Deobandi Books

امید مغفرت و رحمت

ہم نوٹ :

11 - 26
مغفرت کا غیرمحدود سمندر
اور آگے فرمایا اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا یعنی اللہ تعالیٰ صرف بخشنے والا ہی نہیں ہے، بہت زیادہ بخشنے والا ہے یعنی اللہ تعالیٰ غافر نہیں ہے، غَفَّارْہے، مغفرت کا بحر ذخار ہے کہ اگر سارے عالَم کو بخش دے تو اس کی مغفرت کے غیرمحدود سمندر میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ کیوں؟ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں یَامَنْ لَّا تَضُرُّہُ الذُّنُوْبُاے وہ ذات کہ ہمارے گناہوں سے جس کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ جو سورج کی طرف تھوکتا ہے تو اس کا تھوک اس کے ہی منہ پر گرتا ہے۔ اللہ تو بڑی شان والا ہے، اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ گناہوں سے ہم کو ہی نقصان پہنچتا ہے لہٰذا سرورِ عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی اُمت کو سکھارہے ہیں کہ یوں کہو یَامَنْ لَّا تَضُرُّہُ الذُّنُوْبُاے وہ ذات کہ ہمارے گناہوں سے جس کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا، وَلَا تَنْقُصُہُ الْمَغْفِرَۃُ اور بندوں کو معاف کرنے سے اس کی مغفرت کچھ کم نہیں ہوتی۔ اس کے خزانۂ مغفرت میں کوئی کمی نہیں آتی، فَاغْفِرْلِیْ مَالَا یَضُرُّکَ تو میرے ان گناہوں کو آپ معاف کردیجیے جن سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ہم لوگ تو دوسروں کو معاف کرنے میں اس لیے دیر کرتے ہیں کہ ہم کو نقصان پہنچتا ہے،یہ دلیل اس کے اندر پوشیدہ ہے،وَہَبْ لِیْ مَالَا یَنْقُصُکَ4؎جس چیز کے دینے سے آپ کے خزانے میں کمی نہیں آتی وہ مغفرت کا خزانہ ہم کو دے دیجیے۔
حدیث اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ کی عاشقانہ شرح
اور کیوں دے دیجیے؟ ایک مقام پر سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ایک اور خوبی اور ایک اور صفت کا واسطہ دے کر سکھایا کہ اس طرح بھی معافی مانگو اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌاے اللہ! آپ بہت معافی دینے والے ہیں اور بہت کریم ہیں یعنی نالائقوں کو بھی معاف کرنے والے ہیں۔ جو اس درجہ نالائق ہو کہ گناہ کرتے کرتے اس قابل ہوگیا ہو کہ معافی کے قابل بھی نہ رہا ہو،ایسوں کو بھی مہربانی سے محروم نہ کرنے کا نام کرم ہے، لہٰذا
_____________________________________________
4؎       شعب الایمان للبیہقی:465/5،(7305)ہذا دعاءابی بکر الساسی، فصل فی قراءۃ القراٰن بالتفخیم، دارالکتب العلمیۃ ،بیروت
Flag Counter