دسویں جلد پر کام شروع ہے، عمر‘ صحت‘ عوارض‘ امراض‘ اسفار اور اشغال کے ہجوم کے باوصف ’’خطبات مشاہیر‘‘ پر کام کی خوب خوب توفیق مل رہی ہے۔
اور میں سمجھتا ہوں یہ اللہ پاک کی طرف سے ایک بونس ہے‘ انعام ہے اور اللہ پاک صحت بھی دیں گے اور زندگی بھی‘ تاکہ خطبات مشاہیر کے کام کی تکمیل ہو۔
ارشاد فرمایا: بڑے عجیب عجیب نوادر‘ تاریخی شہ پارے‘ اکابر و مشائخ کی یاد گار تقریریں‘ شیخ العرب والعجم مولانا حسین احمد مدنیؒ‘ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ‘ ملا محمد عمر‘ اسامہ بن لادنؒ ،شیخ عبدالعزیز بن باز،علامہ محمود صواف، علامہ عبدالمجید زندانی،مولانا عبدالغفور عباسی مہاجر مدینہ، مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، مولانا احمد علی لاہوری جیسے درجنوں زعمائِ امت اور مشاہیر ملت کے علمی جواہر پارے ہیں۔ ان شاء اللہ چھپیں گے تو امت کو نفع ہوگا اور ہم خدام کی نجات کا وسیلہ بنے گا۔
اس اثناء میں قبر تیار ہوگئی، سرہانے اور قدمین کی جانب قراء نے قرآن پڑھا۔ شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق مدظلہ نے لوگوں سے فرمایا: سب اطمینان سے بیٹھ جاؤ، حقانی صاحب بیان کریں گے۔ حقانی صاحب سے فرمایا: آپ بیان کرلیں، اور اپنے قریبی خدام سے کہا: بیان ٹائپ کرلو ، بعد میں نقل کرکے اسے شائع کریں گے۔ حقانی صاحب نے تعمیلِ ارشاد میں بیان فرمایا، شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق کے حکم پر اختتامی دعا بھی حقانی صاحب نے فرمائی۔
اس کے بعد شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق مدظلہ دارالحفظ میں تراویح اور ختمِ قرآن میں شرکت کے لئے روانہ ہوئے، اور مولانا حقانی اور ہم خدام نے رخصت لی اور جامعہ ابوہریرہ واپس پہنچ گئے۔
ماہنامہ الحق کے ارباب بست و کشاد کی ذمہ داریاں:
راستے میں استاذ مکرم شیخ الحدیث حضرت حقانی صاحب شفیق الدین فاروقی مرحوم کا جامعہ دارالعلوم حقانیہ بالخصوص مولانا سمیع الحق کے حوالے سے ان کی خدمات کا بڑی محبت سے تذکرہ کرتے رہے۔ اور یہ بھی ارشاد فرمایا: کہ مجھے شفیق بھائی کے حوالے سے وہ تمام مراحل مستحضر نہیں ہیں جن سے وہ گزرتے رہے اور خدمات کی تاریخ رقم کرتے رہے، تاہم ماہنامہ الحق‘ موتمر المصنفین اور جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے ارباب بست و کشاد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک مخلص کارکن کے کردار کو تاریخ کے حوالے کردیں۔ ’’الحق‘‘ کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ خصوصی اشاعت کا اہتمام کرے۔ الغرض عنوان جو بھی ہو میری کتاب کی طرح ایک دوسری کتاب’’بنیاد کا پتھر‘‘ لکھی جاسکتی ہے اور خدام و کارکنوں کی دنیا میں ایک مخلصانہ لائحہ عمل کے نشانِ راہ اور روشن سنگ میل لگائے جا سکتے ہیں۔
_______________________