مولانا سمیع الحق: اصل مسئلہ دونوں فریقوں کا نہیں ’’تیسرے فریق‘‘ کا ہے، تیسرا فریق نہیں چاہتا کہ یہاں امن ہو۔ آپ کو یاد ہوگا: یہاں 11 مرتبہ امن معاہدے ہوئے لیکن ہر معاہدہ تڑوادیا گیا۔ سابق گورنر خیبر پختونخوا علی جان اور کزئی نے امن معاہدہ کرایا تو انہیں واشنگٹن بلاکر ان کی سرزنش کی گئی۔ اس وقت بھی امریکا ہی امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ جاتے جاتے یہاں آگ لگادینا چاہتا ہے، اب یہ ہمارے حکمرانوں کے سوچنے کا سوال ہے کہ وہ اس آگ پر تیل ڈالنا چاہتے ہیں یا پانی۔
روزنامہ اسلام: ایک بات یہ بھی کی جاتی ہے کہ ہمیں امریکا اور خارجی قوتوں پر ذمہ داریاں ڈالنے کی بجائے اپنا گھر ٹھیک کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
مولانا سمیع الحق: ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنے سے پہلے اس کی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے، یہاں ملک کو توڑنے، تقسیم کرنے اور کچھ علاقوں کو الگ کرنے کی باتیں ہورہی ہیں اور طرح طرح کے فتنے اٹھ رہے ہیں… ان سب فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک میں امن کا قیام ضروری ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں کو گھر ٹھیک کرنے کی فکر ہے تو انہیں امریکا سے یہ التجاء کرنی چاہیے کہ ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنے دیں، ہماری سرزمین پر زمینی و فضائی حملے روک دیں۔ میں سمجھتا ہوں اگر ہماری حکومت اور فوج سنجیدہ ہو تو یہ ناممکن نہیں ہے۔ ادھر تو حال یہ ہے ہم اپنی سلامتی پر ہونے والے حملوں پر بات کرنے سے بھی ہچکچارہے ہیں۔
روزنامہ اسلام: بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں غیر ملکیوں کی موجودگی ڈرون حملوں کی بڑی وجہ ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہیں تو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غیر ملکیوں کی غیر قانونی موجودگی بھی اسی زمرے میں آتی ہے، اس پر آپ کیا کہیں گے؟
مولانا سمیع الحق: دیکھیں نائن الیون سے پہلے غیر ملکی مجاہدین قبائلی علاقوں میں پر امن زندگی گزاررہے تھے، انہوں نے کسی پر حملہ نہیں کیا نہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے، انہیں وہاں جاکر للکارا گیا، معاہدوں کی خلاف ورزی کرکے انہیں مارا اور پکڑا جاتا رہا، اگر انہیں مجبور نہ کیا جاتا تو وہ یقینا پر امن رہتے یا پھر جہاد کے لیے ان علاقوں میں چلے جاتے جہاں سامراج کے خلاف جہاد ہورہا ہے، ہم نے خود انہیں اپنا دشمن بنالیا۔
روزنامہ اسلام: مولانا! کیا آپ کو یقین ہے کہ خطے سے امریکا کے نکلنے کے بعد یہاں امن قائم ہوگا اور طالبان ہتھیار پھینک دیں گے؟
مولانا سمیع الحق: مجھے امید ہے کہ اگر ہم امریکی جنگ سے نکلے تو طالبان کی کارروائیاں رک جائیں گی، ہمیں اس کے لیے ان کے جائز مطالبات تسلیم کرنے ہوں گے۔ قیدیوں کی رہائی، نقصانات کی تلافی اور دیگر معاملات