ترتیب و تدوین : پروفیسر محمد سرور شفقت
علامہ اقبال اور عشق رسول ﷺ
فلسفہ کی گہرائی اور خداشناسی:
علامہ اقبالؒ کا مدار فکر اور معیار تمدن ہمیشہ اسوہ حسنہ رہا۔ ان کا کاسہ سر علم سے پُر رہا اور کاسہ دل عشق سے معمور رہا، علم وہ نہیں جو سوز دماغ ہے بلکہ وہ جوسوز جگر ہے اور عشق وہ نہیں جو بوالہوسوں کا شعار ہے بلکہ جو یزداں شکار ہے۔ علم سے انہوں نے راستہ معلوم کیا اور عشق سے منزل کو پایا۔ بیکن نے سچ کہا ہے کہ فلسفے کا تھوڑا علم انسان کو خدا سے بیزار اور گہرا علم خدا کا پرستار بنا دیتا ہے اور اقبالؒ بلا شبہ فلسفے کے گہرے عالم تھے وہ اتنی گہرائی میں اتر کر عشق رسول کے موتی چن کر باہر لائے اور انہیں اپنے دامن میں سجا کر پوری دنیا کو دعوت نظارہ دی اور بڑی بلند آہنگی اور خود اعتمادی سے کہا ۔ اے منطق و کلام کے متوالو! اس کلام کو پڑھو جو اُمی نبی ﷺ پر اُترا ہے۔ شاید تمہارا کام بن جائے۔ اے افلاطون اور ارسطو کے شیدائیو! ان کی بارگاہ میں پہنچ کر کچھ سیکھو جن کے ہاتھوں نے تختی کو چھوا اور نہ ان کی انگلیوں نے کبھی قلم پکڑا۔ لیکن لوح و قلم کے سارے رازان پر منکشف ہو گئے۔
(روزنامہ نوائے وقت 21اپریل 1994ء علامہ اقبال.....جن کا سرمایہ ہستی تھی فقط عشق رسول ﷺ صاحبزادہ خورشید گیلانی)
والدین کی تربیت:
اقبال کو عشق رسول ﷺ اپنے والد سے ورثہ ملا تھا شیخ نور محمد نے جب بھی اقبال کو کچھ سمجھانا ہوتا یا تنبیہ کرنا ہوتی تو وہ قرآن پاک کے حوالے سے یا حضورﷺکی سیرت یا تعلیمات کے حوالے سے کرتے۔ علامہ محمد اقبال کے والد محترم شیخ نور محمد رحمۃ اللہ علیہ کے عشق مصطفی کی کیفیت کا ایک واقعہ علامہ اقبال کے حوالے سے فقیر سید وحید الدین نے یوں تحریر کیا ہے۔
’’مثنوی رموزبے خودی میں علامہ نے اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک سائل بھیک مانگتا اور صدا لگاتا ہوا ان کے دروازے پر آیا یہ گدائے مبرم یعنی اڑیل فقیر تھا۔ دروازے سے ٹکنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ اس کے بار بار چیخ چیخ کر صدا لگانے پر علامہ اقبال نے طیش میں آکر اسے مارا۔ علامہ کے والد اس حرکت پر بہت آزردہ اور کبیدہ خاطر ہوئے۔ اور دل گرفتہ ہو کر بیٹے سے کہا کہ قیامت کے دن جب خیر الرسل کی امت سرکار کے حضور جمع ہو گی تو یہ گدائے درد مند تمہارے اس برتاؤ کے خلاف حضور رسالت مآب ﷺسے فریاد کرے گا‘‘۔