روزنامہ اسلام: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی کوششوں سے یہ خونی سلسلہ رک سکتا ہے؟
مولانا سمیع الحق: دیکھیں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ طالبان یکطرفہ طور پر محض مولانا سمیع الحق کے کہنے پر ہتھیار پھینک دیں گے تو یہ غلط فہمی ہوگی۔ میں قوم کو کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا۔ اصل مسئلہ، بات چیت میں حکومت کی سنجیدگی کا ہے۔ جب بات آگے بڑھے گی تو طالبان کی طرف سے مطالبات سامنے آئیں گے۔ ان کے جائز مطالبات ماننے ہوں گے، ان کے نقصانات کی تلافی کرنا ہوگی اور ان کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔
روزنامہ اسلام: کیا طالبان مذاکرات میں سنجیدہ ہیں؟
مولانا سمیع الحق: بالکل وہ سنجیدہ ہیں۔ وہ سنجیدہ، مستحکم، پائیدار اور نتیجہ خیز مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ وہ مجھ پر اعتماد کرتے ہیں اور مجھے ان کی جانب سے سنجیدگی نظر آتی ہے۔
روزنامہ اسلام: مگر کہا یہ جاتا ہے کہ طالبان کے بہت سارے گروپ ہیں؟ ان سے مذاکرات کیسے ہوںگے؟
مولانا سمیع الحق: طالبان کے مقامی سطح پر کئی گروپ ہوسکتے ہیں، لیکن ان کی ایک مرکزی مجلس شوریٰ ہے جس کے فیصلوں کے سبھی گروپ پابند ہیں۔ اگر شوریٰ سے بات چیت طے ہوجائے تو مقامی سطح پر گروپ اس کی مخالفت نہیں کریں گے۔
روزنامہ اسلام: ایک سوال یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ طالبان پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے، جب کہ حکومت آئین کے اندر رہ کر بات کرنے کی پابند ہے، اب یہ مسئلہ کیسے حل ہوگا؟
مولانا سمیع الحق: میرے خیال میں طالبان پاکستان کے آئین کو سب سے زیادہ مانتے ہیں، ان کا یہی تو مطالبہ ہے کہ ملک کے آئین کے مطابق یہاں قرآن و سنت پر مبنی نظام قائم کیا جائے، وہ کہتے ہیں کہ یہاں 66 سالوں سے آئین سے انحراف کیا جارہا ہے۔ دیکھیں اگر آپ کا آئین اور جمہوریت اسلام کے محافظ بننے کی بجائے اس کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے تو اس سے مسئلہ تو ہوگا۔ آپ آئین پر عمل کریں تو کسی کو یہاں نفاذ شریعت کے لیے بندوق اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔
روزنامہ اسلام: ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ حکومت نے جب مذاکرات کا فیصلہ کیا تو طالبان نے پاک فوج کے میجر جنرل کو شہید کردیا، کیا طالبان کو جنگ بندی کرکے مذاکرات کا موقع نہیں دینا چاہیے تھا؟
مولانا سمیع الحق: جنگ بندی دونوں جانب سے ضروری ہے۔ اس وقت دونوں فریق اپنے آپ کو حالت جنگ میں سمجھتے ہیں اور حالت جنگ میں دونوں جانب سے کارروائیاں بھی ہوتی ہیں اور الزامات بھی لگائے جاتے ہیں۔
روزنامہ اسلام: اس کا مطلب ہے دونوں فریق ابھی جنگ بندی پر راضی نہیں ہیں؟