Deobandi Books

ماہنامہ الحق اگست 2014ء

امعہ دا

32 - 64
ہے، اس لیے کہ اب وہ ا س کی بیوی نہیں رہی۔ یہ فعل شرعاً حرام ہے، اس لیے کہ یہ ایک مرد کے حیواناتِ منویہ کو ایسی عورت کے رحم میں ڈالنے کے مثل ہے جو اس کے لیے اجنبی ہے، کیوں کہ موت نے ان کے درمیان رشتۂ ازدواج کو ختم کر دیا ہے۔‘‘  ۸؎
ڈاکٹر ابوالفضل محسن ابراہیم نے اس موضوع پراسلامی شریعت کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے:
’’اسلامی قانون کی روسے یہ بھی ناجائز ہوگا کہ ایک شوہر اپنا نطفہ مادۂ تولید بینک میں اس خیال سے جمع کرائے کہ اس کی موت کے بعد اسے اس کی بیوی کو حاملہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔کیوں کہ موت اس معنیٰ میں رشتۂ ازدواج کو کالعدم کر دیتی ہے کہ عورت عدّت پوری کرنے کے بعد کسی دوسرے سے نکاح کر سکتی ہے۔لہٰذا شوہر کی موت کے بعد اس کے محفوظ نطفہ سے اس کی بیوی کو حاملہ کرنا بھی ایک ناجائز فعل ہوگا۔‘‘  ۹؎
شوہر کی زندگی میں اس کے محفوظ نطفے سے بار آوری کا حکم
	اگر کسی شخص نے اپنا نطفہ اسپرم بینک میں جمع کرادیا ہو، اس کے بعد کسی حادثہ کی وجہ سے وہ جماع پر قادر نہ ہو سکے، یا کسی نوعیت کے علاج کے نتیجے میں اس کی قوتِ مردمی ختم ہو گئی ہو، تو کیا بعد میں اس کی زندگی میں اس کے نطفے سے اس کی بیوی مصنوعی تلقیح کروا سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب فقہاء کی تحریروں یا فقہی اکیڈمیوں کے فیصلوںمیں صراحت سے تو نہیں ملتا، لیکن ان کے دیگر فیصلوں کی روشنی میں اس کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ رابطہ عالم اسلامی کے تحت قائم المجمع  الفقہی الاسلامی مکہ مکرمہ نے اپنے ساتویں سمینار منعقدہ ۱۴۰۴ھ ؍ ۱۹۸۴ء اور آٹھویں سمینار منعقدہ ۱۴۰۵ھ؍۱۹۸۵ء میں اور تنظیم اسلامی کانفرنس کی زیر نگرانی قائم بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ نے اپنے تیسرے اجلاس منعقدہ عمّان(اردن ) ۱۴۰۷ھ؍ ۱۹۸۶ء میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ ’’ شوہر کے نطفے سے بیوی کی مصنوعی تلقیح، خواہ بہ راہ راست کی جائے یا بیرونی طور پر پہلے ان کے نطفے اور بیضے کو ٹیسٹ ٹیوب میں بار آور کر لیاجائے، پھر اس بار آور بیضہ کو عورت کے رحم میں منتقل کیا جائے، دونوں صورتیں جائز ہیں۔‘‘ ۱۰؎  اور یہ معلوم ہے کہ مصنوعی تلقیح تازہ اسپرم کے ذریعے بھی ممکن ہے اور اسپرم بینک میں محفوظ منجمد اسپرم کے ذریعے بھی۔ اس بنا پر جس طرح شوہر کے تازہ اسپرم سے بیوی کی مصنوعی تلقیح جائز ہے، اسی طرح اسپرم بینک میں محفوظ اس کے نطفے سے بھی کی جا سکتی ہے۔

Flag Counter