Deobandi Books

ولی اللہ بننے کے پانچ نسخے

ہم نوٹ :

17 - 26
از  لبِ  نادیدہ  صد  بوسہ  رسید
یہ میرا فارسی شعر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ پر کوئی فدا ہوتا ہے اور اپنا خونِ آرزو کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا پیار اس کو نادیدہ لب سے عطا ہوتا ہے۔ دنیاوی عاشقوں کو ایک بوسہ نہیں ملتا۔ اللہ اپنے عاشقوں کے شکستہ اور ٹوٹے ہوئے دل کے سینکڑوں بوسے لیتا ہے اور وہ لب اللہ کے پیار کے نظر نہیں آتے، مگر دل محسوس کرتا ہے؎
من چہ گویم روح چہ لذت چشید
میں نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کی روح کیا مزہ  پاتی ہے اپنی شکستِ آرزو سے۔
اب اُس عالم کی بات پیش کرتا ہوں کہ ہم کیسے ولی اللہ بنیں اور جلد سے جلد اللہ کی دوستی کا تاج ہمارے سر پر آجائے۔ اگر بندے ہیں تو ان شاء اللہ! خواجہ حسن بصری ہوجائیں گے اور بندیاں رابعہ بصریہ ہوجائیں گی؎
ہنوز  آں  ابرِ  رحمت  درفشان  ست
دروازۂ ولایت تاقیامت کھلا رہے گا
اللہ کی رحمت کا دروازہ ابھی کھلا ہوا ہے، یہ نہ کہو کہ بڑے بڑے اولیاء چلے گئے اب وہ زمانہ نہیں ہے۔ نہیں! وہی زمانہ ہے۔ جب خالقِ زمانہ موجود ہے تو زمانہ کیا بیچتا ہے۔
ہمارے دادا پیر حکیم الاُمت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! آج بھی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ،      امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اور امام رازی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اولیاء موجود ہیں۔ کرسیاں پُر ہیں، بھری ہوئی ہیں، کوئی کرسی ولی اللہ کی خالی نہیں۔ بس ہماری آنکھوں میں قصور آگیا ہے اور فتور آگیا ہے۔ حکیم الامت نے قسم کھاکر یہ شعر پڑھا تھا؎
ہنوز آں ابرِ  رحمت درفشان ست
وہ رحمت کا بادل آج بھی برس رہا ہے جو شیخ عبدالقادر جیلانی، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، شیخ شہاب الدین سہروردی اور خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی رحمہم اللہ اور چاروں سلسلوں کے اولیاء پر برسا تھا۔ جو ابرِ رحمت اس وقت برس رہا تھا وہ آج بھی موجود ہے ؎
Flag Counter