Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

7 - 65
کے امیر عثمان بن احمد بن عمر بہت اچھے اعزاز سے پیش آئے اوراپنی صاحبزادی جوہرہ سے شادی بھی کروا دی' شیخ نے عثمان کی طرف اس اسلامی تحریک کی دعوت دی' انہوں نے منظور کرلی اور ساتھ ہوئے ' رفتہ رفتہ کافی جماعت پیدا ہوئی جبیلہ مقام پر ایک قبہ بنام زید بن الخطاب تھا جوکہ حضرت عمر کے بھائی تھے اور غزوہ یمامہ میں شہید ہوئے تھے جوکہ رفتہ رفتہ ایک بت خانہ کی صورت میں بدل چکا تھا۔آپ نے عثمان کو اس کے ڈھانے کا کہا اور فوج مانگی کہ شاید اہل جبیلہ مزاحم ہوں آپ خود گئے قریب تھا کہ لڑائی ہوتی مگر وہ سمجھ گئے اور لڑائی چھوڑ دی آپ نے خود کھدال لے کر اسے ڈھا دیا بہت سے بدعتی قبر پرست اس رات شیخ پر کسی آفت آنے کے منتظر رہے لیکن آپ نہایت سالم رہے ایک عورت نے زنا کا اقرار کیا ' آپ نے اسے رجم کردیا۔ ان باتوں سے آپ کی شہرت بڑھتی گئی اوران کا رعب چھا گیا'یہ خبریں جب والی احساء سلیمان بن محمد کوپہنچیں تواس نے عثمان کو تہدید آمیز خط لکھا اور شیخ  کو قتل کرنے کا کہا اور کہاکہ بصورت دیگر ہم سالانہ امدادبندکردیں گے اور لڑائی کریں گے' عثمان کے حواس اُڑ گئے اور شیخ کو چلے جانے کاکہا' آپ نے درعیہ مقام کو جانا چاہا' عثمان نے ان کی قتل کی سازش کی مگر قاتل کے ہاتھ شل ہوئے اور آپ بچ گئے آپ وہاں سے آگے نکل کر محمد بن سویلم عرینی کے ہاں ٹہرے وہ واقعات سن کر خوفزدہ ہوا اور کہا کہ ابن سعود کہیں مجھ پر ایسا آفت نہ لائے' لیکن آپ نے نصیحت کی اور اس نے صبر کیا رفتہ رفتہ ابن سعود نے آپ کی حمایت پر کمر ہمت باندھی (قصہ طویل ہے) اور بیعت ہوئے تب آپ نے درعیہ میں آکر قیام کیا رفتہ رفتہ لوگوں نے درعیہ ہجرت شروع کی اس طرح بہت بڑی جماعت آل معمر وغیرہ کی جمع ہوئی۔ عثمان بھی ڈر سے آئے اور معافی مانگی اور جانے کا کہا لیکن آپ نے جانے سے انکار کردیا۔آخر آپ نے اپنی ساری عمر دعوت تبلیغ وجہاد توحید وسنت میں صرف کی اور بدعات منکرات خرافات کا قلع قمع کرڈالا اور بانوے برس کی عمر میں آخر ذوالقعدہ ١٢٠٦ھ میں وفات پائی۔ آپ بنی تمیم کے خاندان سے تھے' بااخلاق مہمان نواز' مستقل مزاج تھے 'زاہد عابد متورع طالب اورسائل پر مہربان اور اس طرح  بارعب شخص تھے۔ آپ کے حالات میں علامہ حسین بن غنام احسائی نے ایک مبسوط تالیف روض الفھام فی شرح احوال الامام لکھی ہے، دو جلد میں پہلی جلد میں ان کے قلمی وعلمی کارنامے اوردوسرے میں سیفی اس کا ایک حصہ بمبئی سے شائع ہوا ہے۔  شیخ اکثر یہ ابیات پڑھا کرتے تھے۔
بای لسان اشکراواللہ انہ  	لذونعمة قد اعجزت کل شاکر
حبانی باالاسلام فضلاً ونعمةً 	علی وباالقران نور البصائر
وباالنعمة العظمیٰ اعتقاد ابن حنبل 	علیھا اعتقادی یوم کشف السرائر
آپ نے بے حساب رسائل فتاؤوں اور جوابات کے علاوہ حسب ذیل تالیفات کیں۔
کتاب التوحید' کشف الشبہات' قرآن کے بعض حصوں کے فوائد۔کتاب الکبائر' مسائل الجاھلیة ' فوائد السیرة النبویة' اختصار وشرح الکبیر والا نصاف' شرح اقناع من آداب المشی الی الصلوة کو منتخب کیا 
Flag Counter