Deobandi Books

ماہنامہ الحق اگست 2014ء

امعہ دا

30 - 64
	اسلامی تعلیمات کی رو سے جس طرح نکاح کے بغیر مرد اور عورت کا جنسی تعلق حرام ہے،اسی طرح شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کے نطفے سے عورت کے بیضے کی مصنوعی تلقیح بھی حرام ہے۔اس بنا پر اسلام ضروری قرار دیتا ہے کہ جن افراد کے نطفے اور بیضے سے جنین کی تخلیق ہو لازماً وہ رشتۂ ازدواج میں بندھے ہوئے ہوں ۔ اس کے نزدیک نہ شوہر کے نطفے سے کسی اجنبی عورت کے بیضے کی بارآوری جائز ہے اور نہ بیوی کے بیضے کو کسی اجنبی مرد کے نطفے سے بارآور کیا جاسکتا ہے۔
	شیخ محمود شلتوت، سابق شیخ الجامع الازہر مصر نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے:
أمّا اذا کان التلقیح بماء رجل أجنبی عن المرأۃ لا یر بط بینھما عقد  زواج،فانہ یکون فی نظر الشریعۃ الاسلامیۃ ذات التنظیم الانسانی الکریم جریمۃ منکرۃ واثماً عظیماً یلتقی مع الزنافی إطار واحد،جوھرھما واحد و نتیجتھما واحدۃ   ۶؎
اگر تلقیح اجنبی مرد کے نطفے سے ہو اور عورت اور مرد رشتۂ ازدواج سے منسلک نہ ہوں تو اسلامی شریعت، جس نے انسانی تعلقات کے لیے پاکیزہ ضابطے بنائے ہیں ،اس کی نظر میں سنگین جرم اور عظیم گناہ ہے۔یہ زنا ہی کی ایک شکل ہے۔ دونوں کا جوہر ایک ہے اور دونوں کا نتیجہ بھی ایک ہے۔
عمدہ نطفے کا انتخاب ۔جاہلی طریقہ
	اسپرم بینک خواہش مندوں کو یہ سہولت بھی فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنی پسند کے عمدہ اسپرم کا انتخاب کر سکیں۔اس ذوق کی تسکین کے لیے نوبل انعام یافتگان کا اسپرم بینک قائم کیا گیا تھا۔یہ سراسر جاہلی طریقہ ہے،جسے اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔حضرت عروہ بن زبیرؒ روایت کرتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے ان سے بیان کیا کہ عہدِ جاہلیت میں نکاح (مردوعورت کے درمیان جنسی تعلق) کے چار طریقے رائج تھے۔ان میں سے ایک طریقہ یہ تھا:
کان الرجل یقول لامرأتہ اذا طھرت من طمثھا ارسلی الی فلان فاستبضعی منہ،ویعتزلھا زوجھا ولایمسّھا أبداً حتّٰی یتبیّن حملھا من ذلک الرجل الذی تستبضع منہ،فاذا تبیّن حملھا أصابھا زوجھا اذا احبّ ،وانما یفعل ذلک رغبۃ فی نجابۃ الولد،فکان ھذا النکاح نکاح الاستبضاع    ۷؎ 

Flag Counter