Deobandi Books

ماہنامہ الابرار اپریل 2010

ہ رسالہ

14 - 15
شرعی مسائل کے جوابات
ایف جے،وائی(April 26, 2010)

دارالافتاءجامعہ اشرف المدارس کراچی۔

سوال: (۱) فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا مع رفع الیدین جہراً کیسا ہے۔
(۲)عیدالاضحی یا عیدالفطر کے دنوں کو زیارت قبور کے لیے خاص کرنا اور باقاعدہ اس کے لیے جانے کا اجتماعی طور پر اہتمام کرنا کیسا ہے؟ اور نیز یہ بھی بتائیں کہ کس کے لیے زیارت قبور علی الاطلاق جائز ہے اور کس کے لیے نہیں ہے۔

جواب: (۱) فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر جہراً اجتماعی دعا کرنا درج ذیل شرائط کے ساتھ صحیح ہے:

(۱) کسی نمازی کی نماز میں خلل واقع نہ ہو۔

(۲) جن فرائض کے بعد سنن ہیں ان فرائض کے بعد دعا مختصر کی جائے۔

(۳) اس کو لازمی نہ سمجھا جائے کہ اس میں شامل نہ ہونے والے پر ملامت کی جائے۔ البتہ سراً دعا کرنا افضل ہے۔

(۲) عیدالفطر یا عیدالاضحی یا ان کے علاوہ کسی دن کو زیارت قبور کے لئے خاص کرنا جائز نہیں البتہ کسی دن کو خاص کئے بغیر پورے سال میں جب چاہیں زیارت قبور کے لیے جانا جائز ہے نیز یہ اجازت مردوں کے لیے ہے عورتوں کے لیے قبرستان جانا بہت سارے مفاسد کی وجہ سے ممنوع ہے۔

سوال: ہم جس علاقے میں ہیں وہاں قانونی طور پر دوسری منزل پر KBCوالوں سے نقشہ منظور کروائے بغیر مزید تعمیر نہیں کراسکتے ہیں اور چونکہ فی الحال ہمارا گھر قانونی طور پر مجوزہ نقشے کے مطابق نہیں اس لیے ہم KBCوالوں سے نقشہ منظور بھی نہیں کرواسکتے ہیں تو کیا ہمیں اس حوالہ سے رشوت دینے کی اجازت ہے؟

جواب: حکومت وقت کے مفاد عامہ سے متعلق جائز قوانین کی پابندی کرنا (بشرطیکہ وہ قانون کسی شرعی حکم کے خلاف نہ ہو) شرعاً واجب ہے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں موجودہ مکان میں مزید تعمیر کرنا قانون کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے اور رشوت دے کر اس کی اجازت لینا بھی جائز نہیں ہے۔

سوال: عرض یہ ہے کہ اس وقت میں اگر کوئی بندہ جہاد میں چلا جائے اور اس کے ماں باپ نے اس کو اجازت نہ دی ہو اور اجازت کے بغیر چلا جائے اور وہاں پر جاکر شہید ہوجائے۔ تو اس کا ماں باپ کی اجازت کے بغیر جانا کس طرح ہے برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔

جواب: عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے یعنی بعض لوگوں کے ادا کرنے سے سب کی طرف سے ادا ہوجائے گا اور اگر کوئی بھی جہاد میں نہ جائے تو سب لوگ گنہگار ہوں گے اور جب جہاد فرض کفایہ ہو تو والدین کی اجازت کے بغیر جہاد میں جانا جائز نہیں بلکہ والدین کی اجازت ضروری ہے اور اگر کوئی شخص ایسی صورت میں والدین کی اجازت کے بغیر جہاد میں چلا گیا اور شہید ہوگیا تو ایسا شخص شہید کہلائے گا اور اس پر شہیدوں والے احکام جاری ہوں گے لیکن والدین کی اجازت کے بغیر جانے کی وجہ سے ایک طویل عرصہ تک اعراف (جنت و جہنم کے درمیان ایک جگہ) میں رہے گا البتہ جہاد فرض عین ہونے کی صورت میں والدین سے اجازت لینا ضروری نہیں۔

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ا س مسئلہ کے بارے میں کہ اگر ایک شخص چینی، سرسوں اور بھوسے کو ذخیرہ کرنا چاہے زیادہ نفع کمانے کے لیے جبکہ یہ چیزیں دوسری جگہ بدستور آسانی سے میسر ہوں آیا یہ ذخیرہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: صورت مسئولہ میں چینی، سرسوں اور بھوسے کا ذخیرہ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس ذخیرہ کرنے کی وجہ سے لوگ تنگی میں مبتلا نہ ہوں اور یہ ذخیرہ کرنا ملکی قوانین کے خلاف بھی نہ ہو۔

سوال: کیا فرماتے ہیں ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا مرد مرد کی اور عورت عورت کی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔

جواب: جن تصاویر کا بنانا اور گھر میں رکھنا ناجائز ہے ان کا ارادہ اور قصد کے ساتھ دیکھنا بھی ناجائز ہے خواہ مرد، مرد کی تصویر دیکھے یا عورت، عورت کی تصویر دیکھے، البتہ بلاقصد نظر پڑجائے تو گناہ نہیں ہوگا۔

سوال: کیا فرماتے ہیں ہیں علمائے کرام کہ والدین، اساتذہ، شیخ میں سے محبت ، ادب اور اطاعت کے زیادہ مستحق کون ہیں۔ اور اگر کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے ان کا حکم ہو یا مشورہ ہو تو اس کے خلاف کرنے سے آدمی گناہ گار ہوگا یا نہیں۔

جواب: محبت، ادب اور اطاعت کے سب سے زیادہ مستحق والدین ہیں اس کے بعد اساتذہ اور اس کے بعد شیخ کا درجہ ہے اور اگر یہ حضرات کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کا مشورہ دیں تو اس صورت میں ان کے مشورے کے خلاف کام کرنے سے آدمی گناہ گار تو نہیں ہوتا لیکن ایسا کرنا نامناسب ضرور ہے کیونکہ ان کے مشورہ میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے لیکن اگر یہ حضرات کسی جائز یا مباح کام کے کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیں تو اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر ان کے حکم کی تعمیل کی بناء پر کسی خلاف شرع کام کا ارتکاب لازم آتا ہے یا ان کے حکم کی تعمیل کسی خلاف شرع کام کا ذریعہ بنتی ہے تو اس صورت میں ان کے حکم پر عمل نہیں کیا جائے گا اور اگر ان کے حکم کی تعمیل کی بناء پر ایسی کوئی خرابی لازم نہیں آتی تو اس صورتحال میں ان کے حکم پر عمل کرنا ضروری ہوگا، چنانچہ اس بارے میں حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا :’’اگر معلم کے مفہوم میں متعارف استاد کی طرح پیر، وعظ اور مصنف یعنی ہر وہ شخص جس سے بھی افادہ و استفادہ کا تعلق ہو سب ہی استاد کے مفہوم میں داخل ہیں، لیکن قواعد سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کے حقوق مساوی نہیں ان سب میں متعارف معنی میں جس کو استاد کہا جاتا ہے اس کا حق زیادہ ہے اولا تو اس لیے کہ یہ استاد شاگردوں کے لیے جتنی مشقت برداشت کرتا ہے دوسرے اہل افادہ نہیں کرتے بعض طریقوں میں تو چنداں مشقت نہیں اور بعض میں اگرچہ مشقت ہے مگر وہ کسی خاص استفادہ کرنے والے کے لیے برداشت نہیں کرتا حالانکہ نص قطعی ’’حملۃ امہ کرہا الخ‘‘ سے مشقت کی بناء پر حق کا عظیم ہونا ثابت ہے۔

ثانیاً شاگرد استاد کی تابعیت کا التزام کرتا ہے اور االتزام ایک وعدہ یہ اور وفا عدہ لازم ہے۔ استاد و پیر کا حق زیادہ یا باپ کا اس میں لوگ یہ سمجھتے ہیں پیر و استاد روحانی مربی ہیں اور باپ جسمانی اور روحانی مربی کا درجہ جسمانی سے بڑا ہے اس دعویٰ کی غلطی اجمالاً ہیں استاد اور پیر کے نہیں بتلائے گئے (تحفۃ العلماء ص۴۱۰)
Flag Counter