Deobandi Books

ماہنامہ الحق اگست 2014ء

امعہ دا

22 - 64
 اسلام قبول کیا تھا اوروہ بھی قسم قسم کی تکالیف اور کفا رکے مظالم کا شکار تھے۔ رب کائنات نے ان کو مساکین وغرباء کی مدد کا حکم مختلف انداز میں دیا۔ چنانچہ کبھی ’’اطعام مساکین‘‘ کے الفاظ سے مخاطب فرمایا اور کبھی ’’سائل محروم‘‘ کا حق ادا کرنے پر زور فرمایا تو کبھی ’’ایتا ء الزکوۃ ‘‘یعنی زکوٰۃ دینے کا عنوان اختیارفرمایا۔
مالداروں کی دولت میں فقراء کا حصہ :
	آج پوری دنیا میں کبھی سوشلزم کی بات ہوتی ہے اورکبھی کمیونزم کی۔ جس میں غریبوں کی فلاح کیلئے مدد کا نعرہ لگا کر غریب کو مالدار کے خلاف اُکسایا جاتا ہے اور جنگ کا سماں پیدا کیا جاتا ہے‘ یہ جنگ کبھی نہ ہوتی اور نہ ہوگی اگر اسلام کے اس اہم ترین رکن کی ادائیگی صحیح طریقے سے ہوکیونکہ اگر کسی بھی ملک کی دولت کا چالیسواںحصہ جب ضرورت مندوں‘ غریبوں میں تقسیم ہوگا اور یہ عمل ایک تسلسل سے جاری رہے گا تو ملک میں کوئی بھی حاجت مند اور غریب ایسی حالت میں نہ ہوگا کہ اس کی حاجت پوری نہ ہوسکے۔بہرحال مالداروں اور دولت مندوں کے مال میں غریب حاجت مندلوگوں کا ایک متعین حصہ ہے اگر کوئی مالدار زکوٰۃ ادا نہیں کرتا تووہ گویا غریب و مسکین کے حق پر زبردستی قابض ہے کیونکہ ارشاد نبوی ا ہے :	
	ماخالطت الزکوٰۃ مالا قط الاھلک (مشکوۃ)
	’’یعنی زکوٰۃ کا مال جس مال میں شامل ہوگا اس کو ہلاک کرکے چھوڑے گا ۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ اگر اپنے مال سے زکوٰۃ نہیں نکالے گا تو چونکہ وہ غریب کے حصہ کو اپنے مال میں شامل کررہا ہے۔ اس لئے فرمایا: کہ زکوٰۃ کا مال اپنے مال میں شامل کرنے والا ہلاکت کے اسباب پیدا کررہا ہے۔
مال کا میل کچیل:
	محترم دوستو! اسی طرح ایک دوسری حدیث مقدسہ میں زکوٰۃ کے مال کو میل کچیل قرار دیا گیا ہے چنانچہ ارشاد نبوی ہے :   ان ھذہ الصدقات انما ھی او ساخ الناس (مشکوۃ)
		’’بے شک یہ زکوٰۃ کا مال لوگوں کے (مال) کے میل کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
چنانچہ اسی میل اور گندسے اپنے مالوں کو صاف کرتے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے 
	خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا 
	’’(اے محمدا ) ان کے مالوں میں سے زکوٰۃ لے کر ان کے مالوں کوپاک کردیجئے۔‘‘

Flag Counter