طے ہوجائیں تو طالبان کے پاس حملے جاری رکھنے کا جواز نہیں رہے گا۔
روزنامہ اسلام: آپ کی نظر میں حکومت کو فوری لائحہ عمل کے طور پر کیا کرنا چاہیے؟
مولانا سمیع الحق: میرے خیال میں حکومت کو پہلے ایک دفعہ یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کہ ہم ایک آزاد و خود مختار قوم ہیں، امریکی غلام نہیں۔ اس کے بعد پارلیمنٹ سے ایک واضح اور دو ٹوک قرار داد منظور کی جائے کہ ہم اب امریکی جنگ سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی اس مقصد کے لیے نظر آنے والے عملی اقدامات بھی کیے جائیں۔
روزنامہ اسلام: کیا پاکستان اس پر امریکی رد عمل کا سامنا کرسکتا ہے؟
مولانا سمیع الحق: بالکل کرسکتا ہے۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر پاکستان تین ڈرون گرادے تو چوتھے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ امریکا خطے میں شکست سے دوچار ہوچکا ہے۔ اس میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کرسکے۔ امریکا خود افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔
روزنامہ اسلام: کیا افغان طالبان کو پاکستان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں شریک کیا جاسکتا ہے؟
مولانا سمیع الحق: اگر بات آگے چل پڑے تو افغان طالبان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات آپ کو معلوم ہی ہے کہ افغان طالبان پاکستان کے اندر کارروائیوں کی حمایت نہیں کرتے۔وہ پاکستان کے خیر خواہ ہیں۔
روزنامہ اسلام: کیا وزیراعظم سے آپ کی ملاقات کے بعد سے اب تک مذاکرات کے سلسلے میں کوئی پیش رفت ہوسکی ہے؟ دونوں جانب سے کوئی رابطہ ہوا ہے؟
مولانا سمیع الحق: مذاکرات کے لیے حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ اب تک حکومت کی جانب سے پھر کوئی رابطہ ہی نہیں کیا گیا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت خود اس معاملے میں یکسو نہیں ہے۔ بعض وزراء اس سلسلے میں منفی کردار ادا کررہے ہیں، کچھ اور عناصر بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں لگے ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں پہلے حکومت کو اس معاملے میں یکسوئی اختیار کرنی ہوگی۔
روزنامہ اسلام: لیکن خود دینی قوتیں بھی اس معاملے میں یکسو نظر نہیں آتیں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ آپ اور مولانا فضل الرحمن اور دیگر دینی رہنما بھی پہلے ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں؟
مولانا سمیع الحق: دیکھیں مولانا فضل الرحمن سمیت جو بھی دینی رہنما اور علماء مذاکرات کے سلسلے میں کام کررہے ہیں، ان کی کوششیں قابل قدر ہیں۔ میرے خیال میں مذاکرات کے الجھے ہوئے سلسلے کی ڈور کا سرا اگر ہاتھ آجائے تو تمام دینی سیاسی قوتوں کو اکٹھا کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم سب کو ساتھ لے کر چلیں گے، اور سب کو اعتماد میں لیں گے۔ یہ سیاست کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک و قوم کی بقاء کا معاملہ ہے، اس کے لیے تمام حلقوں کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