کر دعا کیا کریں۔

حال: احقر کے ساتھ والدہ محترمہ اور دو بھائی بھی ہوتے ہیں ایک بھائی بڑے ہیں جو شادی شدہ ہیں احقر ویسے تو پردہ رکھتا ہے مگر کبھی اچانک بھابھی صاحبہ کا سامنا ہوجاتا ہے جس سے احقر بہت شرمندہ ہوتا ہے۔

جواب: آتے جاتے وقت کھنکار کر یا آواز دے کر آئیں۔

…………………

حال: بعد مسنون سلام کے امید کرتا ہوں کہ جناب خیر و عافیت کے ساتھ ہوں گے۔ بندہ نے اس خط سے پہلے سلسلہ نمبر ۶؍اور ۷؍نتھی شدہ خط روانہ کیا تھا۔ اس وقت مدرسہ میں سالانہ چھٹیاں تھیں اور میں جامعہ کا دورہ تفسیر کے اسباق پڑھ رہا تھا وہ سلسلہ وار خط وہیں سے روانہ کیا تھا اور جوابی لفافے پر اپنا پتہ لکھا تھا۔ پھر حسب اصول ایک ماہ بعد جب جواب نہ ملا تو خانقاہ میں حاضر ہوا جبکہ آپ سفر پہ تھے۔ پھر دوسرا ماہ گذرا تو میں دوبارہ خانقاہ میں حاضر ہوا اور حضرت مہتمم صاحب سے بات کی کہ میں نے حضرت کو ایک خط لکھا ہو اہے اور اب میرا پتہ تبدیل ہونے والا ہے اس لیے چھان بین کرکے وہ خط مجھے واپس کردیں۔ …صاحب کی وساطت سے آدھے گھنٹے کی تگ و دو کے بعد ناکامی ہوئی تو پھر حضرت مہتمم صاحب نے بتایا کہ اسی پرانے پتہ پر رابطہ رکھو حضرت جب سفر سے واپس آئیں گے تو جواب روانہ کردیا جائے گا۔ اور صورتحال اب یہ ہے کہ پانچ ماہ گذر چکے ہیں لیکن تاحال جو اب نہیں ملا ہے جبکہ میں نے مسلسل پرانے پتہ پر (جواد پر لکھا ہے) رابطہ رکھا ہوا ہے۔ جبکہ حال یہ ہے کہ پانچ ماہ اور کچھ دن کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن جواب نہیں ملا ہے۔ میرا گمان یہ ہے کہ خط گم نہیں ہوا ہے۔ وہ اس طرح کہ پہلے دو ماہ تو آپ سفر پہ تھے پھر سفر سے واپسی پر مریض ہونے کی وجہ سے شاید آپ نے آرام کیا ہو اور خطوں کے جواب نہ دیئے ہوں۔ پھر شاید ڈاک زیادہ ہونے کی وجہ سے تھوڑے تھوڑے خطوں کے جواب دے رہے ہوں اور شاید ابھی میرے خط کا نمبر نہ آیا ہو۔ اس لیے میں اپنے گمان کے مطابق کہتا ہوں کہ میرا مندرجہ بالا پتہ والا خط آپ کے پاس موجود ہوگا۔اس لیے کہتا ہوں کہ میرے اس پرانے پتے والے خط کی چھان بین کرکے صرف اطلاع دیں کہ خط ہے یا نہیں۔ موجود ہونے کی صورت میں جواب اگرچہ بعد میں دیں۔

جواب: یہ طریقہ مناسب نہیں۔ جواب نہ ملے تو سابقہ خط کی کاپی بھیجیں یا دوسرا خط اسی مضمون کا لکھ کر بھیجیں اور لکھ دیں کہ اس خط کے جواب سے محروم ہوں لیکن یہ لکھنا کہ پہلے خط کی چھان بین کرکے اطلاع دیں یہ ایک طرح اپنے بڑے کو کام سپرد کرنا ہے جو خلاف ادب ہے ؎

طرق العشق کلہا ادب

اپنے مشایخ کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا جو دفتری حکام کے ساتھ کیاجاتا ہے انتہائی نامناسب ہے۔ آپ کی اس کم فہمی سے افسوس ہوا۔
Flag Counter