حضرت عیدگاہ کی بنیاد پر تشریف فرما تھے، پاؤں لٹکے ہوئے تھے۔ قبر جنازہ گاہ میں اسی دیوارنما بنیاد کے ساتھ کھودی جارہی تھی۔ جب میت قبر میں رکھی گئی تو دنیا نے دیکھا، اور دیکھنے والے بہت لوگ حیات ہیں اور گواہ ہیں کہ وہی منظر تھا جو حضرت ناظم صاحب کی تمنا تھی۔
شیخ الحدیثؒ کے قدموں میں:
شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق مدظلہ نے فرمایا: شفیق صاحب کے ساتھ بھی تکوینی طور پر وہی معاملہ ہوا۔ ان کی قبر شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ کے قَدَمَیْن سے قریب بنی، اور قَدَمَیْن میں آنے کی نسبت کی سعادت انہیں حاصل ہوئی۔
دارالحدیث کا نقشہ اور جگہ کا تعین تکوینی امور ہیں،روزانہ لاکھوں کی تعداد میں درود شریف
استاذ مکرم حضرت حقانی صاحب نے عرض کیا: حضرت! جب دارالحفظ کا نقشہ آپ بنا رہے تھے اور قبرستان کے لئے جگہ تجویز ہورہی تھی تو کیا اس وقت جدید دارالحدیث کی موجودہ تعمیر بھی آپ حضرات کی تجویز میں تھی؟ ارشاد فرمایا: نہیں! یہ خود شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحقؒ کی کرامت ہے کہ انہیں دارالحفظ اور اور دارالحدیث کے درمیان میں قبرستان ملا۔ اِدھر سے حضرت کو قرآن سنایا جارہا ہے اور اُدھر دارالحدیث سے یہاں قبرستان میں استاذِ حدیث کے درسِ حدیث کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔ روزانہ پندرہ سو (۱۵۰۰) طلباء حدیث پڑھتے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں درود شریف پڑھا جارہا ہے اور مقبرۂ حقانیہ میں حضرت شیخ اؒلحدیث سمیت تمام مرحومین اس کے برکات سے مالامال ہورہے ہیں۔ شفیق صاحب بھی خوش نصیب اور سعادت مند ہیں کہ انہیں بھی اپنے شیخ کے قدموں میں‘ مقبرۂ حقانیہ میں‘ دارالحدیث اوردارالقرآن کے درمیان جگہ مل گئی ہے۔
شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق کی آرزو: اس موقع پر شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق مدظلہ کی آواز بھرا گئی اور آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا: شفیق خوش نصیب ہیں انہیں حقانی قبرستان میں جگہ مل گئی، خدا کرے کہ ہمیں بھی یہیں جگہ نصیب ہو اور ہماری غفلتیں اور سیّآت اس مقدس قبرستان سے ہماری محرومی کا باعث نہ بن جائیں۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے بونَس:
دورانِ گفتگو حقانی صاحب نے دریافت کیا کہ ’’خطبات مشاہیر‘‘ کا کیا بنا؟ ارشاد فرمایا: