ملفوظات حضرت والا ہردوئیؒ
ایف جے،وائی(April 26, 2010)
(گذشتہ سے پیوستہ)
ارشاد فرمایا کہ صحبت کی نافعیت موقوف ہے کہ اہل اﷲ کی صحبت کا تسلسل رہے جس طرح کثرت ذکر اﷲ مطلوب ہے اسی طرح صحبت اہل اﷲ کی کثرت بھی مطلوب ہے۔ یعنی ان کی صحبتوں میں آنا جانا کثرت سے ہوتا رہے تسلسل اور کثرت دونوں ضروری ہیں۔
حدیث پاک میں ہے اے اﷲ میں آپ کی محبت کا سوال کرتا ہوں پھر یہ ہے کہ اور آپ سے محبت کرنے والوں کی محبت بھی مانگتا ہوں اور پھر یہ ہے کہ اور ان اعمال کی محبت عطا فرمادیجئے جو آپ کی محبت سے قریب کرنے والے ہیں اللّٰہم انی اسئلک حبک و حب من یحبک وحب عمل یقربنی الی حبک اس حدیث سے تین باتیں مطلوب ہونا ثابت ہوئیں۔
(۱) محبت حق (۲)محبت اہل اﷲ (۳) محبت اعمال صالحہ
اور محبت اہل اﷲ محبت حق اور اعمال صالحہ کے حصول کا بنیادی ذریعہ ہے۔
ارشاد فرمایا کہ نئے ڈرائیوروں سے جس طرح تصادم ہوجاتاہے اسی طرح پرانے ڈرائیوروں سے بھی جب ان کے اندر عجب اور ناز اور غفلت کی بیماری پیدا ہوجاتی ہے تصادم (ایکسیڈنٹ) ہوجاتا ہے۔ بدپرہیزی سے بڑے بڑے صحت مند پہلوان تباہ ہوجاتے ہیں محمد علی کلے اگر سنکھیا کھالے تو کیا پہلوانی باقی رہے گی۔ یہی حال نئے اور پرانے سالکین کا ہے۔ اگر پرانے سالکین بھی اپنی نگرانی سے غفلت کریں گے گرجائیں گے (کوئی تو جاہ میں گرگئے اور کوئی چاہ میں گر گئے یعنی کوئی تکبر میں برباد ہوگئے کوئی بدنگاہی اور شہوت و عشق مجازی میں تباہ ہوگئے) جامع۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں کی تو شیخ کی زندگی ہی میں اور بعض لوگوں کی حالت بعد وفات شیخ خراب ہوگئی حالات میں تغیر ہوجاتا ہے غفلت کے سبب۔
حضرت حکیم الامت تھانویؒ نے خواجہ صاحب سے فرمایا کہ جب ریل کا سفر کرتا ہوں اور دور ریل کی کراسنگ ہوتی ہے تو میں ڈبے سے باہر نہیں دیکھتا کیونکہ ممکن ہے کہ دوسری ریل کے کسی ڈبے سے کوئی عورت جھانک رہی ہو اور میری نظر اس پر پڑجاوے گو اچانک نظر معاف ہے مگر مجھے اپنے نفس پر بھروسہ نہیں کہ اس اچانک نظر کو میں ضرور ہٹالوں گا۔
نفس کا مار سخت جاں دیکھ ابھی مرا نہیں
غافل ادھر ہوا نہیں اس نے ادھر ڈسا نہیں
اور حکیم الامت تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں مشایخ کے لیے بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے حالات میں کسی بڑے سے مشورہ کرتے رہیں مستقل بالذات نہ سمجھیں ورنہ مستقل بدذات ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے اور اگر بڑے نہ ملیں توچھوٹوں ہی سے مشورہ کرلیا کریں اس معاملہ میں عار نہ محسوس کریں کہ لوگ کیا کہیں گے اپنے رب سے کام رکھیں۔
پیش نظر تو مرضی جانانہ چاہیے
سارا جہاں خلاف ہو پروا نہ چاہیے
تمنا ہے کہ اب کوئی جگہ ایسی کہیں ہوتی
