مخفی کردیا۔ اس کے بعد یَاظَاہِرْ کہہ کر پھر آگئے وہیں تھے کہیں گئے نہیں تھے۔جب کہا یَاظَاہِرْتو پھر موجود! بادشاہ نے جلّا دکو حکم دیا پھر تلوار نکالو اور اس کو قتل کرو، یہ بادشاہ کا مقابلہ کررہا ہے۔ لیکن وہ بادشاہ کے بادشاہ کی بات مان رہے تھے۔ پھر فوراً انہوں نے کہا یَابَاطِنْ اور غائب ہوگئے۔ تین دفعہ ایسے ہوا کہ یَابَاطِنْ کہہ کر غائب ہوگئے اور یَاظَاہِرْکہہ کر آگئے۔ تب بادشاہ کرسی سے اُتر آیا اور پیر پکڑ کر رونے لگا کہ ہم کو نہیں معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کی اس طرح گناہوں سے حفاظت کرتا ہے۔
عمل کرکے تو دیکھو، اپنی ہمت کو استعمال کرکے تو دیکھو، اللہ تعالیٰ غیب سے مزاج بدل دے گا۔ عالمِ غیب میں عالمِ شہادت کا مزاج تبدیل کرنے کی طاقت موجود ہے۔ عالمِ غیب سے مراد اللہ تعالیٰ کا فیض ہے، ان کی رحمت اور کرم کی بارش ہے،اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش پابندِ موسم نہیں ہے۔ وہ ان کی مشیت میں ہے، جب چاہیں جس پر فضل کردیں۔ جیسے تائب صاحب کا شعر ہے ؎
طعنہ نہیں ماضی کا دیا جائے کہ ہم لوگ
تب اور طرح کے تھے ہیں اب اور طرح کے
اللہ کے فضل کی علامت
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اس فضل کی علامت یہی ہے کہ جب گناہ سے بچنے کی توفیق اور ہمت ہو تو سمجھ لو کہ اب اللہ کے پیارے اور مقبول بن گئے کیوں کہ اللہ اپنے مقبول بندوں کو گناہوں کی نجاست میں آلودہ نہیں ہونے دیتا۔ آپ اپنے بچوں کو گٹر میں گرتے نہیں دیکھ سکتے تو اللہ تعالیٰ ہر وقت ہم کو دیکھ رہا ہے اور اپنے دوستوں کو تو خاص نگاہِ کرم سے دیکھتے ہیں تو کیسے وہ اپنے دوستوں کو گناہ کی نجاستوں میں مبتلا ہونے دیں گے۔ اللہ تعالیٰ تو ہر وقت ہم کو دیکھ رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے ہماری دوستی میں کمزوری ہے، ہمارے تقویٰ میں کمزوری ہے، ہماری وفاداری میں کمزوری ہے، بے وفائی کےعذاب میں ہم مبتلا ہیں،ہم طاقت چور ہیں، ہمت چور ہیں، لعنتی حیات کے عادی ہیں، خوگرِ معاصی ہیں۔ اگر ہمت نہ کی تو ساری زندگی یوں ہی گزر