Deobandi Books

ماہنامہ الحق اگست 2014ء

امعہ دا

33 - 64
اسپرم بینک کا قیام اور اسپرم کی خرید فروخت
	 گزشتہ تفصیل سے واضح ہوا کہ اسپرم بینک سے استفادہ کی بیش تر صورتیں اسلامی شریعت کی رو سے حرام ہیں۔ اگرچہ مغربی ممالک میں اسے بہت زیادہ رواج مل گیا ہے اور مغربی کلچر کے زیر اثر دنیا کے بیش تر ممالک میں اسپرم بینک قائم ہو گئے ہیں، لیکن اس کے متنوع مفاسد کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کے لیے نہ اسپرم بینک کا قیام جائز ہے نہ وہاں سے اسپرم کی خرید و فروخت کی اجازت ہے۔ ڈاکٹر عبد اللہ بن محمد الطیار، استاذ الدراسات العلیا، کلیۃ الشریعۃ و الدراسات العلیا، جامعۃ القصیم، سعودی عرب نے اپنے ایک مقالے میں اس موضوع سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’بانجھ پن پوری دنیا اور خاص کر مغربی دنیا کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس لیے اس کے علاج کا جو طریقہ بھی ہو، اسے طبی حلقوں اور عوام میں قبول ِ عام حاصل ہوتا ہے۔ اولاد کے حصول کے لیے بہت سے طریقے رائج ہو گئے ہیں، لیکن وہ شرعی طور پر جائز نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک ناجائز طریقہ مرد کے نطفے کی خرید و فروخت اور مصنوعی تلقیح میں اس کا استعمال ہے۔ مغرب میں اس کے لیے مخصوص بینک قائم ہو گئے ہیں، جہاں نطفے جمع کیے جاتے ہیں اور لوگ اپنی پسند کے نطفے وہاں سے خریدتے ہیں۔ یہ چیز اسلام میں مطلق حرام ہے۔ اس میں بہت سے مفاسد پائے جاتے ہیں ۔ اس طریقے سے ایسے بچے پیدا ہوں گے جن کا صحیح نسب غیر معروف ہوگا۔ مصنوعی تلقیح کا جواز صرف بانجھ پن اور عدمِ تولید کی چند مخصوص حالتوں میں ہی ہو سکتا ہے، جب کہ اس میں مادّی، معاشرتی، اخلاقی اور قانونی اعتبار سے بہت سے مفاسد ہیں۔ مصنوعی تلقیح کے یہ جدید طریقے صحیح شرعی نکاح کو کالعدم کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ ان سے فطرت کی خلاف ورزی ہورہی ہے، اخلاقی اور اجتماعی مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور دنیا میں ایسی نسل ظاہر ہورہی ہے جس کا نسب معلوم نہیں اور ایسے خاندان وجود میں آ رہے ہین جن کے درمیان رشتۂ ازدواج نہیں ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نطفہ کی خرید و فروخت حرام ہے اور مسلمانوں کے لیے اسپرم بینک قائم کرنا جائز نہیں۔ یہ عمل شرعاً حرام ہے، اس لیے کہ اس میں بہت سے غیر شرعی کام لازم آتے ہیں، جن سے فطرتِ سلیمہ ابا کرتی ہے۔‘‘  ۱۱؎
	اسپرم بینک خدائی ہدایات اور الٰہی شریعت سے بے پروا مغربی تہذیب کا شاخسانہ ہے۔ اس سے
Flag Counter