اکیلے بیٹھے رہتے یاد ان کی دلنشیں ہوتی
آشنا بیٹھا ہو یا نا آشنا
ہم کو مطلب اپنے سوزو ساز سے
حضرت خواجہ صاحبؒ تسبیح و ذکر کی پُر کیف بہاروں کو اس طرح بیان فرماتے ہیں ؎
دم رُکا سمجھو جو دم بھر کو بھی یہ ساغر رُکا
میرا دور زندگی ہے یہ جو دور جام ہے
میں رہتا ہوں دن رات جنت میں گویا
مرے باغ دل میں وہ گلکاریاں ہیں
مگر یہ نعمتیں کیسے حاصل ہوں گی ؎
کامیابی تو کام سے ہوگی
نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
ذکر کے التزام سے ہوگی
فکر کے اہتمام سے ہوگی
بیڑی اور سگریٹ والے تو پینے سے نہیں شرماتے جہاں موقع پاتے ہیں وہیں بیڑی پینا شروع کردیتے ہیں آپ ذکر و تسبیح سے کیوں شرماتے ہیں۔ احقر جامع عرض کرتا ہے پھر مغرب کی اذان شروع ہوگئی لوگ باتیں کررہے تھے حضرت والا نے فرمایا کہ آپ لوگ باتیں نہ کریں اذان کا جواب دیں۔ حضرت تھانویؒ سے کسی نے دریافت کیا تھا کہ تلاوت کرتے وقت اگر اذان ہونے لگے تو اذان کا جواب دوں یا تلاوت جاری رکھوں۔ تحریر فرمایا کہ تلاوت کو ملتوی کرکے اذان کا جواب دیں پھر تلاوت شروع کردیں۔ سنت کی اتباع سے پھر تلاوت میں زیادہ نور انشاء اﷲ تعالیٰ محسوس ہوگا۔
احقر مرتب عرض کرتا ہے کہ فرض و سنتوں کے بعد مسجد سے متصل دوروازے پر کچھ لوگ باتیں کررہے تھے اگرچہ یہ لوگ خارج مسجد تھے مگر ان کی باتوں سے نمازیوں کو خلل ہورہا تھا تو فرمایا کہ جو لوگ مسجد کے قریب باتیں کررہے ہیں ان کو چاہیے کہ اتنی دور جاکر باتیں کریں کہ ان کی آواز مسجد کے اندر نمازیوں کو مخل نہ ہو۔ جب نمازیوں کی تشویش کے سبب بلند آواز سے تلاوت کرنا منع ہے تو یہ بات چیت کیسے جائز ہوگی۔
بعد نماز مغرب ایک صاحب نے کہا کہ ہماری طبیعت ٹھیک نہیں رہتی ہے بعض لوگ سحر کا شبہ بتاتے ہیں فرمایا آپ حسب ذیل کام کریں۔
(۱) سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس تین ، تین بار پڑھ کر صبح و شام اپنے اوپر دم کریں۔ ترمذی شریف کی روایت ہے کہ اس کی برکت سے کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی۔
(۲) یا سلام۱ ۱۳؍ بار اول آخر درود شریف تین تین بار پڑھ کر جہاں تکلیف ہو ہر نماز کے بعد دم کرلیں۔
ارشاد فرمایا کہ صالحین کی وضع قطع کی نقل میں بھی بہت برکت ہے، جادوگروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وضع قطع بنائی یہ مشابہت ان کی ہدایت کا سبب بن گئی، حق تعالیٰ کا فضل ہوگیا سب کو ایمان عطا ہوگیا۔ حضرت حکیم الامت تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ متشبہ بالصوفی کی بھی قدر کرو کیونکہ صوفیوں کے لباس کی نقل دلیل ہے کہ اس کے دل میں صوفیوں کی یا محبت یا عظمت ہے۔ ہمیشہ نقل کا سبب دو ہوتے ہیں یا تو جس کی نقل کرتا ہے اس کی محبت ہوگی یا اس کی عظمت ہوگی۔ پس جو لوگ صالحین کی وضع قطع ترک کرکے اہل مغرب کی وضع قطع کی نقل کرتے ہیں یا تو ان کے دلوں میں ان کی محبت ہے یا عظمت ہے۔ اور حق تعالیٰ فرماتے ہیں ولا ترکنوا الی الذین ظلموا ظالموں کی طرف میلان نہ ہونا چاہیے۔
لباس صلحاء کا اختیار کرنے والا انشاء اﷲ تعالیٰ محروم نہ رہے گا ایک شخص آزاد طبع تھا جب مرنے لگا تو اپنے گھروالوں سے کہا میری داڑھی پر آٹا چھڑک دو جب قبر میں سوال ہوا کہ یہ آٹا کیوں چھڑک رکھا ہے جواب دیا کہ سنا ہے آپ بوڑھوں پر رحم فرمادیتے ہیں تو بوڑھا نہیں مرا ہوں مگر بوڑھوں کی شکل آٹا چھڑک کر بنالایا ہوں۔ اسی پر رحم فرمادیا ؎
رحمت حق بہانہ می جوید
رحمت حق بہانمی جوید
علاج نظر بد مجرب
ارشاد فرمایا کہ نظر بد کا علاج مجرب ہے جس پر نظر لگی ہو سات سرخ مرچوں پر ویکاد الذین کفروالیزلقونک بابصارہم سے الا ذکرٌ للعالمین تک ۷؍مرتبہ پڑھ کردم کریں۔ یاالگ الگ مرچ پر ایک ایک بار پڑھ کر دم کریں پھر ایک ایک مرچ کو اس کے جسم سے یعنی سر سے پیر تک دونوں طرف لگا کر آگ میں جلا دیں اگر دھانس آنے لگے تو سمجھ لیجئے کہ نظر اترگئی اور اگر دھانس نہ آوے تو دوبارہ یہی عمل کیا جاوے۔
ارشاد فرمایا کہ فساد خون ہو تو جلد پر خالی مرہم کافی نہیں اندر سے خون کی صفائی کا اہتمام بھی ہو اسی طرح دل میں بیماری ہو تکبر یا شہوت کی تو ظاہری اعمال سے یہ بیماری نہ جاوے گی جب تک دل میں خوف پیدا نہ ہو مراقبۂ موت قبر و دوزخ و قیامت کا بار بار اہتمام ہو تو کام بنتا ہے۔
ارشاد فرمایا کہ ہر شخص جو حق تعالیٰ کا مطیع اور فرمانبردار ہے وہ ذاکر ہے کل مطیع اﷲ فہو ذاکر صرف زبانی ذکر کا نام ذکر نہیں ہے گناہ نہ کرنا بھی ذکر ہے۔ ہر گناہ کانٹا ہے کانٹا چبھے گا تو بے چینی کیوں نہ دل میں پیداہوگی اگر صرف زبان سے ذکر ہے مگر آنکھ بدنگاہی میں مبتلا ہے تو زبان کے ذکر کے ساتھ آنکھ نافرمان بھی ہے بلکہ اکثر اعضاء نافرمانی میں مبتلا ہوتے ہیں اور زبان سے ذکر بھی ہورہا ہے تو دل میں کیسے چین پیدا ہوگا۔ ذکر کے خلاف اس کے اضداد کی تعداد تو زیادہ ہے ہر عضو کو فرمانبردار بنائیں پھر زبان کے ذکر سے دیکھئے کیسے انوار پیدا ہوتے ہیں اور کیا سکون ملتا ہے۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ ہمارے دل میں سکون کی وہ دولت ہے کہ اگر بادشاہوں کو معلوم ہوجاوے تو تلواریں لے کر ہم پر چڑھائی کردیں۔ لیکن یہ دولت تو اہل اﷲ کی جوتیاں سیدھی کرنے سے ملتی ہے یعنی ان کی وہ صحبت جو اطلاع حالات اور اتباع تجویزات کے ساتھ ہو طالب کے دل کی کایا پلٹ دیتی ہے۔ حضرت خواجہ صاحبؒ اسی بہار کو فرماتے ہیں ؎
میں رہتا ہون دن رات جنت میں گویا
مرے باغِ دل میں وہ گلگاریاں ہیں
(جاری ہے۔)