Deobandi Books

ماہنامہ الحق نومبر 2013ء

امعہ دا

20 - 65
 کی امید رکھنا اپنے آپ کو دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں۔
وزنِ اعمال :
محترم دوستو!  اب اگراس شخص کے یہ نیک اعمال اس درجہ کے ہوں جنہیں عنداللہ مقبولیت کا درجہ حاصل ہو پھر تو اعمال کے وزن کے بعد پتہ چلے گا کہ کون سا عمل میزان میں بھاری ہے۔نیکی یا بدی۔ لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اس شخص کے اعمال حسنہ عنداللہ مقبول ہوں‘ اچھی اور پائیدار بات پھر یہ ہے کہ تمام بری باتوں سے پرہیز کیا جائے اور نیک کاموں پر مدامت کرکے پُرامید رہے اللہ تعالیٰ قبول کرنے والا ہے۔ اور اس عقیدہ پر قائم رہے کہ ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین ’’اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے ثواب کو ضائع نہیں کرتے ‘‘
آیت مذکورہ کا شان ِنزول:
بہرحال رب العالمین نے مذکور الصدر آیات میں ایمان والوں کواس بات سے منع فرمایا کہ وہ ایک دوسرے کو بُرے لقب یا خراب نام سے نہ پکاریں۔ اس جملے کا پس منظر مفسرین نے لکھا ہے کہ آنحضرت ا کے صحابی حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے قوت سماع میں کچھ کمزوری تھی کسی بات کو سننا ذرا مشکل ہوتا۔جب مذکورہ صحابی آنحضرت ا کی مجلس میں آتے تو لوگ آپ کو حضور ا کے قریب جگہ دیتے تاکہ حضورا سے فرمودات سن سکیں ، ایک دفعہ آپ فجر کی نماز میں اس وقت آئے جب ایک رکعت فوت ہوچکی تھی۔ رحمت دوعالم ا نے نماز ختم کی تو صحابہ کرامؓ جگہ کی تنگی کی وجہ سے اپنی اپنی جگہ پر جم کر بیٹھ گئے۔مجلس اتنی تنگ تھی کہ کوئی خود سمٹ کر دوسرے کے لئے گنجائش نہیں نکال سکتاتھا۔ نئے آنے والے کو جب بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی تو وہ کھڑا ہی رہتا۔ حضرت ثابت بن قیس ؓ جب نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو لوگوں کے سروں اور گردنوں کو پھلانگتے حضور اکرم ا کی طرف بڑھے۔ اور لوگوں سے فرمایا جگہ دو ‘ جگہ میں وسعت اور گنجائش پیداکرو۔ لوگوں نے آپ کو دیکھ کر جگہ اور گنجائش دینے لگے اسی طرح آپؐ ان کے قریب پہونچ گئے۔آپ اور آنحضرت ا کے درمیان ایک آدمی رہ گیا، حضرت ثابت بن قیس نے اس سے بھی فرمایا مجھے جگہ دو اس شخص نے کہا آپ کو جگہ تو مل گئی یہیں بیٹھ جائیں۔ حضرت ثابت اس آدمی کے عقب میں غصہ کی حالت میں بیٹھ گئے۔یہ بات اس کو بہت بری لگی جب تاریکی چھٹ کر روشنی ہوئی تو حضرت ثابت نے اس شخص کو دبایا اور پوچھا یہ کون شخص ہے‘ اس نے نام بتایا تو ثابت نے فرمایا یہ ’’فلاں عورت کا بیٹا ہے‘‘ اور اس شخص کے مادری عیوب بیان کردئیے۔ جو جاہلیت کے زمانہ میں طنزیہ طورپر کہے جاتے تھے‘ اس شخص نے شرمندہ ہوکر سرجھکالیا تو یہ آیت نازل ہوئی اوران ہی آیات میں اس بات سے بھی منع کردیا کہ ایک دوسرے کو بُرے اور غلط نام سے پکارا جائے۔ 
بُرے القاب سے ممانعت :
لہٰذا فرمایا  ولا تنابزوا بالالقاب منابز اور نبذ کے معنی لقب کے ہیں ۔ایک دوسرے کو عار دلانا اور برے لقب سے ایک دوسرے کوپکارنا ‘مثلاً اے فاسق‘ اے کافر‘ اے منافق وغیرہ یا ایسا لقب دینا جس سے عار دلانا مقصود ہو ‘شرمندگی 
Flag Counter